آل سعود کے شہزادوں کی لڑائی: ساجھے کی ہنڈیا میں چھید ۔ پروفیسر رشید المضاوی

 

نوٹ: روزنامہ الاخبار بیروت نے 11 نومبر کو سعودی عرب کے حالیہ اقدامات پہ ایک خصوصی گوشہ ‘ابن سلمان کا پاگل پن: نظربندی اور لبنان کی تباہی کی پرانی سعودی روایت’ کے عنوان سے شایع کیا ہے۔اس گوشے میں ایک مضمون بیروت کے معروف صحافی مضاوی الرشید کا ‘آل سعود کے شہزادوں کی لڑائی: ساجھے کی ہنڈیا میں چھید’ کے عنوان سے چھپا ہے۔ عربی عنوان : معرکۃ امراء آل سعود: فخار یکسر بعضہ ہے۔

ایک صحافی نے مجھ سے سعودی شہزادے محمد بن سلمان کی جانب سے تھوک کے حساب سے گرفتاریوں کی مہم کے سعودی حکومت پہ اثرات بارے پوچھا تھا۔صحافی کو ظاہر ہے سعودی رجیم کے اندرونی حالات بارے آگاہی نہ تھی۔میرا جواب تھا: سیاسی اعتبار سے سعودی سماج کے متنوع گروہ اس نظام سے جڑے ہوئے ہیں۔اور اس نظام میں مختلف دھڑے ہیں، سب سے پہلی ایک اقلیت ہےجو کہ اس رجیم سے فائدہ اٹھارہی ہے۔یہ رجیم وہ ہے جو اپنی پالیسی کو خدائی دانش و حکمت کے طور پہ پیش کرتا ہے۔اور اسے ملک اور عوام پہ مسلط کردیتا ہے۔ہم اسی اقلیت کو پریس فیصلہ سازی کے مرکز، مذہبی اور سماجی اداروں کی غلام گردشوں، فوج، انٹیلی جنس اور سویلین سیکٹرز میں دیکھتے ہیں۔

یہ اقلیت مختلف علاقوں سے تعلق رکھتی ہے اور مختلف قبائل میں تقسیم ہے۔یہ اقلیتی ٹولہ اپنے اس بنیادی اور نامیاتی رشتے کے سبب حکومت کا وفادار رہتا ہے اور اسی سے اس کی قسمت جڑی ہوئی ہے کیونکہ یہ ٹولہ جانتا ہے کہ حکومت کی غلام گردشوں میں اگر کوئی بھی بھونچال آیا تو اس کا سب سے پہلا متاثرہ فریق یہی اقلیتی ٹولہ ہوگا۔اسی ٹولے نے شہزادوں اور دوسرے حکام کی گرفتاریوں کی خبر کو پکڑا اور اس خبر کو بنیاد بناکر کہا کہ یہ اقدام سعودی عرب میں پھیلی بڑے پیمانے کی کرپشن کو ختم کرے گا جس نے شہریوں کو مبتلائے مصیبت کیا،تعمیراتی کاموں کے دوران اموات اور حج کے دوران مسجد الحرام کے اندر ہونے والی اموات کو جنم دیا، ایسے ہی یہی کرپشن صحت، تعلیم اور انفرا سٹرکچر ڈویلپمنٹ میں پھیلی کرپشن کے خاتمے میں معاون ہوگی۔لیکن یہ ٹولہ سعودی شہزادوں کی ذاتی طور پہ تیل کی فروخت کے ایک بڑے حصّے کو بطور عطیہ دینے اور اور ان زمینوں سے چوری کا ذکر نہیں کرتا جو کہ ان شہزادوں کو بطور تحفہ دی گئیں۔

سعودی سماج کا دوسرا حصّہ ایک خاموش گروہ ہے جوکہ شہزادوں کو بچانا چاہتا ہے اور ان کی اندرونی لڑائی کو ختم کرنا چاہتا ہے۔جوکہ بہرحال اول و آحر اس سماج کی اپنی لڑائی نہیں ہے اور وہ محمد بن سلام کے اقدامات کو ایک اندرونی کھیل کے سوا کچھ نہیں سمجھتا۔اس گروپ کا مقصد سیاسی حماقتوں کے اس دور میں اپنے آپ کو بچاکر رکھنا ہے جس کا آغاز محمد بن سلام نے ملک کے اندر دفاع،خارجہ تعلقات، معشیت ، انٹیلی سے لیکر آخر میں اب کرپشن کے خلاف لڑائی تک سے کیا ہے۔

اس بڑے کمیونٹی گروپ کی خاموشی حال ہی میں بڑھ گئی ہے اور اس کی وجہ دانشوروں اور ایکٹوسٹ پہ گزشتہ چند مہینوں سے ہونے والا جبر اور بڑے پیمانے پہ لوگوں کی گرفتاریاں ہیں جو کل معاشی پالیسی پہ یا علاقائی بحرانوں پہ تنقید کررہے تھے جن میں سعودی حکومت سب سے بڑی کھلاڑی ہے ۔ان بحرانوں میں قطر کا بحران، یمن کی جنگ اور لبنان کا خودساختہ پیدا کردہ بحران ہے۔
سعودی عرب میں خاموشی ممنوع ہے،سماج کے تمام حصوں کو جن کو موثر لیڈر ہونا ہوتا ہے یہ ضروری ہے کہ وہ کسی اگر مگر کے رجیم کی سبھی پالیسیوں کی تعریف کریں اور ان کو فروغ دینے میں اپنا کردار ادا کرں۔

موخرالذکر گورہ مخالفوں کا وہ ٹولہ ہے جو باہر ہے اس اقلیتی ٹولے سے جو اس رجیم سے سب سے زیادہ فائدے بٹور رہا ہے۔اور یہ اپوزیشن محمد بن سلمان کی انسداد دہشت گردی، انسداد انتہا پسندی اور امن و اعتدال کے پروپیگنڈے کو ستائش سے دیکھتی ہے۔یہ اپوزیشن اس کو نہ تو طنز سے دیکھ رہی ہے اور نہ ہی اس سے بالکل بے گانی ہے کیونکہ یہ تکثریت کا اظہار ڈسکورس اور آئیڈیالوجی میں کرتی ہے اور اس ميں وہ لوگ بھک شامل ہیں جو انسانی حقوق، شہری حقوق اور سیاسی حقوق بارے فکر مند ہوتے ہیں۔ان میں سے کچھ ہین جن کو مذہبی انتہا پسند پہ اعتراض ہے،اور ان میں سے کچھ داعش کی اسٹبلشمنٹ سے جوش پکڑتے ہیں جو ان کے نزدیک محمد بن عبدالوہاب کے ورثے کے قریب ہے،جو اسے پہلا اور آخری اسلامی مفکر خیال کرتے ہیں۔

ان میں سے کچھ کا دعوی ہے کہ قومی حقوق وہ ہیں جو سسٹم کو ریفارم کرنے والوں کی خواہشات سے آگے کی چیز ہیں۔ان کا یقین ہے کہ مفاہمت مطلق العنان بادشاہت کے ہوتے ہوئے اور اس کی موجودہ شکل میں یا اس وقت بھی جب بادشاہ عبداللہ نے سائنسی مشین کے ساتھ انسانیت کے لئے کام کرنے کی بات کی تھی۔جب کہ جو رجیم کی جو نئی قیادت ہے وہ ہیلنک ہیلا کی طرح پہلے اپنے بچے کھانے کی تیاری کررہی ہے پھر وہ معاشرے کو کھائے گی تاکہ معاشرے میں فیصلہ کرنے کا سبھی اختیار اس کے پاس آجائے۔

سعودی عرب میں عورتوں کی ایک پرت بھی منظرنامے پہ آئی ہے جس کے پاس ماضی سے ہٹ کر کافی طاقت ہے۔اس نے محتلف مطالبات سامنے رکھے ہیں جیسے مختلف شعبوں میں کام کرنے کا حق اور ان کو سماجی اور انسانی اعتبار سے سپورٹ کرنے کا مطالبہ۔لیکن فیمنسٹ تحریک خود بھی تقسیم ہے،اس میں وہ بھی ہیں جو اس رجیم سے جڑے ہیں جو کہ اسی نام نہاد اسلامی نظام کے اندر سے عورتوں کے حقوق چاہتے ہیں جبکہ اس میں ایسے بھی ہیں جو مردوں اور عورتوں کے سیاسی حقوق کو تسلیم کرنے والے سیاسی نظام کی مانگ کرتے ہیں۔

سعودی عرب کے اندر موجود یہ مختلف قسم کے گروپ ایک متحد طاقت کے طور پہ خود کو منوانے میں ابتک ناکام رہے ہیں جوکہ سعودی میدان میں اپنے آپ کو شخصی حکمرانی کے متبادل کے طور پہ سامنے لاسکے کیونکہ عشروں کی تساہل پسندی اور تیل پہ عروج اور حکومتی کی قبائلی، علاقائی، فرقہ وارانہ اور طبقاتی تکثیریت کی بنیاد پہ تقسیم کرنے اور فتح کرنے کی پالیسی اس کے آڑے آتی رہی ہے۔

رجیم کسی بھی ایسی لہر کے خلاف لڑا ہے جوکہ قومی شعور کو بڑھاتی ہو اور جو ایسی کسی بھی تقسیم سے تقسیم نہ ہونے والی ہو۔اگرچہ رجیم حب الوطنی کی بات کرتا ہے جبکہ سچی حب الوطنی تو معاشرتی تقسیم سے اوپر کی چیز ہوتی ہے اور پائیدار قومی بندھن کی ترقی تنگ نظر قبائلی اور فرقہ پرست آئیڈیالوجیز سے اوپر کی ہونے سے ہوتی ہے۔جب تک یہ تقسیم ترقی کرتی رہے گی اس وقت جابرانہ شخصی حکمرانی کا دور بھی چلتا رہے گا۔اور سعودی معاشرہ کبھی بھی جبر اور کمتر بنائے جانے کے خلاف مزاحمت کرنے کے قابل نہیں ہوگا۔

اس طرح کے ماحول میں رجیم سے افراد تو آتے جاتے رہیں گے لیکن کمیونٹی کی جگہ نہیں بنے گی جو سول سوسائٹی سماج کو طاقت دیتی ہے اور ظلم و ستم کے آگے بند باندھتی ہے وہ کبھی نہیں تشکیل پاسکے گی۔اس راہ کا پہلا سنگ میل ہے کہ سعودی معاشروں میں مزدروں، ملازموں، ٹیچرز اور دوسرے معاشی اور فنکشنل سیکٹرز میں کام کرنے والوں کو سانس لینے کا موقعہ میسر آئے۔اور ان کا دباؤ اجتماعی لیبر رائٹس کے لئے راستا کھولے گا۔پرامن اقدامات جیسے ورکرز کی ہڑتال ،دھرنے اور مزاحمت ے دوسرے پرامن طریقے رجیم کو ہلادیں گے۔اب جبکہ مزدروں کا ایسا اجتماع غیر قانونی ہےسوشل ميدیا ایک شراکت کا احساس تو پیدا کرتا ہے اور ایک جھماکا تو کرتا ہے لیکن زمین پہ مطلوبہ اثر نہیں پیدا کرتا۔اس طرح کے اجتماعی اقدام کے بغیر موجودہ جبر ودہشت گے خلاف جوکہ الیکٹرانک اقدام شروع ہوسکتا ہے تنہا جس کے بل بوتے پہ ظلم و ستم کے خلاف کامیاب نہیں ہوگی۔

پوسٹ آئل فیز میں صرف سعودی سماج ہی ترقی کی کامیابی یا اس کی ناکامی متعین کرے گی۔اگر سعودی سماج یہ نہیں کرتا تو پھر اسے پتا چلے گا کہ اس کی دولت پہ شہزادوں اور سرمایہ داروں کا قبضہ ہے اور اسے لوٹیں گے بھی وہی اور جیسے ہی یہاں کوئی عذاب آئے گا تو سب سے پہلے فرار بھی یہی شزادے اور بزنس مین ہوں گے۔اور سماج اس بات پہ اس وقت بھی حیران ہوکر سوچ رہا ہوگا کہ یہ کیسے ہوگیا؟

تحریک کا آغاو اس اعتراف کے ساتھ ہوتا ہے کہ پرامن اجتماعی اقدام آمریت پہ مبنی حکمرانی اور عوام کی دولت کی لوٹ مار کے خلاف اول و آخر پرامن ہوگا۔بدعنوانی کے خلاف کوئی بھی لڑائی اوپر سے شروع کرنا ایک سراب ہے۔لڑائی کو کامیاب کرنے کے لئے ایک بیک گراؤنڈ ہونا ضروری ہے بلکہ سب سے ضروری بات آزاد عدلیہ اور شفافیت ہے۔لیکن اگر لڑائی کا مقصد متحارب شہزادوں میں ایک دوسرے کے خلاف حساب برابر کرنا ہو تو لڑائی شروع ہی میں ہاری جاتی ہے۔اس لئے یہ سعودی عوام کی جنگ نہیں ہے بلکہ یہ ساجھے کی ہانڈی میں چند چھید کے مترادف ہے۔

(ڈاکٹر رشید المضاوی لندن یونیورسٹی میں اکنامک اینڈ پولیٹکل سائنس فیکلٹی میں وزیٹنگ پروفیسر ہیں)

http://www.al-akhbar.com/node/286268

Comments

comments