ٹیلوٹما کے نام کھلا خط

ڈئیر ٹیلوٹما

میں تمہیں یہ خط جنت گیسٹ ہاؤس پرانی دہلی قبرستان کے پتے پہ ارسال کررہا ہوں۔مجھے پتا ہے کہ پرانے دہلی شہر کے تاریخی قبرستان میں نہ تو یہ یہ گیسٹ ہاؤس موجود ہے اور نہ ہی اس گیسٹ ہاؤس کے مکین۔مجھے یہ بھی معلوم ہے کہ سرے سے وہ قبرستان بھی موجود نہیں ہے۔اور تم اور سارا جنت ہاؤس، اس کے کردار ساؤتھ انڈین سانولی سلونی ارون دھتی رائے کے دماغ میں جنم لیکر اب اس کے نئے ناول میں سانس لیتے ہیں۔مگر مجھے تم اپنے آس پاس لگتی ہو اور مجھے بہت شوق ہے تم سے ہم کلام ہونے کا۔نجانے مجھے کیوں لگتا ہے کہ تمہارے اندر ارون نے اس آئیڈیل کو تصویر کردیا ہے جیسی وہ ہونا چاہتی تھی۔وہ اپنی پیدائش سے لیکر موت تک ہر ایک ایک لمحے کی تخلیق نو کررہی تھی جب اس نے تمہارا کردار تخلیق کیا تھا۔مجھے لگتا ہے کہ وہ دہلی کی بس میں سوار نوجوان لڑکا جو کہہ رہا تھا کہ کاش وہ ارون کی بیوی ہوتا تو مجھے قطعی اندازہ نہیں تھا کہ تم سے آشنائی کے بعد میں بھی یہ خواہش کرنے لگوں گا کہ کاش میں تمہاری بیوی ہوتا۔

میں نے کئی راتیں تم سے باتیں کرتے گزاری ہیں اور اسی دوران مجھ پہ یہ انکشاف ہوا کہ میرا وجود اور جوہر حیات تو عورت ہے مگر اسے قالب مرد والا مل گیا ہے اور تمہارے ہاں اس کے الٹ ہے جیسے انجم کا تھا۔اور اب تو مجھے یوں لگتا ہے جیسے ہمارے جتنے کلاسیکلا عاشق تھے مجنوں، رانجھا، پنہل سب کے سب اندر سے عورت ہی تھے اور یہ بلھا، شاہ حسین، سچل سرمست سب کے کی جانیں عورت تھیں اور ان کے قالب مردانے تھے اور یہ اپنے اپنے محبوبوں کی بیویاں بننے کے خواہاں تھے۔مجھے ہیر،سسی،لیلی،موہراں یہ سب کی سب عورتوں کے قالب میں مرد لگتے تھے۔

میں نے یہ خط تمہیں یہ پوچھنے کے لئے لکھا تھا کہ تم نے جنت گیسٹ ہاؤس منتقل ہوتے ہوئے اپنے استاد ڈاکٹر آزاد بھارتی سے یہ پوچھا تھا کہ جس طرح سے پولٹری کے ماہر ڈاکٹر مرغیوں کے اندر مادرانہ شفقت اور بچوں کو پالنے پوسنے والے جینیز کو نکال باہر کرنے کے تجربات کررہے تھے تو تم نے پوچھا تھا کہ کیا ایسا ہوسکتا ہے کہ کشمیر میں جن ماؤں کے بیٹے جبری گمشدہ ہوگئے ہیں کیا ان کے اندر سے بھی یہ مادرانہ شفقت اور پالنے پوسنے کے جینیز نکالے جاسکتے ہیں؟کیا ان کو بھی اس ‘فضول ‘ کام سے نجات دلائی جاسکتی ہے؟ تو ڈاکٹر آزاد بھارتی نے کیا جواب دیا تھا؟ کیونکہ تم نے کہیں اس کے جوابی خط کا تذکرہ نہیں کیا۔

مجھے یہ جاننے میں اس لئے دلچسپی ہے کہ کیونکہ میرے ہاں بھی ایسی مائیں اب سینکڑوں کی تعداد میں ہیں جن کے بیٹے غائب ہوگئے ہیں اور وہ ان کے آنے کی آس میں ہر کام سے فارغ ہوگئی ہیں اور ان کی پیداواری افادیت پہ بہت برا اثر پڑا ہے اور وہ اکثر جب کتبے اٹھائے، بینر لیکر باہر نکلتی ہیں اور اس دوران بین کرتی ہیں تو اس سے حکومتی امور میں خلل پڑتا ہے اور ہماری بہادر افواج کا مورال گرتا ہے۔ہمارے سیاستدانوں کو اپنے انتہائی ضروری امور چھوڑ کر کچھ دیر کے لئے ان کی سننی پڑتی ہے۔

مجھے اس جواب کے جاننے کی اس لئے بھی ضرورت ہے ہمارے ایسی مائیں بھی موجود ہیں جن کے بیٹے، بیٹیاں اپنی شناخت کے سبب موت کے گھاٹ اتارے گئے اور ان کے قاتلوں اور سہولت کاروں کو مین سٹریم کیا جارہا ہے اور یہ مائیں اسی مادرانہ جینیز کے تحت اس منصوبے کے آڑے آرہی ہیں۔ اے پی ایس پشاور کی مائیں ہر دوسرے تیسرے دن پہنچ جاتی ہیں کسی سڑک پہ اور ان کی وجہ سے انسانی حقوق کی تنظیمیں بھی اٹھ کھڑی ہوئی ہیں۔ہمارے انتہائی شفیق حکمران تبدیلی والے، ترقی والے،نیا بنانے والے، پرانے کو ہی ٹھیک کرنے والے امن لانے کے لئے ناراض ‘قوم کے بیٹے ،بیٹیوں’ کو مناکر لانے میں دن رات ایک کررہے ہیں اور یہ مائیں اس میں کھنڈت ڈال دیتی ہیں تو ان کے مادرانہ جینیز اگر نکال دئے جائیں تو بہت جلد امن آجائے گا اور ان ماؤں کو بھی کسی افادیت بخش کام میں لگایا جاسکے گا۔

اس سوال کے پیچھے میری اپنی ایک غرض بھی چھپی ہے۔ڈاکٹر آزاد بھارتی سے پوچھئے گا کہ کہیں ایسا تو نہیں ہے کہ یہ مردانے قالب میں جو عورت موجود ہے یہ بھی کسی جینیز کے سبب ہو اور یہ اسقدر سوچتی کیوں ہے؟ اسقدر حساس کیوں ہے؟میں اپنے اندر کی عورت کو مارنا نہیں چاہتا بس بدلنا چاہتا ہوں۔کیا ایسے جینٹک موڈیفیکشن کے ایسے عمل سے گزارا جاسکتا ہے کہ یہ ہیلری کلنٹن جیسی عورتوں کا احساس لے کر ایک نیا جنم لے لے جو انسانی حقوق کو بھی طاقتوروں کے مفادات سے جوڑ کر دیکھے اور اسے کسی ریاست کو باج گزار بنانے میں ناکامی پہ اسے داعش و القاعدہ کے ہاتھوں تباہ و برباد کرنے میں کوئی ندامت محسوس نہ ہو۔اسے بشار، قذافی، فیدل کاسترو جیسے تو ایک آنکھ نہ بھائیں لیکن وہ ابن سعود،ضیاء الحق،پنوشے، سہارتو جیسوں کی پوجا کرے۔اور داعش کی مادر اول بننے پہ اسے کوئی اعتراض نہ ہو۔

میں چاہتا ہوں اگر ممکن ہو میری ایسی جینٹکل موڈیفیکشن ہو کہ میں برما کے مسلمانوں کے مرنے پہ تڑپ جآؤں، فلسطینوں کا خون مجھے رلائے اور اپنے ملک کے بلوچ،شیعہ ، احمدی ، ہندؤ، کرسچن ان کے مرنے پہ میرے اندر کوئی ارتعاش پیدا نہ ہو۔اور میرے اندر کی عورت بس کشمیر، کشمیری کرتی رہے۔

ٹیلوٹما پیاری!
میں نے یہ خط لکھتے ہوئے ایک لمحے بھی یہ نہیں سوچا تھا کہ تم میرے احساسات کو پڑھ کر میری ذہنی حالت پہ شک کروگی اور نہ ہی مجھے یہ خطرہ لاحق ہوا کہ تم مجھے بائی پولر ڈس آڈر کا شکار سمجھوگی جس کے دماغ میں اپنی شخصیت کے بارے میں یہ وہم بیٹھ گیا ہو کہ وہ کوئی دو ہیں۔جبکہ تم تو اچھی طرح جانتی ہوں کہ ‘دو ہونا’ واقعہ ہے وہم نہیں ہے۔اور میں بھی تمہاری ماں کی طرح لگتا ہے جلد ہی پھیپھڑوں کی اس تباہی کی نذر ہوجاؤں گا جو پورے وجود کی بیماری کو سائیکوسس میں بدل دیتا ہے۔اور اس کے بعد اپنے آپ پہ قابو رکھنا ممکن نہیں رہتا۔

لیکن پلیز! ذرا جلدی سے بتانا کہ جبری گمشدگی کا شکار ماؤں اور نسل کشی کا نشانہ بن جانے والے مقتولوں کی ماؤں کے اندر سے مادرانہ شفقت کے جینیز کیسے نکالے جائیں؟ کہاں پہ یہ جینیاتی موڈیفیکشن ممکن ہوپائے گی۔

میں تمہیں ڈاکٹر حیدر علی کی بیوہ اور اس کے او لیول کے طالب علم بیٹے مرتضی حیدر کی والدہ کا لکھا خط بھی بھیج رہا ہوں۔کیونکہ جو مسئلہ مجھے درپیش ہے یہ اس کی ایک اور جہت کی جانب بھی اشارہ کرتا ہے۔یہاں سینکڑوں مائیں ایسی ہیں جو یہ محسوس کرتی ہیں بلکہ اسے حقیقت سمجھتی ہیں کہ وہ اس دن ہی مرگئیں تھیں جب ان کے معصوم بچوں کو ان کی شناخت کے سبب مارڈالا گیا تھا۔اب وہ خود کو زندہ نہیں سمجھتیں۔وہ خود کو مرا ہوا محسوس کرتی ہیں۔

اب دیکھونا یہ پاگل پن ہی تو ہے، کہ یہ مائیں زندہ ہوتے ہوئے خود کو مرا محسوس کررہی ہیں اور عضومعطل ہیں ہمارے معاشرے میں۔یہ افسردگی، اداسی ، تنہائی اور ایک قسم کا جنون پیدا کررہی ہیں۔ہمارے سماج کی صحت ذہنی کو ان کے اس احساس سے سخت خطرات لاحق ہوگئے ہیں۔ہمارا عالمی سطح پہ امیج خطرے میں ہے۔ہماری قومی سلامتی اور قومی مفاد کو شدید خطرات لاحق ہیں۔کیا ان کے یہ احساسات بھی کسی مخصوص جینیز کی پیدائش یا کسی مخصوص جنیاتی ڈس آڈر کے سبب پیدا ہوئے ہیں؟ تو کیا ان کی موڈیفیکشن ہوسکتی ہے؟ یا پھر ان کو ‘خطرناک پاگل ‘ قرار دیکر فونٹین ، گدو بھیج دیا جائے؟

ویسے میری تجویز ہے کہ ہمارے ملک میں بھی ‘گری پڑی روحیں ‘ اب بہت زیادہ ہوگئی ہیں۔اور جسے تم

Unconsoled

کہتی ہو بہت ہوگئی ہیں اور ان کی ہمارے سماج کی ‘دنیا’ میں جگہ نہیں رہی۔یہ روحیں جب مرتی ہیں تو ان کا جنازہ پڑھانے والا بھی نہیں ملتا اور نہ ان کو دفن کرنے والا۔تو جنت گیسٹ ہاؤس و میت سروسز کی ایک برانچ یہاں بھی کھولنے کا انجم اور صدام حسین کو کہو۔پہلے سلمان تاثیر کے لئے ہمیں بہت مشکل پیش آئی تھی،اس کے بعد مشعال کی باری میں بھی یہی ہوا۔مجھے نجانے کیوں وہم ہوگیا ہے کہ میری باری میں بھی کہیں ایسا نہ ہوجائے۔تو میں اپنے مرنے سے پہلے چاہتا ہوں کہ

Falling Souls

کے لئے کچھ ایسا انتظام کرنے کی سوچیں
آپ کی بیوی بننے کا خواہش مند
مردانہ قالب میں عورت

Comments

comments