آج تم یاد بے حساب آئے – عامر حسینی
میری کتاب ‘کوفہ: چھاؤنی سے مسلم سیاسی،سماجی تحریکوں کا مرکز بننے تک’ کا مسودہ جب میں نے مکمل کرلیا اور اس کا پیش لفظ لکھنے بیٹھا تو اس وقت ایک ہی خیال دامن گیر تھا کہ میری یہ پہلی کتاب ہے اور اس کتاب کے شایع ہونے کے وقت نہ تو وادی حسین میں منوں مٹی تلے دفن ہوجانے والی لڑکی سیدہ ہما علی جعفری میرے پاس ہے اور نہ ہی ایک اور بزرگ ہستی زندہ رہی جس کو اس دن کا بہت شدت سے انتظار تھا۔
میں اپنی دھن میں مگن اپنے شہر کی سڑک پہ چلے جارہا تھا،میرے ہاتھ میں ایک کتاب تھی جسے میں نے راستے میں ہی چلتے چلتے پڑھنا شروع کیا ہوا تھا، میں ابھی کپتان حفیظ کی دکان جہاں ہوا کرتی گپّی والے چوک میں سات بلاک کے نکڑ پہ بنے مدرسے کے نیچے،ایک آواز آئی
‘ زرا دیکھ کر چلیں۔’
میں نے سر اٹھایا اور آواز کی سمت دیکھا،ایک صاحب نیلی دھاری دار شرٹ اور کالے رنگ کی ڈریس پتلون پہنے، دبلے پتلے سے چہرے پہ خشحشی داڑھی جس میں سفید اور کالے بالوں کا تناسب برابر برابر ہی لگ رہا تھا۔ہونٹ تھوڑے سے موٹے تھے اور آنکھیں گول مٹول سی، سر پہ بال سلیقے سے سنوارے ہوئے،ایک کلائی میں گھڑی باندھے نظر آرہے تھے۔پہلی نظر میں ہی ان کی شخصیت کا تاثر مجھ پہ بہت اچھا پڑا۔میں نے کتاب بند کردی،اور ان کی جانب چلا آیا،سلام دعا کی اور بہت ہی بے باکی سے کہہ ڈالا:
‘مجھے عامر حسینی کہتے ہیں،اور یہی شوق ہے میرا بس کتابیں پڑھنا اور کچھ کچھ مشق تحریر اور آپ؟’
میں نے ان کے چہرے کے تاثرات سے یہ اندازہ لگایا کہ میرا یہ انداز ان کو پسند آیا ہے اور میں نے دیکھا کہ ان کا چہرہ کھل اٹھا تھا،کہنے لگے
‘مجھے ساغر کہتے ہیں،سول لائن میں رہتا ہوں،اور تھوڑا بہت میں بھی پڑھ لکھ لیتا ہوں۔’
اس وقت مجھے ذرا اندازہ نہ تھا کہ میں انجانے میں کس آدمی سے ٹکرا گیا ہوں۔مجھے بعد میں ہی معلوم ہوا کہ جس نے ‘ساغر’ کہہ کر اپنے سابقے لاحقے مجھ سے چھپا لئے تھے وہ تو اس خاندان کا چشم و چراغ تھا جس کے کم از کم دو لوگوں سے میں جب شہر میں ہوتا تو قریب قریب روز ملتا تھا۔اب میری جہالت کہہ لیں کہ انہوں نے اگر کبھی’ساغر’ کا تذکرہ کیا بھی ہوگا تو میں نے حسب معمول غور ہی نہیں کیا ہوگا۔
آپ سے اب کہاں ملاقات ہوگی؟ تھوڑا وقت ہے تو کہیں بیٹھ کر چائے نا پی لیں؟’، ساغر نے کہا
ہم تھوڑا سا چلے اور رحمان سوئٹس ( اب تو نہ رحمان صاحب رہے اور نہ ان کی مٹھائیوں کی دکان) پہ بیٹھے رحمان صاحب کو ہاتھ ہلاکر سلام کرتے، باؤ محمد علی کے زمیندارہ ہوٹل سے ہوتے ہوئے چھانو کے ہوٹل کی طرف آگئے۔یہ ہوٹل کیا تھا اس شہر کا پاک ٹی ہاؤس تھا اور شہر کی سیاست پہ بحث کا مرکز تھا اور اسے ہائیڈ پارک کہہ لیں۔چھانو کا ہوٹل اب کریانے کی دکان میں بدل گیا اور چھانو خود اب شہر خموشاں میں ہیں جہاں قریب قریب وہ سب سٹریٹ دانشور اور سیاسی کارکن بھی ہیں جنھوں نے اس شہر کو کبھی شعوری طور پہ مرنے نہ دیا تھا۔
ہم بیٹھ گئے، ساغر صاحب کو ہر آتا جاتا سلام کررہا تھا،وہ میٹھی میٹھی مسکراہٹ سے جواب دے رہے تھے۔
‘میں ابھی ایران سے آیا ہوں،کچھ کتابیں لایا ہوں،میں تو پڑھ چکا ہوں،تمہیں دیکھنے کے بعد سوچ رہا ہوں کہ اب وہ تمہاری تحویل میں آجائیں،دو تو ڈاکٹر علی شریعتی کی ہیں، ایک صادق ہدایت کی اور ایک عبدالکریم سروش کی ہے،کیا تم ان سے واقف ہو؟
انہوں نے کسی تمہید کے بغیر اچانک جیسے بم پھوڑ دیا۔میں نے اثبات میں جواب دیا اور تھوڑا سا شرارتی بھی ہوگیا
‘ علی شریعتی خراب کردے گا آپ کو، اور صادق تو آپ کو فارغ ہی نہ کردے اور سروش سے آپ کی محبت ایران کے دروازے آپ پہ بند ہی نا کردے؟’
‘بھئی، میں نے ان کا دف مارنے کے لئے مرتضی مطہری، بہشتی ساتھ رکھے ہوئے ہیں، خمینی کی شاعری میرے سرہانے پڑی رہتی ہے اور ۔۔۔۔۔۔ کی مراجعت میں بھی ہوں،کون مجھ پہ دروازے بند کرسکتا۔’
یہ سب سنکر میں کھلکھلا کر ہنس پڑا۔
ہماری یہ ملاقات ایک گھنٹے پہ محیط تھی اور میں نے ان کو کہا کہ یہیں چھانو کی دکان پہ ہی کتابیں دے جائیں اگر ان کو فرصت ملے۔وہ حسب وعدہ کتابیں دے گئے۔ڈاکٹر علی شریعتی کی ‘در گوشہ تنہائی ‘ صادق ہدایت کی ‘بوف کور’ اور سروش کی رومی کی تفہیم۔ آخر الذکر دونوں انگریزی میں تھیں اور پہلی فارسی میں۔
اس کے بعد میں ان سے دو سے تین مرتبہ ملے۔
‘ یہ کالم، وقتی مضامین لکھ کر تم اپنے آپ کو ضایع کردوگے ، اتنا پڑھ چکے ہو، تم سے کتابیں پڑھ کر ان کو ہضم کرنے اور پھر ان پہ ایسے باتیں کرنے والے اب کسی عجائب گھر میں ملتے ہیں۔تو چھوڑو یہ سب اور کتاب لکھو،اپنے محبوب پہ ہی اپنے انداز میں لکھ ڈالو۔
ایک دن انہوں نے کہا، یہ ان سے میری آخری ملاقات تھی۔محبوب سے مراد حضرت علی المرتضی کرم اللہ وجہہ الکریم تھے۔اور مشکل سے چار یا پانچ ملاقاتوں میں ہم نے جس شخصیت کو زیادہ موضوع بنایا تھا وہ حضرت علی المرتضی کرم اللہ وجہہ الکریم تھے۔میری عادت ہے کہ میں جب بھی حضرت علی المرتضی (کرم اللہ وجہہ الکریم ) کا نام لیتا ہوں تو کرم اللہ وجہہ الکریم ضرور کہتا ہوں۔وہ ایک دن کہنے لگے
‘ میں نے بہت کم دیکھا ہے کہ آپ ابوالحسن علی المرتضی علیہ السلام کے نام کے ساتھ سوائے ‘کرم اللہ وجہہ الکریم ‘ کے کچھ اور لگاتے ہو۔’
یہ سنکر میری آواز بھرا سی گئی ، کیوں کہ اس کا ایک خاص پس منظر تھا۔
‘میں نے تاریخ میں بڑی تفصیل سے پڑھا تھا کہ آپ کے چار سالہ خلافت کے دور میں آپ کے مخالفوں نے آپ اور آپ کے خاندان پہ سب و شتم کی روایت شروع کی تھی اور خاص طور پہ آپ کے رخ روشن پہ سب وشتم کیا جاتا تھا تو اس زمانے میں اور بعد آپ سے محبت کرنے والوں نے یہ کیا جب حضرت علی کا نام نامی لیتے یا یا سنتے تو ساتھ ہی ‘کرم اللہ وجہہ الکریم ‘ کا لاحقہ لگاتے تھے اور میں نے بھی بس اسے معمول بنالیا ہے۔مرے محبوب ہیں کرم اللہ وجہہ الکریم’
ان کی خواہش کو میں ان کی زندگی میں عملی جامہ نہ پہنا سکا۔وہ فوت ہوگئے۔اور میں پھر شہر میں بھی نہ رہا اور اپنی وحشت کے ساتھ یہاں،وہاں بھٹکتا رہا۔کوفہ کتاب چھپ کر آئی جس کا میں نے انتساب اپنے محبوب کرم اللہ وجہہ الکریم کے نام کیا تو وہ پھر یاد بے حساب آئے۔ان کا بیٹا غفران ہے۔میر ساغر کی تصویر ہے اگرچہ ان کی طرح دھان پان نہیں ہے۔مگر آنکھیں اور ہونٹ بالکل میر ساغر ترمذی جیسی ہیں۔اس کے لئے ایک کتاب رکھی تو اس کے شروع میں لکھ دیا
‘میر ساغر مرحوم ہوتے تو ان کو کتاب پیش کرتا،اب ان کا عکس میر غفران پڑھے گا تو مجھے یقین ہے عالم بالا میں میر ساغر کی روح مسرور ہوگی،