جھل مگسی فتح پور درگاہ حضرت رکھیل شاہ پہ تکفیری دیوبندی پھٹ گیا – ریاض الملک الحجاجی

عطیہ خون دینے سے پہلے مار دئے جانے والے۔کرہ ارض پہ احمقوں کی شرح میں اضافہ

پاکستان میں جب اکثریت عاشورا محرم منانے میں مصروف تھی تو ایک دوسرے سے بظاہر 180 درجے کے زاویے پہ الگ کھڑے رہنے والے دو گروہوں نے نفرت،نزاع و افتراق، نام نہاد سائنس،بے جا غصّہ اور تنقید کے ساتھ ساتھ دوہرا معیار برقرار رکھا۔

اس مرتبہ عاشورا محرم بہت زیادہ پرامن گزرا اور سنّی،شیعہ، کرسچن،ہندؤ سب نے اس امن کو برقرار رکھنے میں اہم کردار ادا کیا۔

لیکن ایسے نام نہاد لبرل بھی تھے جنہوں نے خود ایک طرف رکھتے ہوئے امن کو برقرار رکھنے والوں کے خلاف اپنی نفرت کا خوب اظہار کیا۔جب وہ یہ کہہ رہے تھے

اگر سڑکیں اور مواصلاتی نیٹ ورک بند کردئے جائیں گے- ۔متاثرین دہشت گردی کو الزام دیں۔

صوفی سنّی مزاروں اور عاشورا کے خلاف دہشت گرد کاروائیاں کرنے والوں سے اتفاق نہیں کرتے۔۔۔۔بس ان پہ پابندی لگائیں۔

مگر ساتھ ہی انہوں نے داعش کے نظریہ سازوں جیسے ابن تیمیہ،محمد بن عبدالوہاب نجدی،اسماعیل دہلوی ہیں کے مندرجات کو اپنی پوسٹوں میں خوب خوب استعمال کیا تاکہ دہشت گردوں کی بجائے الزام دہشت گردی کے متاثرہ گروہوں پہ آجائے۔

اس حقیقت کے باوجود کہ صوفی سنّی مزار جو قصباتی علاقوں میں ہیں جہاں ٹریفک سرے سے ہے ہی نہیں پہ حملے کئے جارہے ہیں اور عزاداروں کو ان کے گھروں میں ماردیا جاتا ہے پھر بھی ٹریفک میں پڑنے والے خلل کو شیعہ اور صوفی سنّی پہ ہوئے حملوں کا ایک سبب قرار دینے کا سلسلہ جاری ہے۔

اس دوران جعلی عقلیت پسندوں اور جعلی روشن خیالیوں نے اپنی کالی منطق کی تیزابی بارش شروع ہی رکھی۔

آپ خون عطیہ کیوں نہیں کرتے؟

اپنے آپ کو کیوں نہیں کھلاتے،غریبوں کو کیوں نیاز کھلاتے ہو؟

عطیہ خون ؟

کیسے کوئی خون کا عطیہ دے جب وہ جھل مگسی فتح پور شریف میں مزار پہ دھمال ڈالیں اور ان کے اعضاء ان کے خاندان کے لوگوں سمیت کٹ پھٹ جائیں۔اب وہ تو نہیں رہے لیکن کرہ ارض پہ احمقوں کی شرح میں کہیں زیادہ اضافہ ہوگیا ہے۔

Comments

comments