تاریخ کوفہ: کچھ گم گشتہ پہلو — عامر حسینی کی کتاب کوفہ پہ تبصرہ: میاں ارشد فاروق
چند یوم قبل برادرم عامر حسینی کی کتاب “کوفہ: فوجی چھاؤنی سے مسلم سیاسی تحریکوں کا مرکز بننے تک” کا مطالعہ کرنے کا موقع ملا جو ایک تحقیقی مقالہ ہے اور اسکی قوت استدلال اور زیرک بیانی نے مجھے محبت کے سحر میں جکڑ لیا ہے۔
111 صفحات کے اس کتابچہ میں مسلم تاریخ کے ایسے پہلو پوشیدہ ہیں جن کو رد تاریخی قوتوں نے بڑی مہارت سے آج تک سرعام نہیں ہونے دیا۔ خود حسینی پیش لفظ میں لکھتے ہیں کہ میں نے کوشش کی ہے کوفہ کے چہرے پہ پڑے بدنما نقابوں کو نوچ ڈالوں ۔
یقینا وہ اس میں کامیاب رہے ہیں لیکن ساتھ ہی ساتھ انہوں نے تحت الشعوری طور پر اور بھی بہت سی نقابیں کھینچ دی ہیں جن کو ابھی مغرب کے اکیڈیمیا بھی ہاتھ ڈالنے سے ڈرتے ہیں۔
کثیر المشارب ہونے کے باعث عاشورہ کے ایام میں یا کسی دیگر موقع پر مجالس عزا میں واقعات کربلا سننے کا اتفاق ہوتا تو کیی سوالات ذہن میں اٹھتے جن میں ایک یہ بھی تھا کہ اگر اہل کوفہ نے امام عالی مقام کو خط لکھ لکھ کر بلایا تھا اور آپ نے انکی دعوت کو اپنے حسن تدبر اور کمال لیاقت و ذہانت سے لایق شرف قبولیت قرار دیا تو عین کرب و بلا کے وقت اہل کوفہ جو ڈیڑھ لاکھ نفوس سے زاید تھے وہ آپ علیہ السلام کی مدد کیلیے کیوں نہ پہنچے۔
دوسرا سوال یہ پیدا ہوتا تھا کہ اگر کوفی واقعی اسی قدر مکار و عیار اور بے وفا تھے جیسا کہ ہمارے ہاں مشہور ہے تو اس شہر کو حضرت علی علیہ السلام نے اپنے دارالحکومت کے طور پر کیوں منتخب فرمایا اور امام حسین علیہ السلام کا قلب اطہر بھی اسی شہر کی طرف کیوں کشش محسوس فرماتا تھا۔
یہ سوالات اس لیے بھی ذہن میں کھلبلی مچاتے تھے کہ علم کی میراث کے وارث حقیقی تو عالی مقام خود تھے اور آپ ذہانت کے انتہائی اعلی مدارج پہ متمکن تھے تو آپ کا کوفہ کو روانہ ہونے کا فیصلہ عقلی ،وجدانی ،سیاسی اور ہر لحاظ سے بالکل درست تھا ۔۔۔۔۔ لیکن پھر ایسا کیا ہوا اس فیصلے کا نتیجہ ہمیں سانحہ کربلا کی شکل میں ملا جس نے نہ صرف اسلام کو غلیل کے دوشاخے کی طرح دو گروہوں میں بانٹ کے انکے درمیان خلیج کو بحر ظلمات جتنا وسیع کر دیا بلکہ تاریخ اسلام میں کربلا کے واقعے سے رستے ہوے خون سے یہ خلیج سرخ بھی ہو گیی اؤر آج بھی ہمارے سماج میں خون بہتا چلا آ رہا ہے ۔
ان سوالات اور ان جیسے کیی دیگر سوالات کے شافی جواب اس کتاب کے مطالعہ سے ملے ہیں جو حسینی کی کم ازکم آٹھ سال کی شبانہ و روز سخت محنت سے تخلیق ہوی ہے اور اسکا مطالعہ ذہن کے بہترین در وا کرتا ہے ۔
مکمل طور پر واقعات کی تصویر کو سمجھنے کیلیے کتاب کا مطالعہ لازم ہے البتہ اختصار سے چند اہم خیالات کا ذکر کر دیتا ہوں۔
حسینی نے واضح کیا ہے کہ اہل کوفہ شجاع عرب تھے جو جنگ سےگھبرانے والے ہرگز نہ تھے البتہ وہ اس دور اور بعد میں آنے والی عرب اشرافیہ کے رد تاریخ حملوں کا شکار ہوے اور تاریخ میں انکی اصل شناخت کہیں گم ہو گیی۔
حسینی کا دوسرا کارنامہ یہ ہے کہ اس نے وقت کی دبیز گرد اتار کر یہ ثابت کیا ہے کہ واقعہ کربلا کے وقت اہل کوفہ انتہای بے رحم کرفیو میں قید تھے عین اسی طرح جیسے حال ہی میں عراق کے شہر موصل میں عوام کو فضای حملوں کی ڈھال کے طور پر قید کیا گیا ۔ اور یہی وجہ تھی کہ خاندان نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو انتہای کریٹیکل موقع پہ کمک نہ پہنچ سکی اور یہ دلخراش سانحہ پیش آگیا ۔
تیسری بات جس کا حسینی کو کریڈٹ ملتا ہے وہ یہ ہے کہ انہوں نے اس بات سے پردہ اٹھایا ہے کہ عرب قبائیلی عصبیت کے بجاے فقہی اختلاف کو نظریاتی اساس کیوںکر اور کس کس نے بنایا اور انکے کیا مفادات تھے ۔
چوتھی بات جسکی جرات حسینی نے کی وہ قابل داد ہے۔ انہوں نے عرب ارسٹوکریسی پر بھی قلمی جہاد کیا ہے جس سے 911 کے بعد تمام امریکی تھنک ٹینکس بھی بھاگ گیے تھے ۔ پٹرول کی طاقت علم اور قلم پہ غالب ہوی اور براہ راست شاہی فقہ کے بجاے سلافی اور سنی اسلام کی مشکوک اصطلاحات استعمال کرکے پوری دنیا کو کنفیوز کیا گیا ۔
اگرچہ مقالہ میں مکمل غیر جانبداری کا اہتمام کرتے ہوے تاریخ کا جدلیاتی جائزہ لیا گیا ہے البتہ کہیں کہیں اہل بیت اطہار کرام سے محبت کا رنگ بھرپور طور پہ نظر آتا ہے۔ حسینی نے اہل سنت اور اہل تشیع کو ایک اصطلاح علوی میں بھی پرونے کی کوشش کی ہے تاکہ خونی خلیج کو کم کیا جاسکے لیکن یہ فیصلہ وقت ہی کرے گا کہ اکیڈیمیا انکے اس خیال کو کیا مقام دیتا ہے ۔
کتاب کی قیمت صرف دو سو روپیہ ہے جو تعمیر پاکستان ریسرچ اینڈ پالیسی انسٹی ٹیوٹ نے لاہور سے شایع کی ہے ۔ کتاب حاصل کرنے کیلیے 03004827500 پر رابطہ کیا جا سکتا ہے۔
Source: