بے نظیر بھٹو قتل کیس فیصلہ: کون کسے بچانا چاہتا ہے – محمد عامر حسینی

سابق وزیراعظم محترمہ بے نظیر بھٹو شہید کے قتل کیس کا فیصلہ دس سال بعد سنادیا گیا۔پانچ ملزمان رہا اور جنرل مشرف کو مفرور قرار دیا گیا۔اس فیصلے کے آنے کے بعد سے جو ردعمل سامنے آرہا ہے وہ اکثریت میں اس فیصلے پہ ناراضگی کا ہے۔اس دوران محترمہ بے نظیر بھٹو کے قریبی ساتھی واجد شمس الحسن نے بی بی سی اردو کے پروگرام سیربین سے انتہائی اہم گفتگو کی ہے۔
‘ بے نطیر بھٹو کی 2007ء میں جنرل پرویز مشرف سے پہلی بار جب دبئی میں ملاقات ہوئی جس کے بعد محترمہ بے نظیر بھٹو واپس آئیں تو بہت زیادہ غصے میں لگ رہی تھیں۔انہوں نے مجھے بتایا کہ پرویز مشرف ان سے بہت بدتمیزی کررہا تھا اور کہہ رہا تھا کہ وہ ملک واپس نہ جائیں،وہاں ان کی مقبولیت بالکل بھی نہیں ہے اور ان کو بہت سے خطرات ہیں،بے نظیر بھٹو نے مشرف کو جواب دیا کہ مقبولیت اور غیر مقبولیت کا اندازہ لگانا ایک طرح سے ممکن ہے۔مشرف وردی اتاریں اور ان کے مقابل وہ الیکشن لڑتی ہیں۔پتا چل جائے گا مقبول کون ہےاور غیر مقبول کون ہے۔’

واجد شمس الحسن نے مزید انکشاف کیا،’3 اکتوبر کو بے نظیر بھٹو نے فیصلہ کیا کہ وہ 4 اکتوبر کو ملک واپس جانے کا اعلان کریں گی اور اپنے اراکین کو پارلیمنٹ سے مستعفی ہونے کو کہیں گی۔اس پہ مشرف پریشان ہوا اور اس نے کنڈولیزا رائس سے بات جنھوں نے بے نظیر بھٹو سے بات چیت کی۔تو بے نظیر بھٹو نے کنڈولیزا رائس کو بتایا کہ مشرف جھوٹا ہے اور ان کو سیکورٹی فراہم نہیں کرے گا۔کنڈولیزا رائس نے بے نظیر بھٹو کو پورا یقین دلایا کہ ان کو پوری سیکورٹی فراہم کی جائے گی۔نینسی پاؤل امریکی سفیر برائے پاکستان بے نظیر بھٹو سے رابطے میں رہیں گی’

‘ سابق آرمی چیف جنرل کیانی نے مجھے بتایا کہ جب شواہد فوری طور پہ دھودئے گئے تو مجرم کیسے پکڑے جاسکتے تھے’

‘ سانحہ کارساز کراچی کے واقعے کے بعد بے نظیر بھٹو نے بتایا کہ اس واقعے کے مجھے رینجرز کے زریعے نظربند کرنے کی کوشش کی۔اس واقعے بعد بے نطیر بھٹو کی نینسی پاؤل نے فون کرکے پھر یقین دہانی کرائی لیکن جیمرز کام کرنا چھوڑ گئے اور سیکورٹی بھی موجود نہیں تھی۔’

واجد شمس الحسن کا کہنا ہے کہ آصف علی زرداری نے جنرل مشرف کو جانے کی اجازت عالمی دباؤ پہ دی اور ایسا لگتا ہے کہ ان کا اشارہ امریکی دباؤ کی طرف تھا۔واجد شمس الحسن کا کہنا تھا کہ جیسے بھٹو نے نکسن کے کہنے پہ جنرل یحیی کا ٹرائل نہیں کیا تھا۔

اس ساری گفتگو سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ اگر جنرل مشرف کی حکومت سابق وزیراعظم بے نظیر بھٹو کو سیکورٹی فراہم کرنے سے مکر گئے تھے تو اس سلسلے میں کنڈولیزا رائس ، نینسی پاؤل اور دیگر بین الاقوامی طاقتیں جو بے نظیر بھٹو کو سیکورٹی فراہم کرنے کی ضمانت دے رہی تھیں وہ کیا تھیں؟

واجد شمس الحسن کا کہنا تھا کہ بے نظیر بھٹو کو جنرل مشرف کسی بھی طرح سے پاکستان آکر اوپن سیاست کرنے، پبلک سے گھل مل جانے سے روکنا چاہتے تھے اور بے نظیر بھٹو کی اوپن سیاست سے ملک میں مذہبی جنونی،بنیاد پرست سیاست کرنے والے اور طالبان،القاعدہ بھی خوفزدہ نظر آرہے تھے اور وہ بھی بے نظیر بھٹو کو ختم کرنا چاہتے تھے۔بے نظیر بھٹو نے اپنے ساتھیوں پہ واضح کردیا تھا کہ یا تو وہ کھلی عوام ی سیاست کریں گی وگرنہ وہ سیاست چھوڑ دینے کو ترجیح دیں گی۔وہ کہتی تھیں کہ میں بزدل سیاست دان نہیں ہوں۔ان حقائق سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ ملٹری اسٹبلشمنٹ جو اس وقت ملک میں براہ راست حکومت کررہی تھی اس نے محترمہ بے نظیر بھٹو کی سیکورٹی میں خلاء رکھے اور تحریک طالبان،القاعدہ سمیت دہشت گرد تنظیموں کو موقعہ فراہم کیا کہ وہ وہ بے نظیر بھٹو کو سافٹ ٹارگٹ سمجھ کر نشانہ بنائیں۔

بے نظیر بھٹو کی سیکورٹی جب فوجی اسٹبلشمنٹ نے فراہم نہیں کی تھی اور بے نظیر بھٹو کو جب سافٹ ٹارگٹ بنادیا گیا تھا تو ایسے موقعہ پہ پاکستان پیپلزپارٹی کے زمہ داروں کو بے نظیر بھٹو کی فول پروف سیکورٹی انتظامات بنانے کا فرض بنتا تھا۔رحمان ملک سمیت جن لوگوں کو بے نظیر بھٹو کی سیکورٹی کا زمہ دار بنایا گیا تھا وہ آج تک اپنی غلطی تک ماننے کو تیار نہیں ہیں مگر اس سے بے نظیر بھٹو کو مقتل گاہ تک پہنچانے والی اصل قوت سے توجہ نہیں ہٹائی جاسکتی ۔کیونکہ پاکستان میں آج بھی جہاد ازم، تکفیر ازم، پولیٹکل اسلام ازم کے حامی، ملٹری اسٹبلشمنٹ میں سعودی نواز لابی اور دائیں بازو کی سیاسی جماعتیں اور دائیں بازو کا پریس بے نظیر بھٹو کے قتل کی ذمہ داری پاکستان پیپلزپارٹی کی موجودہ قیادت پہ زبردستی ڈالنے کی کوشش کررہی ہے اور مقصد قاتلوں کی ماں کی طرف سے توجہ ہٹانا مقصود ہے۔

Comments

comments