دیوبندی عسکریت پسندی اور بریلوی ردعمل پہ غلط برابری قائم کرنے والا ڈسکورس – عامر حسینی

علم منطق میں ایک اصطلاح استعمال کی جاتی ہے

Moral Equivalence

(Moral equivalence is a form of equivocation and a fallacy of relevance often used in political debates. It seeks to draw comparisons between different, often unrelated things, to make a point that one is just as bad as the other or just as good as the other. It may be used to draw attention to an unrelated issue by comparing it to a well-known bad event, in an attempt to say one is as bad as the other. Drawing a moral equivalence in this way is a logical fallacy.)

ابہام اور گول مول بات کی کی ایک شکل اور ایسا مغالطہ جسے اکثر سیاسی مباحثوں میں استعمال کیا جاتا ہے۔یہ مختلف ،اکثر غیر متعلق چیزوں میں تقابل کی تلاش کرت ہے اور مقصد یہ ہوتا ہے کہ فلاں چیز اتنی ہی بری ہے جتنی دوسری چیز یا فلاں شئے اتنی ہی اچھی ہے جتنی دوسری شئے۔اس طرح کی برابری تلاش کرنے کا مقصد ایک غیر متعلق ایشو کی طرف کسی جانے پہچانے برے واقعہ سے اس کا تقابل کرتے ہوئے توجہ مبذول کرانا اور یہ نکتہ اٹھانا کہ یہ بھی اتنا ہی برا ہے جتنا کہ دوسرا۔اس طریقے سے اخلاقی مبہم مساوات/برابری دکھانا فکری اور منطقی مغالطہ ہے۔
اس کو فلسفے کی زبان میں

False Analogy

مغالطہ انگیز قیاس
بھی کہتے ہیں۔

یہاں پہ تھوڑی آگاہی ‘مغالطہ انگیز قیاس /منطق کے بارے میں ہونی لازم ہے

A False analogy is an informal fallacy. It applies to inductive arguments. It is an informal fallacy because the error is about what the argument is about, and not the argument itself.

An analogy proposes that two concepts which are similar (A and B) have a common relationship to some property. A has property X, therefore B must also have property X. In a false analogy, the objects may have some similarities, but they do not both have property X. That way, both objects may have the same color, but this does not mean that they have the same size. Even if bananas and the sun appear yellow, one could not conclude that they are the same size. One who makes an invalid analogy or comparison is often said to be “comparing apples and oranges”.

ایک منطقی مغالطہ ایک غیر رسمی مغالطہ ہوتا ہے۔اس کا اطلاق استقرائي استدلال پہ ہوتا ہے۔یہ غیر رسمی مغالطہ اس لئے کہا جاتا ہے کیونکہ اس میں جو نقص ہے وہ بذات خود استدلال میں نہیں بلکہ جس بارے استدلال کیا جارہا ہوتا ہے میں پایا جاتا ہے۔
جیسے یہ قیاس کیا جائے کہ دو تصور جیسے اے اور بی ہیں ایک جیسے ہیں اس وجہ سے کہ ان کے درمیان ایک خاصیت مشترکہ ہے۔اے کی خاصیت ایکس ہے،اس لئے بی میں بھی ایکس خاصیت پائی جانا لازم ہے۔ایک غلط فکری استدلال میں چیزیں جو کچھ ایک جیسی خاصتیں تو رکھتی ہوں مگر ان دونوں میں خاصیت ایکس نہ ہو کے باوجود دونوں میں خاصیت ایکس کا ہونا بتایا جائے۔ہوسکتا ہے اے اور بی ایک جیسا رنگ رکھتی ہوں مگر ان کا سائز ایک جیسا نہ ہو۔یہاں تک کہ اگر کیلے اور سورج دونوں پیلے رنگ کی مشترکہ خاصیت رکھتے ہیں تو کوئی یہ نتیجہ اخذ نہیں کرسکتا کہ دونوں کی جسامت ایک جیسی ہے۔جب کوئی شخص غلط قیاس کرتا ہے یا غلط تقابل کرتا ہے تو کہا جاتا ہے کہ وہ سیب اور سنتروں کا تقابل کررہا ہے اور ہمارے ہاں عام طور پہ کہا جاتا ہے کہ گدھا اور گھوڑا ایک ہی طرز پہ ہانکے جارہے ہیں اور اسے گدھے گھوڑے کی برابری تلاشنا کہا جاتا ہے۔

ریاض مالک کہتے ہیں کہ ایسا ہی مغالطہ انگیز منطق اور استدلال دیوبندی عسکریت پسند اور سنّی بریلوی ردعمل بارے بروئے کار لائی جارہی ہے اور اس بنیاد پہ ان دونوں کو ایک مساوات میں پرویا جارہا ہے۔انھوں نے اپنے مضمون کی سرخی جمائی ہے

 

The False moral Equivalence between Deobandi militancy vs Sunni Barelvi reaction

 

دو سنّی بریلوی بھائیوں نے چینوٹ میں تبلیغی جماعت کے ایک 70 سالہ مبلغ کو گستاخ کہہ کر مار ڈالا۔اس واقعے پہ کئی طرح کے ردعمل کا اظہار ہورہا ہے۔اس واقعہ کی سب مذمت کررہے ہیں اور مذمت ہونی بھی چاہئیے۔لیکن ان ردعمل میں سوشل میڈیا اور پاکستانی مین سٹریم میڈیا پہ ایک غالب ردعمل ایسا ہے جو یہاں پہ ہم زیر بحث لانا چاہتے ہیں۔

اس واقعے پہ ہمارے زیر بحث ردعمل کی وہ قسم ہے جس میں مارے جانے والے شخص اور مارنے والے دونوں افراد کا تعلق جن فرقوں/مسالک سے تھا ان کا بطور خاص ذکر کیا جارہا ہے۔اور مارنے والوں کا جس فرقے سے تعلق ہے اس فرقے کے بارے میں اس طرح کے ردعمل میں کافی الفاظ خرچ بھی کئے جارہے ہیں۔

ہمارا سوال یہاں پہ یہ ہے کہ اس طرح سے فرقہ اور مسلکی شناخت اس وقت ذکر کیوں نہ کی گئی جب 100 کے قریب افراد داتا دربار میں ہونے والے خود کش بم دھماکے میں مارے گئے تھے؟

جب سنّی بریلوی پروفیشنل، علماء ، مشائخ اور سیاسی کارکنوں کو قتل کیا جارہا تھا تو ان کے قاتلوں کی مسلکی اور فرقہ کی شناخت کو کیوں نمایاں نہ کیا گیا جبکہ سنّی بریلویوں کے خلاف اس طرح کی عسکری کاروائیاں گزشتہ دو عشروں سے کی جارہی تھیں؟

چینوٹ میں ہونے والے واقعے میں جس طرح سے تبلیغی جماعت کے مبلغ کی دیوبندی شناخت کو ظاہر کیا گیا اور پھر اس کے قاتل دو بھائیوں کی سنّی بریلوی شناخت کو خاص طور پہ زکر کیا گیا۔ ایسا ان منظم اور واضح سرپرستی میں موجود لشکروں اور عسکری ملیشیاؤں کے باب میں نہیں کیا گیا جنھوں نے اسکول کے بچوں سے لیکر وکلاء تک،سنّی سے شیعہ تک، کرسچن سے سکھ تک، پولیس سے لیکر فوج تک اور احمدیوں سے لیکر ذکری بلوچوں تک،ہزارہ شیعہ سے لیکر قوم پرست بلوچ رہنماؤں تک اور مسجد سے لیکر امام بارگاہ تک،مزار سے لیکر کلیسا و مندر تک اور جماعت خانہ سے لیکر ذکری عبادت گاہوں تک کسی کو نہ چھوڑا اور سب پہ حملے کئے۔یہ مںطم لشکر، ملیشیا اور قاتلوں کے منظم ٹولے کس مسلک اور فرقے سے تعلق رکھتے ہیں؟ اس سوال کو ہمیشہ چھپایا گیا اور ہمیشہ گول مول جواب دیا گیا۔جب کسی نے اعداد وشمار اور ڈیٹا بیس اکٹھا کرکے یہ بتانے کی کوشش کی کہ 90 فیصدی ان وارداتوں میں ملوث تنطیمیں دیوبندی مسلک سے تعلق رکھتی ہیں اور 10 فیصد دیوبندی-سلفی وہابی ملی جلی تنظیمیں ہیں تو اس انکشاف پہ فوری فرقہ پرستی کا شور مچادیا گیا۔

آپ کو یاد ہے کہ گزشتہ پچھلے سال کوئٹہ میں 100 سے زائد وکلاء کو شہید کردیا گیا اور اس کی ذمہ داری جنداللہ ملیشا نے قبول کی اور اس واقعے کی عدالتی انکوائری رپورٹ میں لشکر جھنگوی، سپاہ صحابہ پاکستان وغیرہ کا زکر ہوا۔تو اس وقت اس اندوہناک واقعہ پہ ہم نے بہت کم لوگوں کو ان ملیشیاؤں اور لشکروں کی مسلکی وابستگی اور ان کے فرقے کی شناخت کا زکر کرتے ہوئے دیکھا۔آج جو حلقے سوشل میڈیا اور مین سٹریم میڈیا پہ چینوٹ والے واقعے میں قاتلوں کی بریلوی شناخت اور بریلوی فرقے کے اندر متشدد رجحانات پہ بات کررہے ہیں ان میں سے ایک بھی ایسا نہیں ہے جس نے اس سانحہ کوئٹہ پہ اس طرح مسلکی شناختوں کو بیان کرتے ہوئے پوسٹ کی ہو یا آرٹیکل لکھا ہو۔یہی رویہ ہمیں اے پی ایس پشاور میں معصوم بچوں کی ہلاکتوں پہ طالبان، جماعت الاحرار کی دیوبندی شناخت کو چھپانے پہ مشتمل نظر آیا۔
مین سٹریم میڈیا اور سول سوسائٹی میں اس حوالے سے ایک متنازع اور متعصب اور امتیازی رویہ کا حامل سیکشن موجود ہے جو دیوبندی عسکریت پسندی کو چھپاکر اور اس سے توجہ ہٹاکر کر سنّی بریلوی اور شیعہ کمیونٹی کے اندر سے آنے والے انفرادی دہشت گردی اور وآئلنس کے کسی واقعے پہ بریلوی /شیعہ شناخت پہ باقاعدہ زور دیتا نظر آتا ہے۔

پاکستان کی سول سوسائٹی کے اندر ایسے ترقی پسند، لبرل اور لیفٹ سے جڑے صحافی،تجزیہ نگار، کالم نگار،بلاگرز، ٹیوٹر ہینڈلرز، فیس بک اکاؤنٹس ہولڈر موجود ہیں جو اپنے ہاں بہت شاذ و نادر عالمی پریس میں لبرل پریس اور لیفٹ کیمپ سے آنے والے تبلیغی جماعت کے بارے میں ایسے تجزیوں اور فیچرز کے لنک شئیر کرتے ہیں بلکہ اکثر تو بالکل ہی چھپا جاتے ہیں جن میں تبلیغی جماعت کو عسکریت پسندوں، تکفیری نفرت انگیز گروپوں اور دہشت گرد تنظیموں کے لئے گیٹ وے قرار دیا گیا ہوتا ہے اور داعش و القاعدہ و طالبان و لشکر جھنگوی العالمی میں ان کی شملیت کے سفر میں تبلیغی جماعت کے سنگ میل کو دکھایا گیا ہوتا ہے۔لیکن اس بات کو ہم ایک طرف رکھتے ہوئے بہت واضح کرتے ہیں کہ دیوبندی تبلیغی جماعت اگرچہ مکتبہ دیوبند کی اعتدال پسندی و شدت پسندی دونوں کی عکاس ہے اور بنیادی طور پہ اس تنظیم کو نہ تو تکفیری کہا جاسکتا ہے اور نہ ہی خارجی اور شدت پسند اور ہم سمجھتے ہیں کہ ان کے قتل ہونے والے رکن کے ورثاء کو انصاف ملنا چاہئیے اور قاتلوں کو کیفردار تک پہنچانا چاہئیے۔لیکن اس بحث کا جو سیاق و سباق اور تناظر ہے اسے نظر انداز نہیں کرنا چاہئیے۔
تبلیغی جماعت نہ صرف دہشت گردوں اور نفرت پھیلانے والے گروپوں کا ایک نرم رخ پیش کرتی ہے۔بس پہ ہی بس نہیں کرتی بلکہ یہ ان کے ساتھ سرگرم اشتراک رکھتی ہے۔ہم نے تبلیغی جماعت کے سب سے بڑے نظریہ ساز طارق جمیل اور کالعدم اہلسنت والجماعت/سپاہ صحابہ پاکستان کی قیادت جیسے محمد احمد لدھیانوی اور اورنگ زیب فاروقی کو اکٹھے ملتے جلتے دیکھاہے۔

پاکستان میں بلاسفیمی،توہین ، گستاخی کے الزام میں کسی بھی فرد یا گروہ پہ حملے اور ان کا قتل ہوتا ہے تو ہم دیکھتے ہیں کہ اس طرح کے درجنوں واقعات میں بطور خاص بریلوی فرقہ کو ہائی لائٹ کیا جاتا ہے اور اس طرح کے واقعات میں دیوبندی اور سلفیوں کی شرکت اور ان کے کردار کو سرے سے نظر انداز کردیا جاتا ہے۔اس کی ایک بہت واضح مثال سلمان تاثیر گورنر پنجاب کا قتل تھا۔گورنر پنجاب سلمان تاثیر کے قتل بارے خاص نکات یہ تھے:
٭٭٭ ان کو پنجاب حکومت کی جانب سے گورنر کی سیکورٹی پہ مامور ایلیٹ فورس میں شامل ایک اہلکار ملک ممتاز حسین نے قتل کیا جبکہ اس موقعہ پہ پنجاب ایلیٹ فورس کے کسی اہلکار نے ملک ممتاز کی اس کاروائی میں دخل نہ دیا اور اسے اس کا مشن مکمل ہونے کے بعد قابو کیا گیا۔
 سلمان تاثیر کی وفاق کی طرف سے فراہم کردہ سیکورٹی پنجاب حکومت نے ہٹائی
رانا ثناء اللہ وزیرقانون اور ڈی فیکٹو چیف منسٹر پنجاب مسلسل گورنر پنجاب کے خلاف اشتعال پھیلا رہے تھے۔
مظفرگڑھ سے اہلسنت والجماعت/سپاہ صحابہ کا رہنماء اور مسلم لیگ نواز کے ٹکٹ ہولڈر عباد ڈوگر نے سلمان تاثیر کے سر کی قیمت مقرر کردی تھی۔
طالبان ، جماعت الاحرار،سپاہ صحابہ پاکستان سمیت دیوبندی عسکریت پسندی کے حامی اور ترجمان سلمان تاثیر کے خلاف انتہائی اشتعال انگیز مہم چلارہے تھے

لیکن جب یہ واقعہ ہوگیا تو اس وقت سارا فوکس ملک ممتاز کی مسلکی شناخت پہ رکھا گیا اور اس حوالے سے بریلوی فرقے کے مولوی حنیف قریشی ، خادم رضوی اور عرفان مشہدی، حامد رضا قادری وغیرھم کو لیکر بریلوی فرقہ کو نشانے پہ رکھ لیا گیا اور اس واقعے میں دیوبندی عسکریت پسندی اور اس میں ان کی معاون حکمران جماعت کو بالکل نظر انداز کردیا گیا بلکہ اس واقعے کی مذمت میں بریلوی فرقے کے ڈاکٹر طاہر القادری اور دعوت اسلامی کے امیر الیاس قادری کی مذمت کو بھی یکسر نظر انداز کردیا گیا اور اس بات پہ زور دیا گیا کہ بریلوی فرقہ دہشت گرد ہے، انتہا پسند ہے اور یہ نفرت پھیلانے کا ماسٹر ہے۔اور ہم نے تبلیغی جماعت کے مبلغ کے قتل میں دیکھا کہ اس میں تبلیغی جماعت اور دیوبندی فرقے کی اعتدال پسندی کا پاٹھ ساتھ ساتھ پڑھا گیا اور پھر اس کے ساتھ ساتھ بریلوی فرقے پہ چڑھائی کی گئی۔
اس طرح کے رویوں کا مقصد کیا ہے؟ مقصد طرف دیوبندی منصوبہ بند،منظم عسکریت پسندی اور بریلوی فرقے کے اندر سے اٹھنے والے انفرادی ردعمل کے درمیان غلط اور جھوٹی مساوات پیدا کرنا اور دیوبندی عسکریت پسندی، جہاد ازم، بنیاد پرستی اور مذہبی دہشت گردی پہ مبنی خوفناک جنگ سے توجہ ہٹانا ہے۔

اس بات سے انکار ممکن نہیں ہے کہ دیوبندی اور سلفی فرقوں کے علاوہ اب پاکستان میں ایسے فرقوں کے اندر بھی عدم برداشت میں اضافہ زوروں پہ ہے جو کہ عام طور پہ متشدد عناصر کے حوالے سے کم شہرت رکھتے تھے۔خاص طور پہ بریلوی فرقے کے اندر

Mob Violence

Individual based Murder

دیکھنے کو مل رہے ہیں۔خادم رضوی،عرفان مشہدی جیسے گروپ زیادہ جہالت آمیز اور انتہا پسندی کے بلند درجے پہ پہنچے نظر آتے ہیں۔بلکہ یہ دیکھنا بھی دلچسپی سے خالی نہیں ہوگا کہ بریلوی فرقہ میں وسطی پنجاب سے اٹھنے والا یہ انتہائی تشدد پسند رجحان کراچی سے دیوبندی عسکریت پسندوں کی مدد سے بریلوی مساجد پہ دیوبندی قبضے کے ردعمل میں بننے والی عسکریت پسند تنظیم پاکستان سنّی تحریک کو یہ عناصر کافی حد تک ری پلیس کرنے میں کامیاب رہے ہیں۔لیکن اس رجحان پہ پاکستان میں لبرل کمرشل مافیا اور دیوبندی عسکریت پسندی کی بربریت اور پھیلاؤ کو چھپانے والا دیوبندی سوشل میڈیا گروہ دونوں کے دونوں اس بات کو چھپاتے ہیں کہ پاکستان کے اندر 80ء کی دہائی سے جو دیوبندی-سلفی وہابی عسکریت پسندی اور اس بنیاد پہ سعودی فنڈنگ سے پھیلائی جانے والی نفرت جو ہے جس نے پاکستان میں دیوبندائزیشن اور سعودائزیشن کے منظم پروسس کی آبیاری کی ہے اور خاص طور پہ پاکستان میں اکثریتی فرقے سنّی بریلوی کو مارجنلائزڈ کیا ہے اس کا براہ راست ردعمل ہے۔پاکستان میں

Anti-blasphemy based Violence

کی تاریخ تو 80ء اور 90ء سے شروع ہوتی ہے۔جب پنجاب، سندھ اور خیبرپختون خوا میں کرسچن اور شیعہ پہ انتہائی منظم دہشت گرد حملے کئے جاتے رہے اور جو منظم عسکریت پسند یہ حملے کررہے تھے وہ اس وقت بھی یہی دیوبندی-سلفی عسکریت پسند تھے۔جبکہ اس دوران جو

Mob based Violence

تھی اس میں بھی تباہ کن آتش گیر مادے اور کلاشنکوفوں کے ساتھ انتہائی تریبت یافتہ کیڈر جو میسر آتا تھا وہ اسی نام نہاد جہادی تریبت سے لیس تنظیموں سے آتا تھا جن کی مسلکی شناخت دیوبندی یا سلفی تھی۔آپ اس زمانے میں انسانی حقوق کمیشن برائے پاکستان سمیت بلاسفیمی، شناختی بنیادوں پہ قتل ہونے والے شیعہ، احمدی،کرسچن بارے شایع ہونے والی رپورٹس اٹھاکر دیکھیں اور اس حوالے سے اس زمانے میں پرنٹ میڈیا میں شایع ہونے والے مضامین اور فیچرز اٹھاکر دیکھ سکتے ہیں کسی جگہ پہ بھی آپ کو ان کمیونٹیز پہ حملہ آور منظم منظم عسکریت پسندوں کی مسلکی اور فرقہ شناخت کا زکر نہیں ملے گا۔اس حوالے سے 80ء اور 90ء کی دہائی میں آپ کو کہیں کہیں مودودی ازم اور جماعت اسلامی کے کردار بارے تذکرے ضرور مل جائیں گے۔

انیس سو 85ء سے پاکستان کے اندر دیوبندی-سلفی وہابی جہاد ازم کے اندر سے جنم لینے والی دیوبندی-سلفی وہابی عسکریت پسند نیٹ ورک نے باقاعدہ ایک منظم نفرت انگیز اور دہشت گردی کی جنم داتا تنظیم سپاہ صحابہ پاکستان کو قائم کردیا تھا۔اس تنظیم نے پاکستان کے اندر جمہور اہلسنت اور جمہور شیعہ کے درمیان صدیوں سے کم از کم جو اتفاق یزید اور اس کے ٹولے کے خلاف چلا آرہا تھا اسے نظریاتی سطح پہ قابل نفرت اور اس اتفاق کی نمائندگی کرنے والی عوام اور خواص دونوں کے خلاف انتہائی اشتعال انگیز مہم شروع کی اور اس نے ہی آگے چل کر شیعہ نسل کشی اور صوفی سنّی عوام اور ان کے مقدس مقامات پہ تباہ کن حملوں کو جنم دیا۔کالعدم سپاہ صحابہ پاکستان حقیقت میں مجلس احرار کی جانب سے 1925 ‎سے 1929ء میں میں چلائی جانے والی اینٹی شیعہ اور پرو اموی تحریک کو دوبارہ سے زندہ کرنے کی ایک کوشش تھی اگرچہ اس کے پیچھے قوت متحرکہ جنرل ضیاء الحق کی سعودی نواز پالیسی اور اس زمانے کی امریکہ کی اینٹی ایران پالیساں تھيں۔جیسے دیوبندی ختم نبوت انٹرنیشنل اصل میں مجلس احرار کی اینٹی قادیانی تحریک کا تسلسل ہے۔برٹش راج میں اس طرح کی تحریکوں نے برصغیر پاک و ہند کے اندر مسلمانوں میں فرقہ وارانہ تقسیم کو بڑھانے اور ان کے اندر صلح کل پہ مبنی جو صوفی کمپوزٹ کلچر تھا اسے کمزور بنانے میں اپنا کردار ادا کیا۔

پاکستان میں سول سوسائٹی اور مین سٹریم میڈیا کا ایک بہت بااثر اور بہت زیادہ غالب سیکشن جسے ہم اپنی آسانی کے لئے کمرشل لبرل مافیا کہتے ہیں نے 85ء سے ہی جہاد ازم، پولیٹکل اسلام ازم، اسلامی بنیاد پرستی کی دیوبندی بنیادوں کو خاص طور پہ چھپانے اور اس شناخت پہ گہرےدبیز پردے ڈالنے کا کام شروع کررکھا تھا۔وہ پاکستان کے اندر منظم طریقے سے جمہور صوفی مزاج کے سنّی عوام اور شیعہ مسلک کی مارجنلائزیشن کے بڑے پیمانے پہ عمل کو چھپانے اور اس پہ ابہام کے پردے ڈالنے میں لگا ہوا تھا۔جبکہ پاکستان میں جو حقیقی لیفٹ اور مارکسسٹ سیکشن تھا اسے ٹھیک سے اس سارے پروسس کو جانچنے اور پرکھنے کا وقت میسر نہ تھا اور یہی وجہ ہے کہ حقیقی لیفٹ اور مارکسی سیکشن کے اندر جو اوسط درجے کا ایکٹوسٹ تھا اس کے اندر بھی ابہام پرست اور گول مول موقف رکھنے والے لبرل کمرشل سیکشن کی پھیلائی جانے والی سوچ سرایت کرتی نظر آرہی تھی۔

سچی بات یہ ہے کہ مجھ جیسا آدمی بھی اس زمانے میں پاکستان کے اندر دیوبندی ریڈیکل ازم کے زریعے سے سعودی فنڈنگ وہابی ازم کے پھیلاؤ اور اس کے حقیقی ہدف بارے اس قدر واضح ہوکر نہیں دیکھ رہا تھا۔پاکستان میں اس کمرشل ازم اور ابہام پرست سوچ کا عقدہ مجھ پہ اس وقت کھلنا شروع ہوا جب نائن الیون کے بعد پاکستان اندر دیوبندی عسکریت پسندی کھل کر اپنے اصل چہرے کے ساتھ سامنے آگئی اور اس نے بڑے پیمانے پہ پاکستان کے اندر اپنے سے اتفاق نہ کرنے والے گروہوں اور گروپوں پہ حملے شروع کردئے۔دیوبندی عسکریت پسندی کا سب سے بڑا نشانہ شیعہ،صوفی سنّی، کرسچن اور احمدی تھے۔پاکسان کا کمرشل لبرل سیکشن پرنٹ میڈیا اور پھر الیکٹرانک میڈیا میں اوائل دنوں میں تو دیوبندی عسکریت پسندی کا نشانہ بننے والوں میں سے شیعہ اور صوفی سنّیوں کی مسلکی شناخت تک کا ذکر کرنے سے قاصر تھا۔

شیعہ ٹارگٹ کلنگ پہ شیعہ کی مسلکی اور فرقہ شناخت پہ پاکستانی میڈیا میڈیا کے ڈسکورس پہ پروفیسر عباس زیدی کا ریسرچ پیپر پڑھنے سے تعلق رکھتا ہے اور ایسے لیٹ اس بلڈ پاکستان کا جو شیعہ نسل کشی اور صوفی سنّی نسل کشی پہ مرتب کردہ ڈیٹا ہے وہ بھی چشم کشا ہے۔پاکستان کے اندر شیعہ ہیومن رائٹس تنظیموں ، لیٹ اس بلڈ پاکستان ویب بلاگ اور چند ایک گنے چنے بلاگرز اور کالم نگاروں نے دیوبندی عسکریت پسندی کے نشانے پہ آنے والے شیعہ اور صوفی سنّی مسلمانوں کی شناخت پہ مین سٹریم میڈیا کے ڈسکورس اور اس بارے پاکستان میں سول سوسائٹی کے لوگوں کی ابہام پرست ، گول مول روش پہ تنقید کا سلسلہ شروع کیا تو اس زمانے میں مارے جانے والوں کی شیعہ اور سنّی بریلوی شناخت کے اظہار کو کئی ایک لبرلز نے فرقہ واریت قرار دے ڈالا اور ان کی جانب سے مسلسل اس بات سے انکار کیا گیا کہ پاکستان کے اندر شیعہ نسل کشی اور صوفی سنّی مسلمانوں کو منظم طریقے سے دیوار سے لگانے اور ان کی مارجنلائزیشن کا کوئی پروسس موجود ہے۔

مجھے یاد ہے اس زمانے میں عارف جمال ایک ایسے صحافی تھے جنھوں نے دی نیوز انٹرنیشنل کے سنڈے ایڈیشن میں ایک انٹرویو میں یہ کہا تھا کہ پاکستان کے اندر جو بھی غیر سلفی اور غیر دیوبندی ہے وہ اپنے آپ کو غیر محفوظ خیال کرتا ہے اور پاکستان کے اندر دیوبندی ازم بریلویوں کی مساجد و مدرسوں پہ قبضوں کی منظم مہم چلائے ہوئے ہیں۔اس کے علاوہ مجھے کوئی اور مین سٹریم انگریزی اور اردو پریس سے تعلق رکھنے والا صحافی و تجزیہ کار پاکستان میں دیوبندی ریڈیکل ازم کے ہدف شیعہ اور صوفی سنّی پہ اس طرح سے کھل کر بات کرتا نظر نہ آیا۔

اگر میں کرانیکل اعتبار سے مارے جانے والے شیعہ اور صوفی سنّی بریلوی شناخت پہ مین سٹریم میڈیا اور سول سوسائٹی کے ابہام پرست ڈسکورس کا جائزہ لوں تو نائن الیون سے لیکر کم از کم 2006ء تک یہی ڈسکورس انگریزی اور اردو پریس پہ غالب رہا اور پاکستانی لبرل اور لیفٹ دونوں سیکشن میں ہمیں ‘شیعہ نسل کشی ‘ کی اصطلاح غائب نظر آئی۔اس دوران پاکستانی لیفٹ میں طرف انٹرنیشنل سوشلسٹ (انقلابی سوشلسٹ ) گروپ کا رسالہ ‘سوشلسٹ’ شیعہ نسل کشی کی اصلاح استعمال کرتا نظر آیا۔

جب پاکستانی مین سٹریم میڈیا اور سول سوسائٹی کے اندر دیوبندی عسکریت پسندوں کی دہشت گردی اور وائلنس کا شکار ہونے والے شیعہ اور صوفی سنّی کی شناخت پہ پردہ ڈالنے، اس کا زکر نہ کرنے کا ڈسکورس غالب تھا اور ساتھ ساتھ شیعہ نسل کشی کا انکار کرنے کا ڈسکورس بھی آہستہ آہستہ بہت واضح ہوتا جارہا تھا۔کیونکہ پاکستان کا لبرل پریس اور سول سوسائٹی 1980ء سے ہی عالمی امریکی سرمایہ داری کیمپ کے لبرل کیمپ کی پیروی میں پاکستان کے اندر شیعہ ٹارگٹ کلنگ،امام بارگاہوں و شیعہ مساجد پہ حملوں کو شیعہ-سنّی بائنری ، ایران-سعودی فرم ورک میں بیان کرنے کا ڈسکورس اپنا چکی تھی۔وہ اسے ایک منظم، ریاستی اداروں کے اندر بیٹھے بدمعاش سعودی نواز لابی اور سعودی فنڈنگ سے مضبوط ہونے والے دیوبندی تکفیری نیٹ ورک کا کمزور اور نہتے مذہبی اقلیتی فرقے شیعہ کی نسل کشی اور ان کی انتہائی منصوبہ بند مارجنلائزیشن کا پروسس ماننے سے انکاری تھی۔

بلکہ 90ء میں جب شیعہ کی اس مسلسل نسل کشی کے خلاف خود شیعہ مسلک سے ایک تنظیم سپاہ محمد ابھری جس نے سپاہ صحابہ پاکستان اور اس سے جڑی شخصیات کو اپنے نشانے پہ رکھا تو اس وقت یہی لبرل سیکشن زیادہ شد ومد سے شیعہ کے اندر سے ایک چھوٹی سی کمزور تنظیم کے ری ایکشن اور اس کے مقابلے میں دیوبندی عسکریت پسند نیٹ ورک کی وسعت اور پھیلاؤ کے درمیان جھوٹی مساوات اور برابری ثابت کرنے پہ تل گیا اور اس کے ساتھ ساتھ اس نے یہی ڈسکورس بریلوی فرقے کے اندر بریلویوں کی مساجد اور مدارسوں پہ قبضوں اور ان پہ ہونے والے حملوں کے ردعمل میں ابھرنے والی پاکستان سنّی تحریک کو مثال بناکر بریلوی ردعمل اور دیوبندی عسکریت پسندی میں جھوٹی برابری تلاش کرنا شروع کردی تھی۔یہی ابہام پرست اور منطقی مغالطوں پہ مبنی ڈسکورس آگے چل کر ایک منظم اور سوچے سمجھے منصوبے میں بدل گیا۔

اس کے برعکس اگر آپ پاکستان کے لبرل پریس اور سول سوسائٹی کا احمدی، کرسچن اور ہندؤ مذہبی برادریوں پہ ہونے والے دہشت گرد حملوں، ٹارگٹ کلنگ، کلیسا، مندر، احمدی مراکز پہ ہوئے حملوں پہ ڈسکورس کا جائزہ لیں تو یہ 80ء کی دہائی سے ہی آپ کو ان سب کی احمدی ، کرسچن اور ہندؤ شناخت کے واضح ذکر پہ مشتمل ملے گا۔ہزاروں رپورٹس آپ کو ان کی شناخت کے ساتھ ذکر ہوئی صحافت اور سول سوسائٹی کے انٹلیکچوئل ایکٹوازم کے ساتھ نظر آجائیں گی۔اور لبرل پریس اور سوسائٹی کا

Obfuscation of sect identity of victims of faith based violence and Terrorism

مبنی رجحان شیعہ اور صوفی سنّی کے باب میں ہی ملے گا۔یہ ایک ایسی ابہام پرستی اور گول مول موقف تھا جس کی لیٹ اس بلڈ پاکستان ویب بلاگ نے نشاندہی کرنا شروع کی اور اس پہ تنقید کا سلسلہ بھی شروع کردیا۔اس زمانے میں کئی ایک لبرل ایسے تھے جو لیٹ اس بلڈ پاکستان سے وابستہ تھے جن میں سے ایک دوست نے ہی اس بلاگ پہ میرے آرٹیکل اور مضامین بطور گیسٹ پوسٹ شایع کرنا شروع کئے تھے اور وہ اس بات سے متفق تھے کہ شیعہ شناخت کو کم ازکم نہیں چھپانا چاہيے اگرچہ میرے ان دوست نے صوفی سنّی شناخت کو چھپائے جانے بارے کھل کر کبھی کوئی اظہار خیال نہیں کیا تھا۔

میں بنیادی طور پہ صوفی سنّی (بریلوی ) پس منظر سے تعلق رکھنے والا بائیں بازو کا سرگرم ایکٹوسٹ تھا۔سچی بات یہ ہے کہ میں اپنے صوفی سنّی مسلمانوں کی سعودی فنڈنگ اور ریاستی اشیر باد کے ساتھ ایک منظم تبدیلی مسلک اور ان کی بتدریج مارجنلائزیشن کے پروسس کو اسٹڈی کررہا تھا اور آہستہ آہستہ اس بارے میرے شعور کا دائرہ بڑھتا جارہا تھا۔لیکن میں صاف یہ دیکھ رہا تھا کہ نہ تو پاکستان کا لبرل پریس و سول سوسائٹی پاکستان کے اندر

Faith Based Violence
Saudi-zation under the guise of Deobadi-ism
Jihad-ism
Political Islam-ism
Local section of Global Jihadists network
Talibanization and so called Islamization

کے مجموعی پراسس میں صوفی سنّی آبادی کی

Marginalization
Deobandization of Sufi Sunni Mosque and Seminaries
Transformation of big part of Sufi Sunnis into Deobandis and Salafis through massive funding and ideological oppression backed by state

کو زرا بھی اہمیت نہیں مل رہی تھی۔وہ اس سوال کو ہی حقارت اور تحقیر سے دیکھ رہے تھے۔وہ اس زاویہ اور نکتہ نظر کو فرقہ وارانہ اور مسلکی تعصب کہہ رہے تھے۔جبکہ میرا سوال یہ تھا کہ اگر

Marginalization of Ahmadis, Christians, Hindus, Sikh and even of Shia (although very few people ijn liberal section think that Shia are being marginalized and pushed back to wall)

غلط ہے تو پھر صوفی سنّی بریلویوں کی مارجنلائزیشن اور ان کو کمتر بنائے جانے کا پروسس بھی غلط ہے۔لیکن اس حوالے سے نفی کا رویہ مسلسل موجود تھا۔

پھر خیبرپختون خوا اور چھے قـبائلی ایجنسیوں میں تحریک طالبان پاکستان کے نام سے دیوبندی عسکریت پسندی کا ایک مجموع پلیٹ فارم وجود میں آگیا اور اس دوران خیبرایجنسی میں مفتی منیر شاکر اور منگل باغ کی تنظیمیں ابھر کر سامنے آئیں اور اس پلیٹ فارم کے اندر لشکر جھنگوی بھی جا شامل ہوا۔اس زمانے میں قبائلی ایجنسیوں اور خیبرپختون خوا کے اندر صوفی سنّی بریلوی مسلک کی مساجد،مزارات، مدارس ،علماء و مشائخ پہ خودکش ،کار بم اور جتھوں کے حملوں کا سلسلہ شروع ہوا اور جو چلتا چلتا سوات پہ طالبان کے مکمل قبضے تک آن پہنچا۔اس زمانے میں صوفی سنّی نسل کشی کا ڈیٹا ہمیں بتاتا دیتا ہے کہ خیبرپختون خوا میں صوفی سنّی اسلام کیسے ایک دم شدید طریقے سے مارجنلائزڈ کردیا گیا۔لیکن پاکستان کا لبرل پریس سیکشن اور سول سوسائٹی نے اس مارجنلائزیشن اور نسل کشی پہ چپ سادھ لی۔جیسے انھوں نے خیبرپختون خوا میں شیعہ پشتونوں کی نسل کشی پہ چپ سادھے رکھی تھی۔

اس معاملے میں اگر کوئی شخص میری ہمنوائی کرتا نظر آیا تو ایک تو وہ میرا کراچی یونیورسٹی کا اے ٹی آئی کا سابق طالب علم رہنماء خالد نورانی تھا اور دوسرا شخص لیٹ اس بلڈ پاکستان کا بانی ایڈیٹر (خدا جانے اس کا اصل نام کیا تھا؟ کہاں کا رہنے والا تھا اور کس شعبے سے تعلق تھا مگر تھا مرد قلندر، خدا کرے وہ زندہ ہو اور حفاظت سے ہو) عبدل نیشا پوری تھا۔

پاکستان میں مین سٹریم میڈیا اور سول سوسائٹی کے شیعہ نسل کشی پہ ابہام پرست ڈسکورس نے کافی حد تک پسپائی کرنا شروع کردی تھی اور آج کم از کم ایک بہت بڑی تعداد شیعہ نسل کشی کی اصطلاح استعمال کرنے میں شرم نہیں کرتی اور مین سٹریم میڈیا اب نہ صرف پاکستان میں شیعہ پہ ہونے والے حملوں میں شیعہ شناخت اور شیعہ عبادت گاہوں پہ حملوں کا واضح ذکر کرتا ہے بلکہ لبرل انگریزی پریس اسے زیر بحث بھی لاتا ہے۔اگرچہ ابھی تک پاکستان کا ایک بہت بڑی لبرل اور لیفٹ سرکل شیعہ نسل کشی کو غلط بائنری اور غلط مساوات کے طور پہ دیکھنے سے باز نہیں آیا ہے۔مگر آج تک پاکستان کا انگریزی پریس اور سول سوسائٹی صوفی سنّی آبادی کی مارجنلائزیشن اور صوفی سنّی پروفیشنل ، علماء ، سیاسی کارکنوں پہ ہونے والے حملوں میں ان کی شناخت کو گول کرجاتا ہے اور اس ایشو کو سرے سے اہمیت دینے کو تیار نہ ہے۔اور یہ ایک ایسا محاذ ہے جس پہ کام کرنے والے محقق بہت ہی کم ہیں۔ریاض مالک کو ہم کسی حد تک عبدل نیشا پوری کا نعم البدل کہہ سکتے ہیں۔

یہ ایک اتفاق ہی تھا کہ شیعہ نسل کشی ، صوفی سنّی مارجنلائزیشن پہ میڈیا اور سول سوسائٹی کے مبہم اور گول مول ڈسکورس کو دریافت کرتے کرتے سوشل میڈیا پہ سرگرم، یونیورسٹیز میں اعلی سطح کا تحقیقاتی ریسرچ کا کام کرنے والے پروفیسرز اور سکالرز جنوبی ایشیا میں بالعموم اور پاکستان کے اندر بالخصوص دیوبند مدرسہ تحریک اور دیوبندی عسکریت پسندی کے مابین پائے جانے والے اتفاق اور اختلاف کے رشتوں کو دریافت کررہے تھے۔اور پاکستان میں شیعہ نسل کشی، صوفی سنّی مارجنلائزیشن، کرسچن ، ہندؤ، احمدی اور دیگر سیکشن پہ مسلط کی جانے والی دہشت گردی اور ان کے خلاف پھیلائی جانے والی منظم نفرت میں دیوبندی ریڈیکل آئیڈیالوجی اور اس پہ استوار دیوبندی عسکریت پسندی کے مرکزی کردار بارے وہ ایک مشترکہ نتیجے پہ پہنچتے جارہے تھے۔ان لوگوں نے محسوس کیا کہ میڈیا اور سول سوسائٹی کا

Faith Based Violece and militancy in Pakistan

بارے جو ڈسکورس ہے اس میں دیوبندی عسکریت پسندی اور اس کے دیوبند مدرسہ تحریک سے جو رشتے بنتے تھے اس بارے بھی بہت بڑا ابہام ہے۔لیٹ اس بلڈ پاکستان پہ لکھنے والے بلاگرز کی اکثریت نے اس معاملے کو دیکھنا شروع کیا تو میں نے یہ دیکھا کہ اس معاملے پہ ان کو سب سے پہلے خود اپنے اندر سے دو تین مرکزی بلاگرز اور ایڈمن ٹیم کی طرف سے مزاحمت کا سامنا ہوا اور جبکہ پاکستان میں لبرلز میں سے ایک بڑا غالب سیکشن تو اس سوال پہ تلواریں سونت کر کھڑا ہوگیا۔

پاکستان کا مین سٹریم میڈیا کا انگریزی پریس سیکشن ایسے لبرل کے کنٹرول میں تھا جو

Faith based violence
Faith based militancy

میں دیوبندی وائلنس اور دیوبندی عسکریت پسندی کے 90 فیصدی کردار کی نشاندہی کرنے کو بالکل بھی تیار نہ تھی اور نہ ہی وہ ان دونوں سے جڑی متشدد اور عسکریت پسند تنظیموں کی دیوبندی شناخت کا تذکرہ کرنے پہ تیار تھی۔پاکستان میں سول سوسائٹی کی اشرافیہ کی اکثریت بھی اسی کیمپ سے تعلق رکھتی ہے۔

اس معاملے پہ جلد ہی مجھ سمیت کافی سارے لوگوں پہ واضح ہوگیا کہ پاکستان میں پریس اور سول سوسائٹی سے تعلق رکھنے والا ایک بہت بڑا سیکشن جو نواز شریف کا حامی ہے اور عالمی سطح پہ اس کا نیٹ ورک امریکی-برطانوی نیولبرل سے جڑا ہوا ہے وہ دیوبندی عسکریت پسندی پہ ابہام اور پاکستان میں شیعہ،صوفی سنّی سمیت مذہبی بنیادوں پہ وآئلنس اور دہشت گردی کا شکار ہونے والے گروہوں کی مظلومیت میں دیوبندی عسکریت پسندی کے غالب کردار پہ پردہ ڈالنا چاہتے ہیں۔اور آج تک یہ پردہ ڈال بھی رہے ہیں۔ان کی جانب سے دیوبندی عسکریت پسندی اور اس کے عالمی جہادی نیٹ ورک سے رشتوں پہ ابہام کا پردہ زیادہ تر دہشت گردی کی وارداتوں کے بارے میں بات کرتے ہوئے ‘سنّی دہشت گرد’ ، سنّی شدت پسند تنظیم یا زیادہ کیا تو کبھی کبھار سلفی جہادی شدت پسند کی اصطلاح کا استعمال ان کے خام تبصروں کی نشاندہی کرتی ہے۔

س حوالے سے ابتک مستند محققین اور دانشوروں کی تحقیق کے نتیجے میں ایک بہت ہی اعلی معیار کے تحقیقاتی ریسرچ پیپرز کے مجموعے پہ مشتمل کتاب

Faith Based Violence and Deobandi Militancy In Pakistan

سامنے آچکی ہے جس پہ انٹرنیشنل سطح پہ کافی بہتر تبصرے سامنے آئے ہیں۔پاکستان کا لبرل سیکشن اس کتاب سے واقف ہے لیکن وہ اس پہ بھولے سے بھی ایک لفظ نہیں لکھتا کیوں کہ اس میں موجود مقالے ان کے ڈسکورس کے کھوکھلے پن کو واضح کرتے ہیں

اب اس کمرشل لبرل مافیا کی جانب سے بڑی شد و مد کے ساتھ دیوبندی عسکریت پسندی کے وسیع نیٹ ورک اور اس مشین کی ہلاکت خیزی کو بریلوی اور شیعہ کے انفرادی متشدد اور وآئلنٹ ردعمل کے مساوی اور برابر دکھانے پہ زور لگایا جارہا ہے۔اور ایک غلط و جھوٹی مساوات ثابت کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔

Comments

comments