پاکستان کا کمرشل لبرل مافیا اور انگریزی پریس – عامر حسینی
پاکستان کا انگلش لبرل پریس ہو یا انٹرنیشنل لبرل پریس —– اس پریس پہ اس وقت غالب بیانیہ تشکیل دینے والا لبرل سیکشن کی بھاری اکثریت امریکہ کی دہشت گردی کے خلاف جنگ سے بننے والے بیانیہ اور ڈسکورس کی حامی ہے۔اور یہ لبرل سیکشن حیرت انگیز طور پہ مڈل ایسٹ میں شام، یمن سمیت امریکہ کی ‘رجیم بدلو’ پالیسی کے تحت پراکسیز اور ‘تکفیری دہشت گردوں اور آئیڈیالوجیز’ کو آکسجین پہنچانے والے اقدامات کا حامی ہے۔پاکستان میں لبرل انگریزی پریس کے منظر نامے پہ چھائے تجزیہ کاروں کے پروفائل ‘وڈررو ولسن’ ، کارینگی انڈومنٹ ، ہوسٹن یونیورسٹی کے ڈیموکریسی پراجیکٹ کے تحت فیلو شپس وغیرہ کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں۔اور اس انگریزی لبرل پریس سیکشن کے مہان اور اشراف صحافیوں اور تجزیہ کاروں کا تکفیری فاشزم ہو، بلوچ نسل کشی ، اقلیتوں کے حقوق کے مسائل ہوں یا اور دیگر چیزیں ہوں تجزیہ آخری معنوں میں امریکی نیولبرل ازم کی چاکری اور نوکری کے سوا کچھ بھی نہیں ہے۔
اس لبرل سیکشن کا سب سے بڑا جرم تو یہ ہے کہ اس نے پاکستان کے اندر ‘سرمایہ داری اور بربریت پہ مبنی جنگوں ‘ کے درمیان تعلق اور ان کی باہمی رشتہ داری کو
صرف اور صرف ‘ بربریت و ملٹری سرمایہ ‘ کی رشتہ داری میں بدل کر دیکھنے اور دکھانے پہ اصرار کیا ہے۔
اور پاکستانی لبرل سیکشن کے اندر سے پیدا ہونے والا کمرشل ازم اسقدر بددیانت ہے کہ اس نے پاکستان کے اندر شیعہ نسل کشی کی سب سے زیادہ نفی کی ، اس نے پاکستان کے اندر تکفیری فاشزم کے مذہبی اقلیتوں پہ حملوں کو ‘شیعہ۔سنّی ‘ بائنری اور ‘شیعہ۔سنّی’ جھگڑا بناکر رکھایا۔
ہیرالڈ، نیوز لائن، نیوز ویک ، دی اکنامسٹ، نیویارک ٹائمز، واشنگٹن پوسٹ، ویکلی فرائیڈے ٹائمز ان سب میں نیولبرل ازم کا حامی پاکستانی لبرل سیکشن میں غالب یہ ٹولہ سعودی۔ایران، شیعہ۔سنّی فریم ورک اور غلط بائنری اس لئے آگے بڑھاتا رہا ہے کیونکہ یہ امریکی ریاست کے نیولبرل بیانیہ میں مڈل ایسٹ کے ایشو پہ بنیادی عنصر کی حثیت رکھتی ہیں۔
جب آپ امریکہ کی
regime change policy and proxy based interventions in Libya , Syria and Yemen
کا جائزہ لیں اور ویکی لیکس، سعودی لیکس کو پڑھیں جس کا بہت تفصیلی تجزیہ مجھ سمیت کئی اور بلاگرز نے کیا اور ایل یو بی پاک پہ وہ موجود ہے تو آپ کو پتا چلے گا کہ آخر خالد احمد،اعجاز حیدر، رضا رومی، شیریں رحمان سمیت انگریزی لبرل پریس سیکشن میں چھائے یہ لوگ پاکستان میں شیعہ نسل کشی کے سوال پہ ‘ایران۔سعودیہ’ اور ایسے ہی ‘شیعہ۔سنّی ‘ بائنری اور اس فریم ورک کی جگالی کیوں کرتے رہتے ہیں۔
ان لوگوں نے کسی اتفاقیہ وجوہ سے طاہر اشرقی،لدھیانوی اور ان جیسوں کو ماڈریٹ ملّا کے طور پہ پرموموٹ نہیں کیا تھا بلکہ یا ایک منظم منصوبہ بندی تھی۔
پاکستان کا یہ انگریزی لبرل اشراف سیکشن پاکستان کے مین سٹریم میڈیا پہ اینکرز اور ٹاک شوز میں پروگراموں کے میزبانوں کے طور پہ تیزی سے سامنے آیا اور ان کا پاکستان کے اندر ‘شیعہ نسل کشی ‘ پہ سارے کا سارا تجزیہ کیا تھا:
‘یہ لدھیانوی، طاہر اشرفی ، امین شہیدی،ثروت قادری،مفتی نعیم وغیرہ کو بلاتے،اس طرح سے یہ تاثر دیتے کہ یہ اصل میں شیعہ۔سنّی جھگڑا ہے اور یہ مسلکی تاریخی تنازعہ ہے، ایران و سعودی عرب کی پراکسی ہے’
اس کمرشل لبرل پریس سیکشن کا ایک اور بھیانک روپ یہ تھا کہ اس نے مین سٹریم میڈیا پہ پہلی بار ‘محرم، میلاد کے جلوس اور ان سے جڑے کلچر’ کو چار دیواری کے اندر بند کرنے کو ریشنل بنانے کی کوشش کی۔تکفیری اور جہادی اس پہ مذہبی سمت سے حملہ آور ہورہے تھے تو پاکستانی کمرشل لبرل مافیا اس پہ ریشنل ازم، روشن خیالی کے اینڈ سے حملہ آور ہورہا تھا۔کیا حامد میر، کیا نجم سیٹھی اور کیا دوسرے نام نہاد لبرل یہ سب کے سب پہلے سے نسل کشی اور حملوں کی زد میں آئی کمیونٹی کو ہی شیطان بناکر دکھانے میں مصروف تھے
یہ لبرل سیکشن وہ ہے جو برصغیر پاک و ہند کے کمپوزٹ کلچر، تکثریت پسندی، سیکولر اور لبرل فکر پہ بات کرنا صرف اپنا حق شمار کرتا ہے اور ایک طرح سے ان کو پیٹنٹ کراچکا ہے اور اس کے جملہ حقوق اپنے نام محفوظ کرنا چاہتا ہے لیکن اس کے ‘کمپوزٹ کلچر ‘ ، سیکولر ازم ، تکثریت Pluralism سے ‘محرم اور میلاد ‘ کا کلچر اور ثقافت خارج ہے اور یہ ان پہ الحادیت ، اینٹی ریلجن ، ریشنل اور روشن خیالی کے اینڈ سے حملہ آور آتا ہے۔جب اس کی توجہ اس جانب دلائی جاتی ہے تو یہ اسٹبلشمنٹ کے ایجنٹ ، بوٹ پالشیہ کی گردان کرنے لگتا ہے
نواز شریف اینڈ کمپنی پاکستان کے اندر بالعموم اور پنجاب کے اندر بالخصوص وہابی الٹرا کنزرویٹوازم کو ریڈیکل تکفیری دیوبندی-سلفی وہابی نیٹ ورک کے زریعے سے رائج کرنے کے پروجیکٹ کا اہم ترین کردار ہے اور مذکورہ بالا لبرل سیکشن نواز شریف کا رائٹ ہینڈ بنا ہوا ہے۔
یہ پاکستان میں تکفیری -جہادی سلفی-دیوبندی وہابی نیٹ ورک کو ایک بڑی مضبوط لابی کے طور پہ پاکستانی ریاست کے اداروں ، سول سوسائٹی کے اندر موجود ہونے اور بطور ایک حقیقی وجود کے طور پہ پاکستان میں سرگرم دکھانے کی بجائے اسے زیادہ سے پاکستانی ملٹری اسٹبلشمنٹ اور کم از کم آئی ایس آئی کی ایک پراکسی بتاتا ہے۔جبکہ اس کے نزدیک ملٹری اسٹبلشمنٹ ایک جملہ وحدت ہے جس کا سارا وزن پی ٹی آئی، عوامی تحریک اور اس کے جملہ اتحادیوں کے پلڑے میں ہے جبکہ آج کل یہ بھول کر بھی یہ بتانے کی کوشش نہیں کرتا کہ نواز شریف اور اس کے اپنے اتحادیوں کے ملٹری اسٹبلشمنٹ ہو یا امریکہ سمیت عالمی قوتیں ہوں یا سعودی عرب وغیرہ ہوں ، جوڈیشری اسٹبلشمنٹ ہو یا صحافتی اسٹبلشمنٹ ہو اور مذہبی اسٹبلشمنٹ ہوں ان میں اس کی کیا جڑیں اور اور کیا تعلق ہیں۔یہ لبرل سیکشن ‘صداقت کے ایک جزو ‘ کو کل بناکر دکھانے کی کوشش کرتا ہے اور اس میں ہی اس کی زندگی ہے