پنھل ساریو کی جبری گمشدگی : ریاست کب شہریوں کا تحفظ کرے گی؟ – محمد عامر حسینی
’میرے بابا بے قصور ہیں۔ ادبی بیٹھک ’خانہ بدوش‘ کے لیے حیدرآباد سے تین اگست 2017ء کی شام وہ باہر نکلے تو سادہ کپڑوں میں ملبوس سکیورٹی اہلکاروں نے ان کو اغوا کرلیا اور تب سے وہ لاپتہ ہیں۔ وہ دل کے مریض اور ہائی شوگر کے عارضے میں مبتلا ہیں۔ ان کو ادویات نہ ملیں تو ان کی طبعیت بگڑ سکتی ہے۔ہم سب گھر والے بہت پریشان ہیں،ان کو بازیاب کرایا جائے‘۔
یہ سندھی دانشور اور وائس فار مسنگ پرسن سندھ کے ڈائریکٹر پنھل ساریو کی بیٹی ماروی ساریو کے بیان کا خلاصہ ہے جو سماجی رابطے کی ویب سائٹ فیس بک پہ بنے ان کے آفیشل فیس بک اکاؤنٹ پہ 4 اگست 2017ء کو سندھی زبان میں ظاہر ہوا۔
پنھل ساریو جوکہ کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان، نیشنل عوامی پارٹی- نیپ سمیت بائیں بازو کی مختلف جماعتوں سے وابستہ رہے اور جی ایم سید کی فلاسفی کے سچے پیرو خیال کیے جاتے ہیں اور عدم تشدد کے فلسفے کے مبلغ بھی ہیں، ان دنوں پاکستان میں جبری گمشدگان کی بازیابی کے لئے مصروف جدوجہد تھے۔
انھوں نے سندھ میں بڑھتی ہوئی جبری گمشدگیوں کے خلاف جدوجہد کرنے کے لیے ’وائس فار مسنگ پرسنز‘ تشکیل دی اور اس فورم سے انھوں نے پورے سندھ میں اس ایشو پہ اہم کردار ادا کیا۔
گزشتہ ماہ انھوں نے اس فورم کے تحت حیدرآباد پریس کلب سے لے کر کراچی پریس کلب تک ایک پیدل لانگ مارچ کی قیادت بھی کی تھی۔
پنھل ساریو ’وائس فار مسنگ پرسنز‘ کے تحت حیدرآباد میں سندھی دانشوروں اور قلم کاروں میں اس مسئلے پہ اتفاق رائے پیدا کرنے کے لیے چار اگست 2017ء کو حیدرآباد پریس کلب میں اہل قلم کانفرنس کا انعقاد کرنے جارہے تھے اور اس حوالے سے وہ مشاورت کے لئے سندھی دانشوروں، شاعروں، ادیبوں کے لیے قائم کیفے خانہ بدوش میں آئے تھے۔
مشاورت کرنے کے بعد جب وہ کیفے سے باہر آئے تو سادہ لباس میں ملبوس چند افراد نے ان کو اغوا کرلیا اور اس کے بعد سے وہ لاپتا ہیں۔
ان کی جبری گمشدگی و اغوا کی ایف آئی آر درج کرانے کے لیے جب ان کی اہلیہ صغریٰ ساریو، حیدرآباد پریس کلب کے سابق صدر اور روزنامہ ہلچل کے ایڈیٹر مھیش کمار سمیت صحافی اور سول سوسائٹی کے افراد تھانہ قاسم آباد پہنچے تو ایس ایچ او نے ان کی جبری گمشدگی کی درخواست پہ مقدمہ درج کرنے سے انکار کردیا۔
جس کے بعد ان کی اہلیہ کی جانب سے سندھ ہائی کورٹ کے حیدرآباد بنچ میں اندراج مقدمہ کے لیے کیس دائر کردیا گیا ہے۔
حیدرآباد پریس کلب میں چار اگست کی شام کو ’اہل قلم کانفرنس‘ منعقد ہوئی جس میں سندھ بھر سے دانشور، ادیب ، شاعر اور صحافی شریک ہوئے۔
اس کانفرنس کی صدارت جبری گمشدہ پنھل ساریو کی اہلیہ صغریٰ ساریو نے کی۔
اس موقعہ پہ خطاب کرتے ہوئے پروفیسر اور سندھی دانشور جامی چانڈیو نے سندھ اسمبلی کا اس ایشو پہ اجلاس بلانے اور پنھل ساریو سمیت سب جبری گمشدگان کی بازیابی کا مطالبہ کیا۔
سندھ یونیورسٹی کی پروفیسر اور سندھ پروفیسر اینڈ لیکچررز ایسوس ایشن کی رہنما عرفانہ ملاح، اور ذوالفقار ہالیپوتو سمیت سندھی سول سوسآئٹی کے کئی اہم نام جو اس کانفرنس میں شریک تھے نے کہا کہ ان کو یقین ہے کہ پنھل ساریو کو جبری گمشدہ اس لیے کیا گیا کہ وہ سندھ سمیت پورے ملک میں جبری طور پہ ہونے والی گمشدگیوں، ریاستی اداروں کی جانب سے ریاست اندر ریاست قائم کرنے کی روش کے خلاف آواز بلند کررہے تھے۔
انہوں نے کہا کہ پنھل کی جبری گمشدگی اس ایشو پہ سرگرم دوسرے افراد کو بھی ڈرانے، دھمکانے اور ان میں خوف پیدا کرنے کی کوشش ہے۔
کانفرس کے شرکا نے سندھ بھر میں پریس کلب کے سامنے احتجاجی مظاہرے کرنے کا اعلان کیا ہے۔
ادھر حیدرآباد پریس کلب میں جبری طور پہ گمشدہ افراد کے خاندان کے ارکان نے ہنگامی پریس کانفرنس کی۔
پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے چار ماہ سے جبری گمشدہ دانشور اور سماجی کارکن بابا خادم آریجو کی بیٹی تنویر آریجو نے کہا کہ وہ چار ماہ سے سخت ذہنی اذیت میں مبتلا ہیں اور ہر ایک فورم کا دروازہ کھٹکھٹا چکے لیکن اب تک ان کی آواز کہیں نہیں سنی گئی۔
انھوں نے کہا کہ ہم سندھ کے وزیر داخلہ سہیل انور سے ملے تو انھوں نے جواب دیا کہ ان کے بابا کی بازیابی ان کے بس کی بات نہیں ہے۔
گوٹھ ہاشم سے اغوا ہونے والے رضا جریوار کے وارث سلیم جریوار کا کہنا تھا کہ ان کے چچا کو ایک سال پہلے گوٹھ ہاشم سے اٹھایا گیا اور اب تک کوئی ادارہ یہ مان کے نہیں دیتا کہ ان کے چچا کو انھوں نے اٹھایا ہے اور اسی طرح جسقم کے کارکن عرفان کنڈیارو کے بیٹے سجاد کنڈیارو کا کہنا ہے کہ ان کے بابا کو بھی مبینہ طور پہ ایجنسیوں نے اٹھاکر لاپتہ کیا ہے اور اب تک ان کی بازیابی کی کوئی صورت نہیں نکلی۔
’پچھلے کچھ عرصے میں اندرون سندھ سے 65 کے قریب سیاسی کارکنوں، انسانی حقوق کے ورکروں اور دانشور و ادیبوں کو جبری طور پہ لاپتا کیا گیا ہے۔ جن کے کیسز عدالتوں میں ہیں اور ان میں سے کوئی کیس بھی ایسا نہیں جس کی ایف آئی آر متعلقہ تھانے میں رضاکارانہ طور سندھ پولیس نے درج کی ہو بلکہ ہائی کورٹ یا سپریم کورٹ کی مداخلت کے بعد مقدمے درج کیے گئے۔ لیکن ان کی بازیابی کا ابھی تک دور دور تک کوئی پتا نہیں ہے‘، یہ بات ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کراچی ٹاسک فورس کے رہنماء اسد اقبال بٹ نے راقم سے بات چیت کے دوران کہی۔
جبری گمشدگی کے واقعات سب سے زیادہ بلوچستان میں، اس کے بعد خیبرپختون خوا اور تیسرے نمبر پہ سندھ میں رونما ہورہے ہیں جبکہ پنجاب، سرائیکی خطے میں بھی جبری گمشدگی کے واقعات میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہے۔
جون اور جولائی میں کراچی اور جنوبی پنجاب کے اندر تواتر سے زیارات سے واپس لوٹنے والے شیعہ نوجوانوں کو جبری لاپتہ کرنے کے واقعات بھی رپورٹ ہوئے جن میں سے اکثر کا ابھی تک کچھ پتا نہیں۔
بلاگرز کے ساتھ لاپتہ ہونے والے شیعہ ہیومن رائٹس ایکٹوسٹ ثمرعباس کہاں ہیں کوئی نہین جانتا۔
بی ایس او آزاد کے ترجمان شبیر بلوچ اور رہنما زاہد بلوچ سمیت درجنوں طلب علم لاپتہ ہیں۔
بلوچ دانشور ڈاکٹر دین محمد بلوچ آٹھ سال سے لاپتا ہیں اور ان کی بیٹی سمی بلوچ ان کی بازیابی کے لیے مسلسل احتجاج کررہی ہیں۔
وائس فار بلوچ مسنگ پرسن کے ماما قدیر اورنصر اللہ بلوچ کے احتجاجی کیمپ اب تک کوئٹہ پریس کلب میں لگے ہیں لیکن کوئی شنوائی نہیں ہورہی۔
جبری گمشدگی کے معاملے پر حیرت انگیز طور پہ ریاستی سطح پہ قائم انسانی حقوق کی پامالی کا جائزہ لینے والے اداروں کی کوئی حوصلہ افزا کارکردگی سامنے نہیں آسکی ہے۔
نیشنل کمیشن فار ہیومن رائٹس، قومی اسمبلی و سینٹ انسانی حقوق کی کمیٹیوں نے بھی اس غیر آئینی،غیر قانونی اور غیر انسانی پریکٹس اور روش کو رکوانے کے لئے کوئی قابل زکر اقدام نہیں اٹھائے ہیں۔ لاپتا افراد کی بازیابی کے لئے سابق جسٹس جاوید اقبال کی سربراہی میں قائم ہونے والا کمیشن بھی آنکھوں میں دھول جھونکنے والا کمیشن نظر آتا ہے۔
قومی اسمبلی، سینٹ، صوبائی اسمبلیوں میں اس اہم ایشو پہ کوئی باقاعدہ بحث دیکھنے کو نہیں ملی جبکہ ایجنسیوں کی جانب سے کسی بھی گرفتار کیے گئے شخص کو 24 گھنٹوں میں عدالت میں پیش کرنے کا جو قانون پاس ہوا اس پہ کوئی عمل درآمد نہیں ہوا بلکہ یہ ادارے تو اٹھائے گئے افراد کی گرفتاری سے ہی یکسر انکاری ہوجاتے ہیں۔
گزشتہ مہینوں میں جبری طور پہ اٹھائے گئے بلاگرز میں سے بلاگر احمد وقاص گواریا نے حال ہی میں اپنے ایک ٹویٹ میں کہا ہے کہ ان کے چچا کے گھر پر خود کو آئی ایس آئی کے اہلکار ظاہر کرنے والے چند افراد نے دھاوا بولا اور ان کے اہل خانہ کو سخت دھمکیاں دی گئیں اور کہا گیا کہ اگراحمد وقاص سوشل میڈیا پہ اپنی سرگرمیوں سے باز نہ آئے تو اس کے انہیں ( چچا اور اہل خانہ کو) سخت نتائج بھگتنا ہوں گے۔
اس سے پہلے بی ایس او کی خاتون رہنما کریمہ بلوچ نے ایک ٹویٹ میں الزام عائد کیا تھا کہ سکیورٹی ایجنسی کے لوگ ان کے گھر گئے اور ان کی بہن سمیت ان کے اہل خانہ کو ڈرایا دھمکایا گیا کہ کریمہ کو سیاسی سرگرمیوں سے باز آنے اور بلوچستان بارے عالمی فورمز پہ بات کرنے سے روکا جائے ورنہ ان سب کو خطرناک نتائج بھگتنا ہوں گے۔
پنھل ساریو سمیت سبھی جبری گمشدگان کی بازیابی کے سلسلے میں وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو خاطر خواہ اقدامات اٹھانے اور پاکستان کی جمہوی سیاسی جماعتوں کی قیادتوں کو اس ایشو پہ اپنی خاموشی کو توڑنے کی ضرورت ہے۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کے بارے میں شکوہ شکایات کرنے والے سیاست دان آخر جبری گمشدگیوں اور انسانی حقوق کی پامالی پہ اس طرح سے متحرک کیوں نہیں ہیں جس طرح سے ان کو متحرک نظر آنا چاہئیے؟
جبری گمشدگیوں کے معاملے پہ سوال سوسائٹی اور مین سٹریم ميڈیا کے کردار پہ بھی سوال اٹھائے جارہے ہیں۔
پنھل ساریو کی جبری گمشدگی پہ مین سٹریم میڈیا خاموش ہے اور اس ایشو کا اب تک کسی ایک ٹاک شو میں ذکر تک نہیں ہوا۔
سول سوسائٹی پہ سوال کیا جارہا ہے کہ وہ چند خاص کیسز میں تو بہت سرگرم نظر آتی ہے لیکن اس کی جانب سے جبری گمشدگی کے ایشو پہ کوئی ملک گیر احتجاج اور تحریک کو منظم کرنے کی جانب کوئی ٹھوس کوشش نظر نہیں آئی۔
جبری گمشدگیوں پہ پنجاب اور وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں بھی کوئی بہت بڑا احتجاج اور شور دیکھنے کو نہیں ملا۔ سندھ و کراچی میں جن کارکنوں نے اس ایشو پہ آگے بڑھ کر موثر احتجاج اور سرگرمی دکھانے کی کوشش کی ان کو اٹھالیا گیا۔
واحد بلوچ، ڈاکٹر ریاض، پنھل ساریو سندھ اور کراچی میں اس ایشو کے گرد تحریک بنانے کی کوشش میں ہی اٹھائے گئے۔
ڈاکٹر ریاض اور واحد بلوچ دباؤ کے بعد رہا تو کردیے گئے لیکن جبری گمشدگان پہ بننے والا مومینٹم بھی کمزور کردیا گیا۔
اس لیے کئی ایک لوگوں کا خیال ہے کہ اس ایشو تقسیم ہو کر اور الگ الگ کام کرنے کی بجائے ملک گیر تحریک کی ضرورت ہے۔
Source:
http://nuktanazar.sujag.org/missing-persond-punhal