حکومت کو سندھ میں کالعدم شدت پسند تنظیم اہل سنت والجماعت کی سرگرمیوں پر تشویش
حکومت پاکستان نے سندھ میں کالعدم شدت پسند تنظیم اہل سنت والجماعت کی سرگرمیوں پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔
نیشنل کاؤنٹر ٹیررازم اتھارٹی نے سندھ کے محکمہ داخلہ کو تحریری طور پر اپنی اس تشویش سے آگاہ کیا ہے۔
پاکستان میں انسداد دہشت گردی کے لیے بنائے گئے ادارے نیکٹا کے مطابق اندرون سندھ میں اہل سنت والجماعت نے سنی رابطہ کمیٹی کے نام سے اپنے منشور، جھنڈے اور قیادت کے ساتھ سرگرمیاں جاری رکھی ہوئی ہیں۔
نیکٹا نے تنظیم کی سرگرم قیادت کی بھی نشاندھی کی ہے، خط میں کہا گیا ہے کہ اہل سنت و الجماعت کے صوبائی نائب صدر مولانا منظور سولنگی قمبر شہداد کوٹ میں سنی رابطہ کمیٹی کی قیادت کر رہے ہیں جبکہ حافظ محمد ریاض میمن، اشرف میمن اور الیاس فاروقی ضلعہ سجاول میں آرگنائزر کے طور پر کام کر رہے ہیں۔
مولانا منظور سولنگی بلوچستان سے تعلق رکھتے ہیں اور تقریباً 20 سال قبل وہ شھداد کوٹ منتقل ہوئے تھے، یہاں وہ کچھ مدارس کے منتظم بھی ہیں۔ شہر میں ان میں سے ایک مدرسہ سرکاری سکول کی عمارت کے اوپر اور ایک قبرستان کے پلاٹ پر تعمیر کیا گیا ہے۔ ان مدارس میں سندھ اور بلوچستان کے طالب علم زیر تعلیم ہیں۔ اسی طرح سجاول میں حافظ محمد ریاض میمن، اشرف میمن اور الیاس فاروقی مقامی سیاست میں سرگرم ہیں۔
پاکستان میں آرمی پبلک سکول پر حملے کے بعد ملک میں شدت پسندی کی روک تھام کے لیے قومی ایکشن پلان تشکیل دیا گیا تھا۔ صوبائی حکومت کو آگاہ کیا گیا ہے کہ سنی رابطہ کمیٹی کی سرگرمیاں قومی ایکشن پلان کی خلاف ورزی ہیں جس کے شق سات کے مطابق کالعدم تنظیمیوں کے دوبارہ فعال ہونے پر پابندی ہے۔
اہلسنت و الجماعت کے سربراہ مولانا احمد لدھیانوی کا کہنا ہے کہ کام کرنے کے لیے کوئی نہ کوئی پلیٹ فارم تو بنانا ہی ہوتا ہے، یہاں شیعہ علما کاؤنسل بنانے کی اجازت ہے تو سنی علما کاؤنسل بنانے کی کیوں نہیں۔ ایک ملک میں دو قانون کیوں ہیں۔
پاکستان میں 2002 میں دیگر کئی جماعتوں اور گروہوں کے ساتھ سپاہ صحابہ پاکستان پر پابندی عائد کردی گئی تھی۔ اس جماعت پر مذہبی شدت پسندی اور فرقہ واریت کو بڑھاوا دینے کے الزام عائد کیے گئے، جس کے بعد یہ جماعت ملت اسلامیہ اور اہل سنت والجماعت کے نام سے اپنے منشور اور جھنڈے کے ساتھ سرگرم عمل رہی ہے۔
مولانا احمد لدھیانوی کا کہنا ہے کہ جماعتوں پر پابندی کسی مسئلے کا حل نہیں، مسائل کے حل کے لیے ہمیشہ مذاکرات ہوا کرتے ہیں۔
’میں میڈیا پر بیٹھ کر، سٹیجوں پر چڑھ کر یہ کہہ چکا ہوں کہ ہمارا دہشت گردی اور فرقہ واریت پھیلنے سے کوئی تعلق نہیں۔ اگر کسی کے پاس ثبوت ہیں تو سامنے لے کر آئے اور مجھے عدالت میں طلب کرلیں۔ اگر جرم ثابت ہو جائے تو ملک کے رائج قانون کے مطابق سزا دے دیں۔‘
نامور تجزیہ نکار اور مصنف ڈاکٹر عائشہ صدیقہ کا کہنا ہے کہ قومی ایکشن پلان میں سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ یہ ایک بیورو کریٹک سسٹم ہے، کس تنظیم کو کیسے اور کس وقت کالعدم قرار دیا جائے گا یہ طریقہ کار واضح نہیں ہوسکا ہے۔
وہ کہتی ہیں ’یہ تنظمیں اوپر سے نہیں آئیں، ان کی جڑیں معاشرے میں موجود ہیں اور ان کا ایک ووٹ بینک بھی ہے۔‘
اہل سنت و الجماعت مذہبی جماعتوں کے اتحاد، دفاع پاکستان کا اہم حصہ رہی ہے جبکہ گزشتہ بلدیاتی اور عام انتخابات میں حصہ لے چکی ہے۔ گزشتہ چند عرصے سے یہ جماعت دیگر ہم خیال جماعتوں سے مل کر سیاسی عمل میں شرکت کی کوشش کرتی آئی ہے۔
مولانا لدھیانوی کے مطابق وہ قومی سیاسی دھارے میں شامل ہوکر عمل سے ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ وہ ملک کی خدمت کرنا چاہتے ہیں اور ان کا کوئی قدم ریاست کے خلاف نہیں ہوگا۔
’یکم دسمبر 2016 کو جو الیکشن ہوا ہمارے مد مقابل حکمران مسلم لیگ ن، پاکستان پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف کے امیدوار تھے، لیکن سارے شکست کھا گئے اور مولانا مسرور کامیاب ہوئے۔ اس سے قبل ہمیں بلدیاتی انتخابات میں پشاور، ایبٹ آباد، بٹ گرام، مانسہرہ سے بھرپور کامیابی ملی۔‘
واضح رہے کہ بلدیاتی انتخابات راہ حق پارٹی کے پلیٹ فارم سے لڑے گئے۔
ڈاکٹر عائشہ صدیقہ کا کہنا ہے کہ سابق ڈائریکٹر جنرل آئی ایس آئی رضوان اختر کی یہ سوچ تھی کہ ان لوگوں کو قومی دھارے میں شامل کریں اور انہیں سیاست میں لائیں۔
’اس عمل میں حکومت کا کنٹرول ہونا چاہیے جو اس وقت نہیں ہے۔ کیونکہ جب آپ انہیں سیاست میں لائیں گے تو یہ معاشرے پر زیادہ اثر انداز ہوں گے۔ یہ فوج کا منصوبہ ہے اس پر کئی سوال اٹھ سکتے ہیں اور اس کے تجزیے کی ضرورت ہے۔‘
اہل سنت والجماعت آئندہ انتخابات میں حصہ لینے کے لیے بھی سرگرم ہے۔ مولانا لدھیانوی کا کہنا ہے کہ ملک میں ہر حلقے میں ان کے کم از کم سات سے آٹھ ہزار ووٹ موجود ہیں، ہم پر انتخابات میں حصہ لینے پر کوئی پابندی نہیں کیونکہ پاکستان کا آئین ہمیں الیکشن لڑنے سے نہیں روکتا اور اسی آئین کا سہارا لیکر 2018 کے انتخابات میں ہم پوری تیاری کے ساتھ میدان میں آئیں گے اور تنظیمی نام کوئی بھی لے لیں گے۔‘
جھنگ سے صوبائی حلقے میں انتخابات میں کامیابی حاصل کرنے والے مولانا مسرور نواز جھنگوی نے جمعیت علما اسلام ف میں شمولیت اختیار کی۔ ڈاکٹر عائشہ صدیقہ جمعیت علما اسلام کو سپاہ صحابہ کی ’مدر‘ آرگنائزیشن قرار دیتی ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ مولانا حق نواز جہنگوی نے جو 1988 میں جھنگ سے پہلا انتخاب لڑا تھا وہ جمعیت علما اسلام کے پلیٹ فارم سے تھا اور یہی پلیٹ فارم ہے جو وہ ہر جگہ استعمال کرتے ہیں۔
پاکستان کے انتخابی قوانین کے مطابق کامیاب امیدوار نے کسی نہ کسی پارٹی میں شمولیت اختیار کرنی ہوتی ہے۔
تو کیا اہل سنت و الجماعت کی ترجیح جمعیت علما اسلام ہوگی؟
مولانا احمد لدھیانوی کا کہنا ہے کہ وہ دیکھیں گے کون ان کے قریب ہے اور کس سے فائدہ ملے گا اور ان تمام چیزوں کو سامنے رکھ کر فیصلہ کیا جائے گا۔
Source:
http://www.bbc.com/urdu/pakistan-40278635