مڈل ایسٹ میں لگی آگ کیسے بجھائی جاسکتی ہے – محمد عامر حسینی

نیویارک ٹائمز نے ایرانی پارلمینٹ اور ایران کی شورائے نگہبان کے پہلے سربراہ روح اللہ خمینی کی قبر پہ ہونے والے دہشت گرد حملے پہ امریکی انتظامیہ کے ردعمل بارے جو تفصیل اپنے پڑھنے والوں کو دی ہے اسے پڑھ کر انا للہ پڑھنے کو دل کرتا ہے۔

Trump Has Busy Day in Vortex of Middle East Relations

کے عنوان سے چھپنے والا یہ تجزیہ بہت کچھ سوچنے پہ مجبور کرتا ہے

نیویارک ٹائمز کو وائٹ ہاؤس کے زرایع سے یہ پتا چلا کہ سارا دن ٹرمپ انتظامیہ ایرانی پارلیمنٹ اور مقبرہ خمینی پہ ہوئے دہشت گرد حملوں پہ اپنے بیان کو ترتیب دینے کے لئے الفاظ کے چناؤ پہ غور کرتی رہی اور پھر کئی گھنٹوں کے بعد کہیں جاکر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا یہ بیان سامنے آیا

“We grieve and pray for the innocent victims of the terrorist attacks in Iran, and for the Iranian people, who are going through such challenging times,” Mr. Trump wrote. “We underscore that states that sponsor terrorism risk falling victim to the evil they promote.”

ہمیں دکھ ہے اور ہم ایران میں دہشت گردانہ حملوں کے نشانہ بننے والے معصوم لوگوں اور ایرانی عوام کے لئے دعاگو ہیں،جوکہ ایسے پرخطر ادوار کا سامنا کررہے ہیں،ہم پھر نشاندہی کرنا چاہتے ہیں کہ جو ریاستیں دہشت گردی کو سپانسر کرتی ہیں وہ خود اپنی فروغ دی ہوئی برائی کا شکار ہونے کا خطرہ مول لیتی ہیں۔

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے لئے ایران پہ داعش کا حملہ خفت کا باعث اس لئے بنا ہے کہ گزشتہ ماہ ڈونلڈ ٹرمپ نے ریاض میں سعودی عرب کی میزبانی میں ہونے والی کانفرنس میں ایران کو دہشت گردوں کا سب سے بڑا مددگار قرار دیا تھا۔اس کے بعد سے لیکر ابتک وہابی اور تکفیری آئیڈیالوجی رکھنے والی دہشت گرد تنظیم داعش نے برطانیہ میں دو،کابل میں تین ،بغداد میں ایک اور ایران میں دو بڑی کاروائیاں کی ہیں۔ اور ان پے درپے ہونے والے حملوں سے پوری دنیا کے اندر یہ سوال اٹھ کھڑا ہوا ہے کہ امریکی صدر اور اس کے گلف ریاستوں میں حاکم اتحادی دنیا بھر میں دہشت گردی کا ذمہ دار جس ملک کو ٹھہرارہے تھے وہ ملک دہشت گردی کا اسی طاقت کے ہاتھوں نشانہ بنا ہے جس کے ہاتھوں اس وقت یورپ اور امریکہ نشانہ بن رہے ہیں۔

امریکہ میں صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی مخالف ڈیموکریٹک پارٹی کے اراکین کانگریس، امریکی سینٹ کے ممبران اور اوبامہ انتظامیہ میں اہم عہدوں پہ فائز سابق حکام نے ڈونلڈ ٹرمپ کی مڈل ایسٹ بارے پالیسی اور ابتک کے طرز عمل کو خود امریکہ کے لئے نقصان دہ قرار دیا ہے۔امریکی صدر کی سعودی عرب کے ساتھ اسلحے کی ڈیل بارے بھی یہ خبریں سامنے آنے لگی ہیں کہ اس حوالے سے کانگریس میں اس ڈیل کو ویٹو کرانے کی کوشش کی جارہی ہے۔امریکہ میں ٹرمپ کے ناقدین نے یہ کہنا شروع کردیا ہے کہ مڈل ایسٹ میں ایران اور سعودی عرب کے درمیان امریکہ کو جس توازن کو برقرار رکھنے کی اشد ضرورت ہے اسے ٹرمپ نے گنوادیا ہے۔صرف ایران ہی کے بارے میں نہیں بلکہ قطر کے معاملے میں ٹرمپ نے توازن بری طرح سے کھودیا ہے۔مڈل ایسٹ میں امریکیوں کو سعودی عرب کی چوہدراہٹ کے قیام کے منصوبے کو فی الفور ترک کردینے کی ضرورت ہے کیونکہ اس سے امریکہ مڈل ایسٹ میں قطر، کویت ، عمان جیسے ملکوں سے بھی کئی معاملات میں الگ ہوگا اور اسے عالمی سطح پہ روس اور چین کے ساتھ بھی معاملات افہام و تفہیم سے حل کرنے میں مشکلات کا سامنا ہوگا۔

بیروت میں مقیم صحافی مارٹن جے جنھوں نے اپریل میں اپنے ایک آرٹیکل میں یہ پیشن گوئی کی تھی کہ مڈل ایسٹ میں سعودی عرب جس لائن کی پیروی کی گلف تعاون کونسل کے ممبران سے توقع کررہا ہے وہ پوری ہونے والی نہیں ہے۔لیکن مارٹن جے نے رشیا ٹوڈے ٹی وی کے ایک ٹاک شو میں بات کرتے ہوئے کہا کہ قطر بارے جس شدت اور جس معیار کا ردعمل سعودی عرب کی جانب سے آیا ہے اسے اتنی شدت کی توقع نہیں تھی۔

امریکی صحافی ریمنڈ بریٹ نے 6 جون 2017ء کو شایع ہونے والے اپنے آرٹیکل میں قطر بارے سعودی عرب کی پالیسی پہ اظہار خیال کرتے ہوئے جو بات لکھی اس سے سے زیادہ صفائی کے ساتھ کسی اور صحافی نے نہیں لکھا۔ان کا کہنا ہے

 

The more heinous sin for which Doha is being punished is its willingness to acknowledge that Iran occupies a position as an important regional power and that political Islamists like Hamas and Hezbollah have a role to play in determining the future of the Middle East. To put it bluntly, Qatar is being penalized for refusing to accept the status quo of the past 40 years, and for daring to challenge the conventional wisdom in the gulf that bashing Tehran, buttressing military strongmen and suppressing political Islamism are the right path for the region.

“دوحہ کو جس سنگین ترین جرم کی سزا دی گئی وہ ہے ایران کو خطے کی اہم قوت تسلیم کرنا اور سیاسی اسلام پسندوں جیسے حماس اور حزب اللہ ہیں کو مڈل ایسٹ کے مستقبل کا تعین کرنے میں اہم طاقتور گروپ شمار کرنا۔قطر نے اسے بہت ہی کھل کر گزشتہ 40 سالوں مين مڈل ایسٹ کے مستقبل بارے پائے جانے والے سٹیٹس کو کو تسلیم کرنے سے انکار کیا اور اس نے گلف میں تہران کو برا بھلا کہنے ،فوجی مرد آہن کو مکھن لگانے اور سیاسی اسلام ازم کو سزا دینے کو علاقے میں ٹھیک راستا قرار دینے والی کی روائیتی دانش اور فکر کو چیلنج کیا ہے جس سے سعودی عرب،امریکہ اور اسرائیل کو اتفاق نہیں ہے

اور یہ اتفاق مصر کے موجودہ فوجی رجیم کو بھی نہیں ہے۔صاف دیکھا جاسکتا ہے کہ مصر اور بحرین کی حکومتوں کو قطر کی اخوان المسلمون کی حمایت قبول نہیں ہے تو اسرائیل کو حماس کی، ایسے ہی یمن میں سعودی۔امریکی کٹھ پتلی حکومت منصور ہادی عبدربہ کی حکومت کے لئے بھی یہ قابل قبول نہیں ہے کہ قطر اخوان کو سپورٹ کرے اور ساتھ ہی حوثی قبائل بارے نرم رویہ رکھے۔

مڈل ایسٹ کا معاملہ بہت پیچیدہ ہے۔ایران،روس، شام، لبنانی حزب اللہ،عراقی کرد ،شامی کرد شام اور عراق میں داعش اور سعودی عرب کے حمایت یافتہ وہابی جہادی نیٹ ورک سے لڑرہے ہیں۔امریکی اگر شامی کردوں اور عراقی کردوں کو سپورٹ کررہے ہیں تو دوسری جانب شام کے اندر ہی وہ سعودی عرب کے حامی وہابی جہادیوں جیسے نصرہ فرنٹ وغیرہ ہے کی حمایت کررہے ہیں۔سعودی عرب بظاہر داعش کے خلاف ہے لیکن وہ مشرقی عوامیہ صوبے میں شیعہ اکثریتی آبادی کے خلاف سلفی وہابی تکفیری قوتوں کو حملوں کا راستا بھی دے رہا ہے۔

حال ہی میں انسٹیوٹ آف گلف افئیرز کی ایک رپورٹ سامنے آئی ہے جو یہ انکشاف کرتی ہے کہ سعودی عرب کی سکالر شپ پہ آنے 400 سے زائد سعودی طالب علم جو امریکی یونیورسٹیوں میں زیرتعلیم تھے انھوں نے داعش میں شمولیت اختیار کرلی اور اس بات کا سعودی حکام کو علم تھا لیکن انہوں نے اس سے امریکی ریاست کو آگاہ نہیں کیا۔یورپ اور امریکہ میں اپنی حکومتوں کے خلاف عوام کے اندر بے چینی موجود ہے اور وہ اپنی حکومتوں کی سعودی عرب سے اسٹریٹجک پارٹنر شپ اور مڈل ایسٹ میں عسکری مداخلتوں اور سعودی پراکسیز کی مدد کرنے کی افادیت پہ سوال اٹھانا شروع ہوگئے ہیں۔

امریکہ اور یورپ میں مڈل ایسٹ بارے بااثر حلقوں میں اب یہ سوچ جنم لے رہی ہے کہ سعودی عرب اور ایران کے درمیان جو پوائنٹ آف نو ریٹرن کی پوزیشن ہے اسے واپس ہونا چاہئیے۔کیا ایران اور سعودی عرب کے درمیان اس وقت جو شدید قسم کی محاذآرائی ہے اسے کم کیا جاسکتا ہے؟ اس حوالے سے غیر جانبدار تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ایک طرف تو ایران اور سعودی عرب کے درمیان اس وقت شدید تناؤ میں کمی نہ آنے کی سعودی عرب کی جانب سے سب سے بڑی روکاوٹ وہابی سلفی مذہبی اسٹبلشمنٹ اور خود سعودی شاہ سلیمان اور ان کے بیٹے ولی عہد وزیر دفاع محمد بن سلیمان کا غیر لچکدار رویہ ہے۔دوسری جانب ایرانی سخت گیر پاسداران انقلاب ، ایرانی سپریم کونسل کی قیادت اور ایرانی شیعی سخت گیر فار رائٹ ہے۔

ایرانی صدر حسن روحانی اور ان کی کابینہ ایران میں اعتدال پسندی کی ترجمان قوت ہے جسے ایرانی پاسداران انقلاب ، قدامت پرست عدلیہ اور خامنہ ای کی قیادت میں کام کرنے والی سپریم کونسل اور ان کے سخت گیر پیروکار گروپ کی مزاحمت کا سامنا ہے۔حال ہی میں ایران پہ ہوئے حملے پہ روحانی کا ردعمل اور پاسداران انقلاب کا ردعمل دونوں کے درمیان پائے جانے والے سوچ اور حکمت عملی کے فرق کو ظاہر کرنے کے لئے کافی ہے۔بلکہ سعودی مذہبی اسٹبلشمنٹ اور ایرانی مذہبی اسٹبلشمنٹ کے سخت گیر عناصر کے اقدامات ایک دوسرے کو مضبوط کرنے کا سبب بن رہے ہیں۔

اور بدقسمتی یہ ہے کہ یورپ اور امریکہ کی حکومتیں سعودی عرب کی حکومت کی مہم جوئی کی حوصلہ شکنی کرنے کی بجائے اس کی پیٹھ تھپک رہی ہیں۔اور اس سے مڈل ایسٹ میں عقابی طاقتوں کو تقویت ملنے کے ساتھ ساتھ جنگ کے پھیل جانے کے خدشات بڑھتے جاتے ہیں۔جنگ اور خون ریز تصادم اور پراکسی جنگوں کے آگے چل کر کھلے تصادم میں بدل جانے سے بچنے کے لئے عالمی طاقتوں کو مڈل ایسٹ کےتمام اہم کھلاڑیوں کے درمیان بات چیت کا راستا کھولنے کا دروازہ تلاش کرنا بہت اہم ہوگیا ہے ورنہ اس آگ میں ساری دنیا بری طرح سے جھلس جائے گی۔

Comments

comments