بوڑھے پرندے مرنے کہاں جاتے ہیں؟ ارون دھتی رائے ترجمہ : عامر حسینی
ارون دھتی رائے کا 20 سال بعد دوسرا ناول شایع ہونے جارہا ہے۔ناول کا نام ہے ‘دی منسٹری آف اٹ موسٹ ہیپی نیس’۔برطانوی اخبار دی گارڈین کی ویب سائٹ پہ اس ناول کا پہلے دو ابواب کا متن دیا گیا ہے۔یہاں اس کے پہلے باب کا ترجمہ دیا جارہا ہے جو عامر حسینی نے کیا ہے۔اس ناول کی کہانی ایک ھیجڑے انجم کے گرد گھومتی ہے جو کہ گجرات انڈیا میں ہوئے فسادات سے بچ کر دلی میں ایک سرکاری ہسپتال کے قبرستان کے عقب میں بنے قبرستان میں گھر بناکر رہنے لگتا ہے۔
وہ قبرستان میں ایک درخت کی طرح رہتی تھی۔صبح طلوع شمس کے وقت وہ کوؤں کو اترتا دیکھتی اور چمگادڑوں کی گھر واپسی کو خوش آمدید کہتی۔شام ڈھلے وہ اس کا الٹ کرتی۔ان بدلاؤ کے درمیان وہ گدھ پرندوں کے بھوتوں سے ملتی جو اس کی بلند شاخوں سے لٹکے رہتے تھے۔وہ ان کے پنچوں کی نرم سی گرفت ایسے محسوس کرتی جیسے مصنوعی لگائی گئی ٹانگ میں درد سا محسوس ہوتا ہے۔وہ ان کو اکٹھا کرتی اور وہ بھی سب اپنے لئے کوئی بہانہ گھڑکر اکٹھے ہونے سے ناخوش نہ ہوتے اور کہانی سے جوش میں آجاتے۔
جب وہ پہلی بار یہاں آئی تواس عمومی بے رحمانہ ظلم کو سہا جیسے ایک درخت سہتا ہے۔ بنا جھکے۔وہ پیچھے مڑکر یہ نہیں دیکھتی تھی کہ کس چھوٹے بچے نے اس پہ پتھر پھینکا تھا،وہ گردن اٹھاکر اپنی بارک پہ لکھے ہتک آمیز جملے نہیں پڑھا کرتی تھی۔۔۔۔۔ سرکس کے بغیر جوکر، محل کے بغیر شہزادی۔۔۔۔۔۔۔۔وہ اپنی شاحوں کے نیچے سے اس بے عزتی کو گزرنے دیتی بالکل تیز ہوا کی طرح اور اپنے پتوں کی سرسراہٹ کی موسیقی کو درد کو کم کرنے والی بام کے طور پہ استعمال کرتی تھی۔
یہ سلسلہ تب ختم ہوا جب ضیاء الدین نے جو کہ نابینا امام تھا اور کبھی فتحپوری مسجد میں نمازیں پڑھاتا تھ اسے دوست بنالیا اور اس سے ملنے آنے لگا تو اس کے پڑوس نے فیصلہ کیا کہ یہ وہ وقت ہے جب اسے سکون سے رہنے دیا جائے۔
بہت پہلے ایک شخص جو انگریزی جانتا تھا نے اسے بتایا تھا کہ اس کا نام شکستہ سی انگریزی میں مجنوں لکھا تھا۔لیلی مجنوں کی کہانی کے انگزیزی روپ میں مجنوں کو رومیو اور لیلی کو جولیث کہا گیا تھا۔اس نے اسے بہت مضحکہ خیز پایا۔”تمہارا کہنے کا مطلب ہے کہ میں نے ان کی کہانی کی کھچڑی بنادی ہے”۔اس نے پوچھا۔”وہ کیا کریں گے جب ان کو معلوم پڑے گا کہ لیلی ہوسکتا ہے اصل میں مجنون ہو اور رومیو اصل میں جولی؟اگلی دفعہ جب اس نے اسے دیکھا ،آدمی جو انگریزکی جانتا تھا نے کہا کہ اس نے غلطی کی تھی۔اس نام کے ہجے ایم یو جے این اے،جو کہ نہ تو نام ہے اور نہ اس کے کوئی معنی۔اس سب کے لئے اس نے کہا،”کوئی مسئلہ نہیں۔میں وہ سب ہوں،میں رومی اور جولی،میں لیلی اور مجنوں۔اور مجنا کیوں نہیں؟کون کہتا ہے میرا نام انجم ہے؟میں انجم نہیں انجمن ہوں۔میں ایک محفل ہوں،میں ایک مجلس ہوں۔میں ہر کوئی ہوں اور کوئی نہیں بھی ہوں۔سب کچھ ہوں اور کچھ بھی نہیں ہوں۔کسی کو تم مدعو کرنا پسند کرتی ہو۔ہر کوئی مدعو ہے۔
انگریزی سے واقف بندے نے کہا کہ اس طرح سے ساتھ آنا اس کی دانائی ہے۔اس نے کہا کہ اس نے خود سے یہ کبھی سوچا بھی نہیں تھا۔اس نے کہا،”تم اپنا معیار اردو کیسے برقرار رکھ سکتے ہو؟تم کیا سوچتے ہو؟ انگریزی کیا خودبخود تمہیں چالاک بناڈالتی ہے۔
وہ ہنسنے لگا۔اس نے بھی اس کے ہنسنے پہ قہقہ لگایا۔انہوں نے ایک فلٹر سگریٹ شئیر کی،اس نے شکایت کی کہ ولز نیوی کٹ سگریٹ کمیاب ہیں اور اتنے چھوٹے ہیں کہ ان کی اتنی قیمت بھرنی بنتی نہیں۔اس نے کہا کہ وہ ان پہ فور اسکوائر یا بہت زیادہ مردانہ ریڈ اینڈ وائٹ کو ترجیح دیتی ہے۔
اسے اب اس کا نام بھی یاد نہیں رہا تھا۔شاید وہ اس کا نام کبھی جانتی ہی نہیں تھی۔بہت پہلے وہ جاچکا تھا،وہ آدمی جو انگريزی جانتا تھا وہاں چہاگیا جہاں اسے جانا تھا۔سرکاری ہسپتال کے پیچھے وہ قبرستان میں رہ رہی تھی۔کمپنی کے لئے وہ لوہے کی ایک الماری رکھتی تھی جس میں وہ اپنا میوزک رکھتی تھی۔۔۔۔۔سکریچ ریکارڈز اور ٹیپ ۔۔۔پرانا سا ہارمونیم،اس کے کپڑے، زیورات،اس کے باپ کی شاعری کی کتابیں،اس کے فوٹو البم اور کچھ پریس کلپنگ جو خواب گاہ میں لگی آگ میں جلنے سے بچ گئیں تھیں۔وہ اس کی چابی کو چاندی کی ٹوتھ پک کے ساتھ ایک سیاہ ڈوری میں باندھ کر گلے میں لٹکائے رہتی تھی۔وہ ایک ادھڑے ہوئے فارسی قالین پہ سوتی جسے دن کو وہ تالے میں رکھتی اور اسے رات کو دو قبروں کے درمیان بنی جگہ پہ کھول دیتی ( پرائیویٹ جوک تھا کہ ہر راتوں کو ایک جیسے دو نہ ہوے تھے)۔وہ اب بھی سگریٹ پیتی تھی۔اب بھی نیوی کٹ۔
ایک صبح ،جب اس نے بوڑھے امام کے لئے اخبار کو اونچی آواز میں پڑھا،جو کہ اسے اچھی طرح سے نہیں سن رہا تھا نے پوچھا۔۔۔۔۔عمومی چلتی ہوا پہ اثر انداز ہوا۔”کیا یہ سچ ہے کہ یہاں تک کہ ہندؤ جو تم میں ہیں وہ بھی دفنائے جاتے ہیں جلائے نہیں جاتے؟
مشکل کا احساس کرتے ہوئے اس نے حیل حجت کی۔”سج؟”کیا یہ سچ ہے”۔”سچ کیا ہے؟
وہ اپنی انکوائری کی لائن سے ہٹنے کو تیار نہ تھا،امام نے میکانکی ردعمل دیا۔”سچ خدا ہے”۔یہ ایسی ہی دانش تھی جو ہائی وے سڑکوں پہ موجود ٹرکوں کے پیچھے لکھی ہوتی ہے۔پھر اس نے اپنی اندھی سبز آنکھوں کو اور سیکڑا اور سرگوشی کی: “مجھے بتاؤ، آپ لوگ جب مرجاتے ہو تو کہاں دفن ہوتے ہو؟مردوں کو نہلاتا کون ہے ؟ان کی نماز جنازہ کون ادا کرتا ہے؟
کچھ دیر تو انجم نے کچھ نہ کہا۔پھر وہ تھوڑا سا جھکی اور پھر واپس سرگوشی کی،غیر شجر کی طرح،”امام صاحب،جب لوگ رنگوں کے بارے میں بات کرتے ہیں۔۔۔۔۔سرخ،نیلا،اورنج،جب وہ غروب آفتاب کے وقت آسمان کی بات کرتے ہیں یا رمضان کے دنوں میں چاند کے دیکھے جانے کی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔تمہارے دماغ میں کیا چل رہا ہوتا ہے ؟
ایک دوسرے سے زخم خوردہ ہوتے ہوئے،بہت گہرائی میں ، قریب قریب فنا ہوتے ہوئے دونوں کسی کی روشن قبر،جریان خون کی طرح پہلو بہ پہلو خاموشی سے بیٹھے تھے۔بتدریج یہ انجم تھی جس نے خاموشی کو توڑا۔
اس نے کہا”تم مجھ سے پوچھتے ہو”۔”تم امام صاحب ہو،میں نہیں۔بوڑھے پرندے مرنے کہاں جاتے ہیں؟کیا وہ آسمان سے پتھروں کی طرح ہم پہ گرپڑتے ہیں؟کیا ہم ان کے جسموں کو گلیوں میں ٹھوکر مارتے پھرتے ہیں؟کیا تم نہیں سوچتے کہ سب کچھ دیکھنے والی ذات اللہ عزوجل جو ہمیں اس دنیا پہ لاپٹکتی ہے اس نے ہمیں لیجانے کے لئے مناسب انتظامات نہیں کئے ہوں گے؟
اس دن امام کی ملاقات معمول سے زرا پہلے ختم ہوگئی۔انجم نے اسے رخصت ہوتے دیکھا،قبروں کے درمیان سے ٹک ٹک ٹک کرتے ہوئے اس کی چھڑی موسیقی سی پیدا کرتی تھی جب وہ خالی بوتلوں اور خراب سرنجوں سے ٹکراتی جو اس کے راستے میں پڑی تھیں۔اس نے اسے روکا نہیں۔وہ جانتی تھی وہ واپس آئے گا۔کوئی مسئلہ نہیں کیسے اس کا ڈرامہ سامنے آتا ہے۔وہ تنہائی کو جان کئی تھی جب اس نے اسے دیکھا تھا۔وہ سمجھ گئی تھی کہ ایک عجیب سے منحرفانہ راستے پہ اسے جتنا اس کو اس کا سایہ درکار تھا اتنا ہی اسے اس کی ضرورت تھی۔اور اس نے تجربے سے سیکھ لیا تھا ضرورت ایک وئیر ہاؤس ہے جوکہ قابل ذکر بے رحم ظلم کی مقدار کو اکاموڈیٹ کرسکتی ہے۔
اگرچہ انجم کی خواب گاہ سے رخصتی بہت ہی ناخوشگوار تھی،مگر وہ جانتی تھی کہ تنہا اسے ہی اپنے خوابوں اور رازوں سے جدا ہونا نہیں پڑا تھا۔