مشعال خان کی روح بے چین رہے گی!

گزشتہ ماہ مردان کی عبدالولی خان یونیورسٹی میں ایک طالبعلم مشعال خان کو تشدد کرکے قتل کرنے کے معاملہ میں جو معلومات سامنے آئی ہیں، وہ یہ واضح کرتی ہیں کہ توہین مذہب کے معاملہ میں جھوٹا الزام لگانے کے بعد خواہ ملک کا وزیراعظم اور چیف جسٹس انصاف فراہم کرنے کا وعدہ اور کوشش کریں لیکن اس بارے میں تعصب اور بدگمانیاں دور نہیں ہوتیں۔ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس میاں ثاقب نثار سوموٹو نوٹس کے تحت اس معاملہ کی نگرانی کر رہے ہیں اور اس جرم میں ملوث لوگوں کو کیفر کردار تک پہنچانے کے عزم کا اظہار کر چکے ہیں۔ تاہم آج کی سماعت کے دوران مشعال خان کے والد اقبال خان کی طرف سے عدالت کو بتایا گیا کہ اس قتل کے بعد مشعال خان کی بہنوں کےلئے اپنے علاقے میں تعلیم حاصل کرنا دشوار ہو چکا ہے۔ اس لئے ان کی تعلیم کا اسلام آباد میں انتظام کیا جائے۔ چیف جسٹس نے واضح کیا کہ یہ اقدام عدالت کے دائرہ اختیار میں نہیں ہے لیکن حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ تمام شہریوں کو تحفظ اور بنیادی سہولتیں فراہم کرے۔ اقبال خان نے اپنے بیٹے کے قتل کی تفصیل بتاتے ہوئے یہ بھی کہا ہے کہ ہجوم 5 گھنٹے تک مشعال خان کو تشدد کا نشانہ بناتا رہا اور اس کے مرنے کے بعد بھی لاش کی بے حرمتی کی جاتی رہی۔ اس موقع پر اعلیٰ افسروں سمیت پولیس کی نفری وہاں موجود تھی لیکن انہوں نے مداخلت نہیں کی۔ انہوں نے استغاثہ کے اس دعویٰ پر کہ اس مقدمہ میں کل 53 افراد گرفتار کئے جا چکے ہیں، عدالت کو بتایا کہ پولیس نے صرف ایکٹر پکڑے ہیں، ڈائریکٹرز کو گرفتار نہیں کیا گیا۔

چیف جسٹس نے بھی اس پر حیرت کا اظہار کیا ہے کہ اس معاملہ کی پہلے سے منصوبہ بندی کی جا رہی تھی اور اس میں یونیورسٹی کے حکام کے ملوث ہونے کی اطلاعات بھی سامنے آئی ہیں لیکن ابھی تک اس حوالے سے نہ تو تحقیقات مکمل کی گئی ہیں اور نہ ہی یونیورسٹی کے حکام کے خلاف کوئی کارروائی کی گئی ہے۔ انہوں نے یہ بھی واضح کیا ہے کہ اگر مشعال خان قتل کی واردات میں پولیس نے کوتاہی اور درگزر سے کام لیا ہے تو یہ ایک سنگین معاملہ ہے جس کی تحقیق ہونی چاہئے۔ گزشتہ ماہ مشعال خان کے بہیمانہ قتل کی ویڈیو منظر عام پر آنے کے بعد قوم پر سکتہ طاری ہو گیا تھا۔ عبدالولی خان یونیورسٹی کے طالب علموں کے ایک گروہ نے  توہین مذہب پر مبنی پوسٹ فیس بک پر لگانے کا الزام عائد کرتے ہوئے مشعال خان پر حملہ کیا تھا۔ اس موقع پر سینکڑوں دیگر طالب علم بھی موجود تھے لیکن انہوں نے مداخلت کرنا ضروری نہیں سمجھا۔ اس کی ایک وجہ تو ملک میں فروغ پانے والی عمومی بے حسی ہے لیکن اس رویہ کی اہم ترین وجہ یہ تھی کہ حملہ آوروں نے مشعال خان پر توہین مذہب کا جھوٹا الزام عائد کیا تھا اور وہ بزعم خویش حرمت رسولؐ کا تحفظ کرنے کےلئے ایک نوجوان کو قتل کرنے کے ارادے سے آئے ہوئے تھے۔ ملک میں کسی بھی معاملہ میں الزام لگنے کے بعد عدالت سے ریلیف ملنے کا امکان بھی ہوتا ہے اور لوگ بھی عمومی طور پر ملزم کو اس وقت تک قصور وار نہیں سمجھتے جب تک عدالت میں نامزد شخص گناہ گار ثابت نہ ہو جائے اور اسے اس کے جرم کی سزا نہ دے دی جائے۔ تاہم توہین مذہب کے بارے میں الزام ایک ایسا دعویٰ ہے جس کےلئے کسی کو ثبوت لانے یا دلیل دینے کی ضرورت پیش نہیں آتی اور یہ الزام لگانے کے بعد متعلقہ شخص کو کسی بھی طریقہ سے ہلاک کرنے کو جائز اور درست رویہ سمجھا جاتا ہے۔

مشعال خان کے معاملہ میں توہین مذہب کے الزام کے حوالے سے مروج کئے جانے والا رویہ خاص طور سے سامنے آیا ہے۔ ماضی میں بھی متعدد معاملات میں یہ واضح ہو چکا ہے کہ ذاتی دشمنی نکالنے ، جائیداد کا جھگڑا نمٹانے، کوئی انتقام لینے یا کسی غلط فہمی کی بنا پر کوئی بھی شخص کسی پر بھی توہین مذہب کا مرتکب ہونے کا الزام عائد کرکے اس کی ہلاکت کا سبب بن سکتا ہے۔ ایسی صورت میں الزام لگانے والا تو پس منظر میں چلا جاتا ہے لیکن مشتعل ہجوم علاقے کے کسی مولوی کی سربراہی میں حملہ کرنے اور ’’ملزم کو کیفر کردار تک پہنچانے‘‘ کا فریضہ پورا کرنے میں سرگرم ہو جاتا ہے۔ اگر ایسا کوئی مظلوم ان حملہ آوروں کی دست برد سے بچ بھی جائے تو جیل ہی اس کا مقدر ٹھہرتی ہے۔ جیسا کہ ایمنسٹی انٹرنیشنل گزشتہ سال اپنی رپورٹ میں واضح کر چکی ہے کہ توہین مذہب کے الزام کو ناقابل ضمانت قرار دے کرجھوٹے الزام میں پھنسائے گئے لوگوں پر ظلم کیا گیا ہے۔ اس طرح مقدمہ کی سماعت اور عدالت کے فیصلہ تک وہ جیل سے باہر نہیں آ سکتے۔ جیل میں بھی اس بات کا اندیشہ موجود رہتا ہے کہ کوئی گمراہ شخص دینی فریضہ سمجھتے ہوئے ایسے شخص کو قتل کر دے گا۔ زیریں عدالتوں پر چونکہ مذہبی جماعتوں کا خوف طاری رہتا ہے اس لئے برس ہا برس تک نہ تو کوئی جج ایسا معاملہ سننے پر آمادہ ہوتا ہے اور نہ ہی اس الزام میں قید لوگوں کو آسانی سے وکیل میسر آتا ہے۔

مشعال خان کیس میں یہ واضح ہو چکا ہے کہ اس پر توہین مذہب کے الزامات بے بنیاد تھے۔ اس کے علاوہ پورے ملک کے عوام، خیبر پختونخوا حکومت، قومی اسمبلی اور وزیراعظم نے اس قتل کی مذمت کی ہے اور ملزموں کو کیفر کردار تک پہنچانے کے عزم کا اظہار کیا ہے۔ اس کے باوجود مشعال خان کی بہنوں اور دیگر اہل خاندان کو اپنے ہی علاقے میں سکون سے زندگی بسر کرنا محال ہو رہا ہے۔ پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان مشعال کے اہل خانہ سے تعزیت کےلئے خود اس علاقے میں گئے تھے۔ لیکن اس کے باوجود یہ تعصب اور شبہ اس گاؤں و قصبہ کے لوگوں میں سرایت کر چکا ہے کہ شاید مشعال خان توہین مذہب کا مرتکب ہوا ہو۔ اس لئے اس کی حمایت میں آواز اٹھا کر کہیں ہم بھی ’’جہنمی‘‘ نہ ہو جائیں۔ اس خوف نے ہی کئی نسلوں پر محیط تعلقات کو ختم کرتے ہوئے اہل علاقہ کو مشعال خان کے جنازہ میں شرکت نہ کرنے پر آمادہ کیا تھا۔ حتیٰ کہ گاؤں کے پیش امام نے بھی مرحوم کی نماز جنازہ ادا کرنے سے گریز کیا کہ مبادا وہ خود ہی توہین کا مرتکب نہ قرار پائے۔ بعد میں یہ خبر سامنے آئی تھی کہ صورتحال واضح ہونے پر علاقے کے لوگوں نے مشعال خان کے والد سے معافی مانگی ہے اور اس کی قبر پر جا کر فاتحہ خوانی بھی کی ہے۔ لیکن آج اقبال خان نے جو کچھ سپریم کورٹ کو بتایا ہے، اس کی روشنی میں یہ واضح ہوتا ہے کہ صورتحال میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔

یعنی ایک بے گناہ کو بعض خفیہ مقاصد کےلئے جھوٹے الزامات عائد کرکے سرعام تشدد کرکے ہلاک کر دیا جائے اور بعد میں یہ الزامات غلط ثابت ہو جائیں اور مقتول کو وسیع تر ہمدردی کا مستحق بھی قرار دیا جائے لیکن اس معاشرہ میں ایسے لوگ موجود رہیں گے جو مقتول کے اہل خاندان کا جینا حرام کرنے کی کوشش کرتے رہیں گے۔ یہی وجہ ہے کہ میڈیا کے علاوہ سیاسی لیڈروں کی طرف سے شدید مذمت کے بعد بھی مردان میں کئی ہزار لوگوں نے مشعال خان کے خلاف مظاہرہ کیا، اس کے قاتلوں کو مومنین قرار دیا اور بازار بند کروا کے یہ واضح کیا گیا کہ مشعال خان کو معاف نہیں کیا جا سکتا۔ اس مظاہرہ کا اہتمام کرنے والوں میں مردان کی ہر سیاسی پارٹی اور مذہبی گروہ کے لوگ موجود تھے۔ لیکن علاقہ پولیس، صوبائی حکومت یا وفاقی حکومت ان لوگوں کے خلاف کارروائی کرنے کا حوصلہ نہیں کر سکی۔ ملک میں اسلام اور مذہب کی تشریح کا ذمہ لینے والے علما اور اکابرین نے یہ واضح کر رکھا ہے کہ اس معاملہ میں نہ تو بات کی جا سکتی ہے ، نہ انصاف کی دہائی دی جا سکتی ہے اور نہ اس رویہ کو تبدیل کیا جا سکتا ہے۔ حکومت اپنی سیاسی مجبوریوں کی وجہ سے نام نہاد مذہبی طاقتوں کے اس طرز عمل کو مسترد کرنے اور ملک میں بے گناہ لوگوں کا خون بہانے کے مذموم طریقے کو ختم کروانے میں لاچار اور بے بس دکھائی دیتی ہے۔

قومی اسمبلی مشعال خان قتل کے بعد توہین مذہب کا غلط الزام لگانے والوں کے خلاف سخت کارروائی کرنے کی قرارداد منظور کر چکی ہے لیکن ملک کے قانون ساز اپنا حق استعمال کرتے ہوئے اس حوالے سے قانون بنانے میں ناکام ہیں۔ اس قرارداد میں گو کہ توہین مذہب کے قانون میں ترمیم کی بات نہیں کی گئی بلکہ بے بنیاد الزام لگانے والوں کی گرفت کےلئے قانون سازی کا ارادہ ظاہر کیا گیا تھا لیکن ملک کے معتبر ترین مذہبی رہنما مولانا فضل الرحمان نے فوری طور پر اس قرارداد کو توہین مذہب قانون میں ترمیم کا قصد قرار دیتے ہوئے سخت انتباہ جاری کرنا ضروری سمجھا۔ حکومت اس وارننگ پر سر جھکانے پر مجبور ہے کیونکہ مولانا فضل الرحمان مدرسوں کے لاکھوں طالب علموں کو سڑکوں پر لانے کی دھمکیاں دیتے رہے ہیں اور سیاسی طور پر حکومت کی مجبوری بھی بنے ہوئے ہیں۔

پاکستان کی حکومتیں جب تک ایسی مجبوریوں کی اسیر رہیں گی، اس وقت تک  اس ملک کے عوام کے حقوق کو مذہب کے نام پر مصلوب کرنے والے ضیا الحق کی روح شاد رہے گی اور مشعال خان جیسے مظلوموں کی روحیں انصاف کی تلاش میں بے چین رہیں گی۔ اور اس کا باپ اپنی بیٹیوں کی تعلیم کےلئے سپریم کورٹ کے آگے جھولی پھیلائے گا جس کے پاس اس جھولی میں ڈالنے کےلئے کچھ بھی نہیں ہے۔

Source:

http://urdu.shafaqna.com/UR/38684

Comments

comments