چین کا ون بیلٹ ون روڈ پروجیکٹ: کیا پاکستان سعودی۔ایرانی۔ہندوستانی میدان جنگ کے درمیان پھنسا نظر آتا ہے ؟ – عامر حسینی
پاکستانی فوج کے سابق سربراہ جب سے پرائیویٹ نجی طیارے میں ریاض پہنچے ہیں تاکہ 41 اراکین پہ مشتمل فوجی اتحاد کی کمانڈ کریں تب سے چیزیں بدتر ہوتی چلی جاتی ہیں۔
ابھی راحیل شریف کو سعودی عرب پہنچے زیادہ دن نہیں ہوئے تھے کہ سعودی عرب کے ولی عہد محمد بن سلیمان نے پاکستان کی جانب سے فوجی اتحاد میں ایران کو بھی شامل کرنے کی امید کو سرے سے رد کردیا۔
راحیل شریف کی امید یہ تھی کہ وہ پاکستان کے قریب ترین اتحادی سعودی عرب اور ایران جس کے ساتھ پاکستان کی سرحد ملتی ہے اور پاکستان شیعہ کمیونٹی کی تعداد کے اعتبار دوسرا بڑا ملک بھی ہے کے درمیان تعلقات میں توازن لانے میں کامیاب ہوجائیں گے۔لیکن راحیل شریف کا یہ عزم پہلے ہی مشن امپوسبل /ناممکن مشن میں بدلتا نظر آیا جب ابھی انھوں نے سعودی سرزمین پہ قدم بھی نہیں رکھا تھا اور سعودی عرب نے ایران کو دنیا کے لئے سب سے بڑا خطرہ قرار دے ڈالا۔
سعودی عرب کے سرکاری ٹی وی کو حال ہی میں دئے جانے والے انٹرویو میں سعودی ولی عہد جو کہ وزیر دفاع بھی ہیں نے ایک سینئر امریکی فوجی اہلکار کے بیان کی موافقت کرتے ہوئے ایران کی حکومت کو کمزور کرنے کے لئے ایران میں نسلی اقلیتوں کے ایرانی فارسی خواں اکثریت سے موجود تضادات سے فائدہ اٹھانے کا عندیہ دیا۔
اصل میں سعودی ولی عہد محمد بن سلیمان اور امریکی جنرل جوزف ایل وولٹل ،سربراہ امریکی سنٹرل کمانڈ کا مقصد ایرانی بلوچستان اور ایرانی تیل کے وافر ذخائر رکھنے والے عرب نژاد ایرانی اکثریتی آبادی کے صوبے خوزستان میں پہلے سے موجود وآئلنس میں اضافہ کرنا چاہتے ہیں۔
نسلی و فرقہ وارانہ وائلنس پہ مبنی پراکسی جنگیں سعودی۔ایران تنازعے میں ہندوستان اور چین کو بھی گھسیٹ کر لاسکتی ہیں جو ایک دوسرے کے حریف ہیں۔اس حوالے سے چین ون بیلٹ۔ون روٹ کے پروگرام کے تحت جو گوادر پورٹ کو ڈویلپ کررہا ہے اور اس سے 75 کلومیٹر دور چاہ بہار کو انڈیا ایران کے ساتھ ملکر ڈویلپ کررہا ہے جسے سعودی عرب بھی گلف سے ایشیاء کو تیل کی سپلائی کے سب سے بڑے سمندری راستے کے لئے ممکنہ خطرے کے طور پہ دیکھ سکتا دونوں اس بات کا امکان پیدا کرتے ہیں کہ چین، سعودی عرب، پاکستان ، انڈیا اور ایران باہمی کشاکش میں زیادہ ریڈیکل انداز میں سرگرم ہوجائیں۔
چین کے پروجیکٹ اور ہندوستان سے اس کی حریفانہ کشاکش اس علاقے کو سعودی۔ایران میدان جنگ میں بدل سکنے کے امکانات سعودی ولی عہد کے انٹرویو میں جنگ کو ایران کے اندر نا کہ سعودی عرب میں لڑنے کے اعلان نے بھی اور بڑھا دیا ہے۔
سعودی ولی عہد نے ایران سے نا صرف کسی بات چیت کو خارج از امکان قرار دیا بلکہ اس نے ایران سے اپنی دشمنی کو فرقہ وارانہ زبان میں بیان کیا۔
سعودی عرب کی جانب سے ایرانی حکومت سے منحرف ہونے والے گروپوں کی سپورٹ کا عندیہ اس وقت بھی سامنے آیا تھا جب گزشتہ سال جولائی کے مہینے میں سابق انٹیلی جنس چیف اور سعودی عرب کے امریکہ و برطانیہ میں رہے سابق سفیر پرنس ترکی الفیصل نے پیرس میں خود ساختہ جلاوطن دہشت گرد تنظیم مجاہدین خلق کی ریلی میں شرکت کی اور اس موقعہ پہ کہا: ” جلد بدیر آپ کی ایرانی رجیم کے خلاف جائز اور قانونی جدوجہد کامیابی سے ہمکنار ہوگی۔میں بھی ایرانی رجیم کو ٹوٹتا دیکھنا چاہتا ہوں”۔
جبکہ امریکی جنرل جوزف سربراہ سنٹرل کمانڈ نے فرقہ پرستانہ زبان استعمال کرنے سے گریز کرتے ہوئے امریکی سینٹ میں آرمڈ سروسز کمیٹی کو بتایا کہ ایران کی توسیع پسندی کو روکنے کے لئے ان کو ایران میں گرے زون کے اندر مصروف رکھنے کی کوشش ہے اور اس کے لئے ایران پہ مضبوط پابندیاں لگانا، شراکت دار دوست اقوام کی صلاحیتوں میں اضافہ کرنا جیسے اقدامات کئے جارہے ہیں۔۔۔۔۔۔اور ہم سمجھتے ہیں کہ پیش بندی کے طور پہ ان اقدامات کو اٹھاتے ہوئے ہم ایران کی جانب سے ممکنہ خطرات کو مستقبل میں کم سے کم کرسکتے ہیں۔
پرنس محمد نے اگرچہ یہ نہیں بتایا کہ وہ کیسے سعودی عرب کی بجائے جنگ کو ایران میں لیکر آئیں گے لیکن ایک سعودی تھنک ٹینک عربین گلف سنٹر فار ایرانین اسٹڈیز-اے جی سی آئی ایس نے حال ہی میں ایک ریسرچ اسٹڈی ” چاہ بہار پورٹ کی توسیع کے پروجیکٹ ” بارے جاری کی ہے اور اس میں کہا ہے کہ یہ پروجیکٹ عرب گلف ریاستوں کے لئے براہ راست خطرہ ہے جو کہ فوری اقدامات اٹھائے جانے کا متقاضی ہے۔
اس اسٹڈی کے مصنف محمد حسان حسین بر ہیں جو کہ اپنے آپ کو ایک ایرانی پولیٹکل ریسرچر کہتے ہیں نے یہ اسٹڈی کی ہے اور اے جی سی آئی ایس کے جرنل آف ایرانی اسٹڈیز میں شایع ہوئی ہے۔ان کا کہنا ہے کہ چاہ بہار ایک خطرہ ہے کیونکہ یہ ایران کا ہندوستانی مارکیٹ میں آئل ایکسپورٹ میں شئیر بڑھا دے گی اور ایسا سعودی عرب کی آغل ایکسپورٹ میں کمی سے ہوگی اور اس سے ایران کی غیر ملکی سرمایہ کاری، حکومتی آمدنی میں اضافہ ہوگا اور اس سے ایران کو گلف اور ہندوستانی اوشن /سمندر میں اپنی طاقت میں اضافہ کرنے میں مدد ملے گی۔
مصنف کا کہنا ہے کہ اگر سعودی عرب ایران میں کم سطح کی بلوچ شورش کو سپورٹ کرتا ہے تو اس سے ایران کی پیش رفت کو روکا جاسکتا ہے۔مسٹر حسین کا کہنا ہے کہ سعودی عرب پاکستان کو تیار کرسکتا ہے کہ وہ ایرانی بلوچوں کے لئے سعودی عرب کی کسی ممکنہ سپورٹ کے حوالے سے نرم رویہ اپنالے۔ گلف ریجن کی تاریخ میں عرب۔بلوچ اتحاد کی جڑیں کافی گہری ہیں اور یہ اتحاد فارسی غلبے کی مخالفت کرتا رہا ہے۔
یہ سکالر کہتا ہے کہ اگر علاقائی اور عالمی طاقتیں ایرانی بلوچستان میں بلوچ مزاحمتی گروپوں کی شورش اور وہابی عسکریت پسندوں کی مدد کریں تو نہ صرف ایرانی بلوچستان اور خوزستان میں ایرانی رجیم مصروف ہوگا بلکہ چاہ بہار کی حفاظت کے لئے اسے بڑے پیمانے پہ اقدامات اٹھانے پڑیں گے اور اس عمل سے ایرانی اپنے ہی ملک میں مصروف ہوجائیں گے۔
واشنگٹن میں قائم قدامت پرست امریکی تھنک ٹینک ہڈسن انسٹی ٹیوٹ جس کے ٹرمپ انتظامیہ کے ساتھ بہت گہرے تعلقات بن چکے ہیں نے بھی ایران کے اندر نسلی اقلیتوں کے ایرانی رجیم کے خلاف استعمال کرنے کے تصور کو اٹھایا ہے۔ انسٹی ٹیوٹ نے اس حوالے سے ایک سیمنار بھی رکھا ہے جس میں اہم مقرر بلوچ، ایرانی عرب،ایرانی کرد ،ایرانی آذربائجانی قوم پرست ہیں۔
سعودی عرب کے پاس بلوچستان میں پہلے سے ہی پراکسی وار لڑنے کے لئے لوگ موجود ہوسکتے ہیں۔سعودی حکام اور باشندے الٹرا کنزرویٹو دیوبندی مسلم مدرسوں کو فنڈ کرتے ہیں جن کو شیعہ مخالف عسکریت پسند چلاتے ہیں اور یہ بلوجستان کی دینی تعلیم کی لینڈ اسکیپ میں غالب حثیت رکھتے ہیں۔
سپاہ صحابہ پاکستان کے بانیوں میں شامل ایک سرگرم مولوی نے جیمز ایم ڈورسے کو بتایا کہ سکول جانے کی عمر کو پہنچنے والے بچوں کی اکثریت مدرسوں میں جاتی ہے۔اکثر مدرسے دیوبندی اور اہل حدیث چلارہے ہیں۔
اگرچہ سپاہ صحابہ پاکستان پہ پابندی کے بعد اس تنظیم کا نام اہل سنت والجماعت ہوگیا ہے لیکن یہ گروپ اکثر اپنے اصل نام سے ہی پہچانا جاتا ہے۔سپاہ صحابہ کے بانیوں میں سے ایک جو اگرچہ اب اس گروہ کو چھوڑ چکا ہے لیکن اس کے ساتھ ڈھیلے ڈھالے بندھن رکھتا ہے، وہ دیوبندی فرقے کا حوالہ دیتا ہے جس میں سعودی حمایت یافتہ انتہائی قدامت پرست شیعہ مخالف تحریک کے حامیوں کی تعداد بہت زیادہ ہے۔اور پاکستان میں اہل حدیث فرقہ بھی ہے جس کے اندر بھی سعودی عرب کے انتہائی قدامت پرست وہابی رجیم کی حمایت بہت زیادہ پائی جاتی ہے۔سپاہ صحابہ چھوڑ چکے سپاہ صحابہ کا یہ بانی رہنماء کہتا ہے کہ سعودی عرب سے جو فنڈز ان مساجد و مدارس کو آتے ہیں وہ عسکریت پسندوں تک جاتے ہیں۔اس رہنماء کے مطابق سپاہ صحابہ پاکستان/اہلسنت والجماعت اور لشکر جھنگوی کی قیادت بلوچستان میں مولانا رمضان مینگل اور مولانا ولی فاروقی کرتے ہیں جن کو حکومتی حمایت اور پاکستانی فوج کے اندر سے لوگوں کا تحفظ حاصل ہے اور یہ دونوں رہنماء سخت شیعہ مخالف اور شیعہ دشمن خیالات رکھتے ہیں اور اسی وجہ سے یہ دونوں رہنماء ایرانی حکوت کا ہدف ہوسکتے ہیں۔
اس رہنماء کا کہنا ہے کہ یہ دونوں رہنماء سعودی عرب سے انتہائی قریبی تعلقات رکھتے ہیں اور بلوچستان میں یہ دس گاڑیوں کے کانوائے کی شکل میں چلتے ہیں جبکہ ان کے ساتھ ایسے باڈی گارڈ بھی ہوتے ہیں جو ایف سی کے جوانوں جیسی یونیفارم پہنے رکھتے ہیں۔جبکہ رمضان مینگل کے مدرسے کے باہر حفاظت کے لئے پولیس گارڈ کھڑی رہتی ہے۔
سپاہ سے الگ ہونے والے رہنماء کا کہنا ہے کہ رمضان مینگل کو جو درکار ہوتا ہے سعودی سے مل جاتا ہے۔سپاہ صحابہ پاکستان اور لشکر جھنگوی سے قریبی تعلق اور حکومت نواز قبائلیوں سے بلوچستان میں تعلق کے سبب حکومت کی بلوچستان کے اندر عسکریت پسندی سے نمٹنے کی کوششوں میں خاصی بے قاعدگی اور بے نظمی نظر آتی ہے۔ایسے عسکریت پسند منشیات اور اسلحے کی اسمگلنگ کے زریعے سے آزادانہ زرایع سے بھی فنڈنگ لے لیتے ہیں۔
ایران امریکہ،سعودی عرب اور پاکستانی انٹیلی جینس ایجنسیوں پہ الزام عائد کرتا ہے کہ وہ بلوچستان کے اندر جند اللہ (سپاہ صحابہ سے نکلی تنظیم)سمیت ایران محالف عسکریت پسندوں کو سپورٹ کرتی ہیں۔جند اللہ کو طاقتور بلوچ قبیلے ريگی کے ایک نوجوان عبدالمالک ريگی نے قائم کیا اور اسے امریکہ و سعودی عرب نے تہران حکومت کو کمزور کرنے کے لئے مدد و حمایت فراہم کی تھی۔
دو ہزار دس میں عبدالمالک ریگی اس وقت ایرانی حکام کے قبضے میں آگیا جب وہ کرغزستان کے شہر بشکیک سے دبئی جارہا تھا اور اس کے طیارے کو ایرانی حکام کی درخواست پہ شارجہ کی طرف موڑ دیا گیا۔پھر اسے ایران میں پھانسی دے دی گئی۔پاکستانی فورسز نے کئی بار ایران سے تعاون کیا ہے اور بشمول ریگی کے بھائی کے کئی بلوچ منحرفین کو ایرانی حکومت کے حوالے کیا۔ پاکستانی سیکورٹی حکام کے مطابق پاک۔ایران سرحد کو وہ اکیلے محفوظ نہیں بناسکتے۔حال ہی میں دس ایرانی گارڈز کے جیش العدل کے ہاتھوں مارے جانے کے بعد پاکستان اور ایران نے ملکر ایک سرحدی کمیشن قائم کیا ہے جو کہ دونوں اطراف سے دہشت گردوں کی نقل و حرکت کو روکے گا۔
جند اللہ کے ساتھ 2006ء میں جو امریکی رابطے میں تھا اس کا نام تھامس میک ہالے بتایا جاتا ہے۔56 سالہ تھامس میک ہالے جوائنٹ ٹیررازم ٹاسک فورس کا حصّہ تھا اور یہ اکثر پاکستان اور افغانستان کے سرحدی علاقوں کا دورہ کرتا رہتا تھاہ۔مسٹر میک ہالے نے جند اللہ اور ریگی قبائل سے غیر رسمی طور پہ اور حکام کو بتائے بغیر بھی تعلقات قائم رکھے۔
میک ہالے 1993ء میں نیویارک ورلڈ ٹریڈ سنٹر پہ ہوئے حملوں سے بچ نکلا تھا اور اس نے نائن الیون کے حملے میں بچ جانے والوں کے ریسکیو کا کام کرنے سے پہلے بھی نام کمالیا تھا۔اس نے اولیور سٹون کی فلم ‘ورلڈ ٹریڈ سنٹر’ میں بھی کردار ادا کیا جس میں نکولس کیج نے پورٹ اتھارٹ؛ پولیس افسر کا کردار ادا کیا تھا۔
جند اللہ نے 2005ء ميں ایرانی صدر احمدی نژاد کے قافلے پہ حملہ کیا لیکن ایرانی صدر کو مارنے میں یہ ناکام رہے۔
اس حملے کی وجہ سے لڑکا بالا نظر آنے والا عبدالمالک ریگی ایران میں بلوچ جہاد کی نمائندہ تصور بن گئی۔اس حملے کے ایک سال بعد جند اللہ نے ایرانی پاسداران انقلاب کی بس پہ بم حملہ کیا۔جند اللہ نے جیش العدل جیسے گروپوں کو ساتھ ملایا ہوا ہے اور یہ ایرانی پاسداران انقلاب کے افسروں،سرحدی چیک پوسٹوں ، فوجی کانوائے اور شیعہ مساجد اور شیعہ زائرین کو نشانہ بناتی رہتی ہے۔
جیش العدل نے ایرانی سرحدی مخافظوں کو پاکستانی سرحد سے دور پار تک مار کرنے والی بندوقوں سے نشانہ بنایا جس سے دس ایرانی گارڈ ہلاک ہوئے اور اس وجہ سے ایران اور پاکستان کے درمیان تعلقات تناؤ ميں آگئے اور اس سے راحیل شریف کا موقف اور کمزور ہوگیا۔اور ایران نے راحیل شریف کی تعنیاتی پہ اظہار ناراضگی کیا ہے۔
امریکی حکام کہتے ہیں کہ مسٹر میک ہالے کو اس وقت کی حکومت نے کبھی بھی جند اللہ کے آپریشنز کی منظوری اور ان کی رہنمائی کرنے کو نہیں کہا تھا۔امریکہ نے 2010ء میں جند اللہ کو دہشت گرد تنظیم قرار دے دیا تھا لیکن اس پابندی سے اس ایران مخالف دیوبندی بلوچ دہشت گرد تنظیم کے آپریشن نہیں رک سکے۔جیش العدل پہ سعودی عرب کے اثر کا اشارہ اس امر سے لگایا جاسکتا ہے کہ یہ تنظیم بلوچی یا فارسی کی بجائے عربی میں اپنے بیانات جاری کرتی ہے۔
جیش العدل اور جند اللہ وغیرہ کے پاکستان بلوچ سرزمین سے ایرانیوں پہ حملوں کے جواب میں ایران نے بلوچستان کے دیہاتوں میں عسکریت پسندوں پہ حملے کئے اور چھاپے مارے۔سلیم ایک 42 سالہ بلوچ دیہاتی ہے وہ یاد کرتا ہے کہ صبح سویرے نومبر 2013ء میں پاک۔ایران سرحد سے 67 کلمیٹر دور واقع اس کے گاؤں کولوہی میں عین اس کے گارے اور مٹی سے بنے مکان کی دیواروں کے سامنے بم گرائے گئے۔یہ کولوہی علاقہ وہ ہے جہاں ایران سے کم شدت کی پراکسی وار جاری ہے اور اس کے باشندے زراعت اور اسمگلنگ سے زندگی کی ڈوری جوڑے رکھتے ہیں۔بمباری سے سلیم کے مطابق کئی گھر تباہ ہوگئے خوش قسمتی یہ تھی کہ بچے اس کمپاؤنڈ میں نہیں تھے۔سلیم کو یقین ہے کہ ایرانی طیارے ایران کے فوجی اڈے سے اڑان بھرکر پاکستانی علاقے میں داخل ہوئے اور انہوں نے بم گرائے۔
نسلی پراکسی جنگیں گلف ریاستوں اور پاکستان کو مزید غیر متوازن کرنے کا سبب بن سکتی ہیں۔پاکستانی بلوچستان میں بلوچ انسرجنسی /شورش نے چینیوں کے گوادر پورٹ کو ترقی دینے کے منصوبوں کو پیچیدہ بنادیا ہے۔اور پاکستان کو غیر معمولی سیکورٹی پہ مجبور کردیا ہے۔گہری ہوتی پراکسی وار ہندوستانی حمایت یافتہ ایرانی بندر گاہ چاہ بہار تک پھیل سکتی ہے۔اسی طرح یہ پراکسی وار ایرانی صوبے خوزستان اور سعودی عرب کے مشرقی صوبے تک جاسکتی ہے۔
ڈاکٹر امل الھزانی جو کہ کنگ سعود یونیورسٹی میں اسٹنٹ پروفیسر ہیں اور ان کو سعودی اخبار شرق الاوسط سے اس وقت مستعفی ہونا پڑا تھا جب انہوں نے31جنوری 2013ء میں اسرائیل کے بارے میں مثبت انداز سے ایک آرٹیکل لکھ دیا تھا۔
http://english.aawsat.com/…/opini…/the-israel-we-do-not-know
اسی اسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر امل الھزانی نے 6 مارچ 2012ء کو ایک آرٹیکل شرق الاوسط میں ” الاھواز کا مظلوم عرب ڈسڑکٹ ” کے عنوان سے ایک آرٹیکل لکھا۔
http://english.aawsat.com/…/the-oppressed-arab-district-of-…
اس آرٹیکل میں الھزانی نے لکھا:
“الاھواز ایک ایران کا ایک عرب ڈسٹرکٹ ۔۔۔۔۔ عرب علاقہ ہے۔۔۔۔۔یہاں کے عرب باشندے 1925ء سے جبر کا سامنا کررہے ہیں جب سے اہل فارس نے اس علاقے کا کنٹرول حاصل کیا ہے۔اور یہ بہت مایوسی کی بات ہے کہ بہت سے عرب الاھواز کا کاز صرف انسانی حقوق کے تناظر میں اٹھاتے ہیں۔دوسرے عرب مبصرین بھی اسی فیشن کی پیروی کرتے ہیں”۔
الاھزانی اس حوالے سے مزید لکھتی ہیں :
” Despite the numerous sincere attempts on the part of the district’s residents to revolt against their situation, which they deem to be tantamount to occupation, they have so far failed to achieve clear and overt international or Arab support for their cause. Al-Ahwaz is the mainstay of the Iranian economy; it is the center of its oil wealth and a factory for its industrial and agricultural products. However, the region’s overwhelming sense of Arab nationalism is a constant source of concern for the Iranian authorities. For some members of the leadership in Tehran, al-Ahwaz’s Arab identity is a grievous sin and a grave threat”.
ایرانی ضلع کے رہائشیوں نے اپنی حالت زار کے خلاف کئی کوششیں کیں اور وہ اس قبضے کے خلاف کھل کر سامنے آنا چاہتے ہیں لیکن اب تک ان کو اپنے کاز کی کھل کر عالمی یا عرب سپورٹ حاصل کرنے میں ناکامی ہوئی ہے۔الاھواز ایرانی معشیت کا بنیادی ستون ہے۔یہ اس کی تیل کی دولت کا مرکز ہے اور اس کی صنعتی و زراعت کی پروڈکٹ کی فیکڑی بھی ہے۔تاہم اس خطے میں پایا جانے والا عرب قوم پرستی کا احساس ایرانی حکام کی فکر مندی کا مستقل سبب ہے۔تہران میں قیادت میں سے کچھ لوگ الاھواز کی عرب شناخت کو سنگین گناہ اور ہولناک خطرہ خیال کرتے ہیں۔
نسلی تناؤ کو بھڑکانے میں خطرہ یہ لاحق ہے کہ ایران بھی اسی قسم کا رد عمل دے گا۔سعودی عرب بڑے عرصے سے ایران پہ تیل کی دولت سے مالا مال شیعہ اکثریت کے علاقے مشرقی صوبے میں نچلی سطح کے تشدد اور احتجاج کو پروان چڑھانے کا الزام عائد کرتا آیا ہے۔اور اس کے خیال میں بحرین کے مقبول عوامی بغاوت اور بحرینی بادشاہت کے خلاف مزاحمتی تحریک کے پیچھے بھی ایران ہے۔ اگر سعودی۔ایران کے درمیان تنازعات حل ہونے کی بجائے سعودی۔ایرانی جنگ نسلی اور مذہبی پراکسیز کے ساتھ لڑی جاتی ہے تو گلف اور جنوبی ایشیا میں تشدد اور دہشت گردی کا بازار اور گرم ہوگا۔
نوٹ : یہ اردو آرٹیکل راجا رتنم اسکول آف انٹرنیشنل اسٹڈیز کے سینئر فیلو جیمز ڈورسے کے ہفنگٹن پوسٹ میں شایع ہونے والے تحقیقی مضمون ، شرق الاوسط سعودی اخبار میں شایع ہونے والے بعض آرٹیکلز ، کچھ ایرانی فارسی و انگریزی ویب سائٹس پہ ظاہر ہونے والے مواد اور پاکستانی اخبارات میں شایع ہونے والی بعض انوسٹی گیٹو نیوز سٹوریز کو سامنے رکھکر لکھا گیا ہے۔جیمز ایم ڈورسے کا آرٹیکل اس لنک پہ پڑھا جاسکتا ہے
http://www.huffingtonpost.com/…/pakistan-caught-in-the-midd…