رعایت اللہ فاروقی : تنازعات میں دشمن کے ساتھ کھڑا ہونے کی تاریخ مسخ تو نہ کریں – عامر حسینی
“ایران میں نام نہاد اسلامی انقلاب آتا ہے تو انقلابی پورے خطے میں اپنا انقلاب ایکسپورٹ کرنے کی کوششیں شروع کر دیتے ہیں جس سے یہ پورا خطہ فرقہ واریت کی لپیٹ میں آجاتا ہے۔ 80 کی دہائی کے اوائل میں ہی وہ پاڑہ چنار میں ٹریننگ سینٹر قائم کر لیتے ہیں جہاں پاکستان میں مسلح بغاوت کی تیاری شروع ہوجاتی ہے۔ اس بغاوت کا سیاسی فرنٹ علامہ عارف حسین الحسینی سنبھال کر اسلام آباد میں پاک سیکریٹیریٹ کا محاصرہ کر لیتا ہے۔ جنرل ضیاء کے حکم پر جنرل فضل حق خفیہ ملٹری آپریشن کرکے پاڑہ چنار میں قائم دہشت گردی کے اڈے کو تباہ کر دیتے ہیں۔ کچھ ہی عرصے بعد عارف حسینی بھی مارا جاتا ہے جس کا جواب جنرل فضل حق کو قتل کرکے دیا جاتا ہے۔ اس کے بعد ایران میں ٹریننگ سینٹر کھل جاتے ہیں اور حیرت انگیز طور پر پاکستان سے 18 سے 30 سال کی عمر کے زائرین کی بسیں بھر بھر کر ایران جانے لگتی ہیں۔
آگے چل کر خود ایرانی محترمہ بینظیر بھٹو کو دھمکی دیتے ہیں کہ ہم ایک لاکھ پاکستانیوں کو عسکری تربیت دے چکے ہیں جو ہمارے حکم کے منتظر ہیں۔ نام نہاد زائرین کی بسیں نشانہ بننے لگتی ہیں تو ایک بار پھر پاڑہ چنار میں ٹریننگ سینٹر بنانے کی کوشش ہوتی ہے جسے ایک بار پھر ناکام بنا دیا جاتا ہے۔ مسلسل ناکامی سے دوچار ایران پاکستان میں دہشت گردی کے لئے بھارت سے ہاتھ ملا لیتا ہے لیکن کلبھوشن ہمارے ہاتھ لگ جاتا ہے۔ ڈالروں پر پلنے والی مخلوق بتائے کہ کیا یہ سب “ہمارے کرتوت” ہیں ؟ نائین الیون سے چند ماہ قبل ایک امریکی کانگریس مین نے بیان دیا تھا کہ “پاکستانی ڈالر کے لئے اپنی ماں بھی بیچ سکتے ہیں” اس بیان پر پاکستان میں شدید مظاہرے ہوئے تھے لیکن کانگریس مین نے یہ بات اسی لئے کہی تھی کہ ہماری صفوں میں وہ بے غیرت پائے جاتے ہیں جو ڈالر کے لئے ماں کیا ملک کو بھی بیچنے سے باز نہیں آتے۔ جو تنازعات میں دشمن کے وکیل بن جاتے ہیں اور ایسے ہی بے غیرتوں کو “لبرل” کہتے ہیں”۔رعایت اللہ فاروقی
ایک سابق سپاہ صحابہ پاکستان کے سرگرم رکن اور حال میں خود کو ایک ماڈریٹ اسلامسٹ کہلانے والے رعایت اللہ فاروقی صاحب نے مذکورہ بالا اقتباس اپنی ایک طویل پوسٹ میں درج کیا ہے۔ان کی یہ پوسٹ تاریخ کو اپنی مرضی کے مطابق تروڑ مروڑ کر پیش کرنے اور مطلب کے نتائج نکالنے پہ مشتمل ہے۔ان کی اس پوسٹ کا اگر تفصیلی جائزہ لیا جائے تو اس سے یہ نتیجہ نکلے گا کہ پاکستان نے 1979ء میں سوویت روس کی افواج کے افغانستان ميں قائم سوشلسٹ حکومت کی درخواست پہ جو افواج بھیجی تھیں اس کے بعد امریکی بلاک میں شمولیت اختیار کرکے جہاد افغانستان پروجیکٹ میں جو فرنٹ لائن اسٹیٹ بننا پسند کیا تھا اس کا آغاز جنرل ضیاء الحق نے نہیں بلکہ بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح نے کیا تھا۔اور وہ اس کی مثال 20 اکتوبر 1948ء کو پاکستانی افواج کی مدد سے قبائلی اور پاکستان نواز کشمیری گروپوں کے ڈوگرہ عملداری کے علاقوں پہ حملے سے دیتے ہیں۔میرے خیال میں رعایت اللہ فاروقی کا قطعی اور حتمی انداز میں یہ لکھنا پہلے تو موجود تاریخی حقائق کے اعتبار سے غلط ہے۔
جب یہ حملہ شروع ہوا اس وقت مسٹر جناح کی طبعیت بہت زیادہ خراب تھی اور پروفیسر حمزہ علوی نے اپنے ایک مقالے میں بہت تفصیل سے بتایا ہے کہ 1948ء کے آخری چند ماہ میں قائد اعظم کے نام پہ اصل اقدامات چوہدری محمد علی کررہے تھے۔جبکہ آیا 48ء میں 20 اکتوبر کو جو معاملہ شروع ہوا اس بارے جناح کی اشیر باد اس اقدام کو اٹھانے والوں کو حاصل تھی یا نہیں ؟ اس بارے میں کافی اختلاف موجود ہے۔پروفیسر اشتیاق احمد اگرچہ یہ کہتے ہیں کہ اس اقدام کا جناح کو پتا تھا لیکن وہ اسے بطور ” جہادی پراکسی ” کے نہیں دیکھتے۔اور وہ کہتے ہیں کہ قبائلی اور کشمیری گروپس کے ساتھ ملکر یہ اقدام اس لئے اٹھایا گیا کہ پاکستان کے پاس اسلحے اور فوجی دستوں کی شدید قلت تھی۔
مطلب ان کے کہنے کا یہ ہے کہ یہ کوئی جہادی پراکسی اور اس کی بنیاد سلفی-دیوبندی عسکریت پسندی اور وہابی ازم پہ نہیں تھی۔74ء میں حکمت یار،مجددی اور ربانی جیسے اسلام پسندوں کا پاکستان آنا اور ان کو ٹھہرنے کی اجازت دینے سے یہ نتیجہ اخذ کرلینا کہ پاکستان کی ہئیت مقتدرہ کوئی مربوط جہادی پراکسیز پہ مبنی اسٹرٹیجک پالیسی بنائے بیٹھی تھی ایک گمراہ کن نتیجہ ہے۔اور اسے جنرل ضیاء الحق کی سلفی ازم پلس دیوبندی ازم پلس مودودی و اخوان ازم پہ مشتمل جہاد ازم اور تزویراتی گہرائی کی پالیسی کا تسلسل قرار دینا بھی بہت بڑا فکری مغالطہ ہے۔تزویراتی گہرائی کی پالیسی اور اس کے بنیادی جزو سلفی ازم،جہاد ازم ، تکفیرازم اور سوسائٹی کو الٹرا کنزرویٹو ازم کی جانب لیجانے کا مربوط اور منظم کام جنرل ضیاء الحق نے کیا اور پاکستان کو ٹھیک طور پہ سعودیزائشن اور ایک دیوبندی ریاست میں بدلنے کا بیڑا بھی جنرل ضیاء الحق نے اٹھالیا تھا۔
رعایت اللہ فاروقی تاریخی حقائق کو مسخ کرنے میں پوری طرح مصروف اس وقت نظر آئے جب انہوں نے ایران بارے بات چیت شروع کی۔انہوں نے کسی ثبوت،حوالے کے بغیر یہ بات درج کی کہ ایران میں انقلاب کے بعد ایرانی رجیم نے پارہ چنار میں دہشت گردی کے ٹریننگ سنٹر قائم کئے۔کیا اس بات کا ذکر پاکستان کے کسی چھوٹے بڑے فوجی افسر،آئی ایس آئی کے کسی ذمہ دار نے کبھی کیا؟ پارہ چنار جہاں سے کابل اور جلال آباد کا راستہ سب سے مختصر ہوجاتا ہے وہ علاقہ ہے جہاں پہ جنرل ضیآء الحق نے دیوبندی ريڈیکل تنظیموں اور عناصر کو داخل کیا اور جنرل ضیاء الحق کے زمانے میں ہی پارہ چنار کے گرد و نواح میں جنرل ضیاءالحق نے دیوبندی عسرکریت پسندوں کا غلبہ کرانے کی کوشش کی جسے پارہ چنار کے اعتدال پسند شیعہ اور سنّی عوام اور رہنماؤں نے مسترد کردیا۔
علامہ عارف سنّی سے پہلے مفتی جعفر حسین کی سربراہی میں شیعہ کمیونٹی جنرل ضیاء الحق کے 1980ء میں جاری کئے جانے والے نام نہاد اسلامی آڑدیننس کے خلاف تحریک چلانے میں مصروف ہوگئے تھے اور اس کا کوئی تعلق ایرانی انقلاب کے ساتھ نہیں تھا۔بلکہ شیعہ روایتی علماء تو اس زمانے میں پولیٹکل ایرانی شیعہ خیالات کے برعکس غیر سیاسی شیعہ اسلام کے حامی تھے۔عارف الحسینی کے قتل میں گورنر فضل حق کے ملوث ہونے اور یہ کام دیوبندی جہادیوں کے زریعے کروائے جانے کے شکوک و شبہات بہت زیادہ تھے۔پارہ چنار کو 80ء کی دہائی سے لیکر ابتک پاکستان میں تزویراتی گہرائی اور جہادی پراکسیز کے دلدادہ جرنیل دیوبندی جہادی بیس کیمپ میں بدل ڈالنے کی کوششیں کیسے کرتے رہے ہیں اس بارے پشتون ریسرچ سکالر فرحت تاج نے ایک مفصل کتاب حال ہی میں لکھی ہے۔
رعایت اللہ فاروقی نے ایک اور دعوی کیا ہے کہ ایرانیوں نے بے نظیر بھٹو شہید کو دھمکی دی تھی کہ وہ ایک لاکھ پاکستانی شیعہ کو تربیت دے چکے ہیں جو ہمارے اشارے پہ حملے کے منتظر ہے۔رعایت اللہ فاروقی کو اپنے اس دعوے کا ثبوت پیش کرنا بنتا ہے اور یہ بتانا بھی بنتا ہے کہ ان کے پاس یہ معلومات کہاں سے آئی ہیں؟ ایک لاکھ تربیت یافتہ پاکستانی شیعہ کدھر کئے جبکہ 90ء کی دھائی میں اور پھر نائن الیون کے بعد ابتک 25 ہزار شیعہ قتل ہوچکے ہیں جبکہ آج تک سپاہ صحابہ پاکستان سمیت تکفیر ازم کے پاکستانی مراکز پہ کوئی حملے دیکھنے کو نہیں ملے۔
اس موقعہ پر پارہ چنار کے اندر بسنے والی شیعہ کمیونٹی کے خلاف پروپیگنڈے کی مجھے تو صرف اور صرف یہ وجہ سمجھ آتی ہے ایک تو حالیہ عرصے میں پارہ چنار میں ہونے والی شیعہ نسل کشی کی وارداتوں پہ پردہ ڈالا جاسکے اور دوسرا کرم ایجنسی کے لوگوں کی تکفیری و جہادی طالبان کو شکست دینے اور وہاں پہ پاکستان کی عمل داری کو قائم رکھنے کے کارنامے پہ دھول ڈالی جاسکے۔اور پارہ چنار میں شیعہ۔سنّی لڑائی کی راہ ہموار کی جاسکے۔
میں نے ساری زندگی کبھی ایرانی تھیوکریٹ رجیم کی نہ تو حمایت کی اور نہ ہی اب کرتا ہوں۔اور میں ایران میں ہمیشہ سے تودے پارٹی کی سیاسی وراثت سے ہمدردیاں رکھتا آیا ہوں۔لیکن مجھے یہ کہنے میں کوئی خطرہ نہیں ہے کہ پاکستان سمیت پورے جنوبی ایشیاء میں جسے ہند مسلم کلچر کہا جاتا ہے اس سے ایرانی شیعی کلچر کو کوئی خطرہ نہیں ہے بلکہ اگر جنوبی ایشیاء کے صلح کل، شماریت پسند ، تکثریت پسند اور رواداری پہ مبنی کلچر کو کسی شئے سے انتہائی خطرہ ہے تو وہ سعودی فنڈڈ وہابی ازم ہے۔اس وہابی ازم کے ساتھ سعودی عرب نے لبنان،مصر،شمالی افریقہ کے ممالک ( تیونس، الجزائر ،صومالیہ)اور مشرق بعید کے ممالک انڈویشیا و ملایشیا کے صوفی کلچر کو برباد کرنے اور وہاں پہ ریڈیکل ازم کو پھیلانے میں اہم کردار ادا کیا ہے جس پہ اکثر تجزیہ نگار اتفاق کرتے ہیں۔اور میں نے 79ء سے لیکر اب تک پاکستان میں کم از کم مین سٹریم مذہبی کلچر میں رونما ہونے والی تبدیلیوں میں 99 فیصدی کردار سعودی الٹرا کنزرویٹو ازم کو ادا کرتے دیکھا ہے۔
رعایت اللہ فاروقی نے امریکی گانکریس مین کے بیان کا ذکر کرتے ہوئے کہا ہے کہ ” ایسے بے غیرت موجود ہیں جو تنازعات میں دشمن کے وکیل بن جاتے ہیں اور ایسے بے غیرتوں کو لبرل کہتے ہیں”۔مجھے یہ ایک پھر محض دشمنی پہ مبنی فقرہ معلوم ہوا ہے۔میں رعایت اللہ فاروقی کو بتاتا چلوں کہ پاکستان کی تزویراتی گہرائی
Strategic Depth Policy
اور جہادی پراکسیز کا ارتقائی جائزہ لینے والے امریکہ نواز لبرل دانشور تو رعایت اللہ فاروقی کے جائزے کی پیروی کرتے ہوئے ہمیں یہ بتانے کی کوشش کرتے ہیں کہ پاکستان میں دوسرے ممالک میں جہاد کے نام سے مداخلت کا سلسلہ تو 1948ء سے ہی شروع ہوگیا تھا اور اس میں خالد احمد ، کارلوٹا گیل ، کرسٹینا لیمب، حسین حقانی، یاسر لطیف ہمدانی، عارف جمال، نجم سیٹھی تو یہی کہتے ہیں بس وہ اتنا کرتے ہیں کہ تزویراتی گہرائی اور جہادی پراکسیز کا الزام جناح کو نہیں دیتے بلکہ اس کا سارا بوجھ پاکستان کی ملٹری جنتا پہ ڈال دیتے ہیں۔تو رعایت اللہ فاروقی نے جو تجزیہ ہمارے سامنے پیش کیا وہ امریکہ نواز لبرل سے مختلف تو نہیں ہے۔دوسری بات وہ جن ” لبرل ” کو آج بے غیرت کہہ رہے ہیں یہ لبرل 80ء کی دہائی میں افغان جہاد پروجیکٹ میں سلفی اور دیوبندی جہادی اور تکفیری لوگوں کی طرح امریکہ بہادر کے ساتھ ہی کھڑے تھے جیسے آج کل یہ لبرل شام ، یمن کے معاملے میں امریکیوں کی ہمنوائی میں سعودی حمایت یافتہ سلفی جہادیوں اور تکفیریوں کے ساتھ کھڑے ہیں اور افغان جہاد کے پارٹنر دیوبندی، سلفی اور جماعت اسلامی کے جہادی و تکفیری بھی ان کی ہمنوائی کرتے ہیں۔یہ سارے حقائق رعایت اللہ فاروقی صاحب گول کرگئے ہیں۔پاکستان کو 47ء کے بعد امریکی سامراج کی غلامی میں دینے والوں میں سعودی نواز ملائیت کا جو کردار ہے اس سے چشم پوشی رعایت اللہ فاروقی اس لئے کرتے ہیں کہ تنازعات میں دشمن سے مل جانے کی ٹھیک ٹھیک تاریخ تو ” بے غیرتی ” کا الزام خود ان کے کیمپ پہ بھی لگائے گی۔
پاکستان کے اندر ایران نواز شیعہ لابی موجود ہے لیکن اس لابی سے کہیں زیادہ طاقتور، خوفناک، خون آشام، 75 ہزار سے زائد پاکستانیوں کے قاتلوں کی عذر خواہ، ان کی دہشت گردی کا جواز ڈھونڈنے والی ، ان کے جرائم پہ پردہ ڈالنے والی سعودی عرب سمیت گلف ریاستوں سے فنڈز لیکر پاکستان میں جمہور سنّی اور شیعہ مسلمانوں سے ملکر بننے والے تکثریت پسند کلچر کے مقابل سعودی وہابی ثقافت کو مسلط کرنے والی سعودی لابی بھی موجود ہے جس کا ایک حصّہ خود رعایت اللہ فاروقی بھی ہیں اور وہ ایک غیر جانبدار، محب وطن پاکستانی دانشور ، قلم کار کا لبادہ اوڑھ کر اور ایران نواز شیعہ لابی کے مفروضہ یا حقیقی گناہوں کو بڑھا چڑھاکر پیش کرتے ہوئے پاکستان میں عقیدے کی بنیاد پہ ہونے والی 99 فیصدی وارداتوں کی ذمہ دار تکفیری لابی کے جرائم پہ پردہ ڈالنے کی کوشش کرتے ہوئے خود بری طرح سے ایکسپوز اور بے نقاب ہوگئے ہیں۔