سعودی ولی عہد و وزیر دفاع شہزادہ محمد بن سلیمان نے ایک تفصیلی انٹرویو دیا جو کہ سعودی عرب کے مختلف ٹی وی چینلز پہ 3 مئی 2017ء کو نشر ہوا۔

انٹرویو کرنے والے نے ان سے 60 سوالات کیے جن میں سے ایک سوال براہ راست ایران اور ایک سوال شام سے متعلق تھا جبکہ چار سوال مصر اور دس یمن کے بارے میں تھے۔ ایران بارے انٹرویو نگار نے جو سوال کیا اور اس کا جو جواب دیا گیا اس کے اقتباسات ملاحظہ کیجیے:

سوال: ایران جو کچھ خطے میں کررہا ہے اس کے باوجود کیا ہم مستقبل میں ایران سے براہ راست مذاکرات ہوتے دیکھ سکتے ہیں؟

جواب: آپ کیسے کسی ایسے شخض یا نظام حکومت سے بات چیت کرسکتے ہیں جس کے بارے میں آپ مکمل طور پہ یہ یقین رکھتے ہوں کہ اس کا نظام ایک انتہا پسند فکر/ آئیڈیالوجی پہ قائم ہے۔

جب ہمارے اور کسی دوسری ریاست کے درمیان کوئی معاشی مسئلہ ہوتا ہے تو ہم ایک دوسرے سے رابطہ کرتے ہیں اور میں دیکھتا ہوں کہ آپ کیا چاہتے ہیں اور آپ یہ کہ میں کیا چاہتا ہوں یوں ہم جان لیتے ہیں کہ مسئلے سے کیسے نمٹنا ہے۔ اگر مسئلہ سیاسی ہو، جیسے روس کے ساتھ ہے تو ہم کیسے شام بارے ایک دوسرے کو اپنی بات پہنچاتے ہیں۔ ہم بحث کرتے ہیں کہ ان کا مفاد کیا ہے اور ہمارے کیا ہیں؟ یمن پہ ہم کیسے بات کرتے ہیں؟ ہم مفادات کی بات کرتے ہیں۔

لیکن ایران کے ساتھ ہم کیسے بات کریں؟ ان کی منطق تو یہ ہے کہ امام مہدی نے آنا ہے اور ہمیں ان کی آمد کے لئے ماحول سازگار اور زمین زرخیز کرنا ہے اور اس کے لیے ان کا عالم اسلام کا کنٹرول سنبھالنا ضروری ہے۔

ایران کے ساتھ باہمی اتفاق پہ مبنی جن نکات پر بات چیت کا دروازہ کھل سکتا ہے وہ تو سرے سے موجود ہی نہیں۔ اس رجیم کو ایک سے زیادہ مرتبہ آزمایا جاچکا ہے۔ جیسے رفسنجانی کا دور تھا اور اس دور کے بعد ہر چیز محض دھوکہ ثابت ہوئی۔ خمینی انقلاب کے بعد توسیع پسندانہ پالیسی اپنائی گئی تھی۔ جب دنیا غصے میں آئی تو وہ ایک پرامن رہنماءکو لیکر آگئے اور یہ رفسنجانی تھے۔ انہوں نے یہ سب کچھ ہمارا اور دنیا کا اعتماد حاصل کرنے کے لیے کیا۔ انہوں نے ہمارا اعتماد حاصل کیا پھر جیسے ہی انہیں سازگار ماحول ملا تو انہوں نے ایک انتہا پسند لیڈر کو توسیع پسندانہ منصوبہ دوبارہ بحال کرنے کا مشن سونپ دیا۔

ہم جانتے ہیں کہ ایرانی حکومت کا بڑا ہدف ہم ہیں۔ ایرانی حکومت کا ایک بڑا ہدف قبلہ تک پہنچنا ہے۔ ہم لڑائی کے سعودی عرب کے اندر پہنچنے کا انتظار نہیں کریں گے بلکہ ہم ایسا کام کریں گے کہ لڑائی ایران کے اندر داخل ہو نہ کہ سعودی عرب کے اندر۔

اس بیان کے جواب میں ایرانی وزیر دفاع محمد حسین دہقان نے لبنانی شیعہ پارٹی حزب اللہ کے ٹی وی المنار کو انٹرویو دیتے ہوئے سعودی عرب کو متنبہ کیا کہ وہ ایسی ‘حماقت’ سے باز رہے۔ اگر ایران پر حملہ ہوا تو سعودی عرب میں سوائے مکّہ اور مدینہ کے کسی شہر کو نہیں چھوڑا جائے گا۔

سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلیمان کا انٹرویو اور ایرانی وزیر دفاع کا جوابی انٹرویو تو  پاکستانی سوشل میڈیا پہ گرما گرمی پیدا کرنے کا سبب بن ہی رہے تھے کہ اس دوران ایرانی افواج کے سربراہ میجر جنرل محمد باقری کا ایک بیان ایرانی سرکاری خبر رساں ایجنسی ارنا نے شایع کیا جس میں انہوں نے کہا کہ :

‘ہم توقع کرتے ہیں کہ پاکستانی حکام دہشت گردی کے واقعات کی روک تھام کریں گے، دہشت گردوں کو گرفتار کریں گے اور ان کے ٹھکانوں کو بند کریں گے۔ اگر دہشت گرد حملے جاری رہے تو ہم ان عناصر کے خلاف خود کارروائی کریں گے چاہے وہ کہیں بھی ہوں’

بس اس بیان کے شائع ہونے کے بعد پاکستان میں سوشل میڈیا پہ لفظوں کی جنگ چھڑ گئی اور اس جنگ میں زیادہ معرکہ آرائی پاکستان میں سوشل میڈیا پہ سعودی نواز اور ایران نواز گروہوں اور افراد کے درمیان چھڑی ہوئی ہے۔

ظاہر ہے کہ پہلے سے قائم تعصبات کے ساتھ خطے کی صورت حال پہ متوازن تبصرہ اور بحث کیونکر ممکن ہے۔ سوشل میڈیا پہ چھڑی اس بحث سے پاکستانی معاشرے میں خطرناک حد تک فرقہ وارانہ تقسیم کے گہرے ہونے کا نشان بھی ملتا ہے اور یہ ہرگز نیک شگون نہیں ہے۔

سعودی وزیر دفاع اور ولی عہد شہزادہ محمد بن سلطان سے انٹرویو کرنے والے نے جو سوال کیا اس کا جواب سعودی ولی عہد نے جس ٹون اور جن الفاظ کے ساتھ دیا اس بارے انٹرنیشنل میڈیا اور خود پاکستانی انگریزی اخبار ڈان نے جو تبصرہ کیا وہ بھی پڑھنے کے لائق ہے۔

‘ایران کے ساتھ کشیدگی کو فرقہ وارانہ اصطلاحات میں ڈھالتے ہوئے شہزادے نے کہا کہ سعودی ہاتھ پہ ہاتھ دھرے بیٹھے جنگ کا انتظار نہیں کریں گے بلکہ کچھ ایسا کریں گے کہ یہ جنگ ایران میں ہو نہ کہ سعودی عرب میں’

حیرت انگیز بات یہ ہے کہ ایرانی حکومت کو انتہا پسندانہ آئیڈیالوجی پہ قائم ہونے کا طعنہ دینے والے سعودی ولی عہد بھول گئے کہ ان کا اپنا ملک محمد بن عبدالوہاب نجدی کی وہابی آئیڈیالوجی پہ قائم ہے اور جب انہوں نے ایران کے توسیع پسندانہ عزائم کا ذکر کیا تو وہ شاید بھول گئے کہ ان کا اپنا ملک بھی پوری دنیا کو وہابی ازم ایکسپورٹ کررہا ہے۔

اگر ایرانی شیعی خمینی انقلاب کے بعد اگر شیعیت کا خمینی ماڈل دنیا بھر میں ایکسپورٹ کیا جارہا ہے تو اس سے کہیں پہلے سعودی وہابی ماڈل بھی پوری دنیا میں ایکسپورٹ ہورہا ہے۔ پاکستان میں عقیدے کی بنیاد پہ 99 فیصدی دہشت گردی کا فکری منبع سعودی وہابی آئیڈیالوجی ہی ہے۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ سعودی عرب اپنے عالمی اور علاقائی جیو پولیٹکل مفادات کو سعودی وہابی آئیڈیالوجی کی ایکسپورٹ کے ذریعے ہی پورا کرتا ہے۔ مشہور صحافی اور مشرق وسطیٰ سے متعلق امور کے ماہر ڈورسے جیمز نے اپنے حالیہ تجزیے میں بتایا ہے کہ سعودی عرب نے کیسے پاکستان جیسے ملک میں ‘الٹرا کنزرویٹو ازم’ کو پھیلایا اور کیسے یہ ‘الٹر کنزرویٹوازم’ سعودی عرب کے علاقائی مفادات کے تحفظ میں مدد کرتا ہے۔

 بدقسمتی سے پاکستان کی موجودہ حکومت نے اپنے پیش روؤں کی کم از کم مشرق وسطیٰ بارے پالیسی میں توازن کو ترک کردیا ہے۔ جنرل مشرف کے دور حکومت سے پیپلزپارٹی کی حکومت تک پاکستانی ریاست نے مشرق وسطیٰ کے کسی تنازعے کا براہ راست یا بالواسطہ حصّہ بننے سے خود کو دور رکھا تھا اور ایران و سعودی عرب کے ساتھ توازن برقرار رکھنے کی پالیسی اختیار کررکھی تھی۔

پاکستان نے سعودی عرب میں پہلے سے تعنیات فوجی دستوں اور انسٹرکٹرز کی تعداد میں اضافہ نہیں کیا تھا۔ یمن کی جنگ میں بننے والے اتحاد میں شمولیت بھی اختیار نہیں کی تھی اور شام میں اس نے اسد حکومت کو ہٹانے کا مطالبہ کرنے یا باغیوں کی مذمت کرنے کے بجائے فریقین میں مذاکرات پر زور دیا تھا۔

اس دوران ایران کے ساتھ گیس پائپ لائن اور بجلی کی درآمد وغیرہ کے منصوبوں پر کام کا آغاز بھی ہوا۔

تاہم جب موجودہ حکومت برسراقتدار آئی تو سب سے پہلے ایران- پاکستان گیس پائپ لائن منصوبہ ڈمپ کیا گیا۔ بجلی کی ترسیل کے منصوبے کو ترک کیا گیا۔ شام پر موقف میں ڈرامائی تبدیلی لائی گئی اور پارلیمنٹ کو اعتماد میں لیے بغیر 44 رکنی سعودی فوجی اتحاد کو قبول کر کے جنرل راحیل شریف کو اس اتحاد کا سربراہ بنوادیا گیا۔

جب یمن کی جنگ شروع ہوئی تو پاکستانی حکومت نے سعودی حکام کو پاکستان میں اپنے حامی مذہبی طبقے کو سعودی نواز مہم چلانے اور ان کے استقبالیوں، جلسوں اور اجلاسوں میں شرکت سے روکنے کی کوشش بھی نہیں کی۔ اس عمل نے پاکستان میں فرقہ وارانہ تقسیم بڑھانے اور ایرانیوں کی تشویش میں اضافے کا کام کیا۔

اس دوران ایران جانے والے زائرین کی بسوں پہ حملے، بلوچستان سے پاک-ایران سرحد پہ ایرانی گارڈز پہ حملے اور پاسداران انقلاب پر سیستان بلوچستان میں ہائی پروفائل حملے ہوئے۔

نواز شریف دور میں ہی پاک۔ایران باڈر پہ کشیدگی میں اضافہ ہوا اور ایرانی فوج کی جانب سے پاکستانی سرزمین پہ راکٹ برسائے گئے اور پاکستانی سرحد کے اندر مبینہ طور پہ شدت پسندوں کے ٹھکانوں کو تباہ کرنے کے دعوے بھی کیے گئے۔

نواز حکومت اور پاکستانی فوجی قیادت کی جانب سے پاک۔ایران تعلقات میں آنے والی ابتری درست کرنے کے لیے دانش مندانہ اقدامات کی کمی نظر آتی رہی۔ گزشتہ سال جب ایرانی صدر حسن روحانی کی پاکستان آمد ہوئی تو سابق ترجمان آئی ایس پی آر عاصم باجوہ کے ایک ٹویٹ نے خاصا تنازع کھڑا کردیا اور اس کی تردید ایرانی صدر حسن روحانی نے کی۔ بعدازاں کلبھوشن کا معاملہ آگیا۔ پاکستانی فوجی اور سیاسی اداروں اور قیادت کو ایران میں قائم مبینہ بھارتی نیٹ ورک پر اگر کوئی سنجیدہ بات چیت کرنا مقصود تھی تو اسے میڈیا پوائنٹ سکورنگ کے بجائے مناسب سفارتی چینلز سے کیا جانا چاہیے تھا۔

ہماری سفارتی ناکامی کے اسباب میں سعودی عرب اور ایران کے ساتھ تعلقات میں توازن برقرار نہ رکھنا اور موجودہ حکومت کے سعودی نواز امیج نمایاں ہیں اور اس کی ٹھوس وجوہات ہیں۔ حکومت نے پاکستان میں نیشنل ایکشن پلان کو سنجیدگی سے نافذ نہیں کیا۔ اس ضمن میں حکومت کو ایک ٹھوس اور انتہائی مضبوط قدم ان لوگوں کو وارننگ دینے کی جانب اٹھانا تھا جو مشرق وسطیٰ کے مسئلے پر فرقہ وارانہ بیانیوں کے ساتھ پاکستان کے میں سرگرم ہیں۔

پاکستان کی موجودہ حکومت اور فوجی قیادت نے سعودی عرب کے اعلیٰ اعزازات وصول کرنے پہ زور دیے رکھا اور جب مشرق وسطیٰ میں تنازعات پورے عروج پہ ہیں تو ایسے وقت میں پاکستان میں مذہبی اجتماعات میں سعودی سرکاری مذہبی اسٹیبلشمنٹ اور حکام کی آمد، ان کے خطبات اور سرکاری سطح پہ ان کے استقبالیوں نے بھی کافی غلط پیغام پہنچایا ہے اور اس سے پاکستان میں فرقہ وارانہ بنیادوں پہ تقسیم مزید گہری ہوئی ہے۔

ہمیں اس روش کو بدلنے کی ضرورت ہے وگرنہ پاکستانی معاشرے کو خانہ جنگی کے دہانے پہ پہنچنے سے کوئی نہیں روک سکتا۔

Source:

http://nuktanazar.sujag.org/iran-saudi-pakistan