راشد رحمان کی برسی : کیا کیا جائے ؟ – عامر حسینی
کل سید خرم ذکی کی برسی تھی اور آج راشد رحمان ایڈوکیٹ کی برسی ہے۔دونوں میں ایک بات مشترکہ تھی کہ دونوں کے قاتل ایک ہی تکفیری فاشسٹ کیمپ سے تعلق رکھتے تھے اور دونوں کے قاتل آزاد پھرتے ہیں۔دونوں کی لاشیں ابتک انصاف کی منتظر ہیں۔
راشد رحمان کا قصور کیا تھا؟ اس نے بہاءالدین زکریا یونیورسٹی میں پڑھارہے ایک انتہائی ذہین فل برائٹ سکالر شپ لیکر امریکی یونیورسٹی سے انگلش لٹریچر میں ماسٹرز ڈگری لیکر پاکستان آنے اور یہاں محض وزٹنگ لیکچرر کے طور پہ نوکری کرنے والے ایک نوجوان حفیظ جنید پہ اسلامی جمعیت طلباء کی سازش کا شکار ہونے والے بلاسفیمی کے غلط الزام میں گرفتار ہونے والے کی وکالت کرنے کا فیصلہ کیا تھا جب کوئی وکیل اس نوجوان کا کیس لڑنے کو تیار نہ تھا۔
راشد نے جس دن سے یہ کیس لیا تھا اسی دن سے اسے دھمکیاں ملنا شروع ہوگئی تھیں۔اس نے حکومت پنجاب،وفاقی حکومت، اپنے ادارے انسانی حقوق کمیشن برائے پاکستان کو ان دھمکیوں کے بارے میں اطلاع دے دی تھی۔لیکن نہ تو حکومت نے اور نہ ہی ایچ آر سی پی نے راشد رحمان کے گھر اور دفتر کی سیکورٹی کے لئے ٹھوس قدم نہ اٹھایا۔بلکہ اس کمیشن کی سربراہ عاصمہ جہانگیر اگر چاہتیں تو دھمکیاں ملنے کے فوری بعد ہائی لیول کی پریس کانفرنس کرکے اور انٹرنیشنل برادری کو ملوث کرکے دباؤ بڑھاسکتی تھیں لیکن شاید راشد رحمان کا قد کاٹھ اتنا بڑا نہ تھا کہ عاصمہ جہانگیر اس کے لئے یہ سب کرنے کا کشٹ کاٹتیں۔عاصمہ جہانگیر کو جب خود دھمکیاں ملی تھیں تو انہوں نے ہائی پروفائل پریس کانفرنس کی تھی اور انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیموں کو اپنے ساتھ ملایا تھا اور اس وقت بان کی مون نے بھی عاصمہ کی حفاظت یقینی بنانے کے لئے حکومت پاکستان کو خط لکھ ڈالا تھا۔ پاکستانی انگریزی پریس بہت متحرک تھا اور قریب قریب ہر ایک بڑے لبرل جغادری صحافی نے عاصمہ جہانگیر کو لاحق خطرات پہ اپنا ردعمل دیا تھا لیکن راشد کی زندگی کو لاحق خطرے بارے ایسی کوئی بڑی تحریک لانچ نہیں ہوئی تھی۔
لبرل پریس ، لبرل این جی اوز کی اشراف قیادت کے ہاں ہم نے یہ امتیازی سلوک کئی بار دیکھا ہے۔کراچی کی نغمہ اقتدار شیخ جو کہ سول سوسائٹی کی زبردست ایکٹوسٹ ہیں ان کو مارچ 2017ء کو رینجرز نے اس وقت اٹھالیا جب وہ اپنے دو اور ساتھیوں کے ہمراہ کراچی پریس کلب عمر رسیدہ استاد ظفر حسن عارف کی رہائی کے لئے پریس کانفرنس کرنے جارہی تھیں۔ان کے اغواء پہ پاکستان کی بالعموم اور کراچی کی سول سوسائٹی کی اشراف فیمنسٹ خواتین نے کئی گھنٹے گزر جانے کے بعد بھیایک بیان تک پریس کو جاری نہ کیا۔دسمبر 2016ء میں اچانک سے کچھ سوشل میڈیا ایکٹوسٹ اٹھالئے گئے جن میں سنٹرل پنجاب سے تعلق رکھنے والے 6 لبرل سوشل میڈیا بلاگرز بھی شامل تھے جن کو پاکستانی مین سٹریم میڈیا کے دو انتہائی معروف اور بااثر میڈیا گروپ جنگ میڈیا گروپ اور ڈان میڈیا گروپ میں ملازمت کررہے لبرل اشراف اور پاکستانی این جی اوز کی لبرل اشراف قیادت کی بڑی اشیر باد حاصل تھی اور ان میں ایک شاعر عوام کے اندر بہت مقبول بھی ہیں۔جب تک یہ 6 بلاگرز جبری گمشدہ رہے اس وقت تک پاکستانی مین سٹریم میڈیا اور سول سوسائٹی کا لبرل سیکشن بہت ہی سرگرم رہا اور اس نے ان گمشدگیوں کو ایک بڑا ایشو بناکر بھی پیش کیا لیکن جیسے ہی دو بڑے میڈیا گروپوں کی ڈارلنگ رہا ہوکر گھر پہنچیں تو ان دونوں میڈیا گروپوں کے اندر بیٹھے لبرل اشراف اور فوٹو سیشن مافیا سول سوسائٹی کا گھر بیٹھ گیا۔
اس دوران شیعہ ہیومن رائٹس ڈیفنڈر ثمر عباس ، سالف شاہ جہاں اور بی ایس او آزاد کے ترجمان شبیر بلوچ بھی اٹھائے گئے تھے لیکن ان کے بارے میں مکمل طور پہ پاکستانی مین سٹریم میڈیا کا لبرل سیکشن چپ بیٹھا ہے اور سول سوسائٹی کی اشراف قیادت بھی خاموش ہے۔یہ بہت بڑا امتیازی رویہ ہے جس کا مشاہدہ کم معروف، قدرے کم سماجی اسٹیٹس کے حامل انسانی حقوق کے کارکنوں، سیاسی کارکنوں ، شاعروں اور ادیبوں کی جبری گمشدگی ، ریاستی و غیر ریاستی بدمعاشوں کے ہاتھوں قتل ہوجانے کی صورت میں ہوتا ہے۔
پاکستان پیپلزپارٹی آصف علی زرداری کے تین ساتھیوں کے اغواء پہ پارلیمنٹ اور پارلیمنٹ سے باہر جس طرح سے ایکٹو ہے ویسے یہ جبری گمشدگان کے کیسز میں نظر نہیں آئی جن کا تعلق آصف علی زرداری سے نہیں ہے۔جبکہ کئی ایک لبرل اشراف تو اپنی صلاحیتیں نواز شریف کے کہنے پر کالعدم تنظیموں کی قیادتوں کو مین سٹریم میڈیا میں پروجیکٹ کرنے میں لگا رہے ہیں اور یہ ایک طرح سے ان کالعدم تنظیموں کے ویسے ہی پی آر او بن گئے ہیں جیسے یہ نواز شریف کے بنے ہوئے ہیں۔پاکستانی مین سٹریم ميڈیا کے بڑے گروپوں کو اگر دیکھا جائے تو وہ اس وقت دو بڑے کیمپوں میں تقسیم ہیں۔ایک کیمپ وہ ہے جو ضیاء الحقی باقیات پہ مشتمل جرنیل شاہی ٹولے کے اس گروہ کی پی آر کررہا ہے جس کا ہاتھ پی ٹی آئی وغیرہ پہ ہے جبکہ دوسرا کیمپ وہ ہے جو نواز شریف اینڈ کمپنی کی پی آر سنبھالے ہوئے ہے۔
اور ساتھ ساتھ نواز شریف کے اتحادیوں کے قد کاٹھ کو بھی بڑا کرکے دکھاتا ہے جیسے فضل الرحمان، ساجد میر ، لدھیانوی ، اچکزئی کو زیادہ وقت دیا جاتا ہے۔جبکہ دوسری طرف عمران خان ، شیخ رشید، طاہر القادری ، حامد رضا قادری،راجہ ناصر عباس زیادہ توجہ پاتے ہیں۔جبکہ اگر مین سٹریم میڈیا میں کم کوریج ،کم توجہ اور زیادہ تر منفی ٹرائل کے ساتھ پروجیکشن کسی پارٹی کی ہوتی ہے تو وہ پی پی پی اور اس کی قیادت ہے۔اس کے بعد اے این پی ہے۔ان پارٹیوں کی کوریج اتنی بھی نہیں ہے جتنی ایم کیو ایم پاکستان و پاک سرزمین پارٹی کو ملتی ہے۔
اور اس کوریج سے ایک گمراہ کن بیانیہ سامنے آتا ہے اور وہ ہے ” فوج بمقابلہ نواز شریف” یا اسٹبلشمنٹ بمقابلہ نواز شریف ۔مین سٹریم میڈیا میں نواز شریف کی نوکری کرنے والے لبرل تو پیپلزپارٹی اور اس کے چئیرمین آصف علی زرداری کی حالیہ سیاست اور پنجاب یاتراؤں کو اسٹبلشمنٹ کے اشارے کی مرہون منت قرار دینے سے گريزاں نہیں ہیں۔جبکہ نواز شریف مخالف تجزیہ کار جیسے ارشد شریف، صابر شاکر اور دیگر ہیں وہ جو ان کے ساتھ نہیں “غدار ” ہے اور بدعنوان ہے اور اگر زیادہ تنگ کرے تو بلاسفیمی کا ارتکاب کرنے والا ہے جیسی روش رکھتے ہیں اور سوشل میڈیا پہ ان دو بیانیوں کے علمبردار بہت سرگرم ہیں اور حقیقی ترقی پسند ، جمہوری ، اینٹی اسٹبلشمنٹ سیاسی بیانیہ دبا دبا سا ہے۔اس کم پروجیکشن نے پاکستان کے اندر بلوچ نسل کشی ، شیعہ نسل کشی اور پاکستان بھر میں ہونے والی انسانی حقوق کی بدترین پامالی کے ایشو کو مین سٹریم ميڈیا اور مین سٹریم سوشل میڈیا میں کسی الجھاؤ کے بغیر سامنے آنے سے روک رکھا ہے۔
سید خرم ذکی، راشد رحمان، مشعال خان،سبط جعفر،صباء دشتیاری سمیت درجنوں دانشوروں کے قاتل آج اگر گرفتار نہیں ہوسکے اور ثمر عباس، سالف شاہ جہاں،شبیر بلوچ سمیت سینکڑوں جبری گمشدگان کی رہائی ممکن نہیں ہوسکی تو اس کی ایک بڑی بنیادی وجہ یہ امتیازی طرز کا رد عمل ہے۔ہمیں ایک بڑی تحریک کی ضرورت ہے جو ریاستی اور غیر ریاستی جبر اور ظلم کو روکوانے کے لئے چلائی جائے اور پاکستانی مین سٹریم میڈیا اور سول سوسائٹی کے اشراف اپنا امتیازی سلوک ترک کریں۔