پاکستان کا انتہائی قدامت پرستی کی جانب جھکاؤ: الھدی جیسے ادارے پاکستانی ثقافت کے نام پہ سعودی وہابی ثقافت کا پروپیگنڈا کرتے ہیں – چھٹا حصّہ – مستجاب حیدر

جمیز ڈورسے فرحت نسیم ہاشمی کے سعودی عرب کی وہابی آئیڈیالوجی سے جڑت بارے اس تحقیقی مقالے کے آخر میں بات کرتے ہوئے پڑھنے والوں کو بتاتا ہے کہ فرحت ہاشمی کا سعودی عرب کی پیورٹن مذہبی فکر سے رشتہ داری کی اصل اس کے جماعت اسلامی سے ملنے والی ثقافتی اور سیاسی اصل کے اندر پائی جاتی ہے۔یہ پاکستان کی وہ سیاسی جماعت ہے جو کئی عشروں سے سعودی حمایت رکھتی ہے۔جماعت اسلامی کی بنیاد سید ابوالاعلی مودودی نے رکھی تھی اور اسے سعودی عرب نے ہی 1953ء میں پھانسی سے بچایا تھا اور پھر اس نے سعودی عرب کے مفادات کے تحفظ کے لئے عالم رابطہ الاسلامی کی بنیاد رکھنے میں اہم کردار ادا کیا۔

عالم رابطہ الاسلامی کہنے کو ایک غیر سرکاری تنظیم ہے لیکن نصف صدی سے یہ سعودی ریاست کے مفادات اور الٹر اکنزرویٹو لٹریچر کی ترسیل کررہی ہے۔اسے سعودی عرب کھل کر مالی امداد فراہم کرتا ہے اور اس کا سربراہ ہمیشہ سعودی باشندہ ہوتا ہے لیکن اس تنظیم کی انتظامیہ/ایڈمنسٹریشن میں اخوان المسلمون کے لوگوں کی اگٹرت رہی ہے۔اس تنظیم کا بنیادی نصب العین یہ ہے کہ مسلمان اس وقت تک غلامی کے چنگل سے آزاد نہیں ہوں گے جب تک وہ سلفی ازم کے مطابق اپنے مذہبی نظریات کو نہ ڈھالیں۔

الھدی میں سعودی عرب کا بہت گہرا اثر ہے۔وہ سعودی عرب کا اسلام امپورٹ/درآمد کرنا چاہتے ہیں۔جماعت اسلامی کا لوگوں پہ اتنا اثر کبھی نہیں رہا جتنا الھدی کا ہے۔ہاشمی کا سٹائل غیر آرتھوڈوکس ہے۔اس کے لیکچر سائنس سے مربوط ہیں۔اس کے لیکچر خوف خدا کے مبلغے کی حد تک پرچار پہ مشتمل نہیں ہے اور نہ کی دوزخ و جنت پہ کتابوں کی بھرمار ہے۔خوف کو روایتی مدارس میں ایک موثر تبلیغ کے ہتھیار کے طور پہ استعمال کیا جاتا ہے۔ہاشمی خوف کی بجائے امید سے کام لیتی ہے۔فرحت ہاشمی کے ہاں تصور توحید وہی ہے جو سعودی عرب کی وہابیت کا ہے۔ ایسے ہی وہ تعبیر قران کو ہر ایک فرد کا بنیادی حق تصور کرتی ہے۔اور یہ بھی سعودی آئیڈیالوجی کا حصّہ ہے ۔

فائزہ مشتاق کہتی ہیں کہ دعوت کے نام پہ جس قسم کی قبولیت اور سماجی اصلاح کی بات کی جاتی ہے وہ الھدی سے ہی خاص نہیں ہے بلکہ الھدی کی انفرادیت ان کو عملی سرگرمیوں سے جوڑنا ہے جو عورتیں اپنی روزمرہ کی زندگی میں اختیار کرسکتی ہیں اور یہ ان کو اس لئے بہتر لگتا ہے کہ وہ بیک وقت ماڈرن اور مذہبی دونوں رہ سکتی ہیں۔

فائزہ مشتاق کہتی ہیں کہ الھدی کی طالبات اور فاضل عورتیں وہ ہیں جن کو آزادانہ نقل و حرکت،بہترکن تعلیم،روزگار کے مواقع پہلے سے میسر ہوتے ہیں۔وہ بیش قیمت گھڑیاں پہنتی ہیں اور لگژری کاریں ڈرائیو کرتی ہیں اور پھر وہ مرد بلادست مین سٹریم اسلامی اداروں کے بارے میں مشکوک ہوتی ہیں جو کہ انتہائی جابرانہ ،ریاستی سرپرستی میں اسلامائزیشن کی کوشش کرتی ہیں جو ان کو زیادہ خودمختارانہ جگہ نہیں دے پاتیں۔الھدی اپنی جگہ ان دونوں انتہاؤں کے درمیان ایک متبادل پیش کرتا ہے جو کہ دونوں میں سے چیزوں کا چناؤ کرتا ہے۔

ہاشمی اپنی شاگرد لڑکیوں وہ بنیادی عقائد پختہ کرتی ہے جو کہ کنزرویٹو مرد رہبر پھیلاتے ہیں۔وہ ان وہابی رہبروں کی طرح کہتی ہے کہ عصر حاضر کے مسلمانوں کے بہت سے اعمال قرآن و حدیث سے انحراف ہیں۔الٹرا کنزرویٹو اور وہابی ہونے میں الھدی اور مرد بالادست وہابی مدارس علمیہ میں اتفاق ہونے کے باوجود دونوں کے راستے جدا ہیں۔ہاشمی مرد اور عورت دونوں پہ امور شرعیہ پہ مہارت کو فرض کہتی ہے اور وہ اس بات کو رد کرتی ہے کہ ایک عورت اسلامک جیورسٹ،مفتی و مفسر قرآن نہیں ہوسکتی اور اس پہ قرآن مجید سے ہی دلائل لیکر آتی ہے۔اس کا کہنا ہے کہ اسلام کا پہلا مدرسہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا گھر تھا۔

جہاں وہ اپنے گھر کی عورتوں کو تعلیم دیتے تھے۔ہاشمی کا کہنا ہے کہ گھر کی زمہ داری عورت کو مبلغ اسلام بننے کی ذمہ داری سے سبکدوش نہیں کرتی۔وہ اپنے لیکچرز آڈیو و وڈیو کے زریعے سے پھیلانے کا دفاع بھی کرتی ہیں اور ان مرد مذہبی رہنماؤں کا رد کرتی ہیں جو ان کی آواز نامحرم مردوں تک جانے کا سبب بتلاکر اس پہ اعتراض کرتے ہیں۔وہ عورتوں کی اکیلے ڈرائیونگ اور سفر کرنے کی بھی حامی ہیں۔ہاشمی کا تصور معاشرہ اس کے سعودی وہابیت سے اشتراک پہ مبنی تو ہے مگر بعض معاملات میں وہ سعودی پرنس محمد بن سلمان کے تصور اصلاحات سے اتفاق کرتی ہیں جبکہ وہ یہ بھی کہتی ہیں کہ ان کو پتا نہیں ہے کہ محمد بن سلمان ولی عہد سعودع عرب کون ہیں؟

دونوں وہابی الٹرا کنزرویٹو مذہبی آئیڈیالوجی کو معاشرے میں پھیلانا چاہتے ہیں مگر ساتھ ہی اس آئیڈیالوجی سے جڑے کچھ عورت دشمن اقدامات کو وہ ترک بھی کرنا چاہتے ہیں۔ہاشمی سعودی ولی عہد کی طرح عورتوں کو محرم مرد کے بغیر سفر اور ڈرائیونگ کرنے کے حق میں ہیں۔وہ کہتی ہیں،”ان کے اپنے ثقافتی اثرات ہیں ،ہمارے اپنے ہیں۔۔۔۔میری طالبات ڈرائیو کرتی ہیں۔۔۔وقت گزرنے کے ساتھ چیزیں بدلتی ہیں۔آپ کا مقصد ایک مگر راستے مختلف ہوتے ہیں۔۔۔۔۔معاشرے کی بنیادی اکائی خاندان ہوتا ہے۔اگر عورت صحت مند،تعلیم یافتہ اور بالغ شعور کی مالک ہے تو وہ اچھی نسل پروان چڑھائے گی۔اور اگر ہم اچھے اور نیک انسانوں کو پروان چڑھائیں گے تو ہمارے پڑوس میں اور سب ممالک میں امن ہوگا”۔

ہاشمی اور اس کا شوہر جو کہ اسلامک یونیورسٹی اسلام آباد کا سابق لیکچرار ہے دونوں اہل حدیث مسلک سے بھی جڑے ہوئے ہیں اور ماڈرن پاکستان سے سب سے زیادہ وفادار بھی ہیں۔الھدی نے اپنے انسٹی ٹیوٹ میں مدارس کے نصاب درس نظامی کو نہیں لیا بلکہ اپنا نصاب بنایا ہے جو ایک سال یا دو سال پہ مشتمل ہے اور اس کے بعد یہ اپنے طالب علموں کو خود قرآن و سنت کی تعبیر و تشریح کرنے کو کہتا ہے جس کی کنزرویٹو اور وہابی حلقے سخت مخالفت کرتے ہیں۔

سعودی تعلیمات الھدی کے نصاب میں نفوذ کئے ہوئے ہیں۔الھدی ہاشمی کا ترتیب دیا نصاب پڑھاتے ہوئے اپنے طالب علموں کو ویلٹنائن ڈے، ہالوین،نیو ائر ،بسنت جیسے سیکولر تہواروں کو شرک و بدعات قرار دیکر منانے سے نہیں روکتا بلکہ میلاد، عاشور ،عرس ہائے اولیاء کی تقریبات منانے سے بھی روکتا ہے۔

الھدی جیسے ادارے عربی کو صرف اس لئے ترجیح نہیں دیتے کہ یہ قرآنی تعلیمات کو پڑھنے اور سمجھنے میں ایک مددگار زبان ہے بلکہ اس زبان کو وہ اس لئے بھی ترجیح دیتے ہیں کہ اس کے زریعے سے الٹرا کنزرویٹو وہابی ریاست سعودی عرب سے جڑجانے میں مددگار ہوتی ہے۔اسلامک یونیورسٹی اسلام آباد جس کی تعمیر سعودی عرب کے پیسے سے ہوئی اور اس میں کئی ایک اساتذہ سعودی عرب سے ہیں اور اس کا ریکٹر بھی سعودی عرب سے ہوتا ہے اور یہ اسلام آباد میں سعودی مذہبی اسٹبلشمنٹ کا سب سے طاقتور مرکز بھی ہے اور اس میں پڑھنے والی خواتین طالبات کو الھدی میں جاکر لیکچر اٹینڈ کرنے کی ترغیب دی جاتی ہے۔خالد احمد کا کہنا ہے کہ ثقافتی طور پہ اگر دیکھا جائے تو ہماری ثقافت عربوں کی نسبت ایران سے کہیں زیادہ اشتراک کے پہلو رکھتی ہے۔

دردانہ نجم کا کہنا ہے کہ الھدی اور دوسرے کئی ادارے یہ خیال کرتے ہیں کہ صدیوں ہندؤں کے ساتھ رہنے کی وجہ سے ہمارے غمی خوشی ، شادی بیاہ سمیت بہت سے رسوم و رواج ہندؤانہ ہوگئے ہیں اور اسلام کی جو حقیقی تعلیم تھی وہ کہیں گم ہوگئی ہے۔تو الھدی کے طلباء کو ہندؤانہ رسوم کو ترک کرنے اور اسلامی طرز زندگی کو اپنانے کو کہا جاتا ہے۔

الھدی کا پاکستانی ثقافت کے کئی ایک مظاہر کو ہندؤانہ کہنا اور اپنے طور پہ مستند پاکستانی کلچر پہ زور سعودی عرب کی وہابیت زدہ ثقافت کے پروپیگنڈے کو فروغ دینے کا سبب بنتا ہے۔

Comments

comments