پاکستان کا انتہائی قدامت پرستی کی جانب جھکاؤ۔ الھدی کی لڑکیاں طالبان کا لیڈیز ونگ ہیں – پانچواں حصہ – مستجاب حیدر
عالیہ سلیم کہتی ہیں”الھدی نے کیا تاشفین کے جرائم کی راہ ہموار کی تھی؟میں کچھ کہہ نہیں سکتی ۔۔۔۔۔۔ وہ یقینی بات ہے کہ دہشت گردی کی تبلیغ نہیں کرتے۔۔۔۔۔لیکن اس ادارے نے مجھے ریڈیکلائزیشن/انتہا پسندی کے کنارے پہ لاکر کھڑا کردیا تھا۔میں رات کے آخری پہر اٹھ کر تہجد کی نماز میں گڑگڑا کر روتی تھی کیونکہ مجھے لگتا تھا کہ میرے والدین،میرے بھائی بہن ،ہر ایک جسے میں جانتی تھی وہ سب گمراہی اور کفر کے راستےپہ تھے اور جہنم کے کنارے پہ کھڑے تھے اور میں ان کو سچے اور سیدھے راستے پہ لانا چاہتی تھی۔میں نے اپنی پوری زندگی بدل ڈالی تھی۔۔۔۔۔ اور اب میں ان کو اپنے مطابق بدلنا چاہتی تھی۔صرف یہ اپنے اندر جھانکنے سے ہوا کہ میں سمجھ پائی کہ میری تو برین واشنگ کردی گئی تھی اور میں جیسے ایک جنونی گروہ کا حصّہ بن گئی تھی۔
تو یہی کچھ تاشفین ملک کے ساتھ ہوا ہوگا جب وہ ایک ذہین چمکتی طالبہ کے طور پہ فارمولوجی میں گریجویشن کرنے کے بعد الھدی انسٹی ٹیوٹ ملتان میں داخل ہوئی ہوگی۔جب وہ رخصت ہوئی تو وہ بہت مذہبی ہوچکی تھی،مکمل طور پہ برقعہ پوش اور اپنے تمام فوٹوز کو برباد اس نے اس لئے نہیں کیا کہ مرد اسے دیکھ نہ لیں بلکہ اس لئے کیا کہ ہمیں یہ سکھایا جاتا تھا کہ جاندار کی تصویر بت پرستی ہے”۔
اپنے سابقہ تجربے پہ نظر ڈالتے ہوئے عالیہ سلیم کہتی ہے،”الھدی جس طرح اسلام کی ایک ظاہریت پسند اور انتہائی تنگ و محدود قدامت پرست تعبیر پہ زور دیتا ہے جو کہ اختلافی یا تنقیدی آوازوں کو مسترد کرتی ہے اس نے میرے اندر ایک آگ بھڑکادی۔گویا آگ پکڑنے والی خشک لکڑی، ڈالی اور دیگر سامان تیار تھا بس دیا سلائی جلانے کی دیر تھی۔اور شعلے دو طرف سے لپک رہے تھے۔ایک طرف سے یہ جیو پولٹکل واقعات کے شعلے تھے: مسلمانوں پہ ہونے والے جبر کا ڈسکورس جس نے خوب طاقت پکڑ لی تھی جس کو داعش اور دوسرے گروپوں نے پوری قوت سے استعمال کیا۔لیکن پھر بھی اس کے لئے ایک اندر کی آگ کی ضرورت تھی،ایک آدمی کے اندر ایک ایسی چیز کی ضرورت جو بنیاد پرستانہ تھیالوجی کو دہشت گردانہ عمل میں بدلے اور یہ دوسری سمت سے آنے والے شعلے تھے”۔
سان برنارڈینو کیلیفورنیا دہشت گردی کے واقعے میں تاشفین ملک سابقہ طالبہ الھدی انسٹی ٹیوشن کا جیسے ہی نام آیا اور الھدی فاءونڈیش پہ جب تنقید شروع ہوئی تو پہلے اس کی ملتان شاخ کی سربراہ نے سرے سے الھدی فاؤنڈیشن میں تاشفین کے پڑھنے سے ہی انکار کرڈالا اور ریکارڈ تک رسائی بھی نہیں دی گئی۔جب چیزیں کھل کر سامنے آگئیں تو پھر الھدی فاؤنڈیشن نے وضاحتی بیان جاری کرنے شروع کئے۔کہا گیا کہ یہ ادارہ غیر سیاسی ، غیر فرقہ پرست اور پر امن فکر پہ مشتمل ادارہ ہے اور یہ تعلیم کے فروغ ، اسلام بطور امن پسندی کے مذہب کے طور پہ فروغ دینے کا کام کررہا ہے اور اس کے کسی سابقہ طالب علم کا دہشت گردی میں ملوث ہونا اس کا اپنا فعل ہے،اسلام پہ یقین رکھنے والا اور اسوہ رسول اللہ کی پیروی کرنے والا دہشت گردی جیسا فعل سرانجام نہیں دے سکتا۔
انتہا پسندی کی نرسریاں
ملک تاشفین کا واقعہ آخری واقعہ نہیں تھا بلکہ دوسرے کئی ایسے واقعات تھے جنھوں نے ان شکوک و شبھات کو تقویت دی کہ الھدی کی تعلیمات ایسی فضاء پیدا کرنے میں آسانیاں پیدا کرتی ہیں جس سے انتہا پسندی اور اس سے آگے جنونیت پروان چڑھتی ہے۔فرحت نسیم ہاشمی اگرچہ اس بات سے انکاری ہیں لیکن الھدی کی بہت سی لڑکیوں کے جہادی گروپوں میں شمولیت نے ان جیسے اداروں کی کلاسز میں شریک ہونے والی لڑکیوں کے انتہا پسندی کی طرف جانے کے خدشات کو حقیقی خطرہ بنادیا ہے۔
ناقدین الھدی کا کہنا ہے کہ خود ہاشمی اور الھدی کے دوسرے اساتذہ نے کئی موقعہ پہ انتہا پسندانہ اور جہادی سخت گیر موقف اختیار کئے یا ایسا سخت گیر موقف سامنے لائے جو اس موقف سے اختلاف کرنے والے کو اپنا فہم شئیر کرنے کی اجازت نہیں دیتا۔ پاکستان آرمی کے ہیڈکوارٹر کے نزدیک راولپنڈی میں مسجد کے اندر جن لوگوں نے بم دھماکہ کیا جس میں 37لوگ شہید ہوئے تھے اور یہ واقعہ 2009ء میں ہوا اور ان میں ماسٹر مائینڈ کی والدہ الھدی میں پڑھاتی تھی۔فرحت نسیم ہاشمی نے کینڈا میں ایک لیکچر کے دوران کہا کہ آزاد کشمیر سمیت جن علاقوں میں زلزلہ آیا جس میں 80 ہزار لوگ مارے گئے وہ خدا کے عتاب کا شکار ہوئے کیونکہ وہاں غیر اخلاقی سرگرمیاں ہورہی تھیں اور جو اس کے راستے کی پیروی نہیں کررہے تھے وہ اس کا شکار ہوئے۔
ثمر الھدی کراچی کی ایک لیکچرر نے 2004ء کے ایشیائی سونامی بارے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا اپنی کلاس کو بتایا،”کچھ تو غلط ہوا ہے،اس تباہی کا جواز فراہم کرنا چاہئیے۔۔۔۔یہ کہا جاتا ہے کہ وہاں پہ جہاں سونامی آیا وہان امراء کے عیاشی کے اڈے اور گراؤنڈ تھے”۔
ثمر نے ایک انٹرویو میں قرآن کی روشنی میں اپنے موقف کو واضح کرنے کی کوشش کی اور یہ بھی کہا کہ ہاشمی صاحبہ کا مقصد سونامی بارے یہ تھا کہ زلزلے انسانیت کے لئے وارننگ یا تنبیہ ہے ناکہ سزا۔
کینڈین جرنلسٹ جس نے یہ خبر بریک کی کہا کہ اس نے خود فرحت نسیم ہاشمی کو زلزلے بارے مذکورہ بالا بیان سنا کے بیان پر نہ تو فرحت نسیم ہاشمی نے کوئی موقف دیا اور نہ ہی الھدی کی جانب سے کوئی جواب آیا۔تاہم الھدی نے اس بیان کے شایع ہونے کے بعد زلزلہ زدہ علاقون میں اپنے ریلیف ورک کی رپورٹ ضرور جاری کی۔
ہاشمی اور ثمر کے بیانات کو بدلنے کے لئے الھدی نے ایک پمفلٹ شایع کیا جس میں اپنے اعمال پہ نظر رکھنے اور دوسروں سے ہٹانے پہ زور دیا جس میں زلزلے کے سبب کا زکر ہی نہ تھا۔تاہم اس پمفلٹ کے اوپر عنوان تھا کہ جب قدرتی آفات کا سامنا ہو تو ہر ایک کو ان آفات و بلیات سے سکھنے کی ضرورت ہے۔اور ان کو محض ایک واقعہ خیال کرنا نقصان دہ ہوسکتا ہے۔ایک اور واقعہ میں ہاشمی نے اسامہ بن لادن کو اسلامی مجاہد و جنگجو کہتے سنا گیا۔
نجم کا کہنا ہے،” الھدی نے طالبان کی حمایت کی اور وہ اسامہ بن لادن کے لئے دل میں نرم گوشہ رکھتا ہے۔اور نائن الیون مسلمانوں نے نہیں کیا۔ان کا یقین ہے کہ یہ امریکہ نے کیا۔اسامہ بن لادن ایک اچھا آدمی تھا اور ہمیں یقین ہے کہ اس کی لڑائی جہاد تھی۔اگرچہ اس میں انتہا پسندی کا عنصر تھا۔ایک استاد نے ہمیں گھرجاکر ٹی وی توڑ دینے کو کہا۔یہی استاد ہمیں خودکش بم دھماکے کرنے اور فلسطین جانے کا کہتی تھی۔جب یہ الھدی کو بتایا گیا تو پھر اس نے معذرت کی۔اس نے کہا کہ کسی نے شکایت کی ہے”۔
سید بدرالدین سہروردی جو کہ 62 سالہ کینڈین پاکستانی صوفی عالم اور اسلامک سپریم کونسل آف کینڈا کے سربراہ ایسی بات الھدی کے کینڈا کیمپس بارے بتاتے ہیں۔سینکڑوں کامیاب،انتہائی تعلیم یافتہ اردو بولنےوالے پاکستانی اور ہندوستانی خاندان انتہا پسندانہ اسلام کی جانب جاچکے ہیں۔اس کے خطبوں کی کیسٹ گھروں میں چلتی ہیں جہاں عورتوں کے گروہ سننے کے لئے اکٹھے ہوتے ہیں۔اور ہزاروں عورتوں سے وہ براہ راست یا فاصلاتی نیٹ ورک کے زریعے سے رابمے میں آتی ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ نوجوان اور ادھیڑ عمر کی عورتیں جو فرحت نسیم ہاشمی کی معتقد ہیں ان سے آکر بحث کرتی ہیں اور ان کے پبلک خطبوں کے دوران صوفی ازم کا رد کرتی ہیں اور اس کی مذمت کرتی ہیں ۔کینڈا میں الھدی کے کیمپسز میں جن لوگوں کو لیکچرز کے لئے بلایا جاتا ہے ان میں ڈاکٹر ذاکر نائیک بھی شامل ہے جن پہ کئی ممالک میں داخلوں پہ پابندی ہے۔اب کینڈا نے بھی ان کے داخلے پہ پابندی عائد کی ہوئی ہے۔
سہروردی کا کہنا ہے،” ہاشمی مسلمانوں کے احساس محرومی کا الزام مغرب کو دیتی ہے اور اس کا فہم دین انور اوالکی کی طرح ہے”۔ (جو کہ یمنی نژاد امریکی پاپولر جہادی مبلغ تھا جو یمن میں امریکی ڈرون حملے میں مارا گیا)۔بدر الدین کا کہنا ہے کہ جتنی خواتین (20 کے قریب ) داعش میں شمولیت کے لئے شام گئیں وہ فرحت نسیم ہاشمی کی پیروکار تھیں۔کینڈا میں الھدی کی شاخ میں حاضری اچانک اس وقت بہت تیزی سے کم ہوئی جب اس شاخ کی چار عورتیں داعش میں شمولیت کے لئے شام جانے کے لئے روانہ ہوئیں اور ان میں سے تین کو کینڈین حکام نے پکڑ لیا۔اس واقعے نے ہاشمی کو عارضی طور پہ کینڈین شاخ کو بند کرنے پہ مجبور کیا۔اور یہ شاخ اونٹاریو میں ایک پرانی لیب ایکوپمنٹ فیکڑی اور اب پلازہ بنی عمارت میں قائم تھی۔یہاں پہ بالغ خواتین کے لئے تعلیمی سنٹر، نماز کے لئے ہال اور چھوٹے بچوں کے لئے نرسری اسکول قائم تھا۔الھدی کا کینڈین شاخ کے فیس بک پیج پر باقاعدگی سے ویڈیو کلپ اور اعلانات پوسٹ ہوتے ہیں۔
سہروردی کے تجزیے جیسا خیال الٹرا کنزرویٹو پس منظر سے آنے والی اسری نعمانی جو اب صحافی ہیں بھی ظاہر کرتی ہیں۔وہ الھدی سے پڑھنے والی عورتوں کو طالبان کی معاون خواتین قرار دیتی ہیں۔وہ الھدی کو (وہابیت ) کی افزائش کا مرکز قرار دیتی ہیں۔اور کہتی ہیں کہ اس کی سرگرم گریجویٹس خواتین ایک ایسی عورتوں کی بٹالین ہے جو نیوی گاؤن ، ٹھوڑی پہ کلپ کے ساتھ ٹکے حجاب اور اکثر ناک تک کو چھپائے برقعے کے ساتھ جسے یہ لڑائی کے اسلحے کے طور پہ استعمال کرتی ہیں خاموشی سے شہر کو خراب کررہی ہیں۔
وہ کہتی ہے کہ یہ مجاہدہ ہیں جو ایک طرف تو ٹیکسٹائل اور جیولری بیچ کر طالبان کے لئے فنڈ اکٹھا کرتی ہیں تو دوسری طرف نوکیا کہ انتہائی قیمتی موبائل سیٹوں کے ساتھ یہ چمک دار سفید ہنڈا گاڑیوں میں اسلام آباد کے جی اور ایف سیکٹرز میں مڈل اور اپر کلاس کے پڑوس میں نکلتی نظر آتی ہیں اور یہ ان پوش علاقوں میں نوکروں کی فوج، مائیکرویوز ، انٹرنیٹ کے فاسٹ کنکشن کے ساتھ رہتی ہیں۔اور اس سفر میں یہ سمجھتی ہیں کہ یہ اپنے طریقے سے مصروف جہاد ہیں۔
فرزانہ حسین جو کہ کینڈین کالمسٹ ، ہیومن رائٹس ایکٹوسٹ پاکستانی نژاد اور کینڈین مسلم کاؤنسل کی سابق سربراہ ہیں ہاشمی پہ الزام عائد کرتی ہیں کہ وہ اپنے لیکچرز میں جہاد کو مغربی دانشورانہ اور ثقافتی تجاوز کے خلاف ایک دفاعی عمل کے طور پہ پیش کرتی ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ یہ عین ممکن ہے کہ تاشفین ملک ہاشمی کے اشتعال انگیز اور حفظ ماتقدم پہ مبنی تصورات جہاد سے متفق ہوگئی ہو۔ہاشمی جہاد کو اللہ کا تیسرا سب سے زیادہ پسندیدہ ستون کہتی ہے۔لیکن وہ اس کی حدود و قیود اور درکار شرائظ نہیں بتاتی۔وہ جہاد کے روحانی فوائد بتاتی ہے لیکن غیر مسلموں کو یہ بتانے سے قاصر اور پزل نظر آتی ہے کہ مسلمان کسی کاز کے لئے اپنی جان دینے کو تیار کیوں ہوجاتے ہیں؟وہ کہتی ہے کہ آخرت کی زندگی کے لئے مسلمان یہ کرتے ہیں اور ان کے لئے یہ سب بہت آسان ہے۔وہ اکثر وبیشتر قتال کو ہی جہاد کے مماثل قرار دے ڈالتی ہے اور بہت ہی چالاکی سے حربی جنگ کو دفاعی جہاد کا لقب دے ڈالتی ہے اور عورتوں کو بھی جنگجوئی پہ جہاد کے نام سے آمادہ کرتی ہے۔