پاکستان کا انتہائی قدامت پرستی کی جانب جھکاؤ۔ سعودی ڈپلومیسی کے مقاصد کے لئے کیسے فائدہ مند ہے ؟ – چوتھا حصّہ – مستجاب حیدر

نجم اپنے بیان میں کہتی ہے کہ “اسے لگتا تھا کہ وہ محبت باری تعالی کی گہرائی کو پاگئی ہے۔میرا خیال تھا کہ جو لوگ مذہبی ہوجاتے ہیں ان کی زندگی ڈرامائی طور پہ بدل جاتی ہے اور وہ ایک مختلف رویہ زندگی بارے اختیار کرلیتے ہیں۔میں کسی ایسی ہستی کی تلاش میں تھی جو مجھے سمجھ سکے اور مجھے ایک سپورٹ سسٹم دے سکے۔میں نے اس خیال کو بہت پسند کیا کہ ہمیں براہ راست قرآن سے جڑ جانا چاہیے۔میں اگر متن قرآن پڑھ سکوں گی تو اسے سمجھ سکوں گی اور اسلام جیسے چاہتا ہے ویسے اصلاح پاسکوں گی”۔

نوٹ: اکثر سلفی،جماعت اسلامی،اخوان المسلمون اور دیگر اسلام ازم کے دانشور اور اسکالر قرآن و سنت سے براہ راست وابستگی کا درس دیتے ہیں اور نہایت چالاکی سے اپنی وہابی اصول تفسیر و اصول ہائے احادیث کو بنیاد بناتے ہوئے وہابی تعبیر قرآن و سنت کو عین قرآن اور عین منشائے خداوندی قرار دے ڈالتے ہیں اور یوں کہہ سکتے ہیں کہ وہ تعبیر اور متن دونوں کو ایک قرار دیکر اپنے پڑھنے والوں اور اپنے سے وابستہ ہونے والوں کو سلفی ازم کی طرف بلاتے ہیں اور انتہائی قدامت پرستانہ فکر و عمل سے جوڑ لیتے ہیں۔مثال کے طور پہ توحید کی تعبیر ان کے ہاں جمہور مسلم علماء و مشاہیر کی تعبیرات سے الگ ہوگی لیکن وہ آیات توحید کے متن کے نام پہ اپنی تعبیر کو منشاء رب العزت قرار دینے پہ اصرار کریں گے۔

عائشہ سلیم بھی الھدیٰ کی جانب مائل ہونے کی ایسی ہی مماثل وجہ بتاتی ہیں،” میں سترہ سال کی تھی اور گھر والوں سے ناراض ،بوریت کا شکار بہت زیادہ بیزار تھی گھر میں اسلام کی بہت ہی زیاد جامد تشریح سے ،جب تاشفین ملک جو کہ ایک پاکستانی خاتون اپنے امریکہ میں جنمے شوہر سید فاروق کے ساتھ خودکار ہتھیاروں کے دسمبر 2015ء میں سان برنارڈینو کیلےفورنیا میں ایک مقامی کلب میں ہونے والی پارٹی میں گئی اور 14 افراد کو مار ڈالا تو مجھے سمجھ آیا کہ اس میں اور مجھ میں کافی کچھ مشترکہ تھا۔تاشفین نے ملتان شہر کے اندر الھدیٰ انسٹی ٹیوٹ کی کلاسیں اٹینڈ کیں اور پھر وہ امریکہ آگئی”۔

الھدیٰ کے مذہبی خیالات بشمول ثقافتی اظہارات کو مسترد کرنا جیسے رقص،موسیقی اور ٹیلی ویژن کو رد کرنا یہ پاکستانی ثقافت کی حقیقت کے بالکل خلاف ہیں اور ایک طالبہ کو کیسے شادی بیاہ کی تقریبات میں اس سے روکا جاسکتا ہے تو جب روکا جائے گا تو اس سے مشکلات تو پیدا ہوں گی۔

الھدیٰ کی ایک اور طالبہ کہتی ہے،” میری اپنے آپ سے لڑائی شروع ہوگئی تھی۔میں تو مہندی کی تقریب میں سب سے پہلے اٹھتی اور ڈانس وغیرہ کرتی تھی۔میں ایسی تھی تو چھوڑیں اس بات کو ،ابتداء میں یہ بہت مشکل تھا۔بہت ہی زیادہ مشکل۔میں نے اپنے بھائی کی شادی پہ دل کھول کر رقص کیا تھا لیکن یہ پہلے کی بات تھی۔۔لیکن برقعے نے میری مدد کی۔کیونکہ اگر آپ برقعے میں ہیں تو اس حالت میں رقص کرنا بہت ہی معیوب سمجھا جاتا ہے اور کوئی آپ سے اس کی توقع بھی نہیں کرتا”۔

الھدیٰ کے طلباء ٹی وی ، فلمیں دیکھنے سے رک جاتے ہیں اور موسیقی سننا بند کردیتے ہیں۔اور یہاں گھمبیرتا یہ ہے کہ اس کی موبائل فون کی رنگ ٹون میوزیکل ہے اور یہ ایک مذہبی گیت ہے۔

عائشہ سلیم کہتی ہیں، ” میں میوزک سے بہت پیار کرتی تھی،بہت زیادہ اس قدر کہ اونچی آواز میں کار میں میوزک سنتی مگر ڈرائیور کو اسے کم کرنا پڑتا تاکہ وہ ٹریفک پہ توجہ کرسکے تو میں اس سے لڑنے لگتی تھی۔لیکن قرآن اور موسیقی ساتھ ساتھ نہیں چل سکتے۔دونوں کا جوہر الگ الگ ہے۔تو جسے میں قرآن و سنت سے ثابت سمجھوں تو وہ کرنا ٹھیک ہے اور اس بارے میں کوئی سوال نہیں۔جہاں تک چہلم یا تیجے وغیرہ کا تعلق ہے یا عید میلاد وغیرہ کا تو یہ قرآن و سنت سے ثابت نہیں ہیں تو یہ بدعت ہیں۔۔ میری جب شادی طے ہوئی تو ایسے ایشوز آئے، میں نے کوئی تصویر نہیں کھنچوائی اور سالگرہ وغیرہ کے ایشوز آتے ہیں تو جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سالگرہ نہیں منائی تو ہم کیوں منائیں۔ہمارے لئے جنم دن یہ پیغام لیکر آتا ہے کہ ہم موت کے اور قریب ہوگئے ہیں۔اور آخرت کے قریب ہوگئے ہیں جس کے لئے ہمیں تیاری کرنا ہے۔تو ہم کیسے اس دن کی خوشی منا سکتے ہیں؟ اور کس لئے منائیں کیا موت کے ایک اور دن قریب آنے کی؟”۔

پاکستانی انگریزی اخبار ایکسپریس ٹریبیون کا ایک بلاگر کہتا ہے کہ الھدیٰ جانے والی طالبات کا ادارے میں جیسے داخلہ ہوتا ہے ان کی زندگیوں میں بہت بدلاؤ آتا ہے اور وہ اپنے پہلے دوستوں کا حلقہ بدل ڈالتے ہیں اور ان کی ساری زندگی بدلاؤ کا شکار ہوجاتی ہے۔اور وہ ایسے مسلمانوں کا ساتھ چھوڑ دیتے ہیں جو ان کی نظر میں لبرل اور ماڈریٹ ہوتے ہیں۔یہی کچھ تاشفین ملک کے کیس میں ہوا جو کہ الھدیٰ میں پڑھی اور پھر سان برنارڈینو کیلی فورنیا میں وہ جہادی بن گئی۔تاشفین کی بہاءالدین زکریا یونیورسٹی کی دوست کہتی ہیں کہ اس نے ملتان میں الھدیٰ کی کلاسوں میں جانا شروع کردیا تھا۔

مشرف زیدی اسلام آباد میں رہنے والے ایک کالم نگار ہیں جن کی اسپیشلائزیشن/تخصص ایسے ہی ایشوز سے ہے جن پہ ہم بات کررہے ہیں ان کا کہنا ہے کہ تاشفین اس وقت ریڈیکل خیالات کی طرف گئی جب وہ پاکستان میں پڑھ رہی تھی کیونکہ وہ اس فکر و خیال سے متعارف ہوئی جو ایسے ادارے اپنے پڑھنے والوں کے ذہنوں میں انڈیلتے ہیں۔ان کو لوگوں کو ان کی جدیدیت سے الگ کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔۔ ٹی وی غلط ہے،میکڈونلڈ سے کھانا غلط ہے،غیر محرم مردوں سے ملنا جلنا غلط ہے وغیرہ وغیرہ ۔۔ ایسے غیر انسانی پن کی جانب لے جانا آسان ہوجاتا ہے، اگر آپ کسی کو وہاں لے جاتے ہو تو مطلب یہ ہے کہ آپ نے اسے کسی پہاڑ کی چوٹی پہ چڑھا دیا ہے جہاں سے گرنے کے چانس بہت زیادہ ہیں۔

تاشفین ملک کے خاندان کی تاریخ ہاشمی کے ادارے کی سعودی انتہائی قدامت پرستی کی جانب جھکاؤ کے ثبوت کے طور پہ ان کے نقاد پیش کرتے ہیں۔تاشفین ملک شیر خوار تھی جب اس کا خاندان سعودی عرب چلا گیا اور دو عشرے بعد جب آیا تو وہ صوفی اور بریلوی مسلمانوں والی رسوم و رواج ترک کرچکا تھا اور اس حوالے سے سختی برتنے لگا تھا جیسے مزارات کی زیارت وغیرہ اور اس پہ اس خاندان کے دوسرے رشتہ داروں اور برادری کے لوگوں سے تعلقات نہ ہونے کے برابر رہ گئے تھے۔تاشفین نے 2007ء میں ملتان میں فارمولوجی میں داخلہ لیا۔بہاءالدین زکریا یونیورسٹی کے ریسرچ اسکالر سید ناصر حسین شاہ سے تاشفین تعلیم میں تعاون مانگا کرتی تھی۔ناصر حسین شاہ کا کہنا ہے کہ ایک دن وہ ان کے پاس آئی اور کہا کہ اس کے والدین سعودی عرب میں ہیں اور وہ اپنی روم میٹس کے ساتھ ایڈجسٹ نہیں کرپارہی تو کیا وہ اس سلسلے میں اس کی مدد کرسکیں گے؟ وہ یونیورسٹی کے لبرل ماحول میں خود کو کمفرٹ ایبل محسوس نہیں کررہی تھی۔

عابدہ رانی جو کہ تاشفین ملک کی یونیورسٹی میں گہری دوست تھی کا کہنا ہے کہ تاشفین ملک میں بہت زیادہ بدلاؤ 2009ء میں اس وقت آیا جب وہ قریب قریب روز یونیورسٹی سے الھدیٰ انسٹی ٹیوٹ کلاس لینے جانے لگی،تاشفین نے فارمولوجی سے زیادہ الھدیٰ کی پڑھائی پہ فوکس کرنا شروع کردیا۔ہم سب حیران تھے کہ تاشفین کو کیا ہوگیا ہے؟وہ بہت زیادہ مذہبی، بہت زیادہ سنجیدہ اور بہت زیادہ مذہبی تعلیم پہ فوکس دینے لگی تھی۔یونیورسٹی کی پڑھائی میں اس کا دھیان نہیں تھا۔اس نے پاکستانی اسلامی ٹی وی چینلز زیادہ دیکھنے شروع کردئے اور گریجویشن کے بعد اس نے گروپ فوٹو ميں حصہ نہ لیا اور یونیورسٹی کے ڈیٹا بیس سے اپنی فوٹو ہٹانے کی کوشش بھی کی۔اس نے اپنے یونیورسٹی شناختی کارڈ اور لائبریری کارڈ اکٹھے کئے اور ان کو تباہ کردیا۔عابدہ رانی کو تاشفین نے بتایا کہ وہ حجاب کے بغیر اپنی ایک تصویر بھی باقی رہنے دینا نہیں چاہتی۔

تاشفین ملک نے یونیورسٹی سے گریجویشن کے بعد الھدیٰ انسٹی ٹیوٹ کی ملتان شاخ میں فل ٹائم داخلہ لے لیا اور وہاں 18 ماہ گزارے۔وہاں داخلے کے بعد تاشفین ملک نے سعودی برقعہ پہننا شروع کردیا اور اس نے مردوں سے بالکل دور رہنے کا طریقہ اپنایا۔اور زیادہ وقت وہ مذہبی کتب کے مطالعے میں صرف کرتی۔سعودی عرب میں جب وہ اسکول میں تھی تو ساتھی لڑکیوں کو وہ اچھا مسلمان بننے پہ بہت زیادہ زور دینے والی لڑکی خیال کی جاتی تھی۔

تاشفین اگرچہ پبلک زندگی میں بہت لئے دئے رہتی لیکن آن لائن اس کی موجودگی بہت زیادہ تھی۔اس کی ہمدردیوں کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اس نے فیس بک پہ ایک پیج بنایا جس کا نام تھا” لڑکی ذات” جس پہ وہ ایسے مسلمانوں پہ افسوس کرتی جو کوکونٹ مسلمان ہیں اور غیرت مند عسکریت پسندی ان میں نہیں ہے۔امریکی فیڈرل انوسٹی گیشن ایجنسی کے ایک اہلکار نے فیس بک پہ اس کے دو پرائیویٹ میسج دیکھے جو پاکستانی دوستوں کو بھیجے گئے جن میں اس نے داعش و القاعدہ جیسی تنظیموں کے جہاد کی حمایت کی اور خود بھی اس کا حصّہ بننے کا عزم ظاہر کیا۔امریکی حکام کو یقین ہے کہ اس کا یہ رویہ الھدیٰ فاؤنڈیشن میں تعلیم و تربیت کا نتیجہ تھا۔

تاشفین کو اپنے جیسا آدمی اس وقت ملا جب اس نے ویب سائٹ بیسٹ مسلم ڈاٹ کوم پہ پاکستانی نژاد امریکی ہیلتھ انسپکڑ سید رضوان فاروق کا اشتہار برائے تلاش رشتہ دیکھا: “میں اپنا زیادہ وقت مسجد میں قرآن پڑھنے میں گزارتا ہوں۔میں ایک نیک باعمل مسلمان خاتون جو کہ راسخ العقیدہ سنّی سلف صالح کے طریقہ پہ عمل پیرا ہو کا رشتہ تلاش کررہا ہوں۔جو خاتون اپنے مذہب کو سنجیدگی سے لیتی ہو اور ہمہ وقت اپنی اور دوسروں کی اصلاح احوال ميں غلطاں ہو اور حکمت سے اسے دوسروں کو اپنانے نہ کہ سختی سے یہ سب کرنے ميں مصروف کو تلاش کررہا ہوں

تاشفین نے سختی سے اپنی نئی زندگی پہ عمل کیا، وہ کالے رنگ کا سعودی برقعہ استعمال کرتی،اپنے گھر جو کیلی فورنیا کے نیم شہری علاقے میں تھا سے اکیلی باہر نہیں آتی تھی اور جب اپنے شوہر کے ساتھ ہوتی تو کار سے باہر نہیں آتی تھی۔کیلی فورنیا ریور سائیڈ مسجد کے جس امام نے دونوں کا نکاح پڑھایا اس کا کہنا ہے کہ فاروق کے رشتے داروں نے بھی کبھی نہ اسے دیکھا اور نہ اس کی آواز سنی تھی۔

خالد احمد جو کہ پاکستانی سیاست کے نمایاں تجزیہ کار ہیں کا مشاہدہ یہ ہے کہ کوئی الٹرا کنزرویٹو کب دہشت گرد بنتا ہے اس کا سراغ اس کے تعلیمی،سمابی اور ثقافتی اداروں سے نہیں مل پاتا بلکہ یہ دراصل کٹ کر رہ جانے کا عمل ہے جو دہشت گردی کے راستوں کی جانب لیکر جاتا ہے۔خودکش حملہ آور نصاب سے نہیں بنتے بلکہ معاشرے سے کاٹ کے ان کو رکھے جانے کا عمل خودکش بناتا ہے۔جو کوئی معاشرے سے کٹ کر اس کے رسوم و رواج اور معیارات کو رد کرکے الگ تھلگ ہوتا ہے اس کے دہشت گردی کی جانب سفر کرنے کا امکان بڑھ جاتا ہے۔اور اقامتی مدرسے یہی کرتے ہیں۔اسلام آباد میں عورتوں کے بہت سے مدرسے اور دروس کے حلقے یہی کرنے میں مصروف ہیں۔

خالد احمد بھی الھدیٰ کی پاکستانی امراء کی عورتوں میں اثر ورسوخ کا حوالہ دیتے ہیں، ” میں الھدیٰ کو مذہبی مدرسوں کی فورتھ جنریشن کہتا ہوں۔یہ دہشت گردی کو فروغ نہیں دیتے مگر سرخ لکیر کے نزدیک آپ کو لے جاتے ہیں۔اور اب آپ کا ذاتی فیصلہ ہے کہ آپ ریڈ لائن کراس کرکے کسی کی جان لیتے ہیں یا نہیں؟”۔

دفاعی تجزیہ کار ڈاکٹر عائشہ صدیقہ کے خیال میں بھی الھدیٰ انسٹی ٹیوٹ عورتوں میں جنون کی آگ بھڑکادیتا ہے۔ان کی الھدیٰ کی ایک فاضل عالیہ سے بات چیت ہوئی جس نے ان کو بتایا کہ ایک طر‌ف اس ادارے میں مسلم دنیا کے اندر ہونے والے مسلمانوں پہ ظلم کے بارے میں بتاکر جذبات کو جوش دلایا جاتا ہے تو ساتھ ہی باطنی زندگی کوبہتر بنانے کے لئے انتہا پسندانہ مذہبی نکتہ نظر کے مطابق زندگیوں کو ڈھالنے کا درس دیا جاتا ہے اور آخری مقصد اسلامی حکومت کا قیام ہوتا ہے۔عالیہ سلیم نے عائشہ صدیقہ کو بتایا کہ جو آگ تاشفین کے سینے میں تھی وہی آگ اس کے سینے میں بھی سلگ رہی ہے۔

عائشہ کہتی ہیں کہ مجھے الھدیٰ کی طالبہ شمائلہ غیاث نے بتایا،” اس کے سب شاگرد جن کے بارے آپ کا خیال ہوگا کہ وہ خدا کے قریب ائے ہوں گے اور زیادہ تحمل و امن والے بن گئے ہوں لیکن نتیجہ اس کے برعکس نکلتا ہے۔وہ زیادہ عدم برداشت والے ، زیادہ فتوے باز اور زیادہ متکبر و انانیت پسند ہوجاتے ہیں۔اس بات کا ثبوت بھی ملے کہ الھدیٰ نے تاشفین کا برین واش کیا لیکن اس بات کا ثبوت ضرور ملتا ہے کہ الھدیٰ اپنے طلباء میں مذہبی جنونیت کو فروغ دیتا ہے۔اور انتہائی قدامت پرستی کو لیکر آتا ہے۔اور ذرا سا ٹھیک وقت پہ دھکا اس کے شاگردوں کو بے رحم قاتل میں بدل سکتا ہے اور اس کا مقصد جنت کا حصول ہوگا”۔

Comments

comments