یہ کیسا دھندا ہے؟ – طاہر یاسین طاہر
موضوعات بے شمار ہیں،نورین لغاری کا موضوع اپنی جگہ بڑا اہم ہے۔کالعدم تحریک ِ طالبان پاکستان کے شاعرانہ سے نام والے ایک سابق ترجمان احسان اللہ احسان کا سرنڈر کرنا ایک اور اہم واقعہ ہے جس پہ لکھا جانا واجب ہے۔بہت موضوعات اکٹھے ہوجائیں تو گاہے ان میں سے انتخاب بھی مشکل ہو جایا کرتا ہے۔یہ مگر ان کے لیے جن کی ریاضت کم ہو۔جو قاتل و مقتول کو ایک ہی میزان میں تولتے ہیں۔
جو نئی اصطلاحات تراش کر فکری مغالطے پیدا کرتے ہیں اور قلمی محنت کے عوض اپنی جنت کا ٹکٹ کنفرم کراتے ہیں۔مقتولوں کے معاشرے میں قاتلوں کے لیے جگہ تلاش کرنے والے نابغے ایک دوسرے کی آڑی ترچھی لکیروں کو داد دیتے ہیں اور پھر کسی شام یونہی یہ بھی کنفرم کر لیتے ہیں” ہم سب” دانش ور ہیں اور معاشرے کی فکری دھار کا رخ ہم ہی نے متعین کرنا ہے۔
متنوع سماج میں نئے نئے فکری رویے سامنے آنا عجب نہیں،مگر ہم جیسے متشدد ،اور انتہا پسندانہ سماج میں لے دے کے ایک ہی طرح کے لوگ غالب اور کثیر نظر آتے ہیں۔اول خود کش حملے کرنے والے،مسلمانوں کی تکفیر کرنے والے،دہشت گردوں کی مالی،فکری اور رہائشی سہولت کاری انجام دینے والے،دوئم اس مظلوم معاشرے میں ظلم کی آبیاری کرنے والوں کے لیے عزت کی مسند تلاش کرنے والے۔ کیا وہ سماج زندہ رہ سکتا ہے جہاں معصوم افراد کی لاشوں کا تو مثلہ کر دیا جائے مگر قاتلوں کے لیے عزت اور اقتدار کی مسند تلاش کی جائے؟ہم بے رحم لوگ ہیں،بے شک بے رحم ہیں۔
بارہا اس جملے کی تکرار کی،ایک آدھ بار مزید لکھا جائے تو برا ہی کیا ہے؟ اخباری دانش انسان کو کہیں کا نہیں چھوڑتی۔محاورہ یاد آتا ہے، ایک کریلا،دوسرا نیم چڑھا۔۔سوشل میڈیا پہ نت نئے لکھاری آئے اوراپنی من چاہی دنیا تخلیق کرنے لگے۔عموماً میں سوشل میڈیا پہ آوارہ گردی نہیں کرتا۔اگرچہ میں بیشتر وقت دوستوں کو آن لائن ہی نظر آتا ہوں مگر لکھنے پڑھنے کے دیگر کاموں میں مصروف ہوتا ہوں۔دو چار روز سے قومی دھارے میں شامل کیے جانے والے دھندے کا رولا سنا تو تحقیق کی۔اصل میں ہم سب منافقانہ سماج کا جزو ہیں۔ہم ایک دوسرے کو قائل کیا خاک کریں گے ۔
مجھے آج تک اس منطق کی سمجھ نہیں آئی کہ دہشت گردوں کو قومی دھارے میں شامل کرنے کے لیے ان سے “مذاکرات کیے جائیں”۔یہ بیانیہ نون لیگ کی حکومت نے بھی اپنایا ہوا تھا،حتیٰ کہ اے پی ایس پشاور کا المناک سانحہ ہو گذرا۔کیا یہ عجب اور قابل افسوس بات نہیں کہ کالعدم قرار دی گئی تنظیموں کو قومی دھارے میں شامل کرنے کے لیے باقاعدہ مہم چلائی جائے اور انتہا پسندوں کے حق میں بیانیہ ترتیب دیا جائے؟
بہت سادہ بات ہے اور میں اسے بہت تکرار سے لکھتا آ رہا ہوں۔کسی بھی مسلح یا متشدد تنظیم کو اس وقت کالعدم قرار دیا جاتا ہے جب اس کی سرگرمیاں ریاستی مفادات کے بر عکس ہوں،اور اس قدر تیز بھی ہوں کہ ریاست کے لیے مسائل پیدا ہونا شروع ہو جائیں۔ریاست بے شک ایسی تنظیموں کو کالعدم قرار دیتی ہے۔کیا بتایا جا سکتا ہے کہ کالعدم تنظیموں اور ان کے سربراہان نے اب ریاست کےحق میں ایسا کون سا کارنامہ سر انجام دے دیا کہ انھیں پارلیمان تک “سپیس” دی جائے؟جب وفاق میں پیپلز پارٹی کی حکومت تھی تو کے پی کے، میں اے این پی کی صوبائی حکومت تھی۔
اے این پی کے صوبائی وزیر اطلاعات میاں افتخار ہوا کرتے تھے۔ ایک بار انھوں نے پریس کانفرنس کے دوران کہا کہ دہشت گرد اپنے حمایتوں کو پارلیمنٹ تک بھیجنا چاہتے ہیں۔ یعنی منتخب کروا کے۔میں جب کسی متشدد،تکفیری دہشت گرد تنظیم ،اس کے کسی کارکن،یا سربراہ وغیرہ کو قومی دھارے میں شامل کروانے والی” مہم” کو دیکھتا اور سنتا ہوں تو مجھے میاں افتخار کی پریس کانفرنس کے یہ الفاظ یاد آ جاتے ہیں۔ دہشت گردوں کو اس راستے میں شکست ہوئی جس کا انھوں نے انتخاب کیا تھا۔اب وہ سیاسی جدو جہد کے نام پر پارلیمان تک رسائی کر کے اپنی بربریت اور تکفیریت کو قانونی و آئینی جواز فراہم کرنا چاہتے ہیں۔جبر کے ان نئے زاویوں کو بھی ہم بڑی باریک بینی سے دیکھ رہے ہیں۔کیا ظالم و مظلوم یکساں ہو سکتے ہیں؟
سادہ سوال یہ ہے کہ فرقہ وارانہ نعروں کی بنا پر جلسے کرنے اور لوگوں کے مذہبی جذبات انگیخت کرنے والے یہ دعویٰ کیسے کر سکتے ہیں کہ وہ فرقہ پرست نہیں ہیں؟کیا یہ سچ نہیں کہ مولانا احمد لدھیانوی جس فکری رویے کے ترجمان ہیں وہ مسلمانوں کے ایک گروہ کو مسلمان ہی نہیں سمجھتا۔فتاویٰ موجود ہیں ان کے اس حوالے سے۔کیا اس سکول آف تھارٹ کی رزق روزی کا بندوبست مسلم کشی میں ہی نہیں؟
ہم سب بے شک ان کی وکالت کو نکل آئیں مگر حقائق اور تاریخ بدلی نہیں جا سکتی۔ہم کچھ دیر کے لیے سماج کو بے وقوف بنا سکتے ہیں مگر تا دیر نہیں۔مجھے اس میں کیا ہے کہ قاتلوں کی حوصلہ افزائی اور ان کے حق میں تقریریں کرنے والے جزا و سزا کےقانونی عمل سے گذر کر قومی دھارے میں آئیں تو۔ خود کو اس طرح پیش کرنا کہ میں آگیا ہوں تو اب امن ہی امن ہو گا،درست بات نہیں ہے۔ اپنے انٹرویو کے دوران میں سانحہ راجا بازار راولپنڈی کا ذکر کرتے ہوئے مولوی احمد لدھیانوی یہ کیوں بھول گئے کہ یہ سانحہ یک بیک نہیں ہوا تھا بلکہ اس سانحے کے محرکات تھے۔اس سانحے کو اس کے پورے محرکات سمیت ہی یاد کیا جائے۔کیا اب داعش کے حق میں ویڈیو پیغام نشر کرنے والوں کے حق میں بھی تحریریں لکھی جائیں گی اور انھیں بھی قومی دھارے میں لانے کے لیے کوئی بیانیہ تراشا جائے گا؟
کیا نورین لغاری اور احسان اللہ احسان کے لیے بھی کوئی سوشل میڈیا مہم چلائی جائے گی کہ انھیں قومی دھارے میں لایا جائے؟عجب بات ہے کہ مولانا احمد لدھیانوی اپنے انٹرویو میں کہتے ہیں کہ میں نے ” پنجاب حکومت کی درخواست پر ملک اسحاق سے جیل میں جاکر ملاقات کی اور اسے ہتھیار پھینکنے پر آمادہ کیا”۔ حیرت ہے پنجاب حکومت پر،جو قاتلوں کے سردار کو سزا دینے کے بجائےاسےیہ کہہ رہی تھی سنچری ہو گئی ہے،اب بس کر۔
جب کسی کو ہتھیار پھینکنے کا کہا جاتا ہے تو کیا ان مقتولوں کا حساب بھی رکھا جاتا ہے جو بے جرم و خطا کسی کے مذہبی جذبات کی خوراک بن گئے؟سوشل میڈیا کے ٹائیکون بنے دانش وروں کو یہ حق ہے کہ وہ اپنی وال اور سائٹ پہ جس کا چاہیں انٹرویو شائع کریں، مگر قاتل و مقتول کو ایک ہی صف میں کھڑا کر کے تاریخ اور انسانیت کے ساتھ دھوکہ مت کریں۔حیرت ہوتی ہے جب کہا جاتا ہے کہ ان دہشت گردوں اور مسلح گروہوں کے پشت بانوں کو سماج میں ایسی “سپیس” دیں کہ یہ سیدھے پارلیمان میں جا بیٹھیں۔جہاں سے یہ اپنے متشدد فکری رویوں کے لیے پارلیمانی حجت تمام کرتے ہوئے سماج میں ملائیت کے قہر کاپھر سے آغاز کریں۔شیفتہ کو یاد کیے بہت دن ہو گئے ہیں افسوس بے شمار سخن ہائے گفتنی خوفِ فسادِ خلق سے نا گفتہ رہ گئے
Source:
https://www.mukaalma.com/article/tahir514/2836