پاکستان کا انتہائی قدامت پرستی کی جانب جھکاؤ سعودی عرب کے علاقائی سیاسی مقاصد کے حصول میں کیسے معاون ہے؟ – دوسرا حصّہ – مستجاب حیدر
کئی طرح سے فرحت ہاشمی اپنے زمانے کی چیز ہیں۔ان کا ذہنی ارتقاء پاکستانی فوجی جرنیل ضیاء الحق کی مذہبی پالیسیوں سے تشکیل پایا ہے جو کہ سعودی عرب کے انتہائی قریبی اتحادی تھے جنھوں نے صنفی تقسیم کو معاشرے میں گہرا گیا اور عورتوں کے لئے مخصوص قدامت پرستانہ لباس لازم کیا اور ان کے لئے ملازمت کے چند مخصوص شعبے ہی چھوڑے۔تو فرحت ہاشمی نے بھی الٹر کنزرویٹو دنیا میں اپنا الگ ہی راستہ چنا ہے۔
اس نے روایتی اسلامی سکالرز کا مقابلہ کرنے کے لئے مذہبی تعلیم حاصل کی اور گلاسگو یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کی بجائے اس کے کہ وہ الازھر قاہرہ یا مدینہ یونیورسٹی سے یہ ڈگری لیتیں۔
سعودی وہابیت پہ مبنی قدامت پرستانہ آئیڈیالوجی سے اشتراک رکھنے والی پاکستانی دیوبندی دنیا کے اندر فرحت نسیم ہاشمی کو اپنے ایک ممکنہ حریف کے طور پہ دیکھا جاتا ہے۔اس کا اندازہ سعودی عرب کے ایک اور بڑے حامی طاہر اشرفی دیوبندی اور چئیرمین دیوبندی پاکستان علماء کونسل کی گفتگو سے لگایا جاسکتا ہے۔وہ جیمز ڈورسے سے بات چیت کرتے ہوئے کہتا ہے
“وہ اسلام کی پیروکار یا اس کی شارح نہیں ہے۔یہ اس کی اپنی تعبیر ہے۔اس کی تعلیم خلاف اسلام ہے”۔
فرحت ہاشمی اس تنقید کو رد کرتی ہیں۔اور ان کا کہنا یہ ہے کہ ان کے اکثر مذہبی ناقدوں کو کبھی سمجھ نہیں آسکتا کیونکہ وہ کبھی مغربی جامعات میں پڑھے ہی نہیں کہ وہاں اسلام پہ کیسے بات ہوتی ہے۔
فرحت ہاشمی نے 2008ء میں ایک ریڈیو انٹرویو میں بتایا تھا کہ ان کا پی ایچ ڈی کا جو مقالہ تھا اسے مکمل کرنے کے دوران سعودی عرب کے ایک معروف وہابی سکالر اور سعودی مفتی اعظم مرحوم شیخ عبدالعزیز ابن باز کے شاگرد ناصر البانی کا اثر ان پہ بہت تھا۔فرحت ہاشمی نے کہا تھا کہ اس مقالے کو لکھنے کے دوران ناصر البانی نے ان کی خصوصی رہنمائی کی تھی۔اور ڈاکٹر حمید اللہ نے ان کو بہت تعاون فراہم کیا تھا۔لیکن جیمز ڈورسے نے جب ان سے سوال کیا تو انہوں نے ناصر البانی کے اپنے پی ایچ ڈی کے مقالے پر کسی قسم کے اثرات ہونے سے انکار کردیا۔
ہاشمی نے کہا،”ایسا کوئی سکالر سرے سے تھا ہی نہیں۔میں کافی لوگوں سے اپنی ریسرچ کے دوران ملی تھی۔میں نے اردن کا دورہ کیا۔البانی 1988ء میں وہاں تھا۔ہم ایک مرتبہ اسے دیکھنے گئے تھے”۔ناصر البانی حدیث کے ظاہر پہ اصرار کرنے اور ظاہری معانی پہ بہت شدت سے زور دینے کے سبب خود وہابی قدامت پرست حلقوں میں متنازعہ ہے اور ہاشمی کہتی ہے کہ اس کو عورتوں کو بااختیار بنانے بارے جہاں سے تقویت ملے وہ اس کو لیتی ہے چاہے وہ البانی کیوں نہ ہو۔
الھدی فاؤنڈیشن بنانے کے ساتھ ساتھ فرحت نسیم ہاشمی کے دروس ہائے قرآن نے بھی شہرت حاصل کرنی شروع کی اور خاص طور پہ اسلام آباد کی اشرافیہ کے گھروں میں اس کے دروس خاصے شہرت پاگئے۔وہ اسلام آباد سمیت کئی شہروں کے ماڈرن کالجز میں بھی لیکچرز دینے لگیں اور انہوں نے اسلامک یونیورسٹی اسلام آباد میں بھی کافی لیکچرز دئے جبکہ یہ یونیورسٹی انتہائی قدامت پرستانہ سعودی وہابی ازم کو پھیلانے میں اہم کردار ادا کررہی ہے۔فرحت نسیم ہاشمی کو خواتین کے مدارس عربیہ دینیہ میں بھی بلایا جاتا رہا ہے۔اس کے اسٹڈی سرکلز بھی قومی اور بین الاقوامی سطح پہ ایک انسٹی ٹیوٹ کے نقش پا بن گئے۔
ہاشمی کے انسٹی ٹیوٹ اور عوامی خطبات میں مڈل اور اپر کلاس کی عورتیں کھنچی چلی آنے لگیں۔اس کی ویڈیو کیسٹ اور پھر سی ڈیز کراچی ، ٹورنٹو، ہوسٹن اور یہاں تک کہ پاکستانی جیل خانوں میں بھی ہاٹ کیک کی طرح بکنے لگیں۔ہاشمی کے لیکچرز آن لائن بھی موجود ہیں۔ایف ایم اور پاکستانی ریڈیو اسٹیشنز سے اس کی تقریریں نشر ہوتی رہی ہیں۔عورتیں جو الھدی کے ساتھ منسلک نہیں ہیں وہ ڈرائیونگ کرتے ہوئے یا کچن میں کام کرتے ہوئے اس کی ٹیپ چلاتی ہیں۔
اشرافی رضاکار خواتین جیسے بیگم عابدہ گورمانی ہیں جوکہ الھدی کی مدرس ہیں نے الھدی کی شاخیں پورے پاکستان میں کھولنے میں مدد کی۔الھدی کی سماجی بنیادیں اس کے وکیشنل ٹریننگ کے ساتھ ساتھ سوشل سروسز کی فراہمی جیسے بیواؤں کی مالی مدد، تعلیمی وظائف، ہسپتال اور قید خانے چیئرٹی پروگرام، دوردراز علاقوں میں ککنوؤں کی کھدائی اور آفت زدہ علاقوں میں ریلیف ورک کی وجہ سے اور پھیل گئی ہیں۔سابق صدر فاروق لغاری مرحوم کی بیوی ارجمند لغاری نے 1990ء میں ہاشمی اور اس کی بہن نگہت کی مدد کی۔نگہت نے اپنا مذہبی تعلیمی ادارہ النور کے نام سے قائم کیا اور یہ الھدی کا ہی حصّہ تھا۔اس ادارے نے ایک الٹرا کنزرویٹو کاٹیج انڈسٹری کے بیج بوئے جس کا ہدف اپر اور مڈل کلاس کی عورتیں ھیں۔ایک مذہبی ایکو سسٹم ہاشمی کے اداروں کے گرد تعمیر ہوا جس ميں اسلامی بک سٹورز، فیشن ریٹلرز، شریعہ فناشل سروسز اور دست کاری و کشیدہ کاری کے ڈیزائن کے انسٹی ٹیوٹ شامل تھے۔
فاروق لغاری کے بارے میں یہ کہا جاتا ہے کہ اس کے تعلقات سپاہ صحابہ پاکستان جیسی انتہا پسند تنظیم سے تھے۔اور وہ ان کو سپورٹ فراہم کرتا تھا۔
اس کی بیوی ارجمند لغاری نے ہاشمی سسٹرز کا تعارف پاکستان کے کچھ بہت ہی سینئر فوجی۔سیاسی اور سول بیوروکریٹس کے خاندانوں سے کروایا۔الھدی کا بورڈ ابتداء سے ہی سینئیر سرکاری افسران کی بیویوں پہ مشتمل تھا جنھوں نے پروفیشن کے خانے میں خود کو ہاؤس وائف لکھا تھا۔الھدی کے پاکستان کی سیاسی اور ملٹری ایلیٹ/اشرافیہ کے اندر راستے بنانے کا مطلب یہ تھا کہ اسے پاکستان کے صاحب ثروت اور سعودی عرب میں پاکستانی ڈائی سپورا سے ڈونیشن مل سکتے ہیں۔
ہاشمی کے اداروں سے بڑی تعداد میں ایسی گریجویٹ عورتیں نکلیں جن کا تعلق پاکستان ملٹری کے افسر گھرانوں میں سے تھا۔خود جنرل مظفر عثمانی کی بیوی بھی ہاشم کے حلقہ احباب میں شامل تھی اور جنرل عثمانی کو جنرل شرف نے وہابی عسکریت پسند خیالات اور دیوبندی عسکریت پسندوں سے روابط کے سبب ہی نوکری سے فارغ کیا تھا۔
الھدی نے کئی بار سعودی اداروں سے مدد لینے کے الزام کی تردید کی ہے اگرچہ اس ادارے کی نظریاتی روش سعودی عرب کی سرکاری مذہبی نظریاتی روش سے الگ نہیں ہے۔اس ادارے کے 2014-2015 کے آڈٹ شدہ کھاتے اس ادارے کےخالص اثاثے 92 لاکھ ڈالر کی مالیت اور آمدنی 33 لاکھ ڈالر بتاتے ہیں۔یہ آمدنی اسے چندوں ،فیسوں، کتابوں اور سی ڈیز کی فروخت سے آتی ہے۔بینکر کہتے ہیں کہ الھدی کو زیادہ تر چندے سعودی عرب اور گلف ممالک سے آتے ہیں جو کہ الھدی کے ہیڈ کوارٹرز اور اسلام آباد میں پاک سعودی ٹاور کے ساتھ بنے ولاء پہ خرچ ہوتے ہیں۔یہ پاک سعودی ٹاور 20 منزلہ عمارت ہے اور سعودی عرب و پاکستان کی مشترکہ ملکیت ہے۔
اگرچہ الھدی کی جانب سے سعودی امداد سے انکار کیا جاتا ہے، اس کے اکاؤنٹس اوپن ہیں اور یہ اپنی فلاسفی کے سعودی عرب کی فکر سے اشتراک اور معاشرے میں سعودی اثر کو بڑھانے میں اس کے سازگار کردار سے انکاری ہے لیکن پھر بھی اس پہ سوالیہ نشان اپنی جگہ باقی ہیں۔الھدی کے مخالف سول سوسائٹی کے کچھ لوگوں نے فرحت ہاشمی کو ایک خط لکھا جس میں الھدی فاؤنڈیشن کے کردار پہ پبلک مباحثہ کرانے کو کہا گیا جس میں 50 سکالر الھدی کی جانب سے 50 مخالفوں کی جانب سے شامل ہوں تاکہ اس بات پہ بحث ہوسکے کہ الھدی کس کی فکر کو پاکستانی سماج کے اندر پھیلا رہا ہے۔لیکن اس خط کا کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔