ناصبیت کا تاریخی پس منظر – عامر حسینی

 

تکفیری دیوبندی تنظیم اہل سنت والجماعت /سپاہ صحابہ پاکستان کا سوشل میڈیا پہ پراپیگنڈا سیل ” الحیدری ” کے نام سے ہے اور اس الحیدری کے فیس بک پہ موجود سوشل پیج پہ لفظ ناصبی اور ناصبیت کے بارے میں یہ پروپیگنڈا کیا گیا ہے کہ اسے صرف اہل تشیع نے استعمال کیا اور یہ ان کی نشانی ہے۔اکابر اہلسنت نواصب و ناصبیت سے اچھی طرح واقف تھے اور انھوں نے اس کا رد جابجا کیا بھی ہے۔

جیسا کہ میں نے اپنے ایک مضمون میں “کاؤنٹر ہسٹری ” ” رد تاریخ ” کی تشکیل کا زکر کیا تھا اگرچہ وہ “رد تاریخ ” کی وہ شکل تھی جو ہمیں اسلام کی آفیشل تاریخ کی تعصب سے از سر نو ترتیب کی شکل میں کرسچن اور یہودی ابتدائی مصنف اور پھر مستشرقین کے ہاں نظر آتی ہے جس کا ہدف اسلام کی سب سے مقدس ہستی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو منفی انداز میں پیش کرنا تھا۔خود مسلمانوں میں ہمیں ” ردتاریخ ” کی ایک شکل مسلمانوں میں نواصب اور رافضیوں کے ہاں نظر آتی ہے جنھوں نے اہل سنت اور اہل تشیع دونوں کے ماڈریٹ طریقوں سے ہٹ کر انتہا پسندانہ اشکال کی طرف مراجعت کی اور اس نے مسلم تاریخ کا حلیہ بگاڑنے میں اپنا کردار ادا کیا۔اہل سنت کا لبادہ اوڑھے نواصب کا ہدف حضرت علی اور اہل بیت اطہار تھے۔

اور ان نواصب بارے اولین تاریخ میں مواد موجود ہے۔سلفی اور دیوبندی مکاتب فکر کے وہ لوگ جو تاریخ سے شغف رکھتے ہیں وہ اس حوالے سے بہرحال خاصا پک اینڈ چوز کا رویہ رکھتے ہیں۔اور ان دونوں مکاتب فکر کے اندر کم از کم بنو امیہ کے حکمرانوں اور آل مروان کی طرف داری کا بہت غالب رجحان پایا جاتا ہے اور جو اس میں غلو کرتا ہے تو وہ ناصبیت کے گڑھے میں گرجاتا ہے۔اکثر سلفی اور دیوبندی سکالرز بنوامیہ کی ملوکیت اور ان کی جانب اپنے جھکاؤ کو ملفوف رکھتے ہیں لیکن تاریخ کے کئی موڑ ایسے ہیں جب ان کی یہ طرف داری اور جھکاؤ ایک دم سے سامنے آجاتا ہے اور ان کے اندر چھپے بیٹھے نواصب بھی ایک دم سے بے نقاب ہوجاتے ہیں۔ آپ کو سید ابوالاعلی مودودی کی کتاب ” خلافت و ملوکیت ” یاد ہی ہوگی۔

اس کتاب کے خلاف مولانا منظور نعمانی، ابوالحسن ندوی اور پھر مولانا تقی عثمانی سمیت درجنوں دیوبندی علماء نے رد لکھے اور یہاں تک کہ مائل بہ ناصبیت علمائے دیوبند نے سید مودودی کو مائل بہ تشیع بھی کہہ ڈالا۔اس کے جوابات ملک غلام علی نے دئے تھے اور وہ بھی کتابی شکل میں شایع ہوئے تھے۔ آج جماعت اسلامی ان دونوں کتابوں کو اپنے مین سٹریم بیانیہ میں لانے سے شرماتی ہے کیونکہ پاکستان میں اس کی قیادت کا سعودی عرب سے رشتہ بہت مضبوط ہے۔اور ایک طرح سے دیوبند اور سلفیت کے ” رد تاریخ ” ماڈل سے مطابقت کی کوشش کررہی ہے۔

سعودی عرب اور اخوان و جماعت اسلامی کا جو پین اسلام ازم ہے اس کے ہاں ” ردتاریخ ” کا ایک فوکس حضرت علی اور اہل بیت ہیں اور دوسرا ان کا فوکس اوائل اسلام اور ابتدائی کتب تاریخ میں تصوف کے حق میں جانے والی تمام روایتوں اور شواہد کو مسلم نوجوانوں کے حافظے سے مٹانا ہے۔ اور یہ بنیادی طور پہ جمہوری سنّی اسلام کے تاریخی شعور کو اپنی مائل پہ ناصبیت سوچ کے مطابق ڈھالنا ہے۔ سنّی اسلام کے لئے یہ ایک بہت بڑا چیلنج ہے۔ اور جنوبی ایشیا میں مائل بہ ناصبیت سوچ ” نیو ریڈیکل دیوبندی ازم ” کے جھنڈے تلے فروغ پارہی ہے۔ ہم اس چیلنج سے کیسے نمٹ سکتے ہیں ؟ یہ سوال اپنی جگہ بہت اہمیت کا حامل ہے۔اور یہ صوفی اہلسنت سے کہیں زیادہ خود دیوبند مکتبہ فکر کے سکالرز اور دردمندوں کے لئے بڑی فکر کی بات ہے۔

ویسے ناصر البانی نے بخاری کے راویوں کی چھان بین کرتے ہوئے ناصبی روات بارے بات کی جیسے حریز بن عثمان ہے عبارت ملاحظہ ہو

الألباني في وصف حريز بن عثمان الناصبي : ثقة ، كان يبغض علياً أبغضه الله
سلسلة الأحاديث الصحيحة – للألبــاني (13 / 30)
(وحريز بن عثمان: هو الرَّحبي الحمصي، وهو ثقة من رجال البخاري؛ ولكنه
كان يُبْغضُ علياً أبغَضَه الله! ولذلك أورده ابن حبان في “الضعفاء” (1/268- 269)، وقال في “صحيحه “- بعد أن ساق حديث عقبة بن عامر في التشهد بعد الوضوء من طريقين عنه، أحدهما: عن أبي عثمان عن جبير بن نفيرعنه

ناصبی جس کی جمع نواصب ہے اور اس کے لیے ناصبہ اور ناصبیہ بھی استعمال کیا جاتا ہے (القاموس المحیط ص177) (فتح الباری 7:437)

اس کی اصطلاحی تعریفات ایک سے زائد ہیں جن میں سے معروف درج ذیل ہیں
زمخشری لکھتے ہیں: بغض علی و عداوتہ – حضرت علی سے بغض اور ان سے عدوات (الکشاف 4:777) (روح المعانی 30:172)
ابن حجر العسقلانی لکھتے ہیں: بغض علی و تقدیم غیرہ علیہ-بغض علی اور ان کے غیر کو ان پہ مقدم کرنا (ھدی الساری ص 459)
سیرت نگار ابن اسید الناس لکھتے ہیں: النواصب قوم یتدینون ببغضۃ علی ۔ نواصب وہ قوم ہیں جو کہ بغض علی کو اپنا دین بنا چکے ہوں (المحکم والمحیط الاعظم 8:345) اور اس قول کو معروف لغوی ابن منظور اور فیروزاآبادی نےبھی اختیار کیا ہے
ابن تیمیہ رحمہ لکھتے ہیں : النواصب : الذین یوذون اہل البیت بقول و عمل نواصب: وہ جو کہ اہل بیت کو اپنے قول اور عمل سے ایذا پہنچاتے ہیں (مجموع الفتاوی 3:154)

ابن اثیر نے اپنی کتاب الکامل التاریخ کی تیسری جلد میں حضرت عمر بن عبدالعزیز کی حکمرانی کا زکر کرتے ہوئے ایک باب باندھا ہے
ذكر ترك سب أمير المؤمنين علي عليه السلام
كان بنو أمية يسبون أمير المؤمنين علي بن أبي طالب عليه السلام إلى أن ولي عمر بن عبد العزيز الخلافة فترك ذلك وكتب إلى العمال في الآفاق بتركه‏.
ذکر امیر المونین حضرت علی علیہ السلام کو برا بھلا کہنے کا
بنو امیہ امیرالمومنین علی بن ابی طالب علیہ السلام کو برا بھلا کہتے رہے یہاں تک کہ حضرت عمر بن عبدالعزیز کی حکومت آگئی تو انہوں نے اسے ترک کردیا اور ساری سلطنت میں اپنے گورنروں کو اسے ترک کرنے کا حکم دیا۔

اس کے بعد ابن اثیر نے حضرت عمر بن عبدالعزیز کی جانب سے اس فعل شنیع کو ترک کرنے کا حکم دینے کی وجوہات اور اسباب پہ تفصیل سے روشنی ڈالی ہے۔آپ لکھتے ہیں :

وكان سبب محبته عليًا أنه قال‏:‏ كنت بالمدينة أتعلم العلم وكنت ألزم عبيد الله بن عبد الله بن عتبة بن مسعود فبلغه عني شيء من ذلك فأتيته يومًا وهو يصلي فأطال الصلاة فقدت أنتظر فراغه فلما فرغ من صلاته التفت إلي فقال لي‏:‏ متى عملمت أن الله غضب على أهل بدر وبيعة الرضوان بعد أن رضي عنهم قلت‏:‏ لم أسمع ذلك‏

.
اور اس کا سبب حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم سے محبت تھی۔ انہوں نے بتایا : میں مدینہ میں حصول علم کے لئے گیا ہوا تھا اور میں (معروف فقیہ ) عبیداللہ بن عبداللہ بن عتبہ بن مسعود کی شاگردی اختیار کررکھی تھی ۔پھر ان کو میرے حوالے سے کوئی شئے پہنچی۔ تو میں ان کے پاس پہنچا تو وہ نماز پڑھ رہے تھے ، نماز کافی طویل ہوگئی اور میں ان کے نمآز سے فارغ ہونے کا انتظار کرتا رہا تو جب وہ نماز سے فارغ ہوئے تو میری طرف التفات کیا اور مجھ سے پوچھا کہ تمہیں کیسے علم ہوا کہ اللہ تبارک تعالی اہل بدر و رضوان کے اصحاب سے راضی ہونے کے بعد غضبناک ہوا ۔میں نے کہا نہیں سنا۔‏

قال‏:‏ فما الذي بلغني عنك في علي فقلت‏:‏ معذرة إلى الله وإليك‏!‏ وتركت ما كنت عليه
پھر سوال کیا : تو وہ کیا بات ہے جو میرے پاس تمہارے حوالے سے حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم کے بارے میں پہنچی ہے ؟ تو میں نے کہا : میں اللہ سے اور آپ سے معافی کا طلبگار ہوں! تو آپ نے اس چیز کو ترک کردیا جس پہ آپ عمل پیرا تھے ‏‏

فلما ولي الخلافة لم يكن عنده من الرغبة في الدينا ما يرتكب هذا الأمر العظيم لأجلها فترك ذلك وكتب بتركه وقرأ عوضه‏:‏ ‏{‏إن الله يأمر بالعدل والإحسان وإيتاء ذي القربى‏}‏ ‏[‏النحل‏:‏ 90‏]‏‏.‏ الآية فحل هذا الفعل عند الناس محلا حسنًا وأكثروا مدحه بسببه فمن ذلك قوله كثير عزة‏:‏ وليت فلم تشتم عليًا ولن تخف بريًا ولم تتبع مقالة مجرم تكلمت بالحق المبين وإنما تبين آيات الهدى بالتكلم وصدقت معروف الذي قلت بالذي فعلت فأضحى راضيًا كل مسلم

تو جب وہ خلافت پہ فائز ہوئے تو ان کے لئے دنیا میں کوئی رغبت نہیں تھی جس کے سبب وہ (سب علی ) جیسا کام کرتے صرف نام و نمود کے لئے تو انہوں نے اسے ترک کیا اور خط لکھا کہ اسے ترک کردیا جائے اور خطبے میں جہاں عمال بنو امیہ طعن علی کرتے تھے تو آپ نے اس کی جگہ سورہ نحل کی یہ آیت داخل کروائی

‏{‏إن الله يأمر بالعدل والإحسان وإيتاء ذي القربى‏}‏ ‏[‏النحل‏:‏ 90‏]‏‏.‏ الآية
تو آپ کے اس فعل کی لوگوں نے کافی تحریف کی اور اس سبب آپ کی مدح بھی ہوئی اور کثیر عزت نے اس کے سبب آپ کی شان میں یہ اشعار لکھے

ليت فلم تشتم عليا ولم تخف بريا ولم تقنع سجية مجرم

وقلت فصدقت الذي قلت بالذي فعلت فأضحى راضيا كل مسلم

اے عمر! تم نے اختیار ہوتے ہوئے علی المرتضی پر شتم نہ کیا اور نہ ہی نیکی کو چھپایا اور تم نے مجرموں کے راستے کی پیروی نہ کی اور تم نے سچ بات کی اور راستی کا راستہ اپنایا اور تم سے ہر ایک مسلمان خوش و خرم ہے ( ابن اثیر کی روایت میں الفاظ زرا مختلف ہیں اور اس میں یہ اضافہ ہے کہ آیات ہدایت کو تم نے واضح طور پہ بیان کیا اور حق المبین کے ساتھ کلام کی اور مجرموں کے کہے کی پیروی نہ کی وغیرہ )

ذہبی نے ایک ابو سعید اور جابر سے نقل کیا ہے :
‏ما کنّا نعرف منافقی ھذہ الاُمّۃ الّا ببُغضھم علیّ
ہم اس امت کے اندر منافقوں کو ان کے حضرت علی سے بغض کی وجہ سے پہچانتے ہیں
ویسے حدیث رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی ہے
اے علی تجھ سے بغض صرف منافق ہی رکھے گا

حافظ ابن حجر عسقلانی شافعی نے بخاری کی شرح فتح الباری کے مقدمے ہدی الساری میں جن راویان بخاری بارے جرح کتب ہائے جرح و تعدیل میں موجود کا زکر کرتے ہوئے اور اس حوالے سے جواب دیتے ہوئے ” حا” سے شروع ہونے والے راویوں میں ایک راوی حزیر بن عثمان کا زکر کرتے ہوئے لکھا ہے

حريز بن عثمان الحمصي مشهور من صغار التابعين وثقه أحمد وابن معين والأئمة لكن قال الفلاس وغيره أنه كان ينتقص عليا وقال أبو حاتم لا أعلم بالشام أثبت منه ولم يصح عندي ما يقال عنه من النصب قلت جاء عنه ذلك من غير وجه وجاء عنه خلاف ذلك وقال البخاري قال أبو اليمان كان حريز يتناول من رجل ثم ترك قلت فهذا أعدل الأقوال فلعله تاب وقال بن عدي كان من ثقات الشاميين وإنما وضع منه بغضه لعلي وقال بن حبان كان داعية إلى مذهبه يجتنب حديثه

حریز بن عثمان الحمصی صغار تابعین ( درجہ دوم کے تابعین میں شمار ہوتے ہیں ) اور ان کی ثقاہت احمد بن حنبل ، معین و دیگر آئمہ حدیث نے کی ہے لیکن الفلاس وغیرہ نے کہا (حریز بن عثمان) حضرت علی رضی اللہ عنہ کی تنقیص کرتا تھا۔اور ابو حاتم نے کہا کہ میں نہیں جانتا کہ اس سے شم (برا بھلا کہنا ) ثابت ہے کہ نہیں اور میرے نزدیک اس سے جو ” نصب ” منسوب کیا گیا وہ ٹھیک نہیں ہے کیونکہ میں کہتا کہ ایک جگہ اس سے “شم ” نقل ہوا اور دوسری جگہ اس کے خلاف۔اور بخاری نے کہا کہ ابوالیمان نے کہا کہ وہ حریز سے رجوع کرتے تھے پھر ایسا کرنا ترک کردیا میں کہتا ہوں یہ سب سے معتدل قول ہے اقوال میں سے پھر شاید انکار کردیا ہو اور ابن عدی نے کہا کہ وہ حضرت علی کو برا بھلا کہنے والوں میں سے سب سے ثقہ راویان حدیث میں سے تھے اور بے شک اس کا حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم سے بغض بہت واضح تھا اور وہ اپنے مذہب کا داعی تھا تو اس کی احادیث سے اجتناب ہی بہتر ہے ۔

ابن حجر عسقلانی کی اس عبارت سے یہ بات تو روز روشن کی طرح عیاں ہوگئی کہ اہل سنت کے ہاں ” نصب ، ناصبی ، نواصب” کی اصطلاح مروج تھی اور اس سے مراد حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم اور اہل بیت سے عدوات و بغض رکھنے والے اور حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم کی تنقیص کرنے والے مراد لئے جاتے تھے۔

ابو زرعہ سے طبقات حنابلۃ میں یہ قول درج ہوا ہے :
اذا رایت الکوفی یطعن علی سفیان الثوری و زائدۃ فلا تشک انہ رافضی واذا رایت الشامی یطعن علی مکحول و الاوزاعی فلا تشک انہ ناصبی ( طبقات حنابلۃ جلد 1 ص 200)
جب کسی کوفی کو سفیان ثوری پہ طعن کرتا دیکھو اور اس پہ غلو کا عالم دیکھو تو اس میں شک نہ ہو کہ وہ رافضی ہے اور جب کسی شامی کو محکول و اوزاعی پہ طعن کرتا دیکھو تو کوئی شک نہ رہے کہ وہ ناصبی ہے۔

خطیب بغدادی نے اپنی تاریخ میں لکھا :
ولو اخذت علیا علی کتفی لقال الناس ناصبی (تاریخ بغداد 2:232)

اگر کوئی حضرت علی رضی اللہ عنہ کا مواخذہ کرتا تو لوگ کہتے ناصبی ہے

ایسے اور سینکڑوں شواہد موجود ہیں اکابر اہلسنت کے ہاں جس سے یہ بات اچھی طرح سے ثابت ہوتی ہے کہ لفظ ناصبی اہلسنت و جماعت کے ہاں ان لوگوں کے بارے میں بولا جاتا تھا جو حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم اور اہل بیت اطہار کو برا بھلا کہتے تھے اور ان کا باقاعدہ ایک منظم گروہ بن گیا تھا اور وہ لوگوں کو اس جانب دعوت بھی دیا کرتے تھے۔بلکہ کتب ہائے تاریخ اسلامی کے مطالعہ سے یہ بات بھی روز روشن کی طرح عیاں ہوجاتی ہے کہ مروان اور ان کی آل اولاد نے تو اسے باقاعدہ ایک کمپئن اور مہم کی شکل دی اور اسقدر شدید پروپیگنڈا تھا کہ اہل شام میں مشکل سے ایسے لوگ ملتے تھے جو حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم کو اہل ایمان سے سمجھتے ہوں اور یہ خیال نہ کرتے ہوں کہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم نے حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کو شہید نہیں کیا تھا۔

مائل بہ ناصبیت اور تکفیری دیوبندی یزید پہ لعنت اور اس کے فسق پہ لکھنے اور بولنے پہ بہت شور مچاتے ہیں اور تازہ پروپیگنڈا پوسٹ بھی ایسی ہی ہے اس قسم کے غبارے سے ہوا نکالنے کے لئے جلال الدین سیوطی کی یہی سطریں کافی ہیں

لعن اللہ قاتلہ و ابن زیاد معہ ویزیدایضاً وکان قتلہ بکربلا وفی قتلہ قصۃ فیھا طول لا یتحمل القب ذکرھا فانا للہ وانا الیہ راجعون۔

ترجمہ؛۔ سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ کے قاتل پر اللہ کی پھٹکار اور اس کے ساتھ یزید اور ابن زیاد پر خدا کی لعنت۔ آپ کو میدانِ کربلا میں شہید کیا گیا۔ اور اس شہادت کی طویل داستان ہے جس کے بیان کرنے سے دل جسارت نہیں کرتا۔

Comments

comments