صد سالہ جشن جمعیت: کیا مولانا فضل الرحمان امن کی سفارت کاری کررہے ہیں ؟ – عامر حسینی
نوشہرہ اضاخیل خبیر پختون خوا میں صد سالہ جشن جمعیت علمائے ہند کے نام سے منعقدہ اجتماع عام کے آخری روز مولانا فضل الرحمان نے اپنے کارکنوں سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اسلام امن کا دین اور فرقہ واریت و دہشت گردی کے خلاف ہے۔ان کی پارٹی نے تمام تر مشکلات کے باوجود عدم تشدد کا راستہ ترک نہیں کیا اور پاکستان کے آئین کے اندر رہتے ہوئے فرقہ و مسلک سے بالاتر ہوکر سیاست جاری رکھی ہے۔
مولانا فضل الرحمان نے اپنی تقریر میں اسلام، فرقہ واریت اور دہشت گردی کے خلاف جتنی بھی باتیں کیں وہ ایک سو ایک فیصد درست ہیں۔یہ بھی درست ہے کہ جمعیت علمائے اسلام نے اپنا سرکاری موقف ہمیشہ عدم تشدد پہ مبنی ہی رکھا ہے اور انھوں نے ماضی میں پاکستان کے اندر شیعہ اور دیوبندی مذہبی قیادتوں کو مل بیٹھنے کے لئے فراغ دلی کا ثبوت بھی دیا ہے۔لیکن کیا مولانا فضل الرحمان پاکستان کے اندر امن کی سفارت کاری کررہے ہیں؟ کیا وہ واقعی چاہتے ہیں کہ پاکستان سے فرقہ واریت اور انتہا پسندی کا خاتمہ ہوجائے؟
اس حوالے سے پاکستان کے موقر انگریزی اخبار “روزنامہ ڈان ” نے آج اپنے اداریے ” جمعیت کی صد سالہ سالگرہ ” کے عنوان سے ایک اداریہ تحریر کیا ہے۔اور اس اداریہ میں اخبار نے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے
Perhaps the biggest challenge facing him today is to resist hardliners within the party, as well as to not change the JUI-F’s narrative to please extremists on the outside. The JUI-F can play a key role in moderating rightist elements, and convincing them to play by the rules of the democratic system.
https://www.dawn.com/news/1325956/jui-fs-centenary
روزنامہ ڈان نے اپنے پڑھنے والوں کو اپنے ہی اخبار کے اندر تواتر سے آنے والی ان خبروں کو یکسر نظر انداز کرڈالا جو ہمیں یہ بتاتی رہی ہیں کہ گزشتہ چند سالوں سے سندھ ،کراچی، پنجاب، خیبرپختون خوا اور بلوچستان، گلگت بلتستان ،کشمیر اور فاٹا میں جمعیت علمائے اسلام (فضل الرحمان ) اور تکفیری دیوبندی تنظیم اہلسنت والجماعت/سپاہ صحابہ پاکستان کے درمیان اشتراک و تعاون میں اضافہ دیکھنے کو ملا ہے۔
اور اہلسنت والجماعت کے کارکنوں اور لیڈروں نے اکثر وبیشتر علاقوں میں اپنا سیاسی چہرہ جے یو آئی (ایف) کرلیا ہے۔حال ہی میں سپاہ صحابہ پاکستان کے بانی مولانا حقنواز جھنگوی کے بیٹے مولانا مسرور جھنگوی جھنگ شہر سے ممبر صوبائی اسمبلی منتخب ہوئے تو انھوں نے جمعیت علمائے اسلام ف میں شمولیت اختیار کرلی اور اس موقعہ پہ جب ان کی ملاقات مولانا فضل الرحمان سے ہوئی تو سپاہ صحابہ پاکستان/اہلسنت والجماعت کے سرپرست اعلی محمد احمد لدھیانوی بھی اس ملاقات میں شریک تھے اور مسرور جھنگوی اس وقت پنجاب اسمبلی میں جے یوآئی ف کے واحد ممبر اور پارلیمانی لیڈر ہیں۔
ایک فرقہ پرست، انتہا پسندانہ اور تکفیری نظریات کی حامل تنظیم جس پہ سرکاری طور پہ پابندی ہے اس جماعت کی قیادت اور کارکنوں کو جے یو آئی ایف کی چھتری پوری طرح سے میسر ہے۔اور جے یوآئی ایف اہلسنت والجماعت کے ملک بھر میں خاص طور پہ پنجاب ، خیبر پختون خوا میں ہزارہ ڈویژن، سندھ میں جنوبی حصّے میں بلوچ قبائل کی پٹی میں ، کراچی اور ایسے ہی خیبر پختون خوا میں ڈیرہ اسماعیل خان ڈویژن اور پشاور ڈویژن میں اس تنظیم کے ووٹ بینک کو ساتھ ملاکر اپنی سیاسی پوزیشن مستحکم کررہی ہے۔سیاسی طور پہ جے یو آئی ایف کی یہ حکمت عملی فائدہ مند ہوسکتی ہے لیکن اس سے ملک میں فرقہ واریت کے خاتمے، انتہا پسندی اور تکفیریت کو جڑ سے اکھاڑنے میں کتنی مدد فراہم ہوسکے گی ؟ اس سوال کا جواب کچھ مشکل نہیں ہے۔
حیرت انگیز بات یہ ہے کہ روزنامہ ڈان نے جے یو آئی ایف کو ایک اداریہ میں دائیں بازو کے انتہا پسندوں کو اعتدال پسندی کی جانب لانے کے لئے اہم ترین کردار ادا کرسکنے والی جماعت قرار دیا ہے تو دوسری جانب اس نے اپنے ایک اور ادارئے میں جو اس کے ساتھ شایع ہوا ہے اپنے پڑھنے والوں کو بتایا ہے کہ اگر فوجی آپریشنز سے دہشت گردی کی سنگین وارداتوں میں عددی اعتبار سے کمی آئی ہے اور فاٹا کی صورت حال بہت بہتر ہے لیکن دہشت گردوں نے شہروں میں پناہ لے لی ہے اور ان کو انتہا پسند نیٹ ورک سے مدد مل رہی ہے۔اخبار صاف کہتا ہے کہ سیاسی حکومت نیشنل ایکشن پلان اور انسداد دہشت گرد اتھارٹی نیکٹا کو فعال نہیں بناسکی اور حکومت کی انتہا پسندی کے خلاف پالیسی فوجی آپریشنز کے ثمرات سمیٹنے سے قاصر نظر آتی ہے اور اخبار اس کا زمہ دار بھی سویلین حکومت کو ٹھہراتا ہے۔
The evolution of the state’s response to terrorism lags behind the evolution of the militants themselves. And one of the principal reasons for the lag appears to be an unwillingness or inability on the part of the state to empower institutions.
ounter-extremism in particular cannot be conceptualised and a policy road map drawn up or executed in a sporadic manner. Speeches by the prime minister and expressions of resolve by the military leadership do not amount to a counter-extremism policy. In this regard, the onus is necessarily on the civilian leadership. Why is Nacta moribund, NAP patchily implemented and a counter-extremism policy as elusive as ever?
https://www.dawn.com/…/13259…/sluggish-response-to-militancy
سویلین قیادت مسلم لیگ نواز اور اس کے اتحادیوں کی حکومت ہے۔مسلم لیگ کے سب سے اہم اتحادی جمعیت علمائے اسلام اور اہلسنت والجماعت /سپاہ صحابہ پاکستان ، پاکستان علماء کونسل (دیوبندی) ، جمعیت اہلحدیث پاکستان (ساجد میر گروپ) ہیں۔اور اگر ہم تبلیغی جماعت
(دیوبند) اور وفاق المدارس العربیہ پاکستان کو بھی اس حکومت کا اتحادی کہیں تو غلط نہیں ہوگا۔مسلم لیگ نواز کے جماعت دعوہ کے ساتھ بھی انتہائی اچھے تعلقات ہیں۔مسلم لیگ نواز کے یہ سارے اتحادی تکفیری اور جہادی عناصر کے ہمدرد،سہولت کار، نظریہ ساز اور ان کو مشکلات سے نکالنے کے لئے اپنے سیاسی چہروں کو استعمال کرنے سے دریغ نہ کرنے والے ہیں۔اور مسلم لیگ نواز نے اگر پاکستان کے اندر نیشنل ایکشن پلان اور نیکٹا جیسے اداروں کو بااخبیار و فعال نہ بنایا تو اس کی وجہ بھی اس کے اتحادیوں کا دباؤ ہے اور مسلم لیگ نواز کی قیادت کے سعودی عرب سے رشتے ناتے ہیں۔
جب نیشنل ایکشن پلان بنا اور ایسا نظر آنے لگا کہ اب حکومت انتہا پسندوں کے سہولت کاروں کے خلاف کاروائی پہ مجبور ہوجائے گی اور ایسے میں سب سے زیادہ دباؤ میں دیوبندی مدارس اور تنظیمیں نظر آرہی تھیں تو اس کا مقابلہ کرنے کے لئے مولانا فضل الرحمان نے دیوبندی فرقے کی 26 تنظیموں کو اسلام آباد بلوایا اس میں وفاق المدارس بھی تھی اور ایک اتحاد تشکیل دے ڈالا ۔اس میں اہلسنت والجماعت/سپاہ صحابہ پاکستان ، جیش محمد ، حرکت المجاہدین سمیت دیوبند کی تکفیری و جہادی تنظیمیں بھی تھیں اور اس اتحاد نے نیشنل ایکشن پلان کو غیر موثر بنانے کی جدوجہد کی۔اس کے ساتھ ساتھ مولانا فضل الرحمان نے سعودی عرب کی جانب سے یمن کی جنگ چھڑنے پہ سعودی عرب کی حمایت کا اعلان کرنے اور سعودی کیمپ سے وابستہ ہوجانے والی دیوبندی تنظیموں کو اپنے ساتھ رکھا۔اور خود بھی سعودی بادشاہت اور سعودی مذہبی وہابی اسٹبلشمنٹ کے ساتھ نیاز مندی جاری رکھی۔اس اجتماع میں بھی خصوصی طور پہ امام کعبہ اور وزیر مذہبی امور برائے سعودی عرب کو بلایا گیا۔اور مسلم لیگ نواز نے بھی سعودی مذہبی امور کے وزیر اور امام کعبہ کو پوری اہمیت دی۔
مولانا فضل الرحمان بخوبی واقف ہیں کہ سعودی عرب مڈل ایسٹ سمیت پوری مسلم دنیا کے اندر جمہور سنّی اور شیعہ اسلام کے خلاف ایک بڑی فرقہ پرستانہ، انتہا پسندانہ اور دہشت گردانہ تحریک کا سب سے بڑا سپانسر بنکر کھڑا ہے اور سعودی عرب مسلم دنیا میں عالمی سامراجی کیمپ کا سب سے اہم اور بڑا اتحادی ہے۔آج مسلم دنیا کے اندر جو فرقہ وارانہ انتشار اور دہشت گردی پھیلی ہوئی ہے ان سب گروپوں کی نظریاتی اماں جان سعودی عرب ہے اور ان کا فنانس بھی سعودی اور سامراجی طاقتوں کے زریعے سے ہی مینج ہورہا ہے۔ایسے میں فضل الرحمان جب سعودی کیمپ میں خود کو کھڑا کرلیتے ہیں تو وہ مسلم دنیا ے اندر پائی جانے والی تقسیم میں ایک فریق کے کیمپ میں جاکر بیٹھ جاتے ہیں اور اعتدال پسندی کے سکوپ کو فوت کرنے کا سبب بن جاتے ہیں۔
ہم سمجھ سکتے ہیں کہ یہ جو مسلم لیگ نواز کالعدم تکفیری/جہادی انتہا پسند پسند تنظیموں کو مرکزی دھارے میں لانے کی تجاویز دے رہی ہے اور جمعیت علمائے اسلام ف کے سربراہ فرقہ واریت و دہشت گردی کے خاتمے کے لئے خود کو سفیر امن کے طور پہ پیش کررہے ہیں تو اس کا مقصد کیا ہے؟ یہ اس دباؤ سے تکفیری و جہادی عناصر کو نکالنے کی ایک سبیل ہے جو ان پہ پاکستانی سماج کے عوامی حلقوں ، بین الاقوامی برادری کی جانب سے پڑ رہا ہے۔اور اس کا فوری اور وقتی مقصد پاکستان کے اندر کسی وقت منعقد ہونے والے عام انتخابات میں انتہا پسندی،جہادی و تکفیری سب سے بڑھ کر سعودی نواز کیمپ کی فتح کو ممکن بنانا ہے۔