کیا سعودی نوازی ، تکفیر ازم، جہاد ازم و اینٹی روشن خیال اقدامات پہ عسکری و سویلین قیادت میں اتفاق ہے؟ – تجزیہ و تلخیص – مستجاب حیدر
نوائے وقت میڈیا گروپ کے انگریزی اخبار “دی نیشن ” کی تازہ اشاعت میں ادیب اور تجزیہ نگار خالد محمد نے سعودی فوجی اتحاد میں پاکستانی فوج کی شمولیت کے حوالے سے ہماری توجہ اس ایشو کی طرف دلائی ہے جسے پاکستان کے مین سٹریم ميڈیا کے اکثر حصّے میں نظر انداز کیا جارہا ہے۔اور حیرت انگیز طور پہ پاکستان کا نواز شریف کا حامی کمرشل لبرل مافیا پہ مشتمل صحافیوں اور تجزیہ کاروں کا ٹولہ ہمیں یہ بتانے سے قاصر ہے کہ اس ایشو پہ نواز شریف اینڈ کمپنی کا لبرل ازم کیا گھاس چرنے چلا گیا ہے؟
ویسے نوائے وقت میڈیا گروپ کے اردو روزنامے ” نوائے وقت” اور ہفت روزہ ” ندائے ملت ” میں ہمیں ایسا کوئی آرٹیکل پڑھنے کو نہیں ملا۔شاید یہ میڈیا گروپ اپنے اردو پڑھنے والے قاری کو سعودی فوجی اتحاد میں پاکستان کی شمولیت کے حقیقی خطرات سے آگاہ کرنا اہم خیال نہیں کرتا یا پھر وہاں خالد محمد جیسا کوئی کالم نگار جگہ پاہی نہیں سکتا۔کمرشل لبرل مافیا کا سرخیل نصرت جاوید صاحب وہاں موجود ہیں اور وہ اس موضوع کو کبھی نہیں چھیڑیں گے۔اگرچہ خالد محمد نے اپنے اس آرٹیکل میں پاکستانی فوج کی موجودہ قیادت سے براہ راست یہ سوال نہیں کیا ہے کہ جب پاکستانی فوجی قیادت سویلین قیادت کے بھارت اور افغانستان اور امریکہ کے حوالے سے اٹھائے جانے والے اقدامات بارے اعلانیہ اختلاف کا اظہار کرسکتی ہے اور سیاست دانوں کی منشاء کے برخلاف قدم اٹھا سکتی ہے تو سعودی عرب فوج بھیجے جانے اور فوج میں فرقہ وارانہ بنیادوں پہ تقسیم کے خطرے کے پیش نظر سویلین حکومت کو کیوں نہیں کہتی کہ وہ اپنے فیصلے پہ نظر ثانی کرے ؟
یہاں پہ ایک سوال یہ بھی اٹھتا ہے کہ نواز شریف اینڈ کمپنی اور پاکستانی فوجی اسٹبلشمنٹ آخر کار سعودی وہابیت کی حامی مذہبی قوتوں کو ہی کیوں اہمیت دے رہی ہیں جبکہ اس ملک کی اکثریت سعودی وہابیت سے کوئی اتفاق نہیں کرتی۔ خالد محمد نے پاکستانی مین سٹریم ميڈیا کی جانبداری اور سعودی نوازی کا بھی خوب پول کھولا ہے۔یعنی پاکستانی میڈیا اس ملک کی اکثریت کی ترجمانی کرنے کی بجائے اس ملک کی تکفیری اور نام نہاد جہادی اقلیت کی طرف داری کررہا ہے۔اور یہاں ایک اور سوال بھی بہت اہم ہے اور وہ یہ ہے کہ کیا فرقہ پرستوں،جہادیوں،سعودی نوازی اور پاکستان ميں اختلافی آوازوں کو غدار قرار دینے اور ان پہ بلاسفیمی کے جھوٹے الزام عائد کرنے میں نواز حکومت اور ملٹری قیادت ایک باب پہ ہیں؟
آب آئیں پڑھتے ہیں کہ خالد محمد نے کیا لکھا ہے ؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اگر میں آپ کو خبر دوں کہ سعودی عرب پاکستانی فوج کو چاہتا ہے لیکن صرف سنّی سپاہی اور افسروں کو تو آپ کا ردعمل کیا ہوگا؟
نوٹ: ایسے سنّی افسر اور سپاہی بھی نہیں جو علمی و فکری اعتبار سے صوفی سنّی آئیڈیالوجی کے حامل ہوں اور وہ وہابیت اور اس کی اتحادی تکفیری دیوبندیت کے بارے میں پوری طرح سے آگاہ ہوں۔کیونکہ ایسے افسر اور سپاہی تو رنگ میں بھنگ ڈال دیں گے۔
اگر میں آپ کو یہ خبر دوں کہ پاکستانی فوج کے سعودی عرب میں تربیت دینے والے دستے صرف سنّی سپاہی اور افسر ہیں تو کیا تب بھی آپ اس بات پہ یقین کروگے کہ یمن کی جنگ کا کوئی جواز بنتا ہے؟
میں سمجھتا ہوں کہ آپ یمن میں جاری تصادم کو جائز سمجھنے پہ یقین کرنا چاہتے ہو اور یہ خیال کرتے ہو کہ حوثی باغیوں سے ہمارے مقدس مقامات کو خطرہ ہے،لیکن معاملہ اتنا سادہ نہیں ہے۔یہ سعودی عرب کی سالمیت کی جنگ نہیں ہے بلکہ ایک توسیع پسندانہ قبضے کی جنگ ہے جس میں سعودی عرب اپنی پسند کا لیڈر یمن کا سربراہ بنانا چاہتا ہے۔
جب آپ گزشتہ دو ہفتوں سے دنیا کو یہ بتانا چاہتے ہیں کہ پاکستانی فوج یمن کے تصادم میں ملوث ہوچکی ہے ،یا جیسے میڈیا میں رپورٹ ہوا کہ ” پاکستانی فوج ملوث ہونا چاہتی ہے” اور اس ميں اب ایک موڑ یہ آیا ہے کہ صرف سنّی افسر اور سپاہی ہی بھیے جائیں لڑنے کے لئے تو آپ کی حیرانی دوچند ہوجاتی ہے کہ آخر یہاں کونسا بڑا کھیل کھیلا جارہا ہے۔
آئیں زرا پيچھے چلیں اور سمجھیں کہ سعودی عرب کیا مانگ رہا ہے۔یمن کی جنگ کے ابتدائی دنوں میں شور مچا ہوا تھا کہ پاکستان اس میں ملوث ہونا چاہتا ہے۔یہ شور اس وقت اور زیادہ ہوگیا جب دنیا نے دیکھا کہ پاکستان جو ایک غیر جانبدار ریاست کے طور پہ کھڑا تھا اس نے یہ پوزیشن لی کہ سعودی عرب تین سے چار سال کے لئے پاکستانی فوجی دستوں کی اپنی کمانڈ میں سعودی عرب میں تعیناتی چاہتا ہے۔حال ہی مين حکومت پاکستان اور سعودی حکام میں جو بات ہوئی اس سے یہ سامنے آیا کہ پاکستانی فوجی دستے سعودی عرب کی سرحدوں اور اس کے مقدس مقامات کا تحفظ کریں گے۔مسئلہ یہ ہے کہ جب آپ اپنے فوجی دستوں کو سعودی بادشاہت کی کمانڈ میں دے دیں گے جیسا کہ درخواست کی گئی ہے، ہمارے کمانڈرز کے پاس اپنی یونٹ کی کمانڈ نہیں رہے گی اور وہ احکامات ریاض سے وصول کریں گے ناکہ راولپنڈی سے اور ایسے میں اگر ان کو یمن پہ دھاوا بولنے کو کہا گیا تو ان کو احکامات کی پیروی کرنا ہوگی۔لیکن کھیل اسے سے کہیں زیادہ بڑا ہے جسے سمجھنے کی ہمیں ضرورت ہے۔
گزرے چند ماہ میں،پاکستانی فوج،ائر فورس اور ایس ایس جی کمانڈوز نے تحریک طالبان پاکستان اور ان سے الحاق رکھنے والی تنظیموں کے خلاف کافی پیش رفت کی ہے۔حکومت پاکستان کے اوّر کافی دباؤ ہے کہ وہ ایسے انتہا پسند مدرسوں کے خلاف کاروائی کرے جن کو غیر قانونی طور پہ بیرون ملک سے فنڈنگ ہورہی ہے اور ان میں سے اکثر وہ ملک ہیں جو پاکستان سے فوجی تعاون مانگ رہے ہیں۔جب ہم دہشت گرد نیٹ ورک کی کمر توڑنے کے بالکل قریب تھے تو سعودی عرب نے حوثی قبائل کے خلاف کمپئن شروع کردی اگرچہ اس تصادم کے لئے چھے ماہ سے تیاری کی جارہی تھی۔
پاکستانی فوج اور اس کی آبادی پہلی مرتبہ دہشت گردی اور انتہا پسندی کے خاتمے کے لئے متحد ہوئے ہیں، سعودی اب نہ صرف پاکستان کی آبادی کو فرقہ وارانہ بنیادوں پہ تقسیم کرنا چاہتے ہیں بلکہ وہ پاکستانی فوج کو بھی فرقہ وارانہ خطوط پہ تقسیم کرنا چاہتے ہیں۔جب ایک سپاہی فوجی وردی پہنتا ہے، وہ ملک کے لغے لڑتا ہے جسے وہ اپنا گھر کہتا ہے نہ کہ اس کی بنیاد اس کا مسلک یا مذہب ہوتا ہے جو وہ گھر سے لیکر آتا ہے۔تو ایسے مين یمن تنازعے کے لئے صرف سنّی سپاہی کی مانگ افواج پاکستان کو مذہبی بنیادوں پہ تقسیم کرنے کی کوشش ہے۔
پاکستانی فوج جس کی 70 فیصد اکثریت سنّی ہے اس میں 30 فیصد شیعہ فوجیوں کو تعیناتی کے حق سے محروم کرنا امتیازی سلوگ اور فیورٹ ازم ہوگا۔کیا آل سعود کا خیال یہ ہے کہ پاکستانی فوج کے سپاہی اور افسران اپنے مذہبی عقائد سے ماوراء ہوکر ایک جائز اور متحد کاز کے لئے نہیں لڑ سکتے؟اگر معاملہ ایسے ہی ہے تو پھر پاکستان سے فوجی مانگیں کیوں جارہے ہیں؟
اگر آپ کا مقصد پاکستانی فوج کی ملٹری کمانڈ اور سپاہیوں میں تقسیم پیدا کرنا نہیں ہے تو ایسے اقدامات نہیں اٹھانے چاہئیے۔
جب ہم اس طرح کے فیصلوں کا افواج پہ اثرات کا تجزیہ کرتے ہیں تو ایسے اقدامات کے ہر ایک سپاہی کے مورال اور تحرک پہ ڈرامائی اثرات ڈالتے ہيں۔میں صرف یمن کی جنگ کے تناظر میں بات نہیں کررہا بلکہ پاکستان میں ہورہی لڑائی کے تناظر میں بات کررہا ہوں۔جب آپ یہ کہنے یا سمجھنے لگتے ہیں کہ عقیدہ ایک دوسرے کے ساتھ مخلص رہنے کے آڑے آتا ہے تو آپ اپنی افواج کی یک جہتی کو ختم کرنے والے راستے پہ چل پڑتے ہیں اور یہ پاکستانی فوج جیسی پروفیشنل آرمی کے لئے سزائے موت کے برابر ہے۔
اپریل کی 6 تاریخ یعنی آج پاکستان کی تاریخ کا اہم ترین دن تھا جب پاکستانی پارلمینٹ کا مشترکہ اجلاس صدر نے بلایا ہے اور اس ميں پاکستانی فوج کی سعودی عرب میں تعیناتی کے معاملے پہ بحث ہونی ہے۔مجھے یقین ہے یہ بحث برائے بحث نہ ہوگی بلکہ اس بات پہ یا تو قائل کیا جائے گا کہ فوج سعودی عرب کے فوجی اتحاد کا حصّہ کیوں بنے یا پھر اس سے دست برداری ہو۔جیسا کہ ہم پاکستانی ميڈیا میں دیکھ رہے ہیں کہ سعودی عرب کے احسانات و نوازشات اور ان کی مدد کے ڈونگرے بجائے جارہے ہیں اور اسے پاکستانی عوام میں سعودی عرب کی محبت کے ثبوت کے طور پہ پیش کیا جارہا ہے۔
آئیں دیکھیں ملک کہاں کھڑا ہے؟ لبرل سیاسی جماعت پاکستان پیپلزپارٹی نے پاکستان مسلم لیگ نوآو جیسی قدامت پرست جماعت کے ساتھ جنگ کی حمایت کردی ہے۔مذہبی سیاسی جماعتیں وہیں کھڑی ہیں جہاں ان سے کھڑا ہونے کی امید تھی۔ميدیا بھی فوج ضرور بھیجے جانے کی حمایت کررہا ہے اگرچہ کسی مقدس مقام کو کوئی خطرہ نہیں ہے۔اس کی متنازعہ رپورٹنگ نے ملک میں تقسیم پیدا کی ہے اور عام آبادی میں کنفیوژن پھیلا ہوا ہے اور فیصلہ کرنا اور مشکل ہوگیا ہے۔لیکن براہ مہربانی ! بیوقوف ت بنیں۔
پاکستان نے 80 ہزار سے زائد قربانیاں دی ہیں۔یہی وہ ملک ہیں جنھوں نے ہمارے قاتلوں کو سپورٹ کیا جن کو تحفظ دینے کے بارے میں آج ہم غور فکر کررہے ہیں۔
جب ہم نے دہشت گردوں کے خلاف لڑنا شروع کیا تو ان ملکوں مين سے کس نے ہمیں آلات،مواد اور مالی مدد دی یا ہماری مسلح افواج کی مدد کی؟
کس ملک نے انتہا پسند مدرسوں کی فنڈنگ بند کی اور ان گروپوں کی مدد بند ہوئی جن کو آج بھی فنڈ کیا جارہا ہے؟
آج جبکہ ہم اپنی بقاء کی جنگ لڑرہے ہیں تو ہمیں ایک ایسی جنگ کے لئے فوجی فراہم کرنے کو کہا جارہا ہے جس سے ہمارا لینا دینا کچھ نہیں ہے۔بلکہ اگر ہم یمن کی جنگ میں کود پڑے تو ہمارے اپنے ملک میں خوب خون خرابہ ہونے کا کیا امکان نہیں ہے؟اور کوئی اس ممکنہ خطرے کے بارے میں بات کیوں نہیں کررہا؟
اور سب سے بڑا سوال جسے ہمیں پوچھنا چاہئیے اور اس کے جواب پہ انحصار کرنا چاہئیے
کب پاکستانی فوج ایک جنونی طاقت بنی جس کو کوئی بھی بڑی بولی دے کر کرائے پہ لے سکتا ہے؟ایسی فوج جو ٹھیک قیمت لگے تو دنیا میں کسی بھی ملک کے لئے لڑے گی ؟