مسلم لیگ نواز فرقہ پرست دیوبندی تنظیم پہ پابندی ہٹوانے میں اتنی دلچسپی کیوں لے رہی ہے ؟ – مستجاب حیدر
پنجاب کے انسپکٹر جنرل مشتاق سکھیرا جو جلد ہی ریٹائر ہونے والے ہیں نے مسلم لیگ نواز کی بی ٹیم بنے پرائیویٹ ٹی وی چینل جیو میں جہاد ازم اور تکفیر ازم کے حوالے سے اپنے خیالات کو کبھی نہ چھپانے والے سلیم صافی کے پروگرام “جرگہ”میں ایک انٹرویو دیا جس میں ان سے سوال کیا گیا کہ سپاہ صحابہ پاکستان/اہلسنت والجماعت کو پنجاب میں کام کرنے کیوں دیا جارہا ہے جبکہ اس پہ پابندی ہے۔اس بارے آئی جی پنجاب نے فرمایا کہ 2012ء سے سپاہ صحابہ پاکستان کے سٹیج سے کافر ،کافر کے نعرے نہیں لگ رہے۔مطلب سپاہ صحابہ پاکستان اب ایک غیر تکفیری فرقہ پرست جماعت بن چکی ہے۔
دو ہفتوں میں جیو ٹی وی نے اپنے پرائم ٹائم میں یکے بعد دیگرے تکفیری دیوبندی دہشت گرد تنظیم اہلسنت والجماعت کی امیج بلڈنگ کرنے کے کے لئے اپنے دو بڑے ٹاک شوز میں اس تنظیم کو سیاست کے مرکزی دھارے میں لانے کا سوال براہ راست اور بالواسطہ اٹھایا ہے۔اور اس تنظیم کے سربراہ اورنگ زیب فاروقی اور سرپرست اعلی محمد احمد لدھیانوی اسلام آباد میں موجود رہے اور انہوں نے صحافیوں کے سامنے اپنی تنظیم کو مین سٹریم سیاست کا حصّہ بنانے بارے خوب باتیں کیں اور اس کو ملکی نیشنل میڈیا میں بھرپور کوریج دی گئی۔
قریب قریب چار ماہ قبل وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان،پنجاب کے وزیر قانون رانا ثناء اللہ نے بہت واضح طور پہ اس تکفیری دیوبندی تنظیم اور اس کی قیادت کا دفاع کرنا شروع کیا۔بلکہ چوہدری نثار علی خان نے تکفیر ازم پہ استوار اس عسکریت پسندی تنظیم کے لئے فرقہ وارانہ عسکریت پسندی کو دہشت گردی سے الگ کرکے دہشت گردی کی پھر سے تعریف متعین کرنے کی بات بھی کرڈالی۔اور اگر اس ساری مہم کو پنجاب کے اندر لاہور چئیرنگ کراس پہ ہونے والے بم دھماکے کے ساتھ جوڑ کر دیکھا جائے تو بات کچھ سمجھ آنے لگتی ہے۔مسلم لیگ نواز تکفیر ازم اور جہاد ازم کے حوالے سے دیوبند مکتبہ فکر میں سب سے زیادہ ہمدردانہ نکتہ نظر رکھنے والے گروپوں کی سرپرستی کررہی ہے۔
اس نے اہلسنت والجماعت لدھیانوی گروپ اور سپاہ صحابہ پاکستان سے الگ ہوکر مگر نظریاتی اشتراک رکھنے والی تنظیم پاکستان علماء کونسل اور لال مسجد بریگیڈ کو پورا تحفظ اور سرپرستی دی ہے تاکہ ان کے زریعے سے لشکر جھنگوی،جماعت الاحرار،القاعدہ اور ٹی ٹی پی کے دیگر دھڑوں کو پنجاب میں اور اسلام آباد میں کاروائیوں سے روک سکے۔اور مسلم لیگ نواز کے تھنک ٹینک جو کہ کمرشل لبرل مافیا پہ مشتمل ہے جس کی قیادت نجم سیٹھی کررہے ہیں نے یہ مہم بہت ہی چالاکی سے اہلسنت والجماعت دیوبندی کے اعتدال پسندی کے ناٹک کو پھیلاکر چلانا شروع کی ہے۔ایک طرف میاں نواز شریف لبرل ہوجانے کا ڈھونگ کررہے ہیں تو دوسری طرف ان کی لے پالک دیوبندی تنظیم نے بھی “لبرل ” ہونے کا ڈھونگ رچانا شروع کردیا ہے۔
جہاد ازم اور تکفیر ازم کے لئے تاویل کے ٹوکرے اٹھائے گھر گھر پھرنے والے جمعیت علمائے اسلام کے چانکیائی سیاست کے ان داتا مولانا فضل الرحمان مجھے مسلم لیگ نواز اور تکفیری دیوبندیوں کے اس نئے ڈرامے کے مرکزی خیال کے خالق لگتے ہیں اور یہ سکرپٹ سپاہ صحابہ پاکستان کو لکھ کر نجم سیٹھی اور امتیاز عالم نے دیا ہے۔کیونکہ جمعیت علمائے اسلام نے حال ہی میں ایک بشپ اور ایک پنڈت کو اپنی پارٹی میں شامل کیا اور اس کی بڑی میڈیا کوریج ہوئی ہے جبکہ جے یو آئی کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے حال ہی میں دیوبند تحریک بارے یہ بیان دیا ہے :” دیوبند تحریک سیاسی تحریک ہے مذہبی نہیں ۔” اگرچہ اس بیان پہ دیوبند مکتبہ فکر کے اندر سے ہی سخت گیر اسلام پسندوں کی آوازیں سامنے آئی ہیں لیکن مولانا فضل الرحمان کا یہ بیان بھی دیوبندی مکتبہ فکر کے اندر بیٹھے تکفیریوں کو بچانے کی سبیل اور حکمت عملی نظر آتا ہے۔
اس ساری مہم کا فوری اور عارضی مقصد آئیندہ آنے والے انتخابات میں ایک طرف تو انتخابی مہم کے دوران تکفیری دیوبندی دہشت گرد گروپوں سے وہی رعایت حاصل کرنا ہے جو 2012ء کے انتخابات میں حاصل کی گئی تھی اور اس کا دوسرا مقصد پاکستانی عوام کے اندر مسلم لیگ نواز کی سعودی نواز،تکفیریت و جہادیت کے لئے نرم گوشہ بلکہ سرپرستی کی حد تک کی جانے والی سرگرمیوں کے منفی اثرات کو زائل کرنا اور تیسرا پنجاب، خیبرپختون خوا میں دیوبندی ووٹ حاصل کرنا ہے۔اور اس کا مستقل ہدف پاکستان میں جاری سعودی فنڈڈ ریڈیکل دیوبندیائے جانے کے پروسس کو سازگار حالات کی فراہمی ہے۔
اسی پروسس کا ایک ہدف پاکستان کے اندر تکثریت پسندی کی حامل سیاسی جماعتوں کے وجود اور اثر کو کم سے کم کرتے چلے جانا ہے تاکہ پاکستان سعودی مذہبی اسٹبلشمنٹ سے ہم آہنگ دیوبندی ریاست آسانی سے بن سکے۔ان جیسے مقاصد کو چھپانے کے لئے پاکستان مسلم لیگ نواز اسٹبلشمنٹ بمقابلہ نواز شریف جیسی نورا کشتیوں کو اصلی کشتیاں بناکر دکھانے اور اپنے آپ کو ایک لبرل ڈیموکریٹ متبادل بناکر پیش کرنے کے لئے کمرشل لبرل مافیا کا سہارا لئے ہوئے۔جیو جنگ گروپ سمیت پاکستانی مین سٹریم میڈیا کا ایک لبرل سیکشن مسلم لیگ نواز کا بازو بنا ہوا ہے۔مسلم ليگ نواز پاکستان کی عدلیہ، سول بیوروکریسی اور عسکری اسٹبلشمنٹ کے اندر اپنے حامیوں کے ساتھ ملکر یہ ساری بساط بچھائے ہوئے ہے۔
پاکستان میں لبرل، سیکولر ، صوفی سنّی، اہل تشیع ، احمدی، ہندؤ اور تکفیر و جہاد ازم کے متاثرہ سبھی حلقوں کو مسلم لیگ نواز اور دیوبندی۔سلفی سیاسی اتحاد و اشتراک کو سمجھنے کی ضرورت ہے اور اس کے سعودی عرب لنک کو ٹھیک ٹھیک سمجھنے کی ضرورت ہے۔
ایک اور خبر بھی سامنے آرہی ہے کہ مشتاق سکھیرا کی ریٹائرمنٹ کے بعد مسلم لیگ نواز نے ایک اور اپنے یس مین طارق مسعود یاسین کو آئی جی پنجاب لگانے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس مقصد کے لئے طارق مسعود یاسین کی گریڈ پرموشن ہوئی ہے اور ان کی خدمات پنجاب کے سپرد کردی گئی ہیں۔اس بارے مین سٹریم ميڈیا پہ خاصی خاموشی طاری ہے۔مشتاق سکھیرا کی طرح طارق مسعود یاسین بھی مسلم لیگ نواز کی بی ٹیم اہلسنت والجماعت دیوبندی تنظیم کی سرپرستی کرنے میں بہت مشہور ہیں۔بطور آر پی او ملتان اور آئی جی اسلام آباد انہوں نے کافی “سنہری” خدمات سرانجام دی ہیں۔
جبکہ پنجاب کے کئی اضلاع میں تلاش کرکے دیوبندی ڈی پی اوز اور ڈی ایس پی صاحبان لگوائے گئے جن کی تعیناتی کے بعد اہلسنت بریلوی کی مساجد پہ قبضوں کی شرح میں تیزی دیکھنے کو ملی ہے۔حال ہی میں خانیوال کے ایک چک 42 دس آر میں سپاہ صحابہ پاکستان نے بریلوی مسجد پہ قبضہ کی کوشش کی اور یہ کوشش 42 دس آر کی 99 فیصدی بریلوی آبادی نے ناکام بنائی تو خانیوال صدر سرکل کے ڈی ایس پی مقبول جٹ ( جو کہ تکفیری دیوبندی خیالات کے حامل بتلائے جاتے ہیں) کے دباؤ پہ تھانہ صدر خانیوال سرکل میں 506 بی کے تحت پرچہ بریلوی مسلمانوں پہ درج کرادیا گیا۔
خانیوال میں تعینات ڈی پی او جہانزیب نذیر خان کا تعلق بھی دیوبند مکتبہ فکر سے بتایا جاتا ہے اور یہ بھی کہا جارہا ہے کہ ان کی خانیوال تعیناتی کے بعد مولانا طارق جمیل اور محمد احمد لدھیانوی سمیت سپاہ صحابہ پاکستان کی قیادت کے دورے اور جلسوں میں اضافہ دیکھنے کو ملا ہے اور انہوں نے اپنی تعیناتی کے بعد روایتی مجالس عزا، جلوس ہائے عاشورا، مذہبی عرس و میلوں پہ سخت پابندی عائد کی جیسے کبیر والہ کا سالانہ سنگ میلہ اور کئی بڑے عرس کی تقریبات کو تو انعقاد کی اجازت نہ ملی لیکن اس دوران لکی ایرانی سرکس، سپاہ صحابہ کے جلسوں کو اجازت دی گئی۔یہی کم وبیش صورت حال پورے پنجاب میں ہے۔تکفیر ازم اور جہاد ازم کو سرکاری پروٹوکول دیا جارہا ہے۔