ڈاکٹر ریاض کی گرفتاری : یہ چار دن کی خدائی تو کوئی بات نہیں – عامر حسینی

ڈاکٹر ریاض احمد اسسٹنٹ پروفیسر برائے شعبہ اپلائیڈ کیمسٹری کراچی یونیورسٹی ،20 سال سے انسانی حقوق ، شہری آزادیوں،طبقات سے پاک سماج کی تشکیل کے لئے جدوجہد کرنے والے ایک سچے اور کھرے مارکسی دانشور اور غضب کے سیاسی ایکٹوسٹ ، سینکڑوں تحریروں و تراجم کے خالق ہیں۔یکم اپریل 2017ء کو سندھ رینجرز کراچی نے ان کو ان کی دو استاد ساتھیوں کے ساتھ غیر قانونی طور پہ گرفتار کرلیا۔

وہ عمر رسیدہ کراچی یونیورسٹی کے سابق صدر مدرس برائے شعبہ فلسفہ ڈاکٹر ظفر حسن عارف اور پروفیسر امجد اللہ کی نظربندی کے خلاف کراچی پریس کلب میں ایک پریس کانفرنس کرنے والے تھے۔پاکستان کی ریاست کو اردو کمیونٹی اور ایم کیو ایم فوبیا ہوگیا ہے۔یہ اسقدر بوکھلائی ہوئی اور بدحواس نظر آرہی ہے کہ قوانین اور ضابطے اس کے ہاتھ میں ایسے لگ رہے ہیں جیسے کسی اندھے کے ہاتھ میں لاٹھی ہو اور وہ اسے اندھا دھند ہوا میں گھمائے جارہا ہو اور خیالی دشمنوں سے لڑ رہا ہو۔

سندھ رینجرز نے کراچی آپریشن میں جرائم پیشہ افراد کی بیخ کنی کرنے کے نام پہ ایم کیو ایم کے سیاسی کارکنوں کی گرفتاریاں ، غیر قانونی نظر بندی ، جبری گمشدگی اور ماورائے عدالت قتل تک جیسے اقدامات شروع کئے اور پھر یہ سلسلہ صرف کارکنوں تک محدود نہیں رہا بلکہ اس سے آگے یہ کراچی سمیت شہری سندھ میں ہر اس اردو بولنے والے شخص کے خلاف شروع ہوگیا جو کسی نہ کسی لحاظ سے الطاف حسین اور اس کی تنظیم جسے اب ایم کیو ایم لندن کہا جارہا ہے سے ہمدردی رکھتا ہے۔

اسی تناظر میں سب سے پہلے کراچی یونیورسٹی کے سابق پروفیسر ظفر حسن عارف اور پروفیسر امجد اللہ کو اس وقت گرفتار کیا گیا جب وہ کراچی پریس کلب میں ایک پریس کانفرنس کرنے والے تھے اور اردو بولنے والی کمیونٹی پہ ہونے والے ریاستی جبر اور ظلم کو بے نقاب کرنا چاہ رہے تھے۔اس کے بعد ایک اور انتہائی سرگرم سابق طالب علم رہنماء اور جنرل ضیاء الحق کے خلاف بے مثال طلباء جدوجہد کے ہر اول دستہ کنور مومن خان کو گرفتار کیا گیا اور ان پہ اسلحے کی برآمدگی کا جھوٹا پرچہ درج کیا گیا۔یہ ایسی گرفتاریاں تھیں جو صاف نظر آتا تھا کہ سیاسی انتقام پہ مبنی کاروائی تھی۔ڈاکٹر ریاض احمد اس پہ اپنی آواز بلند کی۔مجھے یاد ہے کہ انہوں نے مجھے کال کی اور کنور مومن خان، ڈاکٹر ظفر عارف کی رہائی کے لئے کمپئن چلانے کا کہا۔

یہ ان دنوں کی بات ہے جب ہم سب کامریڈ واحد بلوچ کی بازیابی کے لئے تحریک چلارہے تھے۔جیسے ہی ہم نے ڈاکٹر ظفر عارف اور کنور مومن خان کی رہائی پہ سوشل میڈیا کمپئن چلانا شروع کی تو ہمیں کئی ایک حلقوں کی جانب سے سخت مخالفت کا سامنا کرنا پڑا۔سب سے زیادہ ڈاکٹر ریاض کو تنقید کا سامنا تھا۔کچھ لوگوں نے یہ تک کہہ ڈالا کہ اردو بولنے والے مارکسسٹ پہلے اردو شاؤنسٹ پھر کچھ اور ہوتے ہیں۔لیکن ڈاکٹر ریاض نے اس کی کوئی پرواہ نہیں کی۔ان کا موقف تھا کہ ظفر حسن عارف، امجد اللہ ، کنور مومن خان جیسے لوگوں کی رینجرز کے ہاتھوں گرفتاریوں اور جبری گمشدگیوں( بشمول بلوچ ، سندھی، گلگتی بلتی ،پشتون قوم پرست سیاسی لیڈروں ، انسانی حقوق کے رضاکاروں،سوشل میڈیا بلاگرز ، نسلی و مذہبی بنیادوں پہ بلوچ) نسل کشی و شیعہ نسل کشی ان سب کا باہمی ربط بنتا ہے اور یہ پاکستان کے اندر شہریوں کی سول آزادیوں پہ پابندی لگانا اور اور لوگوں کی اختلافی آوازوں کو سرے سے ختم کرنا مقصود ہے۔وہ اسے سرمایہ داری کی نیولبرل حرکیات سے جوڑتے ہیں۔اور یہی وجہ ہے کہ وہ ظفر عارف، پروفیسر امجد اور کنور مومن خان کی رہائی کے لئے سنجیدہ کوششیں کررہے تھے۔

ڈاکٹر ریاض کو ایم کیو ایم (نام نہاد لندن گروپ ) سے جڑے ڈاکٹر ظفر عارف ، پروفیسر امجد اور مومن خان کی رہائی کے لئے آواز اٹھانے سے روکنے کی کوشش کی جارہی تھی۔ویسے بھی ریاستی ادارے صرف ایم کیو ایم کے ساتھ روا رکھی جانے والی زیادتی پہ ڈاکٹر ریاض کی آواز اٹھانے پہ پریشان نہیں تھے بلکہ اس کے ساتھ ساتھ ڈاکٹر ریاض کے جبری گمشدیوں، نسلی و مذہبی نسل کشی کے خلاف ملک گیر سول سوسائٹی کی تحریک کے تصور پہ کام نے بھی حکمرانوں کو کافی پریشان کررکھا تھا۔ڈاکٹر ریاض نے مجھے خود بتایا تھا کہ ان کو ایم آئی –ملٹری انٹیلی جنس اور سپیشل برانچ و آئی بی کی جانب سے نرم گرم دھمکیاں مل رہی ہیں۔اس سلسلے ميں انہوں نے مجھے ان سے رابطہ کرنے والے سیکورٹی افسرز کے فون نمبر بھی شئیر کئے تھے۔دسمبر میں جو ایک روزہ مارکسسٹ ڈے اسکول ہوا اس میں بھی کافی انٹیلی جنس ممبران گھس آئے اور وہ فون نمبرز کے حصول کی کوشش کرتے رہے جبکہ انہوں نے پروگرام کی ویڈیو تک بنالی۔اس وقت سے ہی یہ اندازہ کیا جارہا تھا کہ ڈاکٹر ریاض احمد خطرے کا شکار ہیں۔اور اس پریس کانفرنس نے اس خطرے کو حقیقت ثابت کردیا۔

پاکستان عملی طور پہ ایک سیکورٹی سٹیٹ میں بدل چکا ہے اور یہاں آزادی اظہار کو سنگین ترین خطرات لاحق ہیں۔ریاست کی ترجیحات صاف نظر آتی ہیں کہ یہ تکفیر ازم، جہاد ازم پہ استوار کالعدم تنظیموں کو مرکزی دھارے میں لارہی ہے جبکہ اس کی جابرانہ مشینیری پاکستان کے اندر انسانی حقوق کا احترام کرنے اور شہریوں آزادیوں کے تحفظ کی مانگ کرنے والوں کے خلاف استعمال ہورہی ہے۔

ra
انگریزی روزنامہ ڈان کے سابق ایڈیٹر اور معروف صحافی سلیم عصیمی نے تعلیمی ادارے کے اساتذہ کی غیر قانوی نظر بندی پہ تبصرہ کرتے کیا خوب طنز کیا ہے : ” یہاں ملّا اور تیسرے درجے کے سیاست دان کو اپنے کسی ساتھی کی گرفتاری پہ پریس کانفرنس کرنے کی اجازت ہے لیکن کسی فنکار یا دانشور /استاد کو ایسا کرنے کی اجازت نہیں ہے۔کیا عجب رنگ ہیں اسلامی جمہوریہ پاکستان کے۔”

Minerwa Tahir

نے بھی کم وبیش انہی خیالات کا اظہار کیا ہے۔ ادھر پارہ چنار جہاں پہ ایف سی کی نااہلی یا ملی بھگت سے کار بم دھماکے میں 25 افراد شہید اور 57 زخمی ہونے پہ لوگوں نے احتجاج کیا تو ان پہ ایف سی نے فائر کھول دیا۔اس طرح کی وحشت و بربریت کا مظاہرہ 17 جون 2015 کو ماڈل ٹاؤن مین بھی کیا کیا تھا جس میں پولیس کی فائرنگ سے 14 افراد جاں بحق ہوئے تھے اور آج تک اس کی انکوائری سامنے نہیں آسکی۔پاکستان میں سیکورٹی فورسز اور انٹیلی جنس اداروں کے اہلکاروں کی لاقانونیت اور انسانی حقوق کی خلاف ورزی،ماورائے قانون اقدامات پہ نہ تو حکومتیں کوئی داد رسی کرسکی ہیں اور نہ ہی عدلیہ ایسے لوگوں کو انصاف فراہم کرسکی ہے۔بلکہ پانچ عدد سوشل بلاگرز کو تو ملک ہی چھوڑ کے جانا پڑگیا ہے۔

بلکہ حال ہی ميں بی ایس او ۔آزاد کی سربراہ کریمہ بلوچ جوکہ کینڈا ميں جلاوطن ہیں کا ایک ٹوئٹ سامنے آیا جس میں انہوں نے الزام عائد کیا کہ ان کی پاکستان میں موجود بہن کو ایک آرمی افسر نے دھمکی دی ہے کہ اگر کریمہ بلوچ اپنی سرگرمیوں سے باز نہ آئی تو اس کا خمیازہ ان کی پاکستان ميں موجود فیملی کو بھگتنا پڑے گا۔یہ انتہائی حیوانی اور بے شرمی کی حد تک کئے جانے والے اقدامات ہیں جس سے پاکستان کا پوری دنیا میں مذاق بن رہا ہے۔اور جمہوریت یہاں ایک مذاق بنکر رہ گئی ہے۔

ڈاکٹر ریاض احمد ، ظفر عارف ، پروفیسر امجد اللہ ، مہر افروز مراد جیسوں کی گرفتاری سے حکومت اور ریاست کی اور سبکی ہوئی ہے۔ان کو فی الفور رہا کیا جانا چاہئیے۔

Comments

comments