ادارایہ تعمیر پاکستان : پارہ چنار بم دھماکہ : تکفیری دیوبندی تنظیموں کو مرکزی دھارے میں لانے والی حکومت شیعہ مسلمانوں کی نسل کشی روکنے میں سنجیدہ نہیں ہے
اکتیس مارچ 2017ء کو کرم ایجنسی کے ہیڈکوارٹر پارہ چنار میں مرکزی بازار نور مارکیٹ میں اہل تشیع کی مرکزی امام بارگاہ برائے خواتین کے عین گیٹ پہ کار بم دھماکہ ہوا جس میں 22 افراد بشمول خواتین و بچے شہید اور 57 افراد زخمی ہوگئے۔اس واقعے کی ذمہ داری تحریک طالبان پاکستان کے ایک دھڑے جماعت الاحرار نے قبول کرلی اور اس تکفیری دیوبندی دہشت گرد تنظیم کے جاری کردہ بیان کے مطابق یہ حملہ مہمند ایجنسی سے تعلق رکھنے والے ان کے ایک عسکریت پسند نے کیا اور یہ حملہ ” آپریشن غازی ” کے سلسلے کی کڑی تھا جس میں نشانہ شیعہ کمیونٹی ہے۔2017ء میں پارہ چنار میں اہل تشیع کو نشانہ بنائے جانے کا یہ دوسرا واقعہ ہے۔
اس سے پہلے 25 جنوری،2017ء کو بھی پارہ چنار میں سبزی منڈی کو نشانہ بنایا گیا تھا۔جبکہ اس سے قبل بھی گزشتہ سال پارہ چنار پہ تکفیری دیوبندی دہشت گرد گروپوں نے کافی حملے کئے ہیں۔جماعت الاحرار نے اپنی پریس ریلیز میں پاکستان میں شیعہ کمیونٹی کو نشانہ بناتے رہنے کی دھمکی دی ہے۔اس سے پہلے بھی داعش خراسان کے نام سے سرگرم تکفیری دیوبندی گروپ نے ایک پمفلٹ تقسیم کیا تھا جس میں پارہ چنار اور ڈیرہ اسماعیل خان میں شیعہ کمیونٹی کو نشانہ بنانے کی بات کی گئی تھی۔
پارہ چنار میں شیعہ مسلمانوں کو ایسے وقت میں نشانہ بنایا گیا جب پاکستان مسلم لیگ نواز کی حکومت کی جانب سے شیعہ کی تکفیر اور قتل کی حامی سب سے بڑی تنظیم کالعدم اہلسنت والجماعت دیوبندی سے پابندی ہٹانے اور اس کو مین سٹریم سیاست کا باقاعدہ حصّہ بنوانے کی باقاعدہ میڈیا مہم چلائے ہوئے ہے۔اس حوالے سے پاکستان انسٹی ٹیوٹ فار پیس اینڈ اسٹڈیز نامی ایک ادارے میں نواز لیگ کے حامی سابق فوجی افسروں،بیوروکریٹس ،کالعدم تنظیم اہل سنت والجماعت و جماعت دعوہ کا ایک مشاورتی اجلاس بھی ہوا جس کی میڈیا میں خوف تشہیر کی گئی جبکہ اس کالعدم تنظیم کے سربراہ کو مین سٹریم میڈیا میں غیر معمولی کوریج دی جارہی جس میں وہ مگرمچھ کے آنسو بہا کر جعلی شہید بننے کی کوشش کررہا ہے۔
پارہ چنار میں دہشت گردی کے پے درپے واقعات ہونا اور اس میں بتدریج شدت آنے سے کافی شکوک و شبہات جنم لے رہے ہیں۔معروف پشتون سکالر اور دفاعی تجزیہ کار فرحت تاج کا کہنا ہے کہ پارہ چنار سے کابل تک کا راستہ انتہائی مختصر ہے اور طالبان کے لئے یہ علاقہ سٹرٹیجک اعتبار سے بہت ہی اہم ہے۔اس لئے شروع دن سے کرم ایجنسی پہ طالبان اپنا کنٹرول کرنے کے خواہش مند رہے ہیں۔ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ جنوبی وزیرستان و شمالی وزیرستان پہ آپریشن کے آغاز سے ہی حقانی نیٹ ورک کے لوگوں کے کرم ایجنسی منتقل ہونے کی خبریں موصول ہوئی تھیں۔اور یہ کہا جارہا ہے کہ حقانی نیٹ ورک بھی اس علاقے کو لانچنگ پیڈ کے لئے استعمال کرنے کا خواہش مند ہے۔اس راستے میں سب سے بڑی روکاوٹ کرم ایجنسی میں ایک طرف تو اہل تشیع کی اکثریتی آبادی ہے جبکہ دوسری جانب اس علاقے کے صوفی سنّی بھی اس راستے کی بڑی روکاوٹ ہیں۔
پاکستان کی حکومت کا اپنا کردار بھی اس حوالے سے شک سے باہر نہیں ہے۔کرم ایجنسی سے منتخب سینٹر سجاد طوری کا کہنا ہے کہ جب سے پاکستانی سیکورٹی فورسز نے کرم ایجنسی کی سیکورٹی کا کنٹرول علاقے کے لوگوں سے لیا ہے اس وقت سے پارہ چنار مسلسل نشانہ بن رہا ہے اور حال ہی میں سیکورٹی فورسز نے کرم ایجنسی کے لوگوں کو غیر مسلح کرنے کی کوشش بھی کی تھی جس کی سخت مزاحمت کی گئی ۔سوال یہ جنم لیتا ہے کہ پارہ چنار تک آنے والے راستے سے بارود سے بھری گاڑی انتہائی سخت چیکنگ کے نظام سے بچ کر پارہ چنار کے مرکزی بازار اور امام بارگاہ کے مرکزی گیٹ تک پہنچ کیسے گئی؟
یہ علاقہ پہلے ہی سے ریڈ زون کہلاتا ہے۔پارہ چنار میں بم دھماکے کے فوری بعد ڈان نیوز کی خبر کے مطابق سیکورٹی فورسز نے سیکورٹی سخت کردی۔ریڈ زون سیکورٹی کے جو ایس او پیز ہوتے ہیں کیا ان سے آگے بھی کوئی ایس او پیز ہیں جو بم دھماکے کے بعد سیکورٹی فورسز نے اپنائے۔مسلم لیگ نواز کی حکومت پہ شک کے ساتھ انگلیاں اس لئے بھی کھڑی ہوتی ہیں کہ اس حکومت کے وفاقی وزیرداخلہ چوہدری نثار شیعہ نسل کشی کی علمبردار تکفیری دیوبندی تنظیموں کی قیادت سے ملتے رہے ہیں اور ان کا دفاع بھی کرتے رہے ہیں جبکہ مسلم لیگ نواز کی حکومت نے عمران خان اور طاہر القادری کے دھرنے کے دنوں میں تکفیری دیوبندی تنظیموں کو ہی اپنے لئے استعمال کیا تھا۔
مسلم لیگ نواز کی حکومت شیعہ نسل کشی کو رکوانے میں قطعی سنجیدہ نہیں ہے بلکہ چوہدری نثار علی خان تو فرقہ وارانہ بنیادوں پہ ہونے والی دہشت گردی کو دہشت گردی سمجھنے سے قاصر ہیں۔کوئٹہ وکلاء پہ خودکش حملے کی جو جوڈیشل رپورٹ سامنے آئی اس میں بھی وفاقی وزیرداخلہ کے کردار پہ انگلیاں اٹھیں تھیں اور اس سے بھی اس بات کو تقویت ملی کہ شیعہ نسل کشی سمیت پاکستان میں دہشت گردی کی حامی اور سہولت کار تکفیری دیوبندی گروپوں بارے نواز حکومت کا رویہ ہمدردانہ ہے۔مسلم لیگ نواز کی حکومت اور اس کی اتحادی دیوبندی تکفیری دہشت گرد تنظیمیں ملک میں فرقہ وارانہ خانہ جنگی چاہتی ہیں جس کے خوفناک نتائج نکل سکتے ہیں۔