اداریہ تعمیر پاکستان : اہلسنت والجماعت /سپاہ صحابہ و جماعت دعوہ : برانڈ کا نام بدلا مگر جنرک فارمولا وہی ہے
پاکستان انسٹی ٹیوٹ فار پیس اینڈ اسٹڈیز کے زیراہتمام ” عسکری گروہوں کی بحالی و واپسی ” کے عنوان سے ایک بڑا مشاورتی ورکنگ گروپ مباحثہ اسلام آباد میں منعقد ہوا اور دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ مشاورتی فورم بند کمرے میں کیا گیا تھا لیکن بعد میں اس کی ساری تفصیل خود انسٹی ٹیوٹ نے ہی میڈیا کو جاری کردی۔اور اس سے یہ شکوک بہرحال پیدا ہوئے ہیں کہ اس اجلاس کی کاروائی جان بوجھ کر میڈیا کو دی گئی اور اس میں زیادہ تر فوکس بھی دو ہی کالعدم تنظیموں پہ کیا گیا جن میں ایک کالعدم تنظیم سپاہ صحابہ پاکستان ہے جو اہلسنت والجماعت کے نام سے کام کررہی ہے اور یہ نام بھی کاغذوں ميں کالعدم ہی ہے اور دوسری تنظیم جماعت دعوہ ہے جس پہ سرکاری طور پہ کوئی پابندی نہیں ہے اور یہ مکمل آزادی کے ساتھ کام کررہی ہے جبکہ اس کے سربراہ کو گھر پہ نظر بند رکھا گیا ہے جہاں سے یہ ويڈیو لنک اور ٹیلی فون کے زریعے سے اپنے لوگوں سے خطابات کررہے ہیں۔
ورکنگ گروپ میں جن لوگوں کو شرکت کی دعوت دی گئی ان میں زیادہ تر سابق فوجی افسران،نیکٹا کے سابق عہدے داران اور ایسے تجزیہ کار شامل تھے جن کے بارے میں يہ گمان کیا جاتا ہے کہ وہ پاکستانی انٹیلجنٹیسیا کے اس گروہ سے تعلق رکھتے ہیں جو نام نہاد تزویراتی گہرائی کی پالیسی اور اس کے تحت ” جہادی پراکیسیز ” کے حامی رہے ہیں۔اس ورکنگ گروپ میں ایک بھی نام ایسا نہیں تھا جس کے بارے میں ہم یہ کہہ سکیں کہ اس کا ماضی و حال تزویراتی گہرائی کے نام پہ ملک کے اندر اور باہر نجی مسلح لشکروں کے زریعے سے پراکسی جنگیں لڑنے کی مخالفت سے تعبیر ہو اور اس نے جہاد ازم،تکفیر ازم کی آئیڈیالوجیز کو ہمیشہ سے رد کیا ہو۔اس ورکنگ گروپ میں فرقہ وارنہ تشدد اور دہشت گردی کی نظریاتی اور تزویراتی بنیادوں بارے گہرا مطالعہ کرنے والے غیر جانبدار ماہرین کو بھی نہیں بلایا گیا۔لیکن اس کی تشہیر بڑے پیمانے پہ کی گئی۔
اگر میڈیا کوریج کو دیکھا جائے اور مین سٹریم میڈیا میں آئی خبروں اور تجزیوں کا جائزہ لیا جائے تو ایسا تاثر پختہ ہوتا ہے جیسے کہ کالعدم اہلسنت والجماعت اور جماعت دعوہ کی امیج بلڈنگ کا کام لیا جارہا ہواور ان دونوں جماعتوں کے بارے میں پاکستانی سماج کے اندر پیدا ہونے والی مزاحمت،مخالفت اور بیزاری کو ختم یا کم کرنے کی کوشش کی جارہی ہو۔
دیوبندی تنظیم اہلسنت والجماعت اور سلفی عسکریت پسند تنظیم جماعت دعوہ کی قیادت کے جو بیانات اس وقت میڈیا کی بھرپور توجہ کا مرکز ہیں ان کا جائزہ یہ بتاتا ہے کہ دونوں تنظیمیں ایسے ظاہر کررہی ہیں جیسے حکومت اور ریاست نے پوری تندہی کے ساتھ ان پہ لگی پابندی پہ عمل درآمد کیا ہے اور ان کے کام کرنے کے آگے بڑی بھاری روکاوٹیں کھڑی کی ہیں جبکہ انہوں نے اس پابندی کو اپنی حکمت عملی اور عوام کے اندر بڑی مقبولیت کے سبب غیر موثر بنادیا ہے۔حالانکہ سب کو معلوم ہے کہ ان دونوں جماعتوں کے سامنے ریاست نے حقیقت میں کوئی بڑی روکاوٹ کھڑی ہی نہیں کی۔چاروں صوبوں،فاٹا، آزاد کشمیر ،گلگت بلتستان میں ان تنظیموں کے دفاتر قائم،ان کے جلسے ،جلوس پابندی سے ہورہے ہیں اور بہت سے حلقوں سے اہلسنت والجماعت دیوبندی نے الیکشن بھی لڑے ہیں۔اور ان تنظیموں کی سیاسی جماعتوں اور عسکری اسٹبلشمنٹ کے اندر سے حمایت کا تاثر بھی پوری طرح سے موجود ہے۔اس لئے خود کو ریاستی جبر کا شکار بناکر پیش کرنا ایک بہت بڑا فراڈ ہے جسے پاکستانی مین سٹریم میڈیا کا ایک سیکشن “حقیقت ” بناکر پیش کررہا ہے۔
کالعدم تنظیم اہلسنت والجماعت کے سربراہ نے اس ورکنگ گروپ میں جو مقدمہ پیش کیا اور پھر اگلے روز صحافیوں کے سامنے جو گفتگو کی اس میں انھوں نے کچھ باتیں ایسی کی ہیں جو دیانت داری کے اصول کو پامال کرتی ہیں۔انھوں نے کہا کہ ان کی تنظیم کے سٹیج سے اب تکفیر کے نعرے نہیں لگتے۔اور کسی کے کفر کا فیصلہ انہوں نے نہیں بلکہ مفتیان کرام نے کرنا ہے تو ان سے سوال یہ بنتا ہے کہ ابتک انھوں نے اور ان کی تنظیم کے ساتھیوں نے اپنی تنظیم کے پلیٹ فارم سے اہل تشیع کو کافر جو قرار دیا اور اس حوالے سے جتنی بھی تقاریر کیں کیا وہ ان پہ اعلانیہ شرمندگی کا اظہار کریں گے؟ کیا اعلانیہ کہیں گے کہ یہ ایک غلط اور ناجائز کام تھا جو وہ کرتے رہے؟ کیا اہلنست والجماعت/سپاہ صحابہ پاکستان اعلانیہ پاکستانی قوم کو یہ بتلائے گی کہ 1984ء میں ان کی تنظیم جس بنیادی تاسیسی دستاویز پہ قائم ہوئی تھی وہ اب ترک کردی گئی ہے۔اس سے اس تنظیم کا کوئی تعلق نہیں ہے ؟
اہلسنت والجماعت/سپاہ صحابہ پاکستان کے سربراہ نے کئی مرتبہ یہ کہا ہے کہ دہشت گردی کا راستہ اختیار کرنے والی لشکر جھنگوی نے ان کو سب سے زیادہ نقصان پہنچایا اور ان کو مشکل میں ڈالا۔لیکن ان سے یہ سوال ضرور بنتا ہے کہ کیا وہ اس بات کا اعلان کریں گے کہ لشکر جھنگوی سمیت جتنے بھی مسلح گروہ دیوبندی ازم اور تکفیر ازم کے نام پہ شیعہ،صوفی سنّی اور دیگر کمیونٹیز کے خلاف دہشت گردی اور تشدد کی کاروائیوں میں ملوث ہیں ان سب کا دیوبندی اسلام سے کوئی تعلق نہیں ہے اور ان کی سوچ شیعہ سمیت دیگر مذہبی کمیونٹیز کے بارے میں گمراہ کن ہے؟
لیکن مجھے شک ہے کہ وہ ایسا کبھی نہیں کریں گے کیونکہ انھوں نے آج تک ہمیں یہ نہیں بتایا کہ لشکر جھنگوی،طالبان،القاعدہ سمیت جتنے بھی تکفیری و نام نہاد جہادی گروہ ہیں ان سے ان کا اختلاف نظریاتی،آئیڈیالوجیکل ہے یا پھر صرف سٹریٹجی ، میتھڈ ، ٹیکٹس کا اختلاف ہے؟کیونکہ ان کے بیانات ” مشکل میں ڈال دیا ” ۔۔۔۔ روکاوٹ پیدا کی ۔۔۔وغیرہ یہ احساس دلاتے ہیں کہ اختلاف صرف و صرف حکمت عملی کا ہے نظریات کا نہیں ہے۔یہ شک اس لئے بھی مضبوط ہوتا ہے کہ ان کا کہنا ہے کہ جب کبھی ریاست کو دہشت گردوں سے معاملہ کرنے میں مشکل کا سامنا کرنا پڑا تو وہ ریاست کے کام آئے اور انہوں نے جی ایچ کیو پہ حملے، ملک ریاض سے بات چیت سمیت کافی واقعات کی جانب اشارہ کیا کہ ان میں انہوں نے تکفیر ازم،جہاد ازم کے علمبردار دیوبندی عسکریت پسندوں سے مذاکرات کئے ،کیوں ؟ اس لئے نا کہ مذاکرات کے لئے میز سجانے والوں کو لدھیانوی اور عسکریت پسندوں کے نظریاتی اشتراک بارے علم تھا اس لئے ان کو بلوایا گیا۔
اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ پاکستان پہ ایک طرف تو خود پاکستان کے اندر سے سول سوسائٹی کے مختلف حلقوں کی جانب سے شدید دباؤ ہے ، دوسری جانب بین الاقوامی برادری کا بھی زبردست دباؤ ہے اور تیسرا خود پاکستان کو درپیش اندرونی دہشت گردی کا چیلنچ ملکر اے ایس ڈبلیو جے، جے یو ڈی سمیت پاکستان کے اندر تکفیر ازم و جہاد ازم کی آئیڈیالوجی کے بینر تلے کام کرنے والی دیوبندی اور سلفی تنظیموں کے خلاف کاروائی پہ مجبور کررہا ہے تو دوسری جانب اس عسکریت پسند،فرقہ پرست پوری نیٹ ورک کو غیر مقبولیت کا سامنا بھی ہے۔اس لئے اس نیٹ ورک کے اہلسنت والجماعت/سپاہ صحابہ پاکستان اور جماعت دعوہ جیسے سیکشن جو اپنے حجم کے اعتبار سے کافی بڑے ہیں کینچلی بدل کر ،ٹیگ بدل کر قبولیت کی سند لینے کی کوشش کررہے ہیں۔یہ جنرک نیم ۔۔۔۔۔۔ بنیادی فارمولا بدلے بغیر برانڈ کا نام تبدیل کرکے لوگوں کو دھوکہ دینا چاہتے ہیں اور یہ سمجھتے ہیں کہ ایسا کرنے کے بعد ان کی ” تکفیریت اور مذہبی عسکریت ” کو ” امن پسندی ” کا سرٹیفیکٹ دے دیا جائے۔