مدارس سے نکلتا الحاد، الامان
مسلکی بنیادوں پر قائم مدارس سے پہلے مذہبی انتہاء پسندی اور تکفیر جیسے رویے جنم لیتے تھے، اب معلوم ہوا ہے کہ جدید الحاد کا مرکز بھی یہی مدارس ہیں۔ بیشتر مدارس میں مخالف اسلامی مسالک کے رد کے کورس کروائے جاتے ہیں، اِن کا ہم و غم مسلکی مناظر پیدا کرنا ہے۔ روحِ اسلام کو سمجھنے کا اہتمام موجود ہی نہیں۔
حالیہ دنوں، پاکستان میں ملحدین کے سرخیل علامہ ایاز نظامی (مولانا عبد الوحید) کے گرفتاری کے بعد معلوم ہوا ہے کہ موصوف نے کراچی کے مشہور مدرسہ جامعہ بنوری ٹاؤن سے درسِ نظامی کی تعلیم مکمل کی، مدرسہ میں گیارہ سال پڑھایا بھی، پھر اہلِ تشیع کے جلوس میں مذہبی انتہاء پسندوں نے دھماکہ کیا، جس میں علامہ ایاز نظامی کا دس سالہ بیٹا بھی شہید ہوا، تب اُنھوں نے ابتداء میں مذہبی انتہاء پسندی سے بے زاری اختیار کی، بعد ازاں جب یہ دیکھا کہ اِس انتہاء پسندی کے پیچھے مذہبی بیانیہ موجود ہے تو مذہب سے بھی دست بردار ہوگئے۔
سوشل میڈیا پر دوسرا بڑا مُلحد سید امجد حسین کے نام سے موجود ہے، اِن کے متعلق معلوم ہوا ہے کہ یہ انڈیا کے علاقے بنگلور سے ہیں، اِن کا اپنا مدرسہ ہے جس کا نام مدرسہ حبیبیہ اصلاح المسلمین ہے، یہ مدرسہ امدادیہ نور العلوم کے فارغ التحصیل ہیں۔
کہا جارہا ہے کہ پاکستان میں موجود مُلحدین کی بڑی تعداد، مختلف مسلکی مدارس کے مولوی صاحبان پر مشتمل ہے۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ مسلکی مدارس میں طلباء کی اخلاقی تربیت کا اہتمام نہیں کیا جاتا، یہی وجہ ہے کہ سوشل میڈیا پر زیادہ گالیاں، مدارس کے مولوی صاحبان ہی دیتے نظر آتے ہیں۔ مسجد کا منبر ہو یا عوامی اجتماع، یہ حضرات آگ لگانے کے درپے ہوتے ہیں۔
تاحال مذہبی انتہاء پسندوں، دہشت گردوں کے متعلق کہا جاتا رہا ہے کہ فُلاں مدرسہ کے حافظ ہیں، قاری ہیں، فارغ التحصیل ہیں، اب مُلحدین کے متعلق بتایا جارہا ہے کہ فُلاں مدرسہ کے فاضل ہیں۔
شاید اِنہی وجوہات کے پیش نظر ایک پاکستانی سیاستدان نے بعض مدارس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اُنھیں جہالت کی فیکٹریاں گردانا تھا۔
جب تک مدارس میں اسلامی تعلیمات کو پڑھانے کا بندوبست نہیں کیا جاتا تب تک اِن مدارس سے صحیح اسلام شناس علماء پیدا نہیں ہوں گے۔
اہلِ مذہب کو اپنی اداؤں پر غور کرنا ہوگا۔
(علامہ ایاز نظامی کے متعلق معلومات، حضرت علامہ قاری حنیف ڈار صاحب کی وال سے ماخوذ ہیں، جبکہ امجد حسین کے متعلق معلومات روزنامہ اُمت سے لی ہیں)