سعودی عرب یمن کے ساحلوں کی ناکہ بندی کیوں کررہا ہے ؟ – مستجاب حیدر

یمن کی سب سے بڑی بندرگاہ حدیدہ پہ سعودی اتحادی افواج کے حملوں میں اضافہ ہوگیا جس نے یمن کو نسل کشی کے دھانے تک لیجانے کے سعودی منصوبے میں تیزی پیدا کردی ہے۔

مغربی مین سٹریم میڈیا ہو کہ مڈل ایسٹ میں گلف عرب ریاستوں کے زیر اثر میڈیا ( پاکستانی مین سٹریم میڈیا بھی اس سے مستثنی نہیں ہے) میں شام کا تنازعہ ہی خبروں اور تجزیوں میں چھایا رہتا ہے لیکن یمن میں جو بدترین انسانی المیہ جنم لے چکا لے اس بارے بہت کم رپورٹنگ دیکھنے کو ملتی ہے۔جب سے یمن میں مغرب اور سعودی عرب کی کٹھ پتلی عبدربہ منصور ہادی کی حکومت کا تختہ الٹایا گیا اس وقت سے یمن پہ سعودی عرب کی قیادت میں یمن پہ مسلط جنگ نے بڑے پیمانے پہ تباہی پھیلائی ہوئی ہے۔

سعودی عرب کی قیادت میں فوجی جارحیت کا مقصد خلیج باب مندب جیسی تزویراتی اہمیت کی حامل بندرگاہ پہ کنٹرول برقرار رکھنا ہے جو تیل کی بحری رسد میں اہم بندرگاہ ہے۔سعودی عرب نے ایک اہم تیل کی سپلائی کے راستے پہ اپنا کنٹرول رکھنے کے لئے یمن کی سیاست پہ اپنا کنٹرول رکھنا لازم خیال کررکھا ہے اور اسی لئے وہ یمن پہ پوری قوت سے حملہ آور ہے اور یمن پہ اس کی جنگ اب نسل کشی کی سرحدوں کو چھو رہی ہے۔یمن میں جاری جنگ کی وجہ سے اب تک 10 ہزار سے زائد لوگ مارے جاچکے ہیں جن میں اکثریت معصوم شہریوں کی ہے۔ سعودی عرب نے یمن پہ اب تک جتنے ہوائی حملے کئے ہیں ان میں ایک تہائی سے زیادہ حملوں نے سویلین اہداف کو تباہ کیا ہے۔

سعودی عرب نے اپنے فضائی حملوں میں ہسپتالوں، تعلیمی اداروں، رہائشی کالونیوں، عام شہریوں کی آمد و رفت کے لئے استعمال ہونے والی سڑکوں اور پلوں کو نشانہ بنایا ہے اور اس سے بحران اور شدید ہوگیا ہے۔لیکن اس ساری انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور مبینہ جنگی جرائم پہ اکثر مغربی حکومتوں اور امریکی حکومت نے خاموشی اختیار کی ہوئی ہے۔امریکہ اور دیگر مغربی طاقتیں سعودی عرب کو جو فوجی امداد دیتی ہیں ان کے سبب سے بالواسطہ امریکی اور یورپی حکومتیں بھی ان مبینہ انسانی حقوق کی پامالیوں میں زمہ دار ٹھہرتے ہیں۔اور حال ہی میں امریکہ نے یمن پہ جو فوجی کاروائی اس میں بہت سے معصوم یمنی شہری مارے گئے اور ایک آٹھ سالہ امریکی شہری بھی اس حملے میں ہلاک ہوا۔

غیر جانبدار تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ امریکہ نے سعودی فوجی اتحاد کو یمن میں مبینہ جنگی جرائم کے ارتکاب میں آسانی فراہم کی کیونکہ انہوں نے سعودی عرب کی عام شہری آبادیوں پہ بمباری کرنے کی تاریخی طور پہ مندرج رجحان کے باوجود اسے اربوں ڈالر کا اسلحہ فروخت کیا ہے۔امریکہ شام میں کئی دوسری اقوام پہ ایسے ہی مظالم کا الزام دینے میں بہت جلدی کرتا ہے مگر سعودی عرب کا جب سوال آتا ہے تو اس کے ہاں خاموشی نظر آتی ہے۔

میڈیا میں نہ ہونے کے برابر کوریج اور امریکہ کی سعودی کوششوں کی حمایت نے یمن کو مکمل تباہی اور شکست وریخت کے برابر لاکھڑا کیا ہے۔ “سیو دی چلڈرن ” این ج؛ او کے مطابق یمن کا جو ہیلتھ کئیر سسٹم تھا وہ تباہ ہوچکا ہے اور ہزاروں بچے اس جنگ زدہ یمنی معاشرے میں موت کے منہ میں داخل ہورہے ہیں۔جب سے سعودی عرب نے حملہ کیا تب سے لیکر اب تک یمن میں 270 صحت کی سہولتوں کے مراکز کو یا تو نقصان پہنچا ہے یا وہ بالکل تباہ ہوچکی ہیں اور یہ سب سعودی فضائی حملے کے نتیجے میں ہوا ہے۔

ایک اندازے کے مطابق یمن میں 70 ہزار صحت کی سہولت کے مراکز میں سے 35 ہزار مراکز یا تو بند ہوچکے یا بہت مشکل سے کام کررہے ہیں اور قریب قریب 80 لاکھ یمنی بچوں کے پاس علاج و معالجے تک رسائی ہی حاصل نہیں ہے اور اس کے نتیجے میں ہر ہفتے ایک ہزار بجّے ہلاک ہورہے ہیں۔

لیکن صحت کا بحرکن ان بھیانک مصائب کا محض ایک جزو ہے جن کا یمنی عوام کو روز مرہ زندگی میں سامنا کرنا پڑرہا ہے۔بدترین قحط کے آثار واضح ہیں اور ایک کروڑ 90 لاکھ لوگوں کو انسانی ہمدردی کے تحت امداد کی ضرورت ہے اور یہ کل یمنی آبادی کا دو تہائی بنتا ہے۔اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ آدھی سے زیادہ یمنی آبادی غذائی کمی کا شکار ہے جن میں تین لاکھ ستر ہزار بچّے ہیں۔

قحط ایک مصنوعی قحط ہے جسے سعودی عرب نے یمن کی اہم ترین بندرگاہوں کی ناکہ بندی کرکے پیدا کیا ہے۔حال ہی میں یمن کا مرکزی بینک لوٹ لیا گیا ہے اور اس وجہ سے بھی بہت سے یمنیوں کی تھوڑی سی خوراک خریدنے کی استطاعت ختم ہوکر رہ گئی ہے۔

اقوام متحدہ نے سعودی عرب اور اس کے اتحادیوں کو یمن کی بحری ناکہ بندی ختم کرنے کی درخواست کی ہے لیکن یہ درخواست ماننے کی بجائے سعودی عرب اور اس کے اتحادی یمن کی سب سے بڑی بندرگاہ الحدیدہ پہ حملے کرنے کا منصوبہ بندی کرلی ہے۔بیروت سنٹر فار مڈل ایسٹ اسٹڈیز کی ڈائریکٹر کتھرائن شاہ قدم جو یمن بارے امور پہ بھی مہارت رکھتی ہیں نے متبادل اور غیر جانبدار خبروں اور تجزیوں کے لئے مشہور منٹ پریس نیوز ایجنسی کو بتایا کہ حدیدہ شہر کے حکام نے پہلے ہی تصدیق کی ہے کہ اس ساحلی شہر پہ اور یمنی پانیوں پہ سعودی فوجی اتحاد کے حملے بڑھ چکے ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ پانیوں میں مچھلی پکڑنے جانے والے ماہی گیروں تک پہ حملے کئے جارہے ہیں اور اکثر ڈرون وہاں پہ پرواز کرتے پائے جاتے ہیں۔

کتھرائن کا کہنا ہے کہ سعودی حکام اس اہم ساحلی شہر کو تباہ کرنا چاہتے ہیں تاکہ یہاں پہ لوگ بے بس ہوکر مزاحمتی عوامی تحریک سے رشتے توڑ ڈالیں اور حوثی قبائل اور اس کی اتحادی افواج کو اندر سے شکست ہوجائے۔

اس طرح کے پلان کی عالمی سطح پہ مذمت دیکھنے کو کم ہی مل رہی ہے لیکن روس کی وزرات خارجہ نے سعودی عرب کی جانب سے حوثی قبائل کی تحریک کو مفلوج بنانے کے نئے سعودی منصوبے کی مذمت کی ہے۔اس کا کنہا تھا ایسے منصوبے نہ صرف مقامی آبادی کے بڑے پیمانے پہ بے دخلی کا سبب بنیں گے بلکہ یمن کے دارالحکومت صنعاء میں بھی خوراک کی کمی کے ساتھ ساتھ انسانی المیہ میں اضافے کا سبب بنیں گے۔

Comments

comments