یمن میں نسل کشی : میڈیا امریکی۔سعودی جنگی جرائم چھپا رہا ہے – منار مہوش

میناپولس۔سعودی قیادت میں فوجی اتحاد کی بے تحاشہ فضائی بمباری نے یمن کو تباہ کردیا ہے۔اس کے ساتھ ساتھ یمن کی ناکہ بندی نے وہاں پہ خوراک اور پانی کی دستیابی پہ بھی بہت برے اثرات مرتب کئے ہیں۔

اقوام متحدہ نے اکتوبر میں رپورٹ دی تھی کہ یمن کی 28 ملین آبادی کا نصف سے زیادہ حصّہ خوراک کی نایابی کے مسئلے سے دوچار ہوچکا ہے۔کم از کم 15 لاکھ بچے عرب خطے کے اندر سب سے غریب ملک یمن میں بھوک کا شکار ہیں اور ان میں تین لاکھ ستر ہزار وہ ہیں جن میں ‏غذائی کمی انتہائی شدید ہے اور یہ ان بچوں کے مدافعتی نظام کو بری سے طرح سے کمزور کررہی ہے۔

جبکہ سعودی قیادت میں حملے جاری ہیں جس میں ہسپتالوں کو بھی نشانہ بنایا جارہا ہے جہاں ادویات ختم ہورہی ہیں۔ان تمام حملوں کو امریکہ اور برطانیہ کی شروع ہی سے حمایت حاصل ہے۔یہ حملے 26 مارچ،2015ء کو شروع ہوئے تھے۔

یہاں تک کہ نیویارک ٹائمز بھی یہ بات مانتا ہے کہ یمن میں سعودی عرب کا تباہ کن پروجیکٹ امریکی حمایت کے بغیر جاری نہیں رہ سکتا تھا۔

لیکن اوبامہ ایڈمنسٹریشن نے کہا تھا کہ وہ سعودی عرب کو اسلحے کی فروخت بند کرسکتے ہیں اور وہ خلیجی ریاست سعودی عرب کی ائرفورس کی تربیت کریں تاکہ وہ ٹھیک ہدف کو نشانہ بناسکے۔

یمن کے لوگ خوراک،پانی،دوا اور ایندھن کے بغیر زندگی گزار رہے ہیں۔یمن میں ہلاکتوں کی تعداد اسقدر بڑھ گئی ہے کہ ریڈ کراس نے ہسپتالوں کو ریڈی میڈ مردہ خانے طیہ کرنے شروع کردئے ہیں۔اور یہ فوجی مہم ہی کم مصیبت نہ تھی کہ اس بدتر صورت حال کا فائدہ القاعدہ نے اٹھایا ہے اور رائٹر نیوز ایجنسی کے مطابق یہ گروپ اب اور امیر ہوگیا ہے۔ ابتک سعودی عرب نے یمن میں کسی بھی قسم کے سفارتی حل کو بلاک کرکے رکھا ہوا ہے۔ریاض نے اقوام متحدہ کو دھمکی دی تھی کہ یہ اس کی فنڈنگ بند کردے گا اگر اس نے اسے ان ملکوں کی فہرست میں شامل کیا جو کہ بچوں کے خلاف جرائم میں ملوث ہیں اور یہ انسانی ہمدردی کی بنیاد پہ دی جانے والی امداد کو ہتھیار کے طور پہ استعمال کررہا ہے۔

یمن میں بحران سنگین سے سنگین تر ہوتا جارہا ہے لیکن مین سٹریم میڈیا میں یمن بارے رپورٹنگ نظر انداز کئے جانے کا شکار ہے۔سنگین واقعات کی یمن بارے خبریں کم سے کم بیان کی جاتی ہیں اور اس کا اہتمام وہ میڈیا آؤٹ لیٹ کررہی ہیں جن کو امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے وفادار کنٹرول کرتے ہیں اور وہ یمن پہ ایک مصنوعی بیانیہ بنانے میں مددگار ہیں تاکہ ان مظالم کو جاری رکھا جاسکے۔منٹ پریس جوکہ ایک متبادل میڈیا نیوز ایجنسی ہے اس نے یمن کے بحران اور وہاں پہ حقیقت میں جو ہورہا ہے اس پہ ڈسکس کرنے کے لئے کتھرائن شیخاڈم کو دعوت دی۔وہ ایک سیاسی تجزیہ کار ہیں،منصفہ ہیں اور مڈل ایسٹرن اسٹڈیز کے لئے شفقنا انسٹی ٹیوٹ کی پروگرام ڈائریکٹر ہیں۔وہ یمن پہ خاصی مہارت رکھتی ہیں۔ان کی ایک کتاب ” یمن،وہابی اور آل سعود ” ابھی شایع ہوئی ہے۔اور اس میں انھوں نے آل سعود کے اثر و رسوخ کے خلاف اس خستہ حال ریاست کی مزاحمت کی کہانی کو دریافت کیا ہے۔

کتھرائن کا کہنا ہے

“شفقنا انسٹی ٹیوٹ کی یمن میں ابتک سعودی حملوں کی وجہ سے ہونے والی ہلاکتوں بارے کی گئی تحقیق کے مطابق 15 ہزار یمنی لوگوں کی ہلاکتیں ہوچکی ہیں۔اور یہ عام شہریوں کی ہلاکتیں ہیں اور اس میں قحط سے مرنے والے، کولٹیرل ڈمیج میں ہلاک ہونے والے سبھی لوگ شامل ہیں جبکہ وہ لوگ اس میں شامل نہیں ہیں جن کا تعلق انصار اللہ یا کسی اور فوجی گروہ سے ہے۔سعودی عرب نے یمن کا سارا ریاستی اور سماجی انفراسٹرکچر تباہ کردیا ہے جس کی وجہ سے آج یمن کو ایک نیشن سٹیٹ کہنا ہی مشکل ہے اور لاکھوں کی تعداد میں یمنی اپنے علاقوں سے بے دخل ہوگئے ہیں۔یمن کی سرزمین ایک مکمل تباہی کا منظر پیش کرتی ہے جہاں زراعت تباہ ہوگئی ہے،انڈسٹری تباہ ہے،ہسپتال،تعلیمی ادارے،مارکیٹ،محلے ،بازار سب فضائی بمباری نے تباہ کرڈالے ہيں۔یمن بارے یہ بات بالکل ٹھیک ہے کہ خبروں میں اس تباہی کے بارے میں بالکل بلیک آؤٹ ہے اور ایک غریب اور انتہائی کمزور یمن جیسے ملک اور اس کے مظلوم عوام کی کون پرواہ کرتا ہے؟کسے پڑی ہے کہ ان کی چیخوں کو سنے۔یہ حقیقت ہے کہ یمن کو نہیں سنا جارہا اور یہاں کی عوام کو بھی نہیں سنا جارہا کہ وہ کیا کہہ رہے ہیں

کتھرائن یمن پہ سعودی عرب کے حملے کو بنیادی وجوہات پہ روشنی ڈالتے ہوئے ہمیں بتاتی ہیں کہ یمن کے لوگ ہمیشہ سے سعودی عرب کی سرکاری مذہبی آئیڈیالوجی وہابیت کے خلاف مزاحمت کرتے آئے ہیں اور یمن کی عوام کی اکثریت نے کبھی یمن کو سعودی عرب کے باج گزار ملک کے طور پہ ہونے کی حمایت نہیں کی۔یمن میں بہار عرب کے تناظر میں جو سیاسی تبدیلیاں رونما ہوئیں اور یمن کے اندر ایک ایسی قومی حکومت بننے کے آثار نظر آئے جو بہرحال سعودی عرب ی پٹھو نہ ہوتی اور نہ ہی امریکی تابعداری قبول کرتی اور یمن میں نئی سیاسی تبدیلیاں آل سعود کو خطے میں اپنے اثر ورسوخ کے خلاف لگ رہی تھیں اس لئے اس نے یمن کے خلاف براہ راست جنگ چھیڑدی ہے۔سعودی عرب یمن کو ایک وہابی ریاست اور اپنی تابع فرمان حکومت وہاں پہ دیکھنے کا خواہش مند ہے اور اس مقصد کے لئے یہ بدترین تباہی کی حامل جنگ لڑی جارہی ہے۔اور یمن میں موجودہ جنگ میں سعودی عرب امریکہ و برطانیہ کے مفادات کی نگرانی بھی کررہا ہے اور ایسا ممکن ہے کہ جیسے شام اور عراق کو سعودی۔امریکی ہاتھوں ميں جانے سے روکنے کے لئے روس اور ایران نے مداخلت کی ہے

ایسے ہی یمن میں بھی یہ ہوسکتی ہے۔اور اس سے مڈل ایسٹ میں اور علاقے بھی گرم ہوسکتے ہیں۔جس طرح شام اور عراق میں سعودی عرب نے اپنے مفادات کے لئے وہابی جنگجوؤں کی پناہ گاہ بنائی اور یہاں تک کہ ان ملکوں کو توڑ کر ان کے اندر وہابی ریاستوں کا قیام کرنا چاہا تھا ایسے ہی یہ یمن میں ایک بڑے حصّے پہ سعودی نواز وہابی ریاست کا قیام کرنے سے بھی گریز نہیں کرے گا۔سعودی عرب صرف مڈل ایسٹ کو ہی کنٹرول نہیں کرنا چاہتا وہ افریقہ پہ بھی کنٹرول چاہتا ہے اور یہاں تک کہ مغربی ممالک پہ بھی اپنا کنٹرول کرنا چاہتا ہے۔برطانیہ میں 90 فیصد اسلامک سنٹرز سعودی فنڈڈ ہیں۔

اور جو وہابی بیانیہ سعودی عرب مڈل ایسٹ،شمالی افریقہ، جنوبی ایشیا،مشرق بعید وغیرہ میں پھیلارہا ہے اسی وہابی بیانیہ کو یہ امریکہ، جرمنی ،فرانس ،کینڈا،ہالینڈ اور دیگر ملکوں میں بھی پھیلارہا ہے۔کتھرائن کا کہنا ہے کہ جب تک عالمی برداری یمن اور دوسرے ممالک کے عام آدمی کی بات نہیں سنے گی اور اور وہ کیا چاہتے ہیں اس کو ترجیح نہیں دے گی اس وقت تک خلفشار پہ قابو نہیں پایا جاسکے گا ۔یمن بارے مغربی میڈیا سمیت مین سٹریم میڈیا پہ موجود بلیک آؤٹ ختم ہونا چاہئیے اور خودساختہ جعلی خبریں چلائی جانی بند کی جانی چاہيں۔

Founder of MintPress News is Mnar Muhawesh, a broadcast journalism graduate of St. Cloud State University. She began her career as an intern at Minnesota television station KARE and as a freelance journalist. After posting her own work on a blog, in 2011 she decided to launch her own news site.[2] Muhawesh said she believed “our media has failed us very miserably,” and spoke of her aspirations for MintPress, citing uninformed public debates around issues like Iran’s nuclear capabilities, or intervention in Syria. “We are in a crucial time in American history where most Americans don’t know what’s going on in the world around them.”

Comments

comments