شہباز قلندر بم دھماکے کی بنیادی ذمہ داری کس پہ ہے ؟
ہم جبران ناصر جیسے سول سوسائٹی کے ایکٹوسٹوں کی برہمی کے مخصوص اہداف اور اصل کو چھوڑ کر فرع پہ حملہ آور ہونے کے حربوں سے اکثر ان کے مقصد بارے مشکوک ہوجاتے ہیں۔لال شہباز قلندر کے مزار پہ حملہ ہوا تو انہوں نے اس معاملے پہ سارا زور پی پی پی کی مذمت پہ ڈال دیا اور اس حوالے سے اس واقعے کے جو اصل زمہ داران تھے اور ان کے جو ماسٹرز ہیں ان کے بارے میں وہ خاموش رہے۔وہ کہہ سکتے ہیں کہ ان کا فلاں ٹوئٹ کچھ ماہ پہلے کا دیکھیں ،وہ بیان دیکھیں لیکن سچائی وہ ہوتی ہے جو وقت پہ بولی جائے۔ملک ریاض نے ایک بار پھر بالکل ٹھیک نشاندہی کی ہے۔
مجھے لال شہباز قلندر پہ ہوئے خودکش بم دھماکے پر پی پی پی کی حکومت کو حد سے زیادہ بڑھ کر الزام دینا انتہائی غیر مناسب لگ رہا ہے جبکہ اس الزام کی بنیاد پی پی پی کی مزار کے قریب ہسپتال کی تعمیر نہ کرنے پہ رکھی جارہی ہے۔پی پی پی کی حکومت سندھ میں کئی نااہلیوں کی کلاسیکل مثال ہے۔لیکن اس ایشو پہ پی پی پی پہ ہی فوکس اور توازن سے بڑھی تنقید ایک طرف تو بے فائدہ ہے اور اصل میں یہ داعش کے اتحادی دیوبندی دہشت گرد گروپوں سے توجہ ہٹانے کا حربہ بھی ہے جنھوں نے یہ دھماکہ کیا ہے۔تو جو دوست اس طرح کے موقف کے خریدار بن رہے ہیں وہ فاش غلطی کے مرتکب ہیں۔ان کو توجہ چوروں کی ماسی تکفیری دیوبندی دہشت گرد گروپوں پہ رکھنی ہے۔
پاکستان پیپلز پارٹی کا ایک بڑا گناہ دیوبندی دہشت گردوں اور ان کے نظریہ سازوں کے آگے سرنڈر کرنا ہے جیسے اہل سنت والجماعت/سپاہ صحابہ سے صرف نظر کرنا ہے۔قائم علی شاہ سابق چیف منسٹر اور خورشید شاہ اپوزیشن لیڈر کئی بارے ان تکفیری دیوبندی دہشت گردوں کے ساتھ پبلک میں کھڑے نظر آئے۔پی پی پی نے جے یو آئی اور اہلسنت والجماعت کے سندھ میں پھیل جانے والے مدارس کو وقت پہ روکنے کی کوشش نہیں کی بلکہ اسے سیاسی رشوت کے طور پہ جاری رکھا۔ان مدرسوں نے سندھ کے قدیم کلچر کی اقدار اور ڈیموگرافی کو تبدیل کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔
پی پی پی کو ہسپتالوں کی تعمیر کرنی چاہئیے لیکن ہمارا پہلا ہدف تکفیری دیوبندی دہشت گرد تنظیمیں ہونا چاہيں اور پھر دوسرے معاملات سامنے آئیں۔
ایسے بم دھماکے کوئٹہ،ڈی جی خان، کراچی میں اور 2010ء میں احمدیوں پہ لاہور میں ہوئے۔اس سے پہلے دیوبندی تکفیری دہشت گرد خودکش دھماکوں کے بعد ہسپتالوں پہ دھماکوں میں بھی مصروف رہے ہیں۔کراچی میں تو یہ ہوا کہ جب دہشت گردی کے شکار زخمی ہسپتال لائے تو وہاں پہ موجود تکفیری دیوبندی دہشت گردوں کے تکفیری دیوبندی میڈیکل سٹاف نے مدد کرتے ہوئے پھر دہشت گرد؛ میں مدد دی۔
ذہن نشین کرلیں کہ وفاقی حکومت نے لاہور میں ہوئے بم دھماکے کے اصل کردار تکفیری دیوبندی دہشت گردوں کو چھپاکر سارا الزام اس دھماکے کے متاثرین ، کرکٹ سے نفرت کرنے والوں اور سی پیک کے مخالفوں پہ دھر دیا۔
تو یہ ایک چال ہے کہ پی پی پی پہ سوشل میڈیا پہ ایک مہم چلائی جائے اور سارا الزام پی پی پی پہ دھر دیا جائے۔تو جبران ناصر اور دوسرے ایکٹوسٹ اس مہم میں شریک ہوتے ہیں تو اس سے اصل دہشت گردوں سے توجہ ہٹ جاتی ہے اور ان کے جو ہینڈلر اور ان کے خالق مسلم لیگ نواز اور سیکورٹی اسٹبلشمنٹ کی جانب توجہ ہی نہیں جاتی
ایسی غیر متوازن تنقید عشروں پرانی سٹریٹجک گہرائی کی پالیسی سے توجہ ہٹاتی ہے جوکہ ریاستی ہرکارے چلارہے ہیں اور اس سے سلفی اور دیوبندی دہشت گردوں کو پراکسی جنگیں لڑنے کے لئے پید کیا جارہا ہے۔
جبران ناصر کو پی پی پی کی سماجی ورکر شریں رحمان سے سوال کرنا چاہئیے کہ وہ کیوں طاہر اشرفی جیسے جہادی و تکفیری ملّاؤں کو پروجیکٹ کرتی ہے اور فروغ دیتی ہے؟ اور اسے ان سے پوچھنے کی ضرورت ہے اس کا ریسرچ انسٹی ٹیوٹ ایسی رپورٹیں کیوں شایع کرتا ہے اور کس کے لئے شایع کرتا ہے جو طالبان کو مین سٹریم فورس اور ان کے اقدامات کا جواز فراہم کرتی ہیں۔
ایسے ناجائز اور عدم توازن پہ مبنی حربے وسیع دیوبندی اور سلفی مدرسوں کے ملک گیر نیٹ ورک کو ملنے والی سعودی فنڈنگ سے ہماری توجہ ہٹاتی ہے جو کہ ان مزاروں پہ دی جانے والی اتحاد اور برداشت کی تعلیمات کے خلاف شدید ترین ہلاکت خیز پروپیگنڈا کرنے کے کارخانے ہیں۔
ایسا ہتھکنڈا مخصوص برہمی ،منافقت اور اپنے بزعم ٹھیک ہونے کا رویہ لیکر پی پی پی کے اصل گناہوں سے توجہ تو ہٹاتا ہی ہے ساتھ ساتھ یہ ان دہشت گردوں سے توجہ بھی ہٹاتا ہے جنھوں نے خود پی پی پی کے سینکڑوں کارکنوں بشمول بے نظیر بھٹو کو شہید کیا ہے۔