وہ دھماکہ کریں،تم کلچر کو پابند سلاسل

فروری کی 16 تاریخ اور دن جمعرات کا اور شام کے سات بجنے میں 5 منٹ باقی تھے جب سندھ کے ضلع دادو کے تعلقہ سہیون شریف میں واقع شیخ عثمان مروندی الحسینی المعروف لال شہباز قلندر کے مزار کے اندر عین ان کی قبر پہ پائنتی کی جانب تکفیری دیوبندی دہشت گرد تنظیم جماعت الاحرار کا خودکش بمبار پہنچا اور خود کو دھماکے سے اڑا لیا۔یہ وہ وقت جب مزار کے احاطے میں زائرین کی بڑی تعداد موجود تھی اور وہاں پہ دھمال ڈالی جارہی تھی۔اس افسوسناک واقعے میں 80 افراد شہید اور 250 سے زائد افراد شدید زخمی ہوگئے۔دو دن میں ملک کے مختلف حصوں میں پانچ خودکش حملے ہوئے جبکہ ایک واقعہ میں ڈیرہ اسماعیل خان مين پولیس کی وین پہ فائرنگ کی گئی اور ان واقعات کی زمہ داری جماعت الاحرار، تحریک طالبان،داعش خراسان اور لشکر جھنگوی العالمی نے ملکر قبول کی ہے اور یہ سب تنظیمیں دیوبندی مکتبہ فکر کی تکفیری،خارجی اور جہادی آئیڈیالوجی سے اشتراک رکھنے والی تنظیميں ہیں۔

شیخ عثمان مروندی الحسینی رحمۃ اللہ علیہ کے بارے میں مولانا عبدالحی لکھنوی نے اپنی کتاب میں لکھا ہے

الشيخ عثمان بن حسن المروندي

الشيخ الصالح عثمان بن حسن الحسيني المروندي ثم السيوستاني المعروف بلعل شاهباز

قدم ملتان سنة اثنتين وستين وستمائة، فكلفه محمد بن غياث الدين الشهيد بالإقامة في

ملتان، وأراد أن يبني له زاوية بتلك المدينة فلم يقبله وسافر في بلاد الهند، ثم رجع إلى أرض

السند وسكن بسيوستان، ولم يزل بها حتى مات، وكان شيخاً وقوراً مجرداً حصوراً، يذكر

له كشوف وكرامات، توفي سنة ثلاث وسبعين وستمائة بسيوستان فدفن بها، كما في تحفة

الكرام.

پاکباز نیک بزرگ عثمان بن حسن الحسینی المروندی ،السیستانی لعل شہباز (قلندر ) کے نام سے معروف ہیں۔یہ 732ھجری میں ملتان آئے جب یہاں غیاث الدین  کی حکومت تھی اور اس نے چاہا کہ حضرت عثمان مروندی ملتان قیام کریں اور یہیں پہ اپنا زاویہ/تکیہ /خانقاہ بنالیں لیکن انھوں نے قبول نہ کیا اور ہندوستان کے کئی شہروں کا سفر کیا اور پھر سندھ کی دھرتی پہنچے اور سیوستان میں قیام کیا اور وہیں پہ رہے اور وہیں پہ وصال فرمایا اور شیخ عثمان مروندی بہت ہی بڑے صاحب مجاہدہ بزرگ تھے،ان سے بہت سے کشوف اور کرامتیں منسوب ہیں۔اور ان کی وفات تحفۃ الکرام کے مطابق 780ھجری میں ہوئی۔

اس کے علاوہ عرب کے کئی ماہرین تاریخ جنھوں نے عرب سے ہجرت کرجانے والے علماء و مشائخ کا تذکرہ کیا ہے ان کا زکر بھی بڑے اہتمام کے ساتھ کیا ہے۔یہاں تک کہ شام،مصر ،ترکی ،لبنان اور اردن کے ماہرین تاریخ بھی آپ کا تذکرہ ضرور کرتے ہیں۔لال شہباز قلندر کے سہیون شریف کو سندھو وادی کا اجمیر بھی قرار دیا جاتا ہے اور ان کو سندھ کا خواجہ غریب نواز بھی کہتے ہیں۔

اور شیخ عثمان مروندی دیگر صوفیاء کرام کی طرح ہندؤ،سکھ،مسلمان، شیعہ ،سنّی ،اعتدال پسند دیوبندی ( علامہ عبدالحی لکھنوی دیوبندی مدرسہ ندوۃ العلماء لکھنؤ میں ہی استاد تھے )، کرسچن اور یہاں تک کہ یہودیوں میں بھی یکساں احترام کی نظر سے دیکھے جاتے ہيں۔کراچی میں رہنے والی قدیم پارسی اور یہودی برادری کے لوگ برٹش انڈیا دور میں باقاعدگی سے لال شہباز قلندر کے مزار پہ حاضری دیا کرتے تھے

آپ کی شاعری اور اقوال پڑھ کر یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے کہ آپ ان سنّی بزرگوں میں سے تھے جو حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم کی تمام صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین پہ فضیلت کے قائل تھے۔دارشکوہ ملّا بدخشانی کے سلسلہ طریقت سے لال شہباز قلندر تک جاملتے ہیں۔آپ امام جعفر صادق رضی اللہ عنہ کے فرزند اسماعیل کی اولاد میں سے ہیں جبکہ آپ مولانا جلال الدین رومی کے ہم عصر ہیں۔مروند آزربائیجان کا شہر ہے جہاں آپ کی ولادت ہوئی تھی۔اور ماہرین تاریخ کا خیال یہ ہے کہ جب بنوامیہ کا جبر وستم حد سے تجاوز کرگیا تو کئی سادات وہاں سے نکل کر وسط ایشیاء کی جانب آئے انہی میں لال شہباز قلندر کے آباء بھی تھے۔سندھ کی سرزمین پہ جو تہذیب اور کلچر فروغ پایا اس میں آپ کا کردار بھی اہم بتایا جاتا ہے۔

جسے عمومی طور پہ جنوبی ایشیائی اسلامی کلچر کہا جاتا ہے آپ کو اس کے معماروں میں شمار کیا جاسکتا ہے۔اور دیوبند مدرسہ تحریک میں جو تکفیری،جہادی اور عسکریت پسند عنصر ہے وہ سلفی ازم کے ساتھ اشتراک میں اس جنوبی ایشیائی اسلامی کلچر کا سخت دشمن اور مخالف ہے۔وہ اس کلچر کو مکمل طور پہ تباہ کرنا چاہتا ہے۔لال شہباز قلندر کے مزار پہ ہونے والا حملہ جنوبی ایشیائی اسلامی کلچر کے خلاف تکفیر ازم، جہاد ازم اور نیو دیوبندی ازم کی چھیڑی جانے والی جنگ کا ہی تسلسل ہے جس کی نمائندگی سندھ کے اندر تیزی سے پھیلتی ہوئی دیوبندی تکفیری تنظیم اہل سنت والجماعت/سپاہ صحابہ پاکستان اور اس کی فکر سے اشتراک رکھنے والے دیوبندی مدارس کرتے ہیں جوکہ سندھ میں تقسیم سے پہلے سے موجود اعتدال پسند اور صلح کل دیوبندیت کا چہرہ بھی بگاڑرہے ہیں۔سندھ حکومت نے وفاقی وزارت داخلہ کو 94 ایسے دیوبندی اور سلفی مدارس کی لسٹ ارسال کی تھی جوکہ کالعدم دہشت گرد تکفیری تنظیموں کی سرپرستی کرنے میں مصروف ہیں اور ملک میں انتہا پسندی،دہشت گردی اور فرقہ پرستی کو پروان چڑھارہے ہیں۔

یہ فہرست سندھ اور وفاق کے سیکورٹی و انٹیلی جنس ودیگر اداروں کی مشترکہ انوسٹی گیشن کے بعد مرتب کی گئی تھی اور اس میں صرف کراچی کے اندر 74 مدارس مووجود ہیں۔لیکن وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان اس فہرست کو مصدقہ ماننے سے انکاری ہیں اور وہ پاکستان کے اندر کام کرنے والے تکفیری دیوبندی۔سلفی نیٹ ورک کو دہشت گرد نیٹ ورک سے الگ کرکے دیکھنے پہ اصرار کرتے ہیں۔

اور شاید وہ پاکستان کے پہلے وفاقی وزیرداخلہ ہیں جو تکفیری انتہا پسند تنظیموں کی صفائی پیش کرتے نظر آتے ہیں۔پاکستان کے ریاستی حکام آج تک دہشت گردی اور تکفیرازم،جہاد ازم کے درمیان باہمی تعلق کو ہی تسلیم کرنے سے انکاری ہیں۔ریاستی حکام جب یہ کہتے ہیں کہ دہشت گردوں کا کوئی مذہب نہیں ہوتا تو اصل میں وہ اس بات سے انکار کرتے ہیں کہ پاکستان میں شیعہ، صوفی سنّی، کرسچن، ہندؤ، احمدی، سکھ اور دیگر برادریوں کے خلاف جاری دہشت گردی کسی آئیڈیالوجی کے زیر اثر نہیں لڑی جارہی اور یہ ایک طرح سے دہشت گردوں کی شناخت اور ان کی فکری بنیادوں پہ پردہ ڈالنے کی کوشش ہے اور ہم کہہ سکتے ہیں کہ یہ دوسرے لفظوں میں دہشت گردوں کے نظریہ سازوں، سہولت کاروں،ہمدردوں کو بچانے کی کوشش ہے۔پاکستان کے حکام دہشت گردی کے خارجی ، غیر ملکی اور بیرونی عوامل پہ بہت زور دیتے ہیں لیکن دہشت گردی کے اندرونی اور داخلی عوامل پہ ان کا رویہ انکار۔جواز یا ابہام والا ہے۔اور یہی مخمصہ بار بار اس ملک کے صوفی کلچر سے جڑے لوگوں کے لئے تباہ کن اور خون خوار ثابت ہورہا ہے۔

حکومتوں نے دہشت گردی کے واقعات کے بعد وتیرہ یہ بنالیا ہے کہ وہ مزارات کو سیل کردیتی ہے۔صوفی اور دیگر کلچرل فیسٹول پہ پابندیاں عائد کرتی ہے اور چھوٹے اور دور دراز علاقوں میں موسم بہار میں مقامی میلوں اور عرس کی تقریبات کے انعقاد پہ پابندی لگادیتی ہے۔جیسے اس نے ہزاروں رسمی مجالس اور جلوس ہائے عزاداری پہ پابندی لگائی۔اور اس طرح سے ریاست اور حکومتیں خود تکفیری دیوبندی اور سلفی ازم کا ایجنڈا پورا کرتی ہیں اور رد ثقافت پالیسی کا اجراء کرتی ہیں۔کلچر مخالف دیوبندی تکفیری کارخانوں کو آپ بند کرنے کے حق میں نہیں ہیں اور سپاہ صحابہ پاکستان/اہلسنت والجماعت جیسی تنظیموں کی وکالت میں آگے آگے ہوتے ہیں لیکن مزار۔عرس،میلہ ، فیسٹول کے خلاف پوری ریاستی مشینری استعمال کی جاتی ہے اور یہاں تک کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کا ایک جج “یوم محبت ‘ کو اسلام کے خلاف قرار دے ڈالتا ہے اور سرخ غباروں اور سفید ربن فروخت کرنے پہ پابندی عائد کردی جاتی ہے۔بیساکھی کے میلے پہلے ہی حکومتیں بند کرچکی ہیں۔یہ تکفیر ازم اور جہاد ازم کے سامنے مکمل سرنڈر کرجانے کے مترادف ہے۔

اس کا مطلب یہ بھی ہے کہ وہ خودکش بم دھماکوں سے مزارات پہ حاضری،میلوں ٹھیلوں میں شرکت،میلاد و عاشور کے جلوسوں میں شرکت سے روکیں تو تم پورے کلچر کو پابند سلاسل کرو،مزارات کو سیل کردو، فیسٹول پہ پابندی لگادو۔مطلب یہ کہ ان کا سو فیصد ایجنڈا پورا کردیا جائے۔اور سیکورٹی اور تحفظ کے معاملے میں بھی ریاست کی ترجیح عوام ان کی عبادت گاہیں،مزارات،امام بارگاہیں،مساجد،جلوس ،میلے نہیں ہیں بلکہ مقدم اور سب سے ضروری وی آئی پیز کی حفاظت ہے۔جس قدر حفاظتی اقدامات ایک ڈی پی او آفس،ڈی سی او آفس، سیشن و سول کورٹس کی جاتی ہےاس کا 20 فیصد بھی اگر عوام کو فراہم کیا جائے تو ایسے واقعات کی شرح بہت ہی کم ہوجائے۔سافٹ ٹارگٹ کا ایک مطلب حکومت عوام کو دہشت گردوں کے رحم وکرم پہ چھوڑنا بھی ہے۔

Comments

comments