باغی لڑکی – از عامر حسینی

باغی لڑکی

باغی لڑکی : امرتا پریتم کا فون نمبر مل سکتا ہے؟
ع۔ح : ہنستے ہوئے ۔ کیوں کیا ضرورت پڑگئی؟
باغی لڑکی : ان کو کہنا ہے حنا شاہنواز جیسی ہزاروں عورتوں بارے بھی کوئی وین لکھے جیسے 47ء کے واقعے پہ لکھا تھا۔اور ان عورتوں بارے بھی جو ایک دم سے قتل نہیں ہوتیں بلکہ آہستہ آہستہ مارا جاتا ہے۔گھریلو عورت جن کی محنت کبھی ان کی نہیں ہوتی
ع۔ح : تمہیں کیسے پتا یہ سب ؟

باغی لڑکی : میری ماں مزدور تھی
یہ سب اس کے لیے
خراجِ عقیدت
میرا باپ صرف مرد تھا
انھوں نے ماں کو عورت کے طور پر لیا سب دیا مگر قدر نہ کی
غلام گردشیں ہیںجن میں روح بھٹکتی ہے میری
سانس لیتی ہوںباغی ہوںابا پسند نہیں کرتے نہیں کرتے تھے مجھے

ع۔ح : تمہیں امرتا کے ساتھ رابطہ کرنے کے لیے اس کی آتما کو آواز دینا پڑے گی۔ایسا کرو لاہور چلی آءو وہاں کہیں اس کی آتما ضرور بھٹکتی ہوگی اور تم بس دل میں اس کو یاد کرنا حاضر ہوجائے گی

باغی لڑکی : ( حیران ہوتے ہوئے ) کیا وہ بھی مر گئی؟
ع۔ح : وہ بھی مر گئی؟ کیا مطلب کیا کسی اور سے رابطہ بھی درکار تھا ؟

باغی لڑکی : ہاں نا سلطانہ جعفری کا پوچھا تو کیا وہ بھی گئی ، ایلس فیض کا تو پتا چلا وہ بھی نہیں ، رضیہ بھٹی کا سارا شگفتہ کا یہ ساری شعور کی آگ میں جلنے والی عورتیں اتنی جلدی مر کیوں جاتی ہیں ؟
مرے پاس اس سوال کا جواب نہیں ہے
نوٹ : یہ مکالمے زیر زمین ہی ہوسکتے ہیں۔باغی لڑکی نے اجازت دی اسے پوسٹ کرنے کی تو پوسٹ کررہا ہوں ۔

Comments

comments