چ پرشاد لبرل دانش:انٹلیکچوئل یٹ ایڈیٹ – عامر حسینی

1-yfddwmcyna_tyhf8l6ihlq 

نسیم نقولا طالب ایک لبنانی نژاد امریکی دانشور ہے-اس کی توجہ کا مرکز ہمارے سماج میں پھیلی رینڈم نیس –بے اصولی ، بے ترکیبی پروبیبلیٹی-امکان اور ان سرٹینٹی – بے یقینی ہیں-اس کی ایک کتاب بلیک سوان یعنی سیاہ ہنس راج جنگ عظیم دوم کے بعد سب سے زیادہ اثر انداز ہونے والی بارہ کتابوں میں سے ایک خیال کی جاتی ہے-نسیم نقولا طالب ہمارے ہاں مڈیاکر دانش سے بننے والے مہا بیانیوں کا سخت مخالف ہے-وہ زیادہ تر معاشی اور مہا سماجی سائنس کی نظریہ سازی کا مخالف ہے جو اس کی نظر میں وہی غلطی کرتی ہیں جو پلوٹو کا نظریہ اشکال یا ہئیت کرتا ہے۔وہ ایک ایسے سماج کی وکالت کرتا ہے جو سیاہ ہنس راجوں کا مضبوط سامراجیہ ہو یعنی ایک ایسا معاشرہ جو مشکل سے پیشن گوئی میں آنے والے واقعات کے ساتھ مقابلہ کرنے کی ہمت رکھتا ہو۔ہم میں سے کتنے لوگوں نے نسیم مقولا طالب کا نام سنا ہوگا۔

میں نے تو کم از کم اپنے دوستوں سے کبھی نسیم مقولا طالب کا نام نہیں سنا۔پہلی مرتبہ ریاض ملک نے ایک اور فیس بک پہ بنی آئی ڈی ” الخط المعطر” یعنی خوشبو میں بھیگا راستہ ” پہ نسیم مقولا طالب ” کا ایک مضمون ” انٹلیکچوئل یٹ ایڈیٹ” یعنی “دانشور پھر بھی احمق ” شئیر کیا تو مجھے ان کے بارے میں جاننے کا اشتیاق ہوا۔نسیم مقولا طالب برطانیہ سے لیکر امریکہ تک کے پالیسی ساز لوگوں کو “کلرک ” اور ” اندر کی خبر رکھنے کے دعوے دار صحافیوں” کو یعنی نجم سیٹھی کی طرح ” چڑیا ” رکھنے کے والے صحافیوں کو “نیم دانش رکھنے والے ماہر تجزیہ کار” کہتا ہے۔

اور ان کے ساتھ کچھ آکسفورڈ، کیمبرج اور اسی طرح کے لیبل کی اور جامعات کے کچھ مہا پروفیسرز جو ہمیں یہ بتانے کی کوشش کرتے رہتے ہیں کہ،ہمیں کیا کرنا ہے؟ کیا کھانا ہے؟ کیسے بولنا ہے؟ اور کیسے سوچنا ہے؟ یہاں تک کہ کس کو ووٹ کرنا ہے؟ان جیسے بڑے کلغی والے پروفیسرز کو وہ بس یہ سمجھ لیجئے “چو-یا پرشاد ” کہتا ہے۔اس کا کہنا ہے، ” برطانیہ سے لیکر امریکہ تک ہم ایسے سب “چ پرشادوں ” کے خلاف بڑی بغاوت رونما ہوتے دیکھ چکے ہیں۔

لیکن ان یک چشم خود ساختہ مہان دانش ور قبیلے کے باسیوں کے ساتھ مشکل یہ ہے کہ یہ وہ لوگ ہیں جو کوکونٹ جزیرے میں کوکونٹ آئل کبھی بھی تلاش نہیں کرپاتے،مطلب وہ اتنے دانا نہیں ہیں کہ دانائی کی تعریف متعین کرسکیں جبکہ یہ بس دائروں میں ہی سرگرداں پھرتے رہتے ہیں۔ان کی سب سے بڑی مہارت یا سکل ہے کیا؟اپنے ہی جیسے لوگوں کے تیار کردہ امتحانات کو پاس کرنا۔لوگوں نے ماہر نفسیات کی ہدایات پہ دھیان دینا چھوڑ رکھا ہے۔

اس میں 40 فیصد گراؤٹ دیکھنے کو ملی ہے۔حفظان صحت بارے خوراک کے چارٹ بنانے والوں کی ہدایات کے برعکس لوگوں کے رجحانات 30 سال تک موٹاپا کم کرنے کا فوبیا چھایا رہنے کے بعد ایک دم  سے بالکل برخلاف سامنے آنے لگے ہیں۔لوگ اپنی وراثتی جبلت پہ دھیان دے رہے ہیں اور اپنے آباء کی روائتی دانش و حکمت پہ کان دھر رہے ہیں۔اور اس کا ٹریک ریکارڈ بھی ان کو ان “چ-پرشاد دانشوروں اور پالیسی سازوں ” کے ٹریک ریکارڈ سے کہیں زیادہ بہتر لگتا ہے۔

کوئی بھی دیکھ سکتا ہے کہ یہ اکیڈمیا بیوروکریٹ جو کہ خود کو ہماری زندگیوں کو چلانے کا حقدار خیال کرتے ہیں اتنے بھی محتاط اور پنکچول نہ ہیں جتنا ان کو پیش کیا جاتا ہے چاہے یہ اکیڈمیا نوکر شاہ میڈیکل اعداد و شمار سے متعلق ہوں یا پالیسی میکنگ سے جڑے ہوں۔طالب مقولا نسیم کا خیال یہ ہے کہ اپنی جس دانش یا فکر کو یہ سائنس کہتے ہیں وہ سرے سے سائنس ہے ہی نہیں اور اسے سرے سے دانش کہنا بھی دانش کی توہین ہے۔

اور اسے انٹلیکچوئل یٹ ایڈیٹ( یعنی ایسی حماقت جو دانش کا لبادہ اوڑھے ہوئے ہے) کہتا ہے۔اور وہ اسے ماڈرینٹی یعنی جدیدیت کی پیداوار قرار دیتا ہے اور یہ بیسویں صدی سے ہم پہ مسلط ہے۔اور اس کے خیال میں آج ایک ریاضياتی سپریمم بن چکی ہے۔سادہ طور پہ یوں کہئیے کہ بہت بڑی قوت بن چکی ہے۔اور اس قوت کے ساتھ بہت سارے لوگ ہیں جو ہر ایک شعبہ ہائے زندگی پہ حملہ آور ہیں۔بیسویں صدی سے حکومتوں کا کردار 5 سے 10 فیصد رہ گیا ہے جبکہ یہ جو انٹلیکچوئل یٹ ایڈیٹ ہے ان کا کردار 90 فیصد ہوگیا ہے۔یہ لوگ اتنے بڑے اثر کے باوجود اقلیت میں ہیں۔ یعنی ان کو چند مخصوص تھنک ٹینک، جامعات اور ميڈیا آؤٹ لیٹ سے باہر بہت کم ہی دیکھا جاتا ہے۔

یہ “چ۔پرشاد دانشور ” بہت سارے معاملات میں انتہائی غلط ثابت ہوئے۔بظاہر یہ بڑھے مساوات، آزادی، برابری اور انسانیت کے علمبردار نظر آتے ہیں لیکن کبھی ایک ٹیکسی ڈرائیور کے ساتھ یہ ڈرنک نہیں کریں گے،ایک کالی عورت کے ساتھ ڈانس نہیں کریں گے۔یعنی سر سے پیر تلک یہ اشرافیت میں ڈوبے نظر آئیں گے۔

چوتیا پرشاد لبرل انٹلیکچوئل ایڈیٹ تاریخی طور پہ سٹالن ازم ، ماؤ ازم ، جی ایم او، عراق، لیبیا، شام ، لوبوٹومیز، اربن پلاننگ، کم کاربوہائیڈرائٹس ، جم مشینوں، کرداریت، ٹرانس فیٹس، فرائیڈین ازم ، پورٹ فولیو تھیوری ، لی نر ری گریشن، سلفی ازم ، دیوبندی ازم ، ہاؤسنگ پروجیکٹس سیلفش جین ، الیکشن فار کاسٹ ماڈلنگ  وغیرہ وغیرہ بارے میں انتہائی غلط پائے گئے۔ان کے تجزیے، پیشن گوئیاں دھری کی دھری رہ گئیں۔لیکن ان کو اب بھی یقین ہے کہ ان کی پوزیشن ہی درست ہے

چوتیا پرشاد لبرل دانشور/ انٹلیکچوئل یٹ ایڈیٹ ایک ایسے کلب کا رکن ہے جن کو سفری مراعات کا حق ہے۔اگر کوئی چوتیا پرشاد لبرل دانشور سماجی سائنس دان ہے تو وہ اعداد و شمار کو یہ جانے بنا کہ وہ کیسے حاصل کئے جاتے ہیں استعمال کرتا ہے-نسیم مقولا نفسیات اور فلسفے، بشری علوم کا سپر فیشل نالج رکھنے والے چوتیا پرشاد لبرل دانشوروں کو سائیکوفلاسٹر یا فلاسفو فلاسٹر کا نام دیتا ہے۔اور وہ وہ سماجی سائنس دانوں میں چوتیا پرشاد لبرل میں سٹیون پرینکر کا زکر کرتا ہے۔

یہ ایک کینڈین امریکن ماہر لسانیات و نفسیات دان ہے-ایسے چوتیا پرشاد لبرل دانشور احمق جب برطانیہ جاتے ہیں تو وہاں لٹریری فیسٹول میں شریک ہوتے ہیں۔ریڈ وائن سٹیک (گوشت کا ٹکڑا)کے ساتھ نوش کرتے ہیں لیکن یہ وآئٹ میٹ نہیں ہوتا۔حالانکہ ان کو یقین ہوا کرتا ہے کہ یہ موٹاپا لانے والا طریقہ ہے اور نقصان دہ ہے مگر اس کے برعکس کرتے ہیں۔یہ چمکدار ریشمی کپڑے استعمال کرتے ہیں کیونکہ ان کے ڈاکٹر نے ان کا استعمال کرنے کو کہا ہوتا ہے۔ بزنس پہ بات کرتے ہوئے یہ عامی یہودیوں کی يڈش زبان استعمال نہیں کرتے۔

زبان بولنے سے پہلے یہ گرائمر سیکھتے ہیں۔یہ ابن بطوطہ ،جان گرے ، جوزف ڈی مستیور اور قرون وسطی کے دانشوروں کو نہیں پڑھتے۔آپ یوں کہہ لیں کہ ان چوتیا پرشاد لبرل دانشوروں کو فوک، لوک دانش ، کھانے ،پینے اور رسوم رواج سے یک گونہ نفرت ہوتی ہے۔بلّھے شاہ، شاہ حسین، لطیف بھٹائی کو بھی پڑھنا پڑھے تو جاکر انگریزی میں پڑھتے ہیں۔رومی کو بھی۔جھومتے گاتے ملنگ، دھمال ڈالتے،شہباز قلندر پہ جانے والے عام آدمیوں اور عورتوں کے طور طریقوں سے یہ خود کو ہم آہنگ نہیں کرپاتے۔محرم کی مجالس، جلوس، علم، شبیہ ذوالجناح،سرائیکیوں کی جھمر،میلاد کے جلوس، الیاس قادری کی سادگی ان کو فراڈ، وقت کا ضیاع لگتی ہے۔اگر کوئی برطانوی یا امریکی لبرل چوتیا پرشاد ہو تو وہ روسیوں کے ساتھ شراب پی کر بدمست نہیں ہوسکتا۔وہ اس مقام تک پی نہیں سکتا جب کوئی گلاس توڑنا شروع کردیتا ہے ہو۔یا کرسی توڑ ڈالے۔یا الٹیاں کرنا شروع کردے۔

یا وہ مقام جہاں من و تو کی تمیز مٹ جائے۔ اور نسیم مقولا طالب ایک اور بات بڑے ہی پتے کی حرکت ہے کہ یہ سوڈو انٹلیکچوئل یا انٹلیکچوئل یٹ ایڈیٹ یعنی چوتیا پرشاد لبرل جو بہت چھوٹی سی اقلیت ہیں اپنے سوا سب کو ہی چوتیا خیال کرتے ہیں۔باقی سب کمتر ہیں،احمق ہیں۔اور دوسروں پہ ان کا فکاہیہ، طنز اور سٹریکل قلم بہت چلتا ہے لیکن جب ان کی اپنی باری آجائے اور ان پہ طنز ہو اور کوئی ان کو چوتیا کہے تو ان کی پھٹ جاتی ہے۔اور یہ اسے برداشت نہیں کرپاتے۔محرم کی ثقافت ، میلاد کی ثقافت، اور شام کے نام نہاد ماڈریٹ باغیوں بارے ان کی حماقتیں ہم “عظیم دانش ” پہ مبنی تجزیوں کی بھرمار سنتے رہے ہیں۔لیکن اندر سے نکلتا “کھکھ” بھی نہیں ہے۔ہمارے ریاض ملک ان کو “کمرشل لبرل مافیا ” کہتے ہیں تو پیجا مستری ان کو جو کہتا ہے اسے مرا قلم بھی یہاں اردو میں لکھنے سے قاصر ہے۔

خوشبو سے بھرے خط والے آئی ڈی کے پیچھے چھپا فنکار اس مضمون کے لنک کے نیچے لکھتا ہے

میں ایک محنت کش گھرانے میں جنما لڑکا ہوں جس نے راج مزدوری کی کنسٹرکشن سائٹ پہ اپنی تعلیم کا خرچ اٹھانے کے لئے۔جب میں بچّہ تھا تو مرا خواب عظیم جرمن ماہر آثار قدیمہ ہنرخ شیلے مین کا ثانی بننے کا تھا-میں اس جنون میں اتنا پاگل تھا کہ میں نے اس سے متعلق آرکیالوجی کے میگزین اکٹھے کرنا شروع کردئے تھے جب میں صرف آٹھ سال کا تھا-مرے استاد اور والدین بہت مایوس تھے کہ میں نے خود ہی یونانی میں لکھنا سیکھ لیا تھا۔

مرے استاد سمجھتے تھے کہ مجھے یونانی میں لکھنا مرے والدین نے سکھایا ہے تاکہ ہر ایک کو دکھا سکوں۔مرے استاد کیسے احمق تھے۔میں ہر ٹسٹ کے اوپر یونانی میں اپنا نام لکھ دیا کرتا تھا۔میں بچپن سے اس خیال کا اسیر تھا کسی قدیم شہر کے آثار دریافت کروں جیسے ہنرخ شیلے نے کئے تھے۔پھر مری دلچسپی کا مرکز جنوبی ایشیا ہوگیا۔جب میں سیکنڈری تعلیم میں لاطینی سیکھ رہا تھا تو مرے استاد جو مجھے قدیم یونانی سیکھاتے تھے وہ مجھے دوپہر کو سنسکرت پڑھاتے تھے۔میں رامائن کے اشلوک زبانی یاد کرتا ہوا گھر لوٹتا تھا۔مجھے کہنا یہ ہے کہ جب زبان کا معاملہ آئے تو میں بہت ہی پیچیدہ مواد کو ڈیل کرسکتا ہوں۔

مجھے نہیں پتا کہ اینگلو سیکسن ورلڈ نے فرانسیسی ماہر لسانیات دریدا کو سنجیدہ کیوں لینا شروع کیا لیکن میں نے چار سال ساربون یونیورسٹی میں گزارے لیکن وہاں میں نے کسی کو اس کا نام لیتے نہیں سنا۔نہ ہی فرانسیسی اکیڈمک سسٹم کی اشرافیہ کو اس بارے بات کرتے ہوئے دیکھا۔دریدا کو کوئی بھی سنجیدگی سے نہیں لیتا۔کیوں؟

کیونکہ وہ ان کو بالکل احمق اور ربش نظر آتا ہے۔لیکن اس کو اینگلو سیکسن طلباء سریس لیتے ہیں جوکہ پیرس کے کسی کیفے میں کافی کا آڈر ٹھیک سے نہیں دے سکتے۔میں بہت خوش قسمت تھا کہ جب میں ایس او اے ایس یونورسٹی لندن پہنچا تو میں نے “کانٹی نٹل فلاسفی ” سے زیادہ معاملہ نہ کیا۔لیکن جب میں کینڈا آیا ۔۔۔۔ او لڑکے۔۔۔ وہاں پہ اکثر بڑھانے والوں کی حماقت بیان سے باہر ہے۔۔۔ یہاں حماقت برائی سے ملی ہوئی ہے۔مجھے خوشی ہے کہ میں ان کو چھوڑ آیا۔ میں اس آرٹیکل میں لکھی چیزوں سے متفق ہوں۔

چوتیا پرشاد احمق دانشوروں سے نجات کی ایک ہی سبیل ہے اور وہ یہ کہ کلاسیک (لاطینی، قدیم یونانی، سنسکرت یا کلاسیکل عربی ، آپ اس میں ہماری مقامی زبانیں بھی شامل کرلیں ) سیکنڈری اسکول میں لازمی مضمون کے طور پہ سیکھائی جائیں۔ یہ ہی واحد راستہ ہے لوگوں کو چوتیا پرشادی لبرل ازم سے بچانے کا۔گیاتری سپیوک اگر تم اسے پڑھ رہے ہو تو مجھے تمہیں بتانے کی اجازت دو کہ میں واقعی جو تم کہتے ہو اسے سمجھ نہیں پاتا جبکہ میں تم سے کہیں زیادہ زبانیں جانتا ہوں جتنی کہ تم جانتے ہو۔

اور آخر میں الخط المعطر نے ایک ایسا جملہ لکھا ہے جس سے مری ہنسی روکے نہیں رک رہی ہے

 if arrogance could be converted into electricity, JNU could sustain the entire subcontinent with electricity for centuries.”

اگر ایروگنس ۔تکبر و نخوت کو بجلی میں بدلا جاسکتا ہوتا تو جے این یونیورسٹی سارے برصغیر کو بلاتعطل صدیوں بجلی فراہم کرسکتی ہے

Source:

چوتیا پرشاد لبرل دانش:انٹلیکچوئل یٹ ایڈیٹ

Comments

comments