کیا دہشتگردی سے متعلق ہمارا بیانیہ تبدیل ہوچکا ہے؟
کل رات سماء نیوز پر ایک پروگرام میں اینکر پرسن شہزاد اقبال نے ایک دفاعی تجزیہ نگار سے سوال پوچھا کہ کچھ برس قبل تک جب پاکستان میں دہشتگردی کا کوئی واقعہ رونما ہوتا تھا تو اِس کا الزام واضح طور پر انتہا پسندی کو دیا جاتا تھا۔ ہم اِس بارے میں واضح موقف رکھتے تھے کہ پاکستان میں دہشتگردی کی وجہ انتہا پسندی ہے۔ جنرل کیانی نے واضح طور پر انتہا پسندی کو دہشتگردی کی بنیادی وجہ قرار دیا تھا اور موجودہ آرمی چیف قمر باجوہ کی بھی اُس وقت یہی رائے تھی۔ لیکن اب ہم دیکھتے ہیں کہ جیسے ہی کوئٹہ یا کسی اور شہر میں دہشتگردی کا کوئی واقعہ رونما ہوتا ہے تو فورا الزام بھارت پر عائد کردیا جاتا ہے۔ کیا اِس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ انتہا پسندی سے متعلق جو بیانیہ ہم نے تشکیل دیا تھا ، اب اُس سے فوکس ہٹ چکا ہے؟ یعنی دہشتگردی کی وجہ بھارت ہے، انتہا پسندی نہیں؟
اِس پر دفاعی تجزیہ نگار کا کہنا تھا کہ اِس بارے میں تو کوئی دورائے نہیں ہے کہ ہمارے معاشرے میں انتہا پسندی موجود ہے اور یہی دہشتگردی کا راستہ بناتی ہے۔ لیکن اِس بات سے بھی انکار ممکن نہیں کہ یہی انتہا پسند عناصر اور فالٹ لائینز ہیں جنہیں بیرونی طاقتیں استعمال کرکے ہمارے ملک میں دہشتگردی کرواتی ہیں۔ تجزیہ نگار نے اِس فالٹ لائین کا علاج نیشنل ایکشن پلان کو قرار دیا، اُن کے مطابق نیشنل ایکشن پلان کے ذرئعے معاشرے میں موجود اُن انتہا پسند عناصر کی سرکوبی ممکن ہے جو دہشتگردی میں ملوث ہیں۔
کم و بیش یہی بات میں اکثر کہتا رہا ہوں کہ فالٹ لائین اور سپلائی لائین ہمارے اپنے اندر ہے۔ بیرونی طاقتوں کی نااہلی ہوگی اگر وہ ہمارے ملک کے طول و عرض میں پھیلے اس میٹیریل کو استعمال نہ کرے۔ دہشتگردی ختم کرنی ہے تو اِس فالٹ لائین کو بغیر اچھے اور برے دہشتگرد کی تقسیم کے ختم کرنا ہوگا۔ ورنہ محض بھارت کو الزام دے دینے سے یہ مسئلہ حل نہیں ہوگا۔
اگرچہ اینکر پرسن اور تجزیہ نگار دونوں ںے انتہا پسندی اور دہشتگردی میں ملوث فکر کا ذکر نہیں کیا لیکن ہم سب جانتے ہیں کہ تحریک طالبان سے لے کر جماعت الاحرار اور سپاہ صحابہ لشکر جھنگوی سے لیکر جند اللہ تک، وہ کون سی فکر ہے جو اِن تنظیموں کی فکری آبیاری کرتی ہے۔ وہ کون سے عناصر ہیں جو اِن تمام تنظیموں کیلئے کسی نہ کسی صورت نرم گوشہ رکھتے ہیں؟ یہ سب سمجھنا کوئی راکٹ سائینس نہیں ہے۔
دفاعی تجزیہ نگار نے نیشنل ایکشن پلان کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ انتہا پسندی کی سرکوبی کیلئے نیشنل ایکشن پلان بہترین طریقہ ہے۔ لیکن ہم سب جانتے ہیں کہ نیشنل ایکشن کی اپنی فاتحہ بہت بار پڑھی جاچکی ہے۔ ہمارے ملک کا وزیر داخلہ کالعدم تکفیری دیوبندی تنظیموں کے رہنماوں سے ملتا ہے، یہ تنظیمیں الیکشن لڑتی ہیں، کھلے عام ریلیاں نکالتی ہیں اور بعد ازاں انہی تنظیموں کی ذیلی شاخیں یا انکے کارکنان کسی دہشتگرد کاروائی میں ملوث پائے جاتے ہیں۔ ہم مختلف ناموں سے سرگرم تنظیموں کو علحدہ تنظیم کی صورت دیکھتے ہیں جبکہ حقیقیت یہ ہے کہ یہ سب ایک ہی فکر کی مختلف شکلیں ہیں۔ مخصوص مدارس سے لیکر ٹریننگ کیمپس تک ایک مربوط نیٹورک ہے۔
بلوچستان سے ایک تکفیری دیوبندی خود کش بمبار بھیجا جاتا ہے جس کے شکار پور میں قیام و طعام کا بندو بست مقامی سہولتکار کرتا ہے۔ یہ دہشتگرد کراچی کے مدرسہ ابو ہریرہ کا پڑھا ہوتا ہے۔ پھر یہ ایک شیعہ مسجد پر حملہ کرنے پہنچتا ہے اور پکڑا جاتا ہے۔ دہشتگردی کے پورے نیٹورک کا سمجھنے کیلئے شاید یہی مثال کافی ہے۔
نوٹ: جنرل کیانی نے انتہا پسندی کو دہشتگردی کی اصل وجہ تو قرار دیا تھا لیکن یہ بھی یاد رہے کہ خود جنرل کیانی پر کالعدم تنظیموں کی سرپرستی کے حوالے سے شدید تنقید ہوتی رہی تھی۔ ملک اسحق کے حوالے سے ایک واقعہ بھی زباں زد عام تھا۔