سانحہ درگاہ شاہ نورانی ؒ، چند تلخ حقائق – حیدر جاوید سید
ہفتہ کی شام حضرت سید سخی بلاول شاہ نورانی المعروف شاہ نورانی لاہوتی ؒ کی درگاہ پر دھمال پر ہونے والے خود کش حملے میں 75 زائرین(یہ سطور لکھے جانے تک) شہید اور 240 زخمی ہو گئے۔ بلوچستان کے ضلع خضدار کی تحصیل وڈھ کے دور افتادہ پہاڑی علاقے میں واقع درگاہ شاہ نورانی لاہوتیؒ کے قرب و جوار میں طبی سہولتوں کے فقدان کے باعث جانی نقصان زیادہ ہوا۔ قدرتی وسائل سے مالا مال صوبہ بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ میں ہی ایک ڈھنگ کا ہسپتال نہیں تو دور دراز کے پہاڑی علاقوں میں بنیادی شہری و طبی سہولتوں کی فراہمی پر کون توجہ دینے کا جرم کرے گا۔
جبل میں شاہ نورانی کا نعرہ مارتے روزانہ سینکڑوں زائرین اس دورافتادہ مقام پر واقع درگاہ پر حاضری کے لئے آتے ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق روزانہ آٹھ سو سے بارہسو افراد اس درگاہ پر حاضری دیتے ہیں جبکہ ساڑھے چار بجے کے بعد منعقدہونے والی محفل دھمال کے وقت عموماََ پانچ سے سات سو افراد درگاہ کے احاطہ میں موجود ہوتے ہیں۔ زائرین کی اکثریت کا تعلق کراچی میں مقیم مختلف بلوچ قبیلوں کے محنت کش خاندانوں سے ہوتا ہے اور یہ زیادہ تر جمعہ سے اتوار تک کے تین دنوں میں آتے ہیں باقی میں آنے والے زائرین مختلف علاقوں سے یہاں پہنچتے ہیں۔
پاکستان میں جاری دہشت گردی کے دوران کسی صوفی بزرگ کی درگاہ پر یہ پہلا حملہ ہرگز نہیں۔ قبل ازیں پشاور میں رحمٰن بابا (رحمٰن بابا پشتو زبان کے بلند پایہ صوفی شاعر تھے) کے مزار، اسلام آباد میں حضرت شاہ عبدالطیف بری امام کاظمی ؒ ، لاہور میں حضرت سید علی ہجویری داتا گنج بخش حسنی ؒ ، کراچی میں سید عبداللہ شاہ غازی ؒ ، پاکپتن میں بابا فرید شکر گنج کی درگاہوں سمیت متعدد صوفیائے کرام کے مزار کو نشانہ بنایا جا چکا ہے۔ ہفتہ کی شام درگاہ شاہ نورانی لاہوتی پر پیش آنے والے المناک سانحہ کی ذمہ داری لشکرِ جھنگوی العالمی اور جند اللہ نے قبول کی۔
دونوں دہشت گرد تنظیموں نے اسے اپنے جہاد اسلامی کا حصہ قرار دیا۔ گو بلوچستان میں دونوں دہشت گرد تنظیموں کا نیٹ ورک موجود ہے۔بلکہ لشکر جھنگوی العالمی کہلانے والی تنظیم کا نیٹ ورک زیادہ مضبوط اور اس کے مقامی سہولت کار بہتر انداز میں منظم ہیں مگر پچھلے دنوں کے دوران بلوچستان کے علاقے حب میں کالعدم دہشت گرد تنظیم جند اللہ کے خلاف ہونے والی کارروائیوں اور ان کارروائیوں کے حوالے سے بعض اداروں کے دعوؤں کا بغور جائزہ لیا جائے تو معاملات دعویدار دہشت گرد تنظیموں کے دعوؤں سے قدرے مختلف دکھائی دیتے ہیں۔ جمعتہ المبارک 11 نومبر کو بلوچستان میں امن و امان کے قیام اور دہشت گردوں کے نیٹ ورکس کے خلاف سرگرم عمل سیکیورٹی فورسز نے تحصیل حب کے ایک مقام پر کارروائی کی جہاں کالعدم جند اللہ پاکستان کا سربراہ عارف المعروف ثاقب ہلاک اور اس کے آٹھ ساتھی گرفتار کر لئے گئے۔ جمعہ سے دو دن قبل بدھ کو سندھ کے دارالحکومت کراچی میں رینجرز کے ترجمان نے بتایا کہ شہر میں جاری آپریشن کے دوران لشکرِ جھنگوی العالمی اور جنداللہ کے اہم کمانڈروں کو ہلاک کرنے کے علاوہ بارہ سے زیادہ دہشت گردوں کو گرفتار گیا ۔
یوں بدھ سے جمعہ تک کراچی اور اس سے ملحقہ بلوچستان کے علاقے حب میں سیکیورٹی فورسز نے جھنگوی العالمی اور جند اللہ کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچایا مگر حیرت اس بات پر ہے کہ دو منظم ترین نیٹ ورک رکھنے والی دہشت گرد تنظیموں کے خلاف اس قدر اہم کارروائیوں اور کامیابیوں کے بعد کسی نے اس بات پر توجہ نہ دی کہ کراچی اور اس سے ملحقہ بلوچستان کے علاقوں میں واقع صوفی بزرگوں کی درگاہوں پر جمعہ سے اتوار تک معمول سے زیادہ زائرین حاضری کے لئے دور دراز سے سفر کر کے آتے ہیں۔ اصولی طور پر ان تین دنوں کے لئے خصوصی سیکیورٹی پلان وضع کیا جانا ازبس ضروری تھا۔ بالخصوص جمعہ کو حب کے علاقے میں جند اللہ کے خلاف حاصل ہونے والی بڑی کامیابی کے بعد تو بہت زیادہ ضروری تھا کہ سیکیورٹی ہائی الرٹ ہوتی۔سیکیورٹی فوسز سے حب کے قریب مقابلہ میں مارے جانے والا دہشت گرد عارف المعروف ثاقب ایران کو بھی دہشت گردی کی بعض کارروائیوں میں مطلوب تھا۔
محمد عارف عرف ثاقب کا تعلق بلوچستان سے ہی تھا۔ چند سال قبل عارف کا نام اس وقت سامنے آیا جب اس کے قریبی رشتہ دار عبدالمالک ریگی کو ایرانی حکام نے دبئی سے لندن جانے والے ایک مسافر بردار جہاز کو ایران کی حدود میں اتارکر جہاز سوار عبدالمالک ریگی کو مشہد مقدس میں امام علی رضا ؑ کے روضہ پر ہونے والے والی دہشت گردی کے جرم میں گرفتار کیا اور پھر چند دن بعد اسے دھماکہ والی جگہ پر پھانسی دے دی۔ عبدالمالک ریگی جند اللہ تنظیم کا بانی تھا۔ یہ تنظیم سپاہ صحابہ اور لشکرِ جھنگوی کے بلوچستان سے تعلق رکھنے والے کارکنوں نے قائم کی تھی۔
عبدالمالک ریگی اس کا بانی تھا۔ ابتداََ اس تنظیم نے ایرانی بلوچستان کی آزادی کے آزادی پسند اور ایران دشمن کے طور پر اپنی شناخت ظاہر کی مگر قیام کے فوراََ بعد جنداللہ نے ایران کے اندر جوچند کارروائیاں کیں وہ آزادی پسندوں سے زیادہ فرقہ پرستوں کی کارروائیاں ثابت ہوئیں۔ سانحہ مشہد مقدس میں عبدالمالک ریگی کی پھانسی کے بعد یہ بات سامنے آئی تھی کہ اس نے اپنے قریبی عزیز محمد عارف کے لئے وصیت کی ہے کہ اسے جند اللہ میں اس کا جاں نشیں مقرر کیا جائے۔ بعد ازاں جند اللہ ایران نے اپنا نیا نام جنداللہ پاکستان و ایران رکھ لیا۔ ایک مرحلہ پر جند اللہ نے پاکستانی دہشت گرد تنظیموں کے اتحاد کے طور پر بننے والی تحریک طالبان پاکستان میں شمولیت بھی اختیار کی۔
پچھلے چار پانچ برسوں سے جنداللہ کی سرگرمیوں کے حوالے سے خضدار، تربت اور لسبیلہ کے اضلاع بہت اہم رہے۔ اس دوران یہ اطلاعات بھی سامنے آئیں کہ یہ تنظیم کراچی میں بھی مضبوط نیٹ ورک قائم کر چکی ہے۔ چند سال قبل مہران ائیر بیس پر ہونے والی دہشت گردی کی کارروائی کے بعد اس تنظیم کا آپریشنل کمانڈر حماد شاہ گرفتار ہوا تھا۔ جماد شاہ کا تعلق ضلع رحیم یار خان سے ہے۔ بعض ذرائع اس امر کی تصدیق کرتے ہیں ہیں کہ لشکر جھنگوی جو اب العالمی کے لاحقہ کے ساتھ سرگرم ہے اور جند اللہ دونوں مل کر بلوچستان اورسندھ میں دہشت گردی کی وارداتیں کرتی ہیں۔
پچھلے کچھ عرصہ اور بالخصوص گزشتہ سوموار سے جمعتہ المبارک کے ۵ دنوں کے دوران پاکستان سیکیورٹی اداروں نے ان دو کالعدم تنظیموں کے خلاف کراچی اور بلوچستان میں جو اہم کامیابیاں حاصل کیں ان کے جواب میں دہشت گردوں کا ردعمل سامنے آنا غیر متوقع نہیں۔ بلوچستان کے حالیہ چار بڑے واقعات وکلاء پر حملہ، ہزارہ قبیلے کی پانچ خواتین کو کوئٹہ میں شناخت کر کے شہید کیا جانا اور پھر کوئٹہ پولیس ٹریننگ کالج پر دہشت گردوں کا حملہ اور اب ہفتہ کی شام درگاہ حضرت شاہ نورانی لاہوتی ؒ پر دہشت گردی میں مجموعی طور پر 202 افراد شہید چکے ہیں اور تقریباََ اتنے ہی زخمی۔ یہ چاروں واقعات اس امر کی نشاندہی کرتے ہیں کہ ان دونوں دہشت گرد تنظیموں کابلوچستان خصوصی طور پر ہدف ہے۔
ایک طویل عرصے سے جاری دہشت تنظیموں کے فہم سے کاملاََ آگاہی کے باوجود بلوچستان میں دہشت گردی کی کارروائیوں کی سی پیک کے خلاف سازش قرار دینا سرابوں کے تعاقب کے سوا کچھ نہیں۔ ہمارے ریاستی داروں اور حکومت دونوں کو اس ضمن میں حقیقت پسندی کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔ ریاستی ادارے بخوبی واقف ہیں کہ بلوچستان میں ان دونوں دہشت گرد تنظیموں کے لئے کون سا طبقہ سہولت کار کے فرائض ادا کرتا ہے۔ ایک سادہ سا سوال یہ ہے کہ ریاستی ادارے بخوبی واقف ہیں کہ بلوچستان میں ان دونوں دہشت گرد تنظیموں کے لئے کون سا طبقہ سہولت کار کے فرائض ادا کرتا ہے۔
ایک سادہ سا سوال یہ ہے کہ ریاستی اداروں اور وفاقی و بلوچستان حکومت کی آخر ایسی کیا مجبوری ہے کہ وہ ان عناصر کے خلاف کارروائی سے گریزاں ہیں جو پچھلے چند برسوں کے دوران کوئٹہ میں کھلے عام دہشت گردی کی وارداتوں کا اعتراف کرتے ہوئے یہ کہتے پائے گئے ہیں کہ ان کی جدوجہد اسلامی انقلاب کیلئے ہے۔ کیا کوئی بھی ان عناصر سے یہ پوچھنے کی ضرورت محسوس نہیں کرتا کہ آخر وہ کون سا اسلامی انقلاب ہے جو مسلمانوں کو خون بہا کر لانا مقصود و مطلوب ہے؟
بشکریہ : خبریں ، ملتان