شہید خرم زکی کے خلاف پروپیگنڈوں کا جواب – سید جواد حسین رضوی
حال ہی میں کسی دوست نے ایک شیعہ پیج کی سرگرمیاں بتائیں جو شہید خرم زکی کے خلاف قیاس کی عمارتیں تعمیر کر رہا ہے۔ نجانے ان کا اس منفی پروپیگنڈے کا کیا ہدف ہے عجب یہ ہے کہ یہ نامعلوم افراد خرم زکی بھائی کو فیس بک کی فعالیت پر طعنے دے رہے ہیں، جس نے جیتے جی اپنی جان کا نذرانہ پیش کیا۔ کیا اپنی جان کی قربانی بھی فیس بک پر دی؟ اگر فیس بک پر فعالیت مذموم ہے تو آپ فیس بک پر کیا کر رہے ہیں؟ آپ میں سے کتنوں نے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا؟
اس پیج کی تحریر پڑھ کر بخوبی اندازہ ہوتا ہے کہ حقائق کو صرف مسخ کر کے پیش کیا گيا۔ اس تحریر کا سارا زور اس بات پر ہے کہ شہید خرم زکی نے صرف مولوی برقعہ کے خلاف فعالیت کیوں دکھائی؟ کراچی میں ایم کیو ایم کو کمزور کرنے اور رینجرز کی طرف سے سپاہ صحابہ کو کھلی چھوٹ پر کیوں بات نہیں کی؟ ان کا یہ اعتراض اس قدر فضول اور بیکار ہے کہ کوئی بھی شخص جو خرم زکی شہید کی وال کا مطالعہ کر لے، جان لے گا کہ خرم بھائی اس وقت رینجرز کی یکطرفہ پالیسی کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرتے رہے جب اکثر مومنین رینجرز کے اقدام پر تالیاں بجا رہے تھے، خرم بھائی نے وہیں پر ہی بھانپ لیا تھا کہ یہ صرف ایک دھوکہ ہے جو ایم کیو ایم کے نام پر دیا جا رہا ہے، حالانکہ دوسری طرف کالعدم جماعتوں کو کراچی میں اپنی جگہ بنانے کی کھلی چھوٹ دے رکھی تھی۔
اسی طرح خرم بھائی ہمیں سانحۂ کوئٹہ میں بھی فعال نظر آتے ہیں، بنفس نفیس وہاں جاتے ہیں اور وقت کے حکمران راجہ پرویز اشرف کے سامنے حق کی آواز بلند کرتے ہوئے اس وقت کے چرب زبان وزیر داخلہ قمر الزمان کائرہ کو مسکت جواب دیتے ہیں۔
اس تحریر میں دوسرا پوائنٹ جس پر ساری عمارت کھڑی گئی ہے، وہ یہ ہے کہ خرم بھائی کسی سرکاری خفیہ ادارے میں کام کرتے تھے۔ یہ چیز ایسے بتا رہے ہیں جیسے ہم اس سے واقف نہ ہوں۔ اس بات سے رہبر معظم کے پاکستان میں نمائندے آيت اللہ بہاء الدینی بھی واقف تھے۔ یہ درست ہے کہ ابتدا میں خرم بھائی سرکاری ملازم تھے لیکن بعد میں کچھ اختلافات کی وجہ سے اس نوکری کو چھوڑ دیا تھا۔ اس کے بعد مختلف میڈیا ہاؤسز میں سینئر عہدوں پر رہے، اور آخری دفعہ ایک مشہور چینل میں ڈائریکٹر نیوز تھے۔ اس عہدے سے ان کو ہٹنا پڑا جب انہوں نے رینجرز کے خلاف ایک رپورٹ بنائی، جس میں رینجرز اہلکار نے شیعہ نوجوانوں پر قریب سے سر میں فائر کر کے ہلاک کر دیا تھا۔ جس ادارے کو خرم بھائی نے چھوڑا تھا اسی ادارے سے چینل کے مالک کو فون آیا کہ اس رپورٹ کو چلانے سے روکا جائے، جب شہید پر پریشر بڑھا تو انہوں نے اپنے اقدار پر سمجھوتہ نہیں کیا اور کہا کہ یا تو یہ رپورٹ چلے گی یا مزید میں آپ کے ساتھ کام نہیں کر سکتا۔ یہاں خرم زکی شہید نے اپنے اصولوں پر سمجھوتہ کرنے کے بجائے عزت و غیرت کی زندگي کو ترجیح دی اور اپنے شاندار مستقبل اور کیریر کو چھوڑ دیا۔
اب اگر ان کا پروفیشنل کیرئر بتانا ہی ہے تو ایک عشرے سے زائد ان کی صحافتی کردار پر بھی روشنی ڈالی جاتی، اکیسویں صدی کے ابتدائی عشرے میں شہید خرم زکی نیوز چینلز کی زینت تھے اور ہم انہی پروگرامز کے توسط سے شہید سے واقف ہوئے تھے۔ یہ نام نہاد پیج منفی پروپیگنڈے میں اس قدر آگے بڑھ گيا کہ تدلیس سے کام کرنے لگا، اور اپنی تحریر کی پوری عمارت ان کی ابتدائی سرکاری نوکری پر تعمیر کر دی۔
اس تحریر کا تیسرا پوائنٹ جس کی بنیاد پر لوگوں کی نظروں میں دھول جھونکنے کی کوشش کی گئی ہے، شہید کے بیٹوں کا افواج پاکستان کے ساتھ تصویر۔ معلوم نہیں اس پیج کا ایجنڈا کیا ہے اور کس کے اشارے پر شہید کی شہادت کے بعد پروپیگنڈا کر رہا ہے، یہاں تک کہ اس شہید کے معصوم بچوں کو بھی نہیں چھوڑا جا رہا۔ ان تصویروں میں کچھ بھی عجب نہیں ہے، مختلف جگہوں پر جہاں پاک فوج تعینات ہے، ان کے ساتھ کوئی بھی شہری تصویر بنوا سکتا ہے، خصوصا بچے جن پر اپنے گھروں سے دور یہ فوجی نوجوان بہت شفقت کرتے ہیں۔ یہاں یہ بتاتے چلیں کہ شہید خرم زکی کے والد آرمی کے ریٹائرڈ آفیسر بھی تھے جنہوں نے 1965 کی جنگ بھی لڑی تھی۔
شہید خرم زکی اپنی شہادت کے بعد بھی اپنی آبرو کی قربانی دے رہے ہیں، اور ہمیشہ دیتے رہیں گے، کیونکہ ایسے افراد ہمیشہ رہیں گے جو تدلیس کے ذریعے شہداء کو بے آبرو کرنے کی کوشش کرتے رہیں گے۔
اس پیج کے تدلیسات کے لئے اتنی ہی تحریر کافی ہے، ہم نے یہ سطور بعض مومنین کی درخواست پر تدلیس کو آشکار کرنے کیلئے لکھے ہیں۔
والسلام علیکم ورحمۃ اللہ