اہل تشیع کا قتل عام چھپانے کے مسائل – منروہ طاہر
لیاقت آباد کے علاقہ میں در عباس امام بارگاہ میں مجلس پر حملہ ہوتا ہے۔ تیرہ سالہ بچہ شہید ہو جاتا ہے جب کہ دیگر خواتین زخمی ہوتی ہیں۔ ایسے میں ٹویٹر پر #ShiaGenocide ٹرینڈ ہونے لگتا ہے۔ ناچیز نے اس ٹرینڈ پر کلک کرنے کی جسارت کر لی۔ پھر کیا تھا۔ وہی بےحسی دیکھنے کو ملی جو عموماً کسی بھی فرقہ وارانہ حملے کے بعد اہل تشیع حضرات کو پرسے کے طور پر پیش کی جاتی ہے۔ چند کی بورڈ جہادیوں کے خیال میں امام بارگاہ پر حملے میں مرنے والے فراز کو شیعہ نہیں، مسلمان تصور کیا جانا چاہئے۔ بات کہنے میں تو درست معلوم ہوتی ہے۔ اور پھر اکثریت ان ٹویٹس کی ملی جن میں لوگ کہتے ہیں کہ ہم اس حملے کی مذمت تو کرتے ہیں مگر ساتھ یہ disclaimer دینا بھی غالباً دینی فریضہ سمجھتے ہیں کہ ایسے حملے نسل کشی کے زمرے میں نہیں آتے۔
سب سے دلچسپ ایک صاحب معلوم ہوئے جنہوں نے اپنا نام ‘ذمہ دار پاکستانی’ رکھا ہوا ہے ٹویٹر پر۔ اپنی ذمہ داری کا پاس رکھتے ہوئے اعلی حضرت میرے اور آپ کے جیسے جاہلوں کو یہ بتانا اپنا فرض سمجھتے ہیں کہ دہشت گردی کے شہدا صرف شیعہ نہیں ہیں اور یہ کہ دیگر مسالک کے لوگ اہل تشیع سے زیادہ قتل ہوئے ہیں دشت گردی میں مگر کسی نے بھی ‘فرقہ وارانہ’ hashtag نہیں بنایا۔ عوام کی نظر میں لمحہ فکریہ یہ نہیں کہ ایک مسلک کے لوگوں کا قتل ہوتا چلا آ رہا ہے۔ ان کی نظر میں زیادہ اہمیت کے حامل یہ امور ہیں کہ شیعہ نہیں مسلمان/پاکستانی مر رہے ہیں اور یہ کہ نسل کشی کی اصطلاح ہی سرے سے غلط ہے۔ کچھ اسی طرح کی موومنٹ امریکا میں چل پڑی تھی جب افریقی امریکیوں نے بلیک لائیوز میٹر کے موضوع کو چھیڑا۔ رائٹ ونگ سفید فام امریکیوں نے افریقی امریکیوں کی جدّ و جہد کو دھندلانے کے لیے اپنی موومنٹ شروع کر دی جس کو نام دیا گیا آل لائیوز میٹر۔
معاشرے میں ہونے والے ہر قسم کے استحصال کو دبانے کا یہ بہترین انداز ہے کہ جب کوئی گروپ اپنے ساتھ ہونے والے ظلم کی بات کرے تو آپ اس کی آواز دبا دیں یہ کہہ کر کہ ظلم سب کہ ساتھ ہو رہا ہے۔ اگر ایسا ہی ہے کہ ظلم ہر ایک کے ساتھ یکساں ہے تو کیا وجہ ہے کہ 13 سالہ فراز کی ماں آج اپنے لخت جگر کے سینے پر بین کر رہی ہے جب کہ اس کی عمر کے دیگر بچوں کی مائیں کل انھیں بیگ پہنا کر اسکول بھیجیں گی؟ چند ہی دنوں پہلے کوئٹہ میں 40 مسافروں کی بس میں 4 شیعہ ہزارہ خواتین کو شناخت کر کے قتل کیا گیا تھا۔ کچھ ہی دن بعد کراچی میں امام بارگاہ کے ٹرسٹی شہید کیے جاتے ہیں۔
چن چن کر اہل تشیع کو قتل کیا جاتا ہے مگر ہمارے عوام ہر بار کھڑے ہو جاتے ہیں یہ بتانے کے لیے کہ نہیں جناب یہ شیعہ نہیں پاکستانی مر رہے ہیں۔ پاکستانی کو ہی مارنا مقصد تھا تو بس میں صرف شیعہ خواتین کو شناخت کر کے کیوں مارا گیا؟ سب کو کیوں نہیں مار دیا گیا؟ کیا وہ شیعہ عورتیں باقی مسافروں سے زیادہ پاکستانی تھیں؟ ہم ان جرائم کو چھپاتے چھپاتے یہ بھول جاتے ہیں کہ نفرت ایک بیماری ہے اور اس بیماری کو ہم اگر ڈھکنے چھپانے کی کوشش کریں گے تو اس کے زخم مزید گل سڑ جائیں گے، مندمل نہ ہوں گے۔ ویسے زیادہ مشکل نہیں ہے نسل کشی کی تعریف google کرنا۔ باقی یہ کہ اس اجتماعی بےحسی کا پرچار کرنے والوں سے محض ایک سوال ہے میرا کہ کیا انہیں پتہ ہے کس طرح بیٹا جوان ہوتا ہے؟
Source
http://www.msub.chuom.pk/28557/minerwa-tahir-2/