شہید سید عون محمد رضوی کی یاد میں – از نور درویش

14601024_1585350745107695_6050578605471328711_n

وہ لوگ جن کا بچپن ۸۰ کے اواخر سے نوے کے وسط تک گذرا ہے، اُنکے بچپن کی سنہری یادوں میں سے ایک یاد پی ٹی وی کی صبح کی نشریات بھی ہونگی جو غالبا سنہ ۱۹۸۸ میں شروع ہوئیں۔ مستنصر حسین تارڑ عرف چاچا جی اور قرۃ العین رضوی کی ہفتہ وار میزبانی جس میں بچوں کی تمام دلچسپی اُن دس منٹ میں ہوا کرتی تھی جن میں کوئی کارٹون دکھایا جاتا تھا اور بچوں کی بنائی پینٹنگز دکھائی جاتی تھیں۔ نہ اُس دور میں پورا پورا دن کارٹون دکھانے والے چینلز ہوا کرتے تھے اور نہ ہی آئی پیڈز۔ وی سی آر کسی کسی گھر میں ہوا کرتے تھے جن پر ایک ہی کارٹون فلم بچے بار بار دیکھ کر خوش ہوتے تھے۔


ہر روز سکول کیلئے تیا رہونے کے بعد ٹھیک ۷ بج کر ۲۵ منٹ پر کارٹون شروع ہوتا تھا اور ۷ بج کر ۳۰ منٹ پر ختم ہوجاتا تھا، اِسی دوران ناشتہ کرلیا جاتا تھا اور کارٹون کے فورا بعد سکول کیلئے روانہ ہوجاتے تھے۔ کلاس میں پہنچنے کے بعد کچھ دیر کارٹون کے بارے میں بات چیت ہوتی تھی۔


گرمیوں کی چھٹیوں میں صرف صبح کی نشریات دیکھنے کیلئے ہم صبح ساتھ بجے اُٹھ جایا کرتے تھے اور نو بجے تک ٹی وی دیکھتے رہتے تھے جب تک چاچا جی آج کی بات سنا کر خدا حافظ نہیں کہہ دیتے تھے۔ نشریات کے اختتام پر حسب معمول میزبان، ایڈیٹر، ڈائیریکٹر اور پروڈیوسر وغیرہ کے نام لکھے آتے تھے، اُن ناموں میں ایک نام عون محمد رضوی کا بھی ہوا کرتا تھا۔ مجھے یاد ہے جب رضوی لکھا دیکھ کر میں نے اپنی والدہ کو پہلی بار خوش ہوکر بتایا تھا تو اُنہوں مجھے سے زیادہ خوش ہو کر جواب دیا تھا کہ ہاں سیٹیلائٹ ٹاون پنڈی میں گھر ہے انکا، مجالس بھی ہوتی ہیں ان کے ہاں۔ بہت پڑھے لکھے آدمی ہیں۔


عون محمد رضوی پی ٹی وی کے پروگرام کنٹرولر ہوا کرتے تھے اور پھر جنرل مینیجر بھی بنے۔ وہ ایک شاعر بھی تھے، ادبی پس منظر بھی رکھتے تھے اور پی ٹی وی پر اکثر ادبی و مذہبی پروگرامز وہی پیش کیا کرتے تھے۔ اُنہیں پاکستان ٹیلی ویژن کیلئے انکی بیش بہا خدمات پر صدارتی تمغہ برائے حسنِ کارگردگی بھی دیا گیا۔


اہل علم حضرات اُنکی قابلیت اور خدمات کے بارے میں یقینا مزید جانتے ہونگے، میں نے تو بس چند بنیادی باتوں کو تذکرہ کردیا جو مجھے معلوم تھیں۔

یہ سب پڑھ کر آپ کا ذہن یقینا اُس دور میں پہنچ گیا ہوگا۔ لیکن اِسکے بعد کی حقیقیت بہت تلخ ہے۔ عون محمد رضوی کو سنہ ۱۹۹۹ میں صبح کے وقت مسلح قاتلوں نے اُن کے گھر میں گھس کر اُنکے بچوں کے سامنے قتل کردیا، قتل کی وجہ وہی جو ایک شیعہ کے قتل کی ہوا کرتی ہے۔ عون محمد رضوی اپنے بچوں کو سکول چھوڑنے کیلئے تیار تھے جب یہ واقعہ پیش آیا۔ اِس قیمتی ادب دوست انسان کو صرف کچھ سیکنڈز کے اندر اِسکے گھر کے اندر قتل کردیا گیا، صرف چند سیکنڈز میں برسوں کی محنت خون میں مل گئی۔

کافی عرصہ پہلے انٹرنٹ پر ہی عون محمد رضوی کے بیٹے کا ایک مضمون نطر سے گذرا تھا جس میں اُس نے بتایا تھا کہ ایک بچے کے سامنے اپنے باپ کے بہیمانہ قتل کر اُس بچے کی نفسیات اور زندگی پر کیا اثر پڑتا ہے، نیند سے چیخ کر اُٹھ بیٹھنا اور غیر محفوظ ہونے کا خوف ہمیشہ کیلئے دل میں بیٹھ جاتا ہے۔


عون محمد رضوی کے قاتل کو پھانسی کی سزا ہوچکی لیکن المیہ یہاں ختم نہیں ہوتا، پچھلے برس راولپنڈی کے علاقے چٹیاں ہٹیاں میں امام بارگاہ عون محمد رضوی میں عید میلاد النبی کی محفل کے دوران خود کش دھماکہ ہوا جس میں آٹھ لوگ شہید اور متعدد زخمی ہوگئے۔ غالبا عون محمد رضوی کا بھتیجا یا بھانجا بھی اس حملے مٰں شہید ہوگیا تھا۔ حملے کی ذمہ داری حسب معمول اُسی فکر نے قبول کی جو ہمیشہ کرتی ہے۔ عون محمد رضوی کے قاتل کو تو سزئے موت ہوگئی لیکن قاتل کی فکر اب بھی زندہ ہے۔


سنہ ۸۰ کے اواخر سے شروع ہونے والی بچپن کی اِن سنہری یادوں کے بعد یہ تلخ باتیں لکھ کر جب مجھے اس قدر تکلیف ہوئی تو اِس مقتول کے گھر والوں کو ۱۹۹۹ سے لیکر ۲۰۱۵ اور ابتک کس کرب کا سامنا رہا ہوگا، اس کا اندازہ یا وہ خود کر سکتے ہیں اور یا وہ جو اِن حالات سے گذرے ہیں۔ ہم سب تو صرف اندازہ کرسکتے ہیں، وہ بھی اگر کرنا چاہیں تو


عون محمد رضوی کے ایصال ثواب کی مجلس ہر برس اسلام آباد میں منعقد ہوتی ہے، غالبا ابھی پچھلے ہی مہینے اُنکی برسی تھی۔

پاکستان میں شیعوں کی ترقی رکنے کا سلسہ جاری ہے۔

Comments

comments