شیعہ نسل کشی اورنیشنل ایکشن پلان – عثمان غازی
پاکستان میں تسلسل کے ساتھ ہونے والی شیعہ نسل کشی کاآغاز 1981میں کراچی کے علاقے لیاقت آباد سے ہوا اور آج کراچی میں مہران پبلک اسکول کے پرنسپل منصور زیدی کے قتل تک جاری ہے
شیعہ آرگنائزیشنز قتل ہونے والوں کے اعدادوشمار کو 23ہزار سے زائد بتاتی ہیں جبکہ آزاد ذرائع 15 ہزار سے زائد قرار دیتے ہیں
ورلڈ فیکٹ بک کے مطابق شیعہ پاکستان کی آبادی کا 20 فیصد ہیں ، اس لحاظ سے ایران کے بعد اہل تشیع کی دوسری سب سے بڑی آبادی پاکستان ہے، صرف دہشت گردی کے خلاف جنگ میں کل 45ہزار افراد شہید ہوئے جن میں ملکی آبادی کے اس 20فیصد مسلکی گروہ کے نوہزار سے زائد افراد شامل ہیں
اس میں اب کوئی دورائے نہیں کہ اہل تشیع کو مسلسل منظم طریقے سے قتل کیا جارہا ہے اور اس سلسلے کا سب سے بھیانک پہلو ریاستی رویہ ہے
ابھی کرانی روڈ کوئٹہ میں بس سے مسافروں کو اتارا، ان کی شناخت پریڈ کرائی گئی، چار ہزارہ شیعہ خواتین کو شناخت کے بعد گولی ماردی گئی، یہ واقعے کا ایک پہلو ہے اور دوسرا پہلو یہ ہے کہ جس جگہ یہ واقعہ ہورہا تھا، اس سے محض سات قدم کے فاصلے پر روڈ کی دوسری جانب پولیس اسٹیشن تھا
اس مسافر بس اور پولیس اسٹیشن میں قدموں کی مسافت تھی، بیچ میں کوئی رکاوٹ بھی نہیں تھی کہ یہ منظر کسی سے چھپ جائے اور دن دیہاڑے دہشت گرد فراربھی ہوگئے
المیہ یہ ہے کہ ہزارہ شیعہ خواتین کو ایک ایسے وقت میں قتل کیا گیا جب کوئٹہ میں دفعہ 144نافذ تھی، موٹر سائیکل کی ڈبل سواری پر بھی پابندی تھی، شہر میں جگہ جگہ ناکے تھے اور تقریبا ًآج کراچی میں بھی یہی صورت حال ہے
اتنی سخت سیکیورٹی میں دہشت گرد کیسے کارروائی کرکے نکل جاتے ہیں، اس الجھن کو دور کرنے کے لیے آپ کو ایک واقعہ سناتا ہوں
ایک تھانے دار کے ہمراہ میں چائے کے ہوٹل پر بیٹھا ہوا تھا، ان دنوں نیانیا نیشنل ایکشن پلان آیا تھاتو میں منٹو کے منگوکوچوان کی طرح یہ سمجھ رہاتھا کہ نیا قانون آگیا، اب سب اچھا ہوجائے گا
ہوٹل کے بالکل سامنے اہل تشیع کی مخالف کالعدم تنظیم کا جھنڈا لہرارہاتھا، اس جھنڈے کے عقب میں ایک شیعہ آبادی بھی تھی، میں نے تھانے دار سے بولا کہ اب تو نیشنل ایکشن پلان آگیا ہے، اس جھنڈے کو ہٹوادو
میرے کان میں موصوف فرمانے لگے کہ جھنڈے کے ساتھ نیچے پھل فروش کو دیکھ رہے ہو، ابھی جیل سے رہا ہوکر آیاہے، اگر جھنڈا ہٹایا تو کچھ دور واقع رہائشی کالونی سے سینکڑوں لوگوں کو لے آئے گا، علاقے کا امن تباہ ہوجائے گا
مگر نیشنل ایکشن پلان
میرے سوال پر وہ چہ بہ جبیں ہوا اور کہنے لگا کہ ایسے پلان بنتے رہتے ہیں، علاقے کو چلانا آسان کام نہیں ہے، سب کو ساتھ لے کر چلنا پڑتا ہے
اس بات کو طویل عرصہ بیت گیا، وہ جھنڈا بھی ہے اور پھل فروش بھی ۔
مجھے یقین ہے کہ جس دن وہ جھنڈا ہٹادیا گیا اور پھل فروش مجھے نظر نہیں آیا، نیشنل ایکشن پلان پر اسی روز سے عمل ہوگا اور پھرشاید شیعہ نسل کشی کی خبریں بھی سننے کو نہ ملیں