دہشتگرد پکڑے جانے کے بعد بھی پانچ حملے
آج ہی کراچی میں سی ٹی ڈی کی کاروائی میں کالعدم جماعتوں کے 9 دہشتگرد پکڑے گئے ہیں جن میں لشکر جھنگوی اور القائدہ برصغیر کا امیر فیض الرحمن اور اس کا نائب بھی شامل ہیں۔ دہشتگردوں کے قبضے سے بھاری اسلحہ ، خود کش جیکٹس اور لیپ ٹاپ بھی برآمد ہوئے۔
گرفتار دہشتگردوں نے محرم کے دوران بڑے حملوں کی منصوبہ بندی کر رکھی تھی۔ ایم کیو ایم کے رکن منظر امام کے قتل میں بھی یہی دہشتگرد ملوث تھے، پریشان مت ہوں منظر امام سنی تھے، شیعوں جیسے نام کی وجہ سے مارے گئے۔
افسوس یہ ہے کہ ان 9 دہشتگردوں کے گرفتار ہونے کے باوجود کراچی میں صرف ایک گھنٹے کے دوران مختلف علاقوں میں پانچ شیعوں پر حملہ ہوا۔ امام بارگاہ ذین العابدین کے ٹرسٹی اور مہران پبلک سکول کے پرنسپل منصور زیدی شہید ہوگئے، انکا بیٹا عمار زیدی شدید زخمی ہے۔ جبکہ تین دیگر افراد زخمی ہوگئے۔
یہ باپ قتل ہوچکا اور اسکا بیٹا شدید زخمی حالت میں اس وقت آئی سی یو میں ہے، کیونکہ یہ شیعہ تھے۔
منصور زیدی اور انکے بیٹے عمار زیدی کی تصویر دیکھ کر الفاظ ساتھ چھوڑتا محسوس ہوتے ہیں۔ پاکستان شاید وہ واحد ملک ہے جہاں مقتول کے ورثاء کو دنیا سے جانے والے کے غم ساتھ ساتھ یہ غم بھی جھیلنا ہوتا ہے کہ جب وہ لوگوں کو اپنے پیاروں کے قاتلوں کا نام بتائے، تو لوگ بجائے اسکا یقین کرنے اور اسے دلاسہ دینے کے اس سے بحث کریں، جیسے جن کا نام لیا جا رہا ہے وہ کوئی بہت “قیمتی اثاثہ” ہوں۔
جس ملک میں محرم سیکیورٹی پلان محرم سے پہلے کالعدم سپاہ صحابہ کے “اکابرین” سے ڈسکس ہوتے ہوں، وہاں استاد قتل ہوتے ہیں اور مستقبل بکھرتے ہیں۔
یہ 9 دہشتگرد اور انکا منصوبہ ناکام ہونے کے بعد کی صورتحال ہے۔ وجہ صرف یہ ہے کہ ان مطلوب دہشتگردوں کا تعاقب کیا جاتا ہے مگر ان عناصر کو نظر انداز کردیا جاتا ہے جو انہی دہشتگردوں کے فکری اتحادی ہیں۔
ہم کبھی بھی اس عصبیت کو اس وقت تک مکمل طور پر ختم نہیں کر پائیں گے جب تک ان دہشتگردوں کو سایہ فراہم کرنے والی ہر چھتری کی نشاندہی نہ کریں۔ ورنہ کون کب ایک سپاہ صحابہ کی چھتری سے نکل کر القائدہ برصغیر کی چھتری تلے آتا ہے، ہمیں معلوم بھی نہ ہوگا. کب کوئی خودکش بمبار کراچی کے ابو ہریرہ مدرسے سے پڑھ کر چلا جائے گا، ہمیں معلوم بھی نہ ہوگا۔ پتہ اس وقت چلے گا جب رمضان مینگل اسے بلوچستان سے شکار پور بھیجے گا، مسجد میں پھٹنے کیلئے۔