محرم الحرام اور موسمی مینڈکوں کا شور- حیدر جاوید سید
چند برس ادھر کی بات ہے دوستوں کی ایک محفل میں واقعہ کربلا کے حوالے سے گفتگو جاری تھی۔ تاریخ کے تناظر میں جاری اس گفتگو
کے دوران ایک لمحہ ایسا آیا جب ہمارے ایک ’سکہ بند کامریڈ‘ دوست نے ارشاد فرمایا ’’یار تسی کی بحث کرن ڈئے او (دوستو کس بحث میں الجھے ہوئے ہو) کربلا کا واقعہ ہاشمیوں اور امویوں کی بالادستی کی دیرینہ لڑائی کے انجام کے سوا کچھ نہیں۔ اس میں آزادی، حریت اور دین نکالنا سب ایک کاروبار ہے‘‘۔ یہ مؤقف سماعتوں پر بم بن کر گرا۔ کچھ بدمزگی پیدا ہونے کا امکان بنا مگر پھر چند سنجیدہ فہم دوستوں کی مداخلت سے حالات پرسکون ہو گئے۔ کافی دیر خاموشی رہی پھر میں نے اس سکوت کو توڑتے ہوئے عرض کیا’’کامریڈ! ہم تمہاری بات کو سو فیصد درست مان لیتے اگر فتح مکہ کے وقت حضرت محمد عالمین کے لئے رحمت کے اپنے حقیقی وصف کا مظاہرہ کرنے کی بجائے ایک ہاشمی فاتح کے طور پر اپنے لشکر کو حکم دیتے کہ مکہ میں موجود امویوں کو چن چن کر قتل کر دیا جائے۔ تم کیا،
ہم سب جانتے ہیں اور تاریخ نے ہمیں بتایا ہے کہ رسول اکرم نے فتح مکہ کے وقت جن تین مقامات کو جائے امن قرار دیا ان میں سے ایک مقام اموی سردار ابو سفیان کا گھر تھا جس نے فتح مکہ سے ایک شب قبل رسول اکرم کے چچا حضرت عباس ؑ کی ترغیب پر اسلام قبول کیا تھا۔ کیا تم ہمیں سمجھاؤ گے کہ اگر اس وقت رسول اکرم امویوں کی نسل کشی کا حکم دیتے تو ان کا راستہ روکنے والا کون تھا‘‘؟ ہمارے کامریڈ دوست وحید لاکھیو کی اعلیٰ ظرفی یہ تھی کہ انہوں نے نہ صرف دوستوں سے کھلے دل کے ساتھ معذرت کی بلکہ کہا کہ انہوں نے کبھی اس معاملے کواس پہلو سے سمجھنے کی کوشش نہیں کی۔
دو عشروں سے ایک آدھ برس بعد اس محفل میں ہوئی گفتگو کی یادیں یوں تازہ ہوئیں کہ ماضی کی طرح اس بار بھی محرم الحرام کے آغاز کے ساتھ ہی برساتی مینڈکوں کی طرح ٹرٹراتے ہوئے کچھ محققینِ تاریخ بزعم خود اصلاح کارانِ امت کے ساتھ چند کمرشل لبرلز، بھاڑے کے سیکولر اور سوشل میڈیا کے مجاہدین نے چار سو ’اَت‘ اٹھائی ہوئی ہے۔ایک ’’دانا‘‘ نے تو اپنی تحریر میں یہاں تک کہہ دیا کہ موجودہ شیعہ سنی کشمکش درحقیقت شیعہ سنی اختلافات کا نتیجہ ہے۔ عقل کو جوتے مارتے اس دانشور کو کوئی سمجھائے کہ موجودہ فرقہ وارانہ تضادات اور اس کی کوکھ سے پھوٹی دہشت گردی کا شیعہ سنی اختلافات سے کوئی تعلق نہیں اور یہ بھی کہ کربلا کے تنازعہ میں بھی سنی شیعہ فریق نہیں تھے۔ بلکہ ایک طرف رسول اکرم کے نواسے امام حسین ؑ ، ان کے احباب و انصار موجود تھے تو دوسری طرف وہ مسلمان ، اسلام جن کے لئے حکومت اور کاروباری مفادات سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتا تھا۔
امام حسین ؑ نے تو شہادت سے کچھ دیر قبل دیئے گئے خطبے میں دو ٹوک انداز میں کہہ دیا تھا کہ اقتدار میرے جوتے کے تلوے سے لگی مٹی سے بھی حقیرتر چیز ہے۔ یزید کی بیعت سے انکار کا مقصد یہ ہے کہ اس کی حکومت میرے جدِ بزرگوار حضرت محمد کی آفاقی تعلیمات سے متصادم ہے۔کربلا کو دو خاندانوں یا دو شہزادوں کی لڑائی قرار دینے والوں میں اخلاقی جرأت ہے تو معرکہ کربلا کے حوالے سے موجود اجماع مسلمین کے برعکس مؤقف اپناتے ہوئے کہہ لکھ دیں ’’پانچویں خلیفہ راشد یزید کو فتح حاصل ہوئی‘‘۔ کبھی نہیں لکھ پائیں گے۔ بس مینڈکوں کی طرح ٹر ٹر کرتے رہیں گے۔ زیادہ سے زیادہ ہو گا تو یہ کہیں گے ’’بس جی تاریخ پر مکمل اعتبار کیسے کر لیں‘‘۔
ارے بھائی یہ اسلام پیغام رسالت ، قرآن و حدیث یہ سب تاریخ کے توسط سے ہی آپ تک پہنچا ہے تو کیا گارنٹی ہے کہ سب سو فیصد درست ہے؟ معاف کیجیئے گا انکار اور پسپائی میں کوئی لمبا چوڑا فرق نہیں ہوتا۔ دونوں کام کم ہت لوگ کرتے ہیں۔ اہلِ عزم تحیقیق کرتے ہیں اور شجاع میدان جنگ میں جان قربان۔ آپ سے اگر دونوں کام نہیں ہوتے تو چپ رہیں معاشرے میں گند نہ پھیلائیں۔ رہے وہ حضرات جو عزاداری کو چاردیواری تک محدود رکھنے کا مطالبہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ عزاداری کے جلوسوں کی وجہ سے عام لوگوں کو مشکلات پیش آتی ہیں۔ ان آزادی پسندوں پر بھی قربان جائیے انہیں آزادی اور انسانی حقوق عزاداری اور میلاد النبی کے جلوسوں کے مواقع پر ہی یاد آتے ہیں۔
کبھی انہوں نے ملک میں غربت کی بڑھتی ہوئی شرح، امن و امان کی ابتر صورتحال، غیر ریاستی عناصر کی دہشت گردی جیسے موضوعات پر بات تک نہیں کی۔ کیا انہیں نہیں معلوم کہ پاکستان کا آئین اپنے شہریوں کو مساوی مذہبی حقوق دینے کا پابند ہے۔ خدا کے بندو محرم الحرام کے موقع پر دانش کے سانڈے کا تیل بیچنے کی بجائے عقل کے ناخن لیا کرو۔ آزادی اظہار کی حقیقی تعریف یہ ہے کہ آپ کے کلام سے دوسروں کی دل آزاری نہ ہو۔ اس لئے پیغامِ محبت عام کیجیئے۔