محرم کی ثقافت:شاید کہ ترے دل میں اتر جائے مری بات

aag_ka_matam

محرم کی ثقافت : سوز خوانی کا فن

میں نے ایک صاحب کا طنزیہ جملہ لکھا دیکھا ” محرم میں ملحدوں میں مذہبیت کیوں جاگ جاتی ہے ؟ ” تو مجھے فوری سے بیشتر خیال آیا کہ یہ خیال اس جملے کے لکھنے والے کو آیا ہی اس لئے کہ اس نے شعوری یا لاشعوری طور پہ ایک تو اس بات کو مان لیا ہے کہ محرم کی ثقافت اپنی کہنہ میں “مذہب ” ہے اور وہ دوسرا اس نے یہ بھی مان لیا ہے کہ اگر آپ ” شیعہ ” نہیں ہیں تو اس ثقافت سے آپ کا کوئی رشتہ اور تعلق نہیں بنتا ہے-کوئی کمیونسٹ اگر غلطی سے سید ہو یا اس کے ہاں اپنے اشتراکی خیالات کی سند لینے میں امام حسین ، ابوزرغفاری کی طرف جھکاؤ پایا جاتا ہو تو اسے کہا جاتا ہے کہ یہ کمیونسٹ اصل میں تو ہے ہی “شیعہ /رافضی ” لیکن اب اس کا کیا کیا جائے کہ محرم کی ثقافت سے تو جیوتی سروپ پانڈے جیسا آدمی بھی جڑجاتا ہے-جیوتی سروپ پانڈے اپنے خیالات کے اعتبار سے سنٹر لیفٹ اور مذہبی اعتبار سے ناستک ہیں-

لیکن یہ سوزخوانی میں ایک بڑا مقام رکھتے ہیں-یہ لکھنؤ میں محرم کے دنوں میں امام باڑے میں ایک مجلس سننے گئے اور وہاں ایک سوز خواں کی سوز خوانی سنی –آنکھوں سے آنسو نکلنے لگے اور پھر انہوں نے اردو سیکھی ، اور خود بھی سوزخوانی کرنے لگے-پہلا سوز انہوں نے ممبئی کی امام بارگاہ میں پڑھا –پھر امروھہ و لکھنؤ ، پٹنہ اور کئی ہندوستانی شہروں مین انہوں نے سوزخوانی کی-پیشہ کے لحاظ سے ہندوستانی فارن سروس سے وابستہ ہیں –

برازیل سمیت کئی ملکوں کے سفیر رہے-اسی طرح ایک اور ناستک ہندؤ لاچھو مہاراج تھے جو ہندوستان کے معروف طبلہ نواز تھےاور ان کی شادی ایک فرانسیسی خاتون سے ہوئی جو آپ ناستک ہے-لیکن یہ سوز خوانی میں بھی اپنا لوہا منوابیٹھے-اور ان کو امام حسین سے عشق تھا- ان کی ایک بیٹی بھی ان کے راستے پہ چل رہی ہے-کیا یہ سب کے سب رفض کے مارے تھے-کیا ان کو سوزخوانی اپنے ناستک پن کے متضاد اور الٹ نہ لگتی تھی-راگ بھیروی میں مرثیہ سنکر جیوتی سروپ پانڈے بھی سوزخواں بن گئے تھے

انتظار حسین نے اپنے ایک کالم میں جوکہ روزنامہ ایکسپریس میں شایع ہوا تھا فرحان رضا کی ایک کتاب ” ’تحت اللفظ خوانی‘ ایک فنی مطالعہ” پہ تبصرے کے دوران لکھا تھا کہ میر ضمیر فن مرثیہ خوانی کے اولین سالار تھے –اور اس حوالے سے ان کے چند اشعار بھی درج کئے،
میں کہ اس سے کبھی نہ تھا آگاہ
مرثیے کا ہے کیا طریقہ و راہ
میں نے یہ عرض کی کہ مشفق من
مرثیے خوانی کا جدا ہے فن
مجھ کو کچھ اس میں رسم و راہ نہیں
اس میں بندے کو دستگاہ نہیں

محرم میں سوزخوانی کی روایت لکھنؤ کے نوابی دور میں بتدریج سامنے آئی اور یہ مرثیہ خوانی کی زیادہ بہتر کشید کردہ شکل ہے اور اسے ایسی موسیقی کے ساتھ ترتیب دیا گیا جس سے مراسم عزاداری اور محرم کی تقدیس پہ کوئی حرف نہ آئے-لکھنؤ آبزور کے نام سے بلاگ لکھنے والی ہندوستانی صحافی سائرہ مجتبی جن کا اپنا تعلق لکھنؤ سے ہے کے مطابق فیض آباد میں نواب شجاع الدولہ کی بیوی جو بہو بیگم کے نام سے معروف تھیں محرم الحرام کی مجالس باقاعدہ فیض آباد محل میں منعقد کرایا کرتی تھیں –اور ان کا ایک محبوب خواجہ سرا جوہر علی خان بھی مرثیہ سنا کرتا تھا

مرثیہ خوانی جب سوزخوانی تک سفر کرکے آئی تو اس کے لئے ہندوستان کے ایک قدیم ترین راگ “دھرپد ” کا انتخاب کیا گیا

نوٹ : دھرپد دو لفظوں “دھر ” اور “پد ” سے ملکر بنا ہے اور پہلے لفظ کا مطلب ‘ٹھہراؤ ‘ اور دوسرے لفظ کا مطلب ‘ مقدس /متبرک ‘ ہے-دھرپد راگ کی تاریخ بہت پرانی ہے اور یہ ویدوں کے زمانے تک جاتی ہے-دھرپد کو دھرپد اس لئے کہا جاتا تھا کہ اس میں مذہبی شخصیات اور مذہبی بھجن ہی گائے جاتے تھے اور یہ ایک مقدس راگ خیال کیا جاتا ہے-وکیپیڈیا پہ دھرپد راگ بارے کہا گیا ہے کہ پہلی بار اس کا تذکرہ آئیں اکبری میں مغل بادشاہ کے وزیر ابوالفضل نے کیا – اور اس دھرپد راگ کی نمو اور بڑھوتری اکبر بادشاہ کے معروف وزیر راجہ مان سنگھ تومار کے دربار میں ہوئی –اس لئے صاف نظر آتا ہے کہ دھرپد کی تقدیس اور اس کے مذہبی پس منظر کو دیکھتے ہوئے سوز خوانی میں اسی راگ کو ہی اپنالیا گیا

پروفیسر نیّر مسعود کہتے ہیں ، ” سوزخوانی کے لئے موسیقی کی قدیم شکل دھرپد کا انتخاب کیا گیا حالانکہ اس وقت خیال کی گائیگی کا چلن عام ہوگیا تھا-دھرپد میں گلے بازی اور گٹکریوں کرنا منع ہوتا ہے-دھرپد میں لمبی تان لگانا بھی منع تھا لیکن سوزخوانی میں اش شرط کو ہٹادیا گیا-بعد ازاں سوز خوانی میں راگ ،راگنیوں کا استعمال کرکے بہترین دھنیں بنائی گئیں –بھیرو ،دیس ، جوگیا،درباری اور پوری راگ راگنیوں کا استعمال سوزخوانی میں عام ہوگیا-سوزخوانی میں فن اجتہاد اسقدر ترقی کرگیا کہ جو راگ خوشی کا تاثر پیدا کرتے تھے ان میں بھی ایسی تبدیلیاں کی گئیں کہ سوزوگداز پیدا ہوگیا

مرثیہ خوانی “سوزخوانی ” سے بہت پہلے ہی مجالس عزاداری میں ریاست اودھ کے اندر ایک لازم جزو کے طور پہ جمی جمائی صنف بن چکی تھی- نیشاپوری خاندان نے جب اودھ میں اپنی حکمرانی قائم کی تو انہوں نے وہاں پہ عزاداری اور مرثیہ خوانی کو فروغ دیا اور وقت گزرنے کے ساتھ مختلف مراحل سے گزر کر یہ ایک مانی ہوئی صنف ادب جانی جانے لگی-بلکہ “سرگزشت لکھنؤ ” میں نیّر مسعود کے مطابق اس صنف نے ادب کی دوسری اصناف کا ڈٹ کر مقابلہ کیا

یہ سید میر علی تھے جنھوں نے سوزخوانی کے لئے راگ دھرپد کو منتخب کیا تھا اور پھر لکھنؤ کے خواجہ حسن مودودی تھے جنھوں نے کلاسیکل مرثیوں کی مختلف راگوں میں کامیاب دھنیں بنائی تھیں-یہ “نغمات آصفیہ ” کے مصنف تھے اور سنّی مسلک سے تعلق رکھتے تھے-اور انہوں نے سوز خوانی میں راگ ،راگنیوں کو استعمال کرنے کی جو طرح ڈای ،وہی آگے چل کے اس فن کی روایت ٹھہری –اسی بنا پہ بہت سے لوگوں نے ان کو سوز خوانی کی روایت کا بانی بھی کہا گیا

اسی طرح ایک اور درویش، قلندر حیدر تھے جوکہ سری حیدر کے نام سے معروف تھے ،انھوں نے خواجہ حسن مودودی کے کام کو آگے بڑھایا اور مزید دھنیں سوزخوانی کے فن میں اختراع کیں-انھوں نے نوحہ کو بھی اداسی کے راگوں سے ترتیب دیا اور اسی طرح سے سلام کو بھی اور یوں جیسے آج ” سوز ” کہا جاتا ہے وہ صنف سامنے آئی-

میرعلی کے شاگرد مولوی محمد قیوم ، غلام عباس ، میاں احمد علی عطاء ، مرزا فدا علی نے ایسے راگ راگنیاں جوکہ خوشی کا تاثر پیدا کرتی تھیں ان کو ایسے بدلا کہ سوز خوانی کی دھنوں میں اداسی کے رنگ گھل گئے اور پھر انہوں نے کربلاء کے بہت سے واقعات کی عکاسی کرنے والے سوز ترتیب دئے-یہ بڑا کارنامہ تھا-اودھ کی تاریخ دو اور ایسے سوزخوانوں کے بارے میں بتاتی ہے جنھوں نے سوز خوانی کے فن کو مقبولیت عروج پر پہنچانے میں اپنا کردار ادا کیا-یہ میاں ماموں اور مرزا کلّو بہرائچی تھے-

جبکہ اس فن میں کو مرتبہ کمال پہ پہنچانے میں جس شخصیت نے اپنا کردار ادا کیا وہ عظیم موسیقار تان سین کے گھرانے سے تعلق رکھنے والے مسیقار ناصر خاں اور ان کے دو شاگرد جو ان کے بیٹے بھی تھے (کیونکہ انہوں نے ایک بیوہ سیدانی سے شادی کی تھی ) میر علی اور میر بندے حسن تھے-انہوں نے سوزخوانی کو قریب قریب ہر ایک راگ میں ترتیب دیا اور اس فن کو خاص و عام سب میں مقبول کردییا-یہاں تک کہ اودھ اور لکھنؤ کے اشراف مرد اور عورتیں بھی اسے سیکھنے لگے اور بلکہ اس فن میں کئی اشراف لکھنؤ اتائی کمال پہ پہنـچ گئے تھے-سوز خوانی کے فن کو غیر مسلموں نے بھی سیکھا اور امام حسین سمیت شہدائے کربلاء سے اپنی عقیدت کا اظہار کیا


سوزخوانی میں میلوڈی ہوتی ہے لیکن پھر بھی اس میں راگ داری کو پوشیدہ رکھا جاتا ہے-ٹیمپو دھیما اور آواز کی پچ تیز اور اونچی ہوتی ہے اور محرم کی رسومات اور اس ماہ کے حزن و ملال و تقدیس کو برقرار رکھنے کےلئے اختیار کی جانے والی چیزیں ہیں-
سوزخوانی کو ایک باقاعدہ صنف فن موسیقی کی حثیت دینے میں ایک اور شاعر سید عبدالولی سورتی کا نام بھی بہت اہمیت کا حامل ہے-انہوں نے اس فیلڈ میں ندرت اور اختراع کا نیا در وا کیا –یہ میر اور سودا کے معاصر شاعر تھے-

ویسے سوزخوانی میں دھرپد کو بنیاد بنکر سوزخوانوں نے اتنے سخت ضابطے بنائے تھے کہ خود بڑے گائیک جن میں بڑے غلام علی خاں ،استاد رجب علی خاں ، استاد فیاض علی خاں ، استاد عبدالکریم خاں بھی سوزخوانی کو ایک بہت مشکل صنف خیال کرتے تھے-سوزخوانی کیسے کی جاتی رہی اس بارے ایک تفصیل تو محمد نصرت دہلوی نے دی-کہا کہ سوزخواں کو صاحب بستہ کہا جاتا ،جبکہ اس کے ساتھ بازو ہوتے جو آہ کہہ کر ماحول پیدا کرتے اور جوابی ہوتے جو صاحب بستہ کے مصرعے کو دوہراتے تھے-سوزخواں مرثیہ کو پڑھتے ہوئے اپنا کمال بھی دکھاتے ایسے کہ بعض اوقات ایک بند جو چھے مصرعوں پہ مشتمل ہوتے ہیں تو ہر ایک مصرعے کو الگ راگ میں سناتے اور اسے “راگ ساغر ” بھی کہا جاتا ہے-

سید سکندر آغا کی کتاب

“سوز خوانی کی تاریخ ” میں بتایا ہے کہ 93 کے قریب راگوں میں سوزخوانی کو کمپوز کیا جاتا ہے –اور یہی بات “تاریخ مسعود حسن ادیب ” میں بھی یہی بات لکھی گئی

اشوک دامودر راندھے نے ایک کتاب ” میوزک کانٹیکسٹ : کانسائز ڈکشنری آف ہندوستانی میوزک” لکھی –اس کتاب میں سوزخوانی کو ہندوستانی میوزک کی لازوال صنف گردانا گیا-اور اس کتاب میں اشوک نے ‘سوز خوانی ‘ کے عنوان سے ایک باب لکھا ہے-اس میں اشوک نے ایک واقعہ درج کیا کہ سید امیر حیدر سوز خواں ایک مجلس عزا میں مدعو تھے-

پہلے ایک معروف شیعہ عالم نے مجلس سے خطاب کیا اور ان عالم دین کا یہ طریقہ تھا کہ یہ مجلس سے خطاب کرتے ہی رخصت ہوجاتے اور “سوز خوانی ” نہ سنتے- ان کا خیال تھا کہ محرم کی تقدیس کے برخلاف ہے –لیکن سید امیر حیدر خاں نے جب ان کو اٹھ کر جاتے دیکھا تو فوری کھڑے ہوئے اور ہاتھ جوڑے مولانا کے آگے اور ان سے کہا کہ ان کی سوزخوانی سنتے جائۓ ،اگر خلاف تقدیس لگے تو بے شک اٹھ کر چلے جائیے گا –اس پہ وہ مولانا بیٹھ گئے-اور امیر حیدر کی سوز خوانی نے ان کو آبدیدہ کردیا-

سوزخوانی اشوک درمودر کے بقول ‘گرو ششی پرم پرا ‘ کے مقرر کردہ اصولوں کے تحت سکھائی جاتی رہی جوکہ قدیم زمانے سے مذہبی موسیقی کو سکھانے کی مبادی کتاب چلی آرہی ہے اور آج بھی ہندوستانی موسیقی کی تربیت گاہوں میں اسے سکھایا جاتا ہے-معروف درباری امراؤ جان ایک فیوڈل لارڈ کو فن سوز خوانی میں اپنی مہارت بارے بتایا کرتی تھی-سوز خوانی میں موسیقی کی دو لہریں ہیں-ایک میں کم سے کم موسیقی کی لہر ہوتی ہے تو دوسری میں کلاسیکل میوزیکل آرٹ کا غلبہ ہوتا ہے-مسعود حسن ادیب جو خود بھی بڑے سوز خواں تھے پہلی قسم کو زیادہ مرغوب رکھتے تھے-

اشوک کا کہنا ہے کہ سوز خوانی کا ارتقاء اس کے ہندوستانی موسیقی اور راگ ،راگنیوں سے رشتہ داری ،اس کی فارسی جڑوں کے ہندوستانی رنگ میں رنگے جانے اور اس صنف کی دھرتی سے جڑت کو ظاہر کرتا ہے-سوز خوانی کے بارے میں ہندوستانی ماہر تاریخ موسیقی اشوک کی یہ کمنٹری ان لوگوں کے لئے ایک سبق ہے جو محرم کی ثقافت اوٹ پٹانگ تبصرے کرکے آج کے دور میں تکفیری حلقوں کی ثقافت دشمنی کو تقویت پہنچانے کی کوشش کرتے ہیں-سوشل میڈیا پہ “انوکھے پن سے سٹیٹس اپ ڈیٹ” کرکے اپنی پوسٹ کو وائرل بنانے کا خواب دیکھنے والے مہان دانشوروں کو بھی اس سے سیکھنے کی ضرورت ہے

لکھنؤ ، حیدرآباد دکن ، لاہور ،دہلی ،کولکتہ سمیت پورے ہندوستان کے اندر مرثیہ خوانی سے سوزخوانی کا کلچر مقبولیت حاصل کرتا چلا گیا اور سوزخوانی کی ابتداء اور اس کے بالغ فن ہونے تک کے ارتقاء کی تاریخ پہ اگر نظر ڈالی جائے تو دو نکات اہم ہیں جن کو جاننے کی ضرورت اس لئے بھی بنتی ہے کہ ہمیں یہ پتہ چلے کہ محرم کیسے اس ثقافت کا جزو بنا جیسے برصغیر میں بسنے والی تمام اقوام اور تمام مذاہب کا کمپوزٹ کلچر کہا جاتا ہے جو تنوع کے ساتھ ہم آہنگی اور صلح کلیت کی عکاسی کرتا ہے-ایک نکتہ تو یہ ہے کہ سوزخوانی کے فن کو کیا شیعہ ، کیا سنّی دونوں نے پروان چڑھایا اور دوسرا نکتہ یہ ہے کہ یہ فن بتدریج دربار سے نکل کر نیچے عوام تک کے اندر پھیل گیا اور یہ صرف اہل تشیع کے ساتھ خاص نہیں رہا-

ہمارے سامنے فیض احمد فیض صاحب کی مثال ہے جنھوں نے سوز و سلام لکھا اور سب کو پتا ہے کہ وہ کمیونسٹ تھے اور ان کو محرم کی ثقافت ہندوستان کے محنت کشوں کی ترقی اور ان کے شعور کی بڑھوتری میں روکاوٹ کہیں بھی نہ لگی

Source:

محرم کی ثقافت:شاید کہ ترے دل میں اتر جائے مری بات

https://jagarti.wordpress.com/2016/10/03/محرم-کی-ثقافتشاید-کہ-ترے-دل-میں-اتر-جائ/

Comments

comments