حضرت عمر فاروق رضی الله تعالی عنہ کی تاریخ شہادت چھبیس ذوالحجہ کو متنازعہ بنانے کی دیوبندی خارجی سازش

umer1-300x252

8

14568008_10154573307924561_7780496015635580340_n

عشرہ فاروق و حسین کے نام پر فرقہ وارانہ فسادات کروانے والے جدید تکفیری خوارج سے ہوشیار رہیں

اہلسنت کے عالم دین علامہ محمد علی مرزا نے دشمنان اہلبیت کا پردہ فاش کر دیا

آجکل پاکستان میں موجود تکفیری دیوبندی مسلک کے لوگ جو اپنے آپ کو غلط طور پر اہلسنت کہتے ہیں خلیفہ دوئم حضرت عمر فاروق رضی الله تعالی عنہ کی تاریخ شہادت کو مسخ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، مقصد ان لوگوں کا عاشورہ محرم میں مسلمانوں کو نواسہ رسول حضرت امام حسین علیہ السلام کے غم سے دور کرنا ہے – ہم ایسے ناصبی، خارجی اور تکفیری دیوبندیوں اور وہابیوں کی مذمت کرتے ہیں

حضرت عمر فاروق رضی الله تعالی عنہ کی تاریخ وفات یکم محرم الحرام نہیں بلکہ صحیح تاریخ وفات چھبیس ذوالحجہ ہے – سپاہ صحابہ اور طالبان سے تعلق رکھنے والے یہ دہشت گرد جو بارہ ربیع الاول کے میلاد کی مقدس محافل کے دشمن ہیں یہ عاشورہ محرم کے ایسے ہی دشمن ہیں، عشرہ فاروق و حسین کے نام سے یہ تکفیری ناصبی لابی جو پاکستان دشمن سعودی اور دیگر دشمنوں کے ہاتھوں میں کھیل رہی ہے ملک میں فرقہ وارانہ فسادات بپا کرنا چاہتی ہے، ان سے ہوشیار رہیں

14595605_581294485389122_4210920161557244895_n

1 2 3 4 5 6 7 8 10

ایک حقیقت ٭ ایک سوال٭ایک جواب
خلیفہ دوئم حضرت عمر ابن خطاب(رض) کی شہادت کب ہوئی؟ یکم محرم یا کسی اور تاریخ ؟
جواب:
حضرت عمرفاروق(رض) کی تاریخ شہادت وفات ، روایات صحیحہ کے مطابق :26 ذوالحج سنہ 23 ھجری کو ہوئی .نہ کہ یکم محرم.
اور ان کی وفات کے بعد حضرت عثمان غنی(رض) کی بیعت 29 ذی الحج سنہ 23ھجری کوہوئی !!!
مستند اہل سنت کتب سے حوالہ جات دیکھیں :
٭طبقات ابن سعد جلد ۳، ص ۱۴۷ مطبوعہ کراچی۔
٭تاریخ طبری جلد ۳، ص ۲۳۵ مطبوعہ کراچی۔
٭تاریخ ابن خلدون جلد۱، ص ۳۸۴ مطبوعہ کراچی۔
٭ تاریخ المسعودی جلد ۲، ص ۲۴۰ مطبوعہ کراچی۔
٭ تاریخ ابن کثیر جلد ۷، ص ۲۷۹ مطبوعہ کراچی۔ –

.ور دیگر تاریخی کتب .
دوستو !
سپاہ یزید کی طرف سے محرم کی پہلی تاریخ والی بات کا شور مچانا ،بالکل ہی جھوٹ ہے . اور جھوٹوں پر اللہ کی لعنت ہے درحقیقت یہ جھوٹ ، رسول اسلام ،ختمی مرتبت حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی اُمت کو آپس میں لڑوانے کی اک مذموم سازش ہے
یہود نصاریٰ اور منافقین اور ان کے نوکر، تمام خارجی تکفیری لوگ یہی تو چاہتے ہیں کہ اُمت اسلام کو ایسی سازشوں کے ذریعے لڑوا کران کی اسلامی طاقت و وحدت کو ختم کر دیا جائے

نوٹ :اس اہم معلومات کو تمام دوستوں میں عام کریں جزاک اللہ الخیرا

حضرت عمر فاروق(رض) کی تاریخ وفات کے باب میں دو قول مشہور ملتے ہیں۔

۔ 1 ۔ ایک قول یہ ھے کہ حضرت عمر فاروق(رض) زخمی ہونے کے بعد تین دن زندہ رہے اور پھر چھبیس 26 ذی الحجہ کو ان کا وصال ہوا ، چنانچہ علامہ قلقشندی ، اور حافظ ابن النجار البغدادی نے اسی قول کو اختیار کیا ھے ۔
علامہ قلقشندی لکھتے ہیں ۔

وطعنه أبو لؤلؤة الفارسي غلام المغيرة بن شعبة فبقي ثلاثاً ومات لأربع بقين من ذي الحجة سنة ثلاث وعشرين من الهجرة

نهاية الأرب في معرفة أنساب العرب// جلد1 // صفحہ152// ۔

اسی قول کو حافظ ابن النجار البغدادی نے بھی اختیار کیا ھے،

وكانت وفاته رضي الله عنه يوم الأربعاء لأربع بقين من ذي الحجة سنة ثلاث وعشرين من الهجرة ۔

الدرة الثمينة في أخبار المدينة // ذکر وفات عمر // ۔

قلقشندی اور ابن النجار کے اس قول کی تایئید اس روایت سے بھی ہوتی ھے جس کو حافظ ابن شبہ نے اپنی تاریخ میں اور امام بیہقی نے سنن میں نقل کیا ھے، یہ روایت معدان ابن ابی طلحہ سے مروی ھے، وہ فرماتے ہیں کہ حضرت عمر نے جمعہ کو خطبہ دیا اور جب ذی الحج کے چار دن باقی تھے، یعنی چھبیس ذی الحج کے دن حضرت عمر فاروق(رض) کا انتقال ہوا ملاحظہ ہو :
قال خطب لھم یوم الجمعة و مات یوم الأربعاء لأربع بقین من ذی الحجة ۔

السنن الکبری للبیھقی // رقم الحدیث 16578 //۔
تاریخ المدینة لأبن شبة // باب مقتل عمر // ۔

۔ 2 ۔ دوسرا قول جو کہ مشہور ھے، اور اسی قول کو جمھور مؤرخین اور علماء نے اپنی کتب میں بیان کیا ھے کہ ابو لؤلؤ نے چھبیس 26 ذی الحج کو ضرب لگائی تھی، جس سے حضرت عمر فاروق(رض) تین دن تک زخمی رہے اور پھر ان کا وصال ہوا اور حضرت صھیب رومی نے ان کا نماز جنازہ پڑھایا، چنانچہ مؤرخ ابن اثیر نے اسی قول کو ابن قتیبہ سے نقل کیا ھے، ملاحظہ ہو ،

و قال ابن قتیبة : ضربه أبو لؤلؤة يوم الأثنين لأربع بقين من ذي الحجة، ومكث ثلاثًا، وتوفي، فصلى عَلَيْهِ صهيب ۔

أسد الغابة في معرفة الصحابة// جلد3// صفحہ676 //۔

مشہور سلفی محقق شیخ شعیب الأرنؤوط نے بھی مسند احمد کی تحقیق میں اسی قول کو اختیار کیا ھے، شیخ ارنؤوط رقمطراز ہیں ۔

وكانت خلافته رضي الله عنه عشر سنين وستة أشهر، ضربه أبو لؤلؤة المجوسي لأربع بقين من ذي الحجة، ومكث ثلاثاً وتوفي، فصَلَّى عليه صهيبٌ

المسند للأحمد // تحت رقم الحدیث 82 // مسند عمر //۔

یہ کلام تھا حضرت عمر فاروق(رض) کی تاریخ وفات کے باب میں، جہاں تک تدفین کی بات ھے تو بعضے علماء نے بیان کیا ھے، کہ حضرت عمر کو محرم کے پہلے دن دفن کیا گیا، تدفین کے اس قول کو ملا علی قاری نے شرح مشکاة میں اور حافظ ابن اثیر الجزری نے جامع الاصول میں اختیار کیا ھے، ملاحظہ ہو ،

وطعنه أبو لؤلؤة غلام المغيرة بن شعبة مصدر الحاج بالمدينة يوم الأربعاء لأربع بقين من ذي الحجة سنة ثلاث وعشرين، ودفن يوم الأحد غرة المحرم سنة أربع وعشرين ۔

جامع الاصول //جلد 12// صفحہ127// عمر بن الخطاب //۔

خلاصہ کلام : حضرت عمر کی تاریخ وفات سے متعلق جتنے بھی اقوال ہیں ان اقوال میں اختلاف اس حد تک ھے کہ ابو لؤلؤ نے ضرب کس دن لگائی ؟

۱۔ علامہ مسعودی لکھتے ہیں: حضرت عمر کو انکی خلافت کے دوران ہی میں مغیرہ کے غلام ابولولوہ نے قتل کر دیا تھا۔ اس وقت سن ہجری کا ۲۳ واں سال تھااور بدھ کا دن تھا جب کہ ماہ ذی الحجہ کے اختتام میں چار روز باقی تھے۔ (مروج الذہب جلد۲، صفحہ ۲۴۰)

۲۔علامہ دنیوی لکھتے ہیں: ماہ ذی الحجہ ۲۳ ہجری کی چار راتیں باقی تھیں کہ حضرت عمر جمعہ کے روز رحلت فرما گئے۔ (اخبار الطوال صفحہ ۱۳۹)

۳۔ علامہ محب الدین طبری لکھتے ہیں: آپ نے ۲۶ ذی الحجہ کو وصال فرمایا۔ بعض نے کہا کہ اس تاریخ کو زخم آیا تھا اور وفات آخری ذی الحجہ میں ہوئی۔ (ریاض النضرہ جلد ۲ صفحہ ۳۳۵)

۴۔ مشہور مورخ طبری لکھتے ہیں: آپ نے چہار شنبہ کی شب کو ۲۷ ذی الحجہ ۲۳ ہجری کو وفات پائی۔ عثمان اخنسی کہتے ہیں کہ میرے خیال میں اس خبر میں سہو ہوا ہے کیونکہ حضرت عمر نے ۲۶ ذی الحجہ کو وفات پائی۔ ابو معشر کے نزدیک ۲۶ اور ہشام بن محمد کے نزدیک ۲۷ ذی الحجہ ہے۔ (تاریخ طبری جلد ۳ صفحہ ۲۱۷۔۲۱۸)

۵۔ علامہ ابن کثیر لکھتے ہیں: واقدی کا بیان ہے کہ حضرت عمر پر بدھ کے روز حملہ ہوا جب کہ ۲۳ ہجری کے ذی الحجہ کی چار راتیں باقی تھیں۔ (البدایہ و النہایہ جلد ۷ صفحہ ۱۸۶)

۶۔ علامہ ابو الفداء: توفی (عمر) یوم السبت سلخ ذی الحجہ روز شنبہ کو حضرت عمر نے وفات پائی۔ (تاریخ ابوالفداء صفحہ ۱۲۲)

۷۔ تاریخ کامل کے مصنف نے بھی یہی لکھا ہے کہ ذی الحجہ کی چار راتیں باقی تھیں کہ آپ فوت ہو گئے اور یکم محرم کو دفن ہوئے۔ (الکامل جلد ۳ صفحہ ۵۲)

۸۔ ابن خلدون لکھتے ہیں: زخمی ہونے کے بعد برابر ذکر اللہ کرتے رہے یہاں تک کہ شب چہار شنبہ ۲۷ ذی الحجہ ۲۳ ہجری کو اپنی خلافت کے ۱۰ برس ۶ مہینے بعد جان بحق تسلیم ہوئے۔ (تاریخ ابن خلدون جلد ۱ صفحہ ۳۰۷)

۹۔ امام اہلسنت جلال الدین سیوطی: ابو عبیدہ بن جراح کا بیان ہے کہ حضرت عمر بدھ کے دن ۲۶ ذی الحجہ ۲۳ ھجری کو شہید ہوئےاور ہفتہ کے دن محرم کی چاند رات کو دفن کئے گئے۔ (تاریخ الخلفاء صفحہ ۱۳۹)

۱۰۔ ابن اثیر لکھتے ہیں: حضرت عمر کی وفات ۲۶ ذی الحجہ کو ہوئی اور انتیس ذی الحجہ دو شنبہ کے دن حضرت عثمان کی بیعت کی گئی۔ (اسد الغابہ جلد ۲، صفحہ ۶۶۷)

آپ سب نے ملاحظہ کیا کہ قدیم علماء اہلسنت میں کس قدر اختلاف ہے۔ اور کتنی تواریخ ہیں یوم وفات پر۔ اب ہم جدید اہلسنت علماء کے اقوال نقل کرتے ہیں۔

۱۱۔ دور جدید کے مشہور سلفی متعصب مورخ دکتر محمد محمد الصلابی لکھتے ہیں: امام ذہبی لکھتے ہیں کہ ۲۶ یا ۲۷ ذی الحجہ بروز بدھ ۲۳ ھجری میں حضرت عمر نے جام شہادت نوش کیا۔ (سیدنا عمر بن خطاب صفحہ ۸۲۴،۸۲۵)

۱۲۔ مشہور دیوبندی عالم مفتی زین العابدین میرٹھی لکھتے ہیں: حضرت عمر کی وفات زخمی ہونے کے تیسرے دن ۲۷ ذی الحجہ ۲۳ ہجری کو بدھ کی رات میں واقع ہوئی۔ (تاریخ ملت جلد ۱ صفحہ ۱۸۷)

۱۳۔ بر صغیر کے مشہور سیرت نگار علامہ شبلی نعمانی لکھتے ہیں: حضرت عمر کی شہادت ۲۶ ذی الحجہ ۲۳ ہجری ۶۴۴ عیسوی۔ (الفاروق صفحہ ۱۷۷)

۱۴۔ امام اہلسنت اور بر صغیر میں مناظرے کا باب کھولنے والے شاہ عبدالعزیز دہلوی لکھتے ہیں: روز قتل حضرت عمر کا اٹھائیسویں ذی الحجہ کی بلا اختلاف اور دفن ان کا عزہ محرم۔ (تحفہ اثناء عشریہ باب ۹ صفحہ ۵۱۱)

آپ نے غور کیا کہ شاہ صاحب ۲۸ ذی الحجہ کو وفات عمر کو بلا اختلاف قرار دے رہے ہیں

۱۵۔ اسی طرح مصر کے مشہور مورخ محمد رضا مصری نے بھی ۲۴ ذی الحجہ ہی یوم وفات لکھی ہے۔ (سیرت عمر صفحہ ۳۲۹)

قارئین ہم نے قدیم اور جدید جید اور مستند علماء اہلسنت کے اقوال نقل کر دئیے ہیں جن سے ایک بات ثابت ہے کہ یوم وفات حضرت عمر ہر دور میں اختلافی رہی ہے۔ اب سپاہ صحابہ والے کس بنیاد پر ۱ محرم کو یوم وفات مناتے ہیں ؟ ہمیں ان کے جواب کا انتظار ہے۔

جمھور کے نزدیک چھبیس ذی الحج ھے، بعض کے نزدیک چھبیس سے پہلے ضرب لگائی ، اور بعض کے نزدیک ستائیس ذی الحج کو ضرب لگائی ۔

لیکن ابو لؤلؤ کی ضرب اور حضرت عمر کی تدفین، ان دونوں باتوں سے قطع نظر ، کم از کم اس بات پر تو تمام مؤرخین و علماء کا اجماع ھے کہ حضرت عمر کا وصال ذی الحج کے مہینہ میں ہی ہوا ھے ، اس میں کوئی دو رائے نہی ہیں ۔ و اللہ اعلم بالصواب ۔

Comments

comments