محرم کی ثقافت بمقابلہ تکفیری ثقافت
محرم الحرام کے مہینے کے آغاز سے بلکہ عید قربان کے فوری بعد پاکستان کے مین سٹریم میڈیا اور سوشل میڈیا پہ ایک رجحان روایت بنتا جارہا ہے-جس کو اگر چند لفظوں میں بیان کیا جائے تو اس کی کوشش یہ ہے کہ محرم الحرام کو ہمارے سماج کے اندر ثقافتی اعتبار سے جو اہمیت حاصل ہے اور صدیوں کے سفر نے اس مہینے سے جڑی ریتوں ، روائتوں ، رسوم اور رواج کو ہمارے ہاں جو رچاؤ حاصل ہوا ہے،اس رچاؤ کو ایک فضول ، بیکار چیز کہہ کر رد کیا جائے-
اور اس حوالے سے کئی طرح کے طریقے استعمال کئے جارہے ہیں –ایک طریقہ جو سابقہ سپاہ صحابہ اور موجودہ اہل سنت والجماعت کی جانب سے اعلانیہ اپنایا گیا ،وہ مناظرانہ ہونے کے ساتھ ساتھ تشدد آور ، منافرت انگیز ، دہشت پسندانہ اور جذبات کو مشتعل کردینے والا ہے اور اس حوالے سے اس تنظیم نے جتنا جھوٹ بولا جاسکتا تھا ،بولا اور اس کی پہلے دن سے یہ کوشش رہی کہ محرم کی جو اجتماعی مشترکہ ثقافتی مذہبی حثیت ہے اس پہ ضرب لگائی جائے اور محرم سے جڑی کربلاء کے المیے سے جڑی غالب ثقافت ہے اسے تار تار کردیا جائے-سپاہ صحابہ نے اس حوالے سے کئی علمی و فکری مغالطوں کو جنم دیا-
مین سٹریم سنّی اسلام کے ہاں سپاہ صحابہ کے وجود میں آنے سے پہلے کبھی بھی یکم محرم الحرام کو حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی شہادت کے یوم کے طور پہ منائے جانے کی روایت موجود نہ تھی بلکہ خود دیوبندی مکتبہ فکر کے ہاں یکم محرم الحرام کو یوم شہادت عمر فاروق رضی اللہ عنہ منانے کی سرے سے کوئی روایت موجود نہیں تھی –بلکہ دیوبندی مکتبہ فکر کے جید مفتیان کرام کی جانب سے ولادت و وفات و شہادت کے ایام مخصوص کئے جانے اور ان ایام کے اندر جلوس نکالنے اور کانفرنسز کرنے کو بدعت اور گناہ قرار دیا جاتا رہا اور اہل سنت کے دیگر بڑے مراکز جو برٹش ہندوستان میں تھے ان سے دارالعلوم دیوبند کے اختلاف کی وجہ یہ رویہ بھی بنا تھا –لیکن سپاہ صحابہ پاکستان کے وجود کے بعد بڑے پیمانے پہ تاریخی روایات کے بالکل برعکس یکم محرم کو یوم عمر فاروق رضی اللہ عنہ منایا جانے لگا اور اس مناسبت سے جلوس اور کانفرنسز بھی منعقد کی جانے لگیں –
اگرچہ اہلسنت کا دوسرا بڑا سیکشن جسے بریلوی کہا جاتا ہے آج بھی اس دن کو حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی شہادت کا یوم نہیں مانتا –لیکن ریاستی سرپرستی ، سعودی اثر اور کالعدم تنطیموں کے دباؤ پر آج پاکستان کے سبھی اردو اخبارات یکم محرم کو شہادت حضرت عمر فاروق کے یوم کے طور پہ دیکھتے ہیں اور اس دن خصوصی رنگین ایڈیشن شایع کئے جاتے ہیں اور اکثر اردو اخبارات یکم محرم میں خصوصی اشاعت میں زیادہ تر مضمون سپاہ صحابہ پاکستان / اہلسنت والجماعت دیوبندی کے لکھے شایع کرتے ہیں-جبکہ پنجاب کے اندر میں دیکھ رہا ہوں کہ ڈسٹرکٹ ایڈمنسٹریشن ضلعی امن کمیٹی کے تحت یکم محرم کو ” عمر فاروق و امام حسین کانفرنس” کا انعقاد کرنے لگی ہیں –گویا ریاستی سطح پہ بھی محرم الحرام اور اس سے جڑی کربلاء کی ثقافتی روایت کو انڈر مائن کرنے اور گھٹا کر دکھانے کی سعودی فنڈڈ تکفیری دیوبندی کوشش ہے ، اسے کامیاب کرانے میں ریاست نے بھی اپنا کردار ادا کیا ہے –
محرم الحرام میں مجالس عزا ، جلوس ہائے عزاداری اور اس عشرے میں دیگر کام (سبیل حسین ، تعزیہ ، علم ، نوحہ خوانی ، مرثیہ خوانی ، سوز خوانی )یہ سب کے سب صرف اور صرف شیعہ کمیونٹی کے ساتھ مختص نہ تھے اور نہ کبھی رہے-بلکہ پورے برصغیر پاک و ہند میں جیسے عید میلادالنبی ، عید ، ہولی ، دیوالی ، کرسمس ، ایسٹر مشترکہ تہوار سمجھے جاتے ، ایسے ہی محرم یا عاشورہ کو پورا برصغیر اور اس کے مختلف مذاہب و فرقوں سے تعلق رکھنے والے اپنا خیال کرتے اور سب کے ہاں حزن و ملال کے ثقافتی رنگ ابھر کر سامنے آجاتے تھے –برصغیر پاک و ہند کے چھوٹے بڑے شہروں اور قصبوں میں جتنے بھی مرکزی جلوس چھے، نو اور دس محرم الحرام کو نکلتے ان میں سب سے زیادہ شرکت سنّی مسلمانوں کی ہوتی اور پھر ہندؤ ، کرسچن ، سکھ ، پارسی بھی اس میں شریک ہوتے-
تعزیہ سازی کی زیادہ تر روایت سنّیوں کے ہاں پائی جاتی اور مرکزی جلوس میں مین سٹریم سنّی اسلام کے نمائندے اپنے تعزیہ اور علم کے جلوس کے ساتھ مرکزی جلوس میں شامل ہوجاتے-آج بھی ملتان سمیت پاکستان کے کئی شہروں میں معروف تعزیہ لائسنس ہولڈر اہلسنت سے تعلق رکھتے ہیں اور سنّی جلوس بھی مرکزی جلوس میں شامل ہوتے ہیں-اور برصغیر پاک و ہند میں محرم کے دس دنوں میں ہر شہر کے اندر ہونے والی مجالس میں سنّی خواتین و حضرات کی شرکت ایک معمول تھی اور اسی طرح نوحہ ، مرثیہ ، سوز خوانی اور اس کی سماعت صرف اہل تشیع کے ساتھ ہی خاص نہ تھی –مرثیہ ہمیشہ سے اردو زبان کی ایک مانی تانی صنف رہا اور اسے کبھی بھی فرقہ وارانہ عینک سے نہیں دیکھا دکھایا گیا اور کسی نے بھی انیس و دبیر کو شیعہ –سنّی فریم ورک کے اندر رکھ کر نہ دیکھا اور سبھی نے انیس و دبیر سے بلوغت کو پہنچنے والی مرثیہ کی روایت کو الگ تھلگ کرنے کی کوشش نہیں کی
نوآبادیاتی دور میں اندر لکھنؤ میں 1920ء کے بعد ایک بڑا بحران دیکھنے کو ملا اور وہآن پہ شیعہ –سنّی مذہبی ہم آہنگی کو احراری دیوبندی مولویوں نے خراب کرنے کی کوشش کی –اس زمانے میں غالبا 1929ء میں احراری مولویوں نے اور خاص طور پہ مولوی مظہر علی اظہر نے
” تحریک مدح صحابہ ” کے نام سے ایک تحریک شروع کی اور عین محرم کے آغاز سے لکھنؤ میں ” مدح صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین ” کے جلوس نکالے جانے کی روایت ڈالنے کی کوشش کی اور اس سے لکھنؤ میں وہ فساد مچا کہ برٹش گورنمنٹ کو باقاعدہ مداخلت کرنا پڑگئی –یہ تحریک اصل میں آل انڈیا مسلم لیگ کی مسلم اربن مڈل کلاس میں بڑھتی مقبولیت کو توڑنے کی کوشش تھی اور اس کا ایک طبقاتی پس منظر بھی تھا کہ یو پی ، سی پی ، پنجاب کے اندر احراریوں کے سب سے بڑے حریف آل انڈیا مسلم لیگ کی بڑا قیادت کا پس منظر یا تو شیعہ تھا یا پھر وہ صوفی سنّی بیک گراؤنڈ رکھتے تھے یا ان میں کئی ایک نامور ہستیاں احمدی تھیں تو سب سے آسان ہدف احراریوں کو شیعہ اور احمدی لگےجبکہ معاف انہوں نے صوفی سنّی پس منظر رکھنے والوں کو بھی نہیں کیا تھا –لیکن مین سٹریم سنّی اسلام کے ماننے والوں نے اس زمانے میں بھی محرم مشترکہ ثقافتی روایت کو توڑنے کی اس کوشش کا ساتھ نہیں دیا تھا –نہ ہی دارالعلوم دیوبند سے جڑے سخت گیر ، فرقہ پرست مولویوں کو کانگریس کی طرف سے حمایت مل پائی تھی
بلکہ محرم الحرام میں مشترکہ مذہبی ثقافتی روایت کے مدمقابل “تکفیری ثقافت ” کو صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین کے نام سے برصغیر میں مسلط کرنے کی اس کوشش کو کیا مسلمان ، کیا ہندؤ ، کیا سکھ ، کیا کرسچن ، کیا پارسی سب نے مسترد کردیا تھا –اور سچی بات یہ ہے کہ اس زمانے میں تکفیری ثقافت کے علمبرداروں کو نہ تو کسی بیرونی ریاست کا دست شفقت حاصل تھا ،نہ ہی برصغیر میں حکمرانی کررہے برٹش سامراج کو ” تکفیری ثقافت ” کے علمبرداروں کی اپنے تزویراتی مفادات کے لئے کہ اسقدر ضرورت تھی اگرچہ ان کی سنٹرل انٹیلی جنس ایجنسی میں اور خود پولیس میں ایک باقاعدہ ونگ تھا جو تقسیم کرو ، حکمرانی کرو کی پالیسی کے تحت کمیونل اور فرقہ وارانہ تناؤ پیدا کرنے میں مستعد رہا کرتا تھا –
اور یہ ونگ پاکستان بننے کے بعد بھی موجود رہا-اس زمانے میں وہابیت ، دارالعلوم دیوبند اور اہل قرآن نامی رجحانات کے زیر اثر صلح کل ثقافت دشمنی کا علمی رجحان سامنے آچکا تھا لیکن اس کا اثر ایک محدود قسم کی ریڈرشپ تک محدود تھا اور ان کو مین سٹریم اسلام کے ماننے والوں میں کوئی خاص اثر و رسوخ حاصل نہ ہوا بلکہ مذہبی ثقافتی مشترکات کے خلاف ان کی تحریروں کو کسی نے بھی اچھی نگاہ سے نہ دیکھا –یہ صورت حال پاکستان کے قیام کے بعد بدلنا شروع ہوئی اور اسے عروج 80ء کی دھائی میں ملنا شروع ہوا-جب ایک تو امریکی سامراج اور سعودی عرب کے تعاون سے بڑے پیمانے پہ پیسہ ، وسائل اور ریاستی سرپرستی کے زریعے سے
” تکفیری ثقافت ” پاکستانی سماج کے اندر جڑپکڑنے لگی –جسے ہند –اسلامی تہذیب کہا جاتا ہے اس سے جو ثقافتی مذہبی شعور برصغیر پاک و ہند کا پروان چڑھا تھا اس کی ازسر نو تعریف متعین کرنے کی کوشش ہوئی –اور یہ تکفیری سوچ کی روشنی میں متعین کرنے کی کوشش کی گئی-اس کے تحت عرس ، میلے ، بیساکھی ، دیوالی ، ہولی ، عید میلادالنبی ، محرم عاشورہ سب زد میں آگئے اور اس سے جڑنے کا جو اجتماعی شعور تھا اسے پارہ پارہ کرنے کی کوشش بہت ہی منظم طریقے سے ہوئی –اور 80ء کی دھائی سے ہمارے ہاں سعودی فنڈنگ سے بننے اور چلنے والے اداروں ، گروپوں نے مین سٹریم اسلام کو “وہابی اسلام ” سے بدل ڈالنے کو اپنا ہدف بنایا اور بریلوی ، شیعہ کو مین سٹریم اسلام سے الگ کرکے اور پھر ہندؤ ، کرسچن ، سکھ ، احمدی تو پہلے ہی ثقافت کے مرکزی دھارے سے الگ کردئے گئے تھے –اب ان کا ہدف شیعہ اور بریلوی کمیونٹی ہے-محرم کی مشترکہ ثقافتی خاصیت کو برباد کرنے کے لئے سب سے زیادہ کوشش اس مہینے کی مین سٹریم ثقافتی لہر کو ” شیعہ لہر ” بناکر دکھانا اور اس کی منفی تصویر پینٹ کرنا اور اس سے جیسے بن پڑے سنّی مسلمانوں کو الگ کرنا ہے تاکہ محرم مشترکہ ثقافتی ورثے کے طور پہ باقی نہ رہے –
بے پناہ سعودی فنڈنگ سے کھڑی مدمقابل تکفیری ثقافت کے پروپیگنڈے کے زیر اثر پاکستان میں اب مجالس عزا اور مرکزی جلوس عاشور میں سنّی مسلمانوں کی شرکت انتہائی کم ہوگئی ہے-پھر تکفیری دیوبندی دہشت گردوں کے بے پناہ حملے ، خودکش بم دھماکوں اور امام بارگاہوں ، جلوس ہائے عاشورہ کو نشانہ بنائے جانے کے رجحان بے پناہ خوف ہراس پیدا کیا ہے اور ملائیت نے تعزیہ ، علم ، سبیل حسین اور یہاں تک کہ زکر حسین کو ہی ایک بدعت و گمراہی قرار دینے اور اسے گناہ قرار دینے کا ایسا پروپیگنڈا کیا ہے کہ سنّی مسلم اکثریت میں اس حوالے سے ایک احساس گناہ جڑ پکڑ گیا ہے اور وہ اس مشترکہ ثقافتی ورثے پہ ہونے والے منظم حملے کا ادراک ہی نہیں کرپارہے –پاکستان کے اربن سنٹرز خاص طور پہ تکفیری ثقافت کے مضبوط قلعوں میں تبدیل ہوگئے ہیں –اور یہاں مین سٹریم سنّی اسلام بھی اس ثقافت کے بدترین دباؤ کا سامنا کررہا ہے-
محرم کی ثقافت پہ صرف مذہبی راستے سے حملہ نہیں ہورہا ہے بلکہ ایک حملہ اس پہ لبرل ، سیکولر اور نام نہاد مارکسی رستے سے بھی کیا جارہا ہے اور یہ ڈسکورس پچھلے چند سالوں میں اردو پریس اور سوشل میڈیا پہ بہت زیادہ ترقی پذیر ہے-محرم کی ثقافتی سرگرمی کے ساتھ معاشی سرگرمی بھی جڑی ہوئی ہے-اس ثقافتی سرگرمی پہ سب سے بڑا حملہ یہ کہہ کر کیا جاتا ہے کہ یہ پیسے کا اسراف ہے اور پھر محرم کے دس دنوں میں جلوس ہائے عاشورہ کی وجہ سے ٹریفک کے مسائل اور لوگوں کی آمد و رفت کے مسائل کا شور مچایا جاتا ہے –حالانکہ یہ شور ڈالنے والوں نے کبھی تبلیغی اجتماع کے دنوں میں ہونے والے مسائل بارے کچھ نہیں لکھا اور سارا سارا تکفیری ثقافت کو اجاگر کرنے کے لئے منعقد کی جانے والے جلوسوں ، جلسوں اور کانفرنسوں پہ اٹھنے والے اخراجات پہ کوئی کالم لکھنے کی تکلیف نہیں اٹھائی گئی –
محرم کے مرکزی جلوسوں کے راستے دو صدیوں سے متعین ہیں اور ان جلوسوں سے کسی بھی مذہب و ثقافت کو کبھی خطرہ لاحق نہیں ہوا-پوری دنیا میں یہ جلوس نکلتے ہیں کسی نے ان جلوسوں کو کسی دوسرے مذہب کے ماننے والوں کی دل آزاری سے تعبیر نہیں کیا –لیکن یہ پاکستان ہے جہاں کئی مہان صحافی ، تجزیہ کار ، کالم نگار اور مذہبی دانشور ان جلوسوں کو چار دیواری میں محدود کرنا چاہتے ہیں –اگر اس تجویز کی گہرائی میں جاکر دیکھا جائے تو پھر مسئلہ محرم کی ثقافت سے بنتا ہے جسے ختم کرنے کے لئے اگر لبرل ازم کی کوئی دلیل کام میں آجائے تو اسے استعمال کیا جاتا ہے اور اکر مارکس ازم کام آئے تو اس سے کام لیا جاتا ہے
تکفیری ثقافت پہلے تھیڑ ، ڈرامہ ، فلم ، ناٹک پہ حملہ آور ہوئی ، آرٹسٹ ، سنگرز نشانہ بنے اور پھر آج کل یہ نوحہ ، مرثیہ ، سوز خوانوں اور زاکروں پہ حملہ آور ہے-کیونکہ محرم کی ثقافت کو نیچے تک عوام کے اندر قائم دائم رکھنے میں ان کا بڑا کردار بنتا ہے-سوشل میڈیا پہ ” مراثیوں ” کی واٹ لگائی جارہی ہے-بطاہر یہ کام ریشنل ازم ، روشن خیالی کے نام پہ ہورہا ہے-بلکہ یہاں تک کہ مجالس ، عاشور کے جلوسوں کو ڈیٹنگ پلیس کہا جارہا ہے اور اس کے ساتھ جڑی تقدیس کو مٹاڈالنے کی پوری کوشش ہورہی ہے-مجھے اس قسم کی کوششیں بالواسطہ مذہبی پیشوائیت اور ملائیت کو راسخ کرنے کی کوشش کے سوا اور کچھ نہیں لگتیں –
ریاست کا حال یہ ہے کہ وہ محرم شروع ہونے سے پہلے امن کی تجویز لینے کے لئے کالعدم تںطیموں کے ملّاؤں کو بلاتی ہے –ہندؤ میرج بل پاس کرنے سے پہلے اسلامی نظریاتی کونسل سے پوچھتی ہے-یہاں مذہبی ہونے اور مسلمان ہونے کا مطلب تکفیری ثقافت سے جڑنا بنتا جارہا ہے –محرم کی ثقافت کو الگ تھلگ کرکے اسے چاردیواری میں بند کرنا شیعہ کمیونٹی کو الگ تھلگ کرنے سے کہیں زیادہ بڑا پروجیکٹ ہے اور اس پروجیکٹ کا رخ صدیوں سے بننے والی ثقافت کو برباد کرنا ہے-اور ہماری حکومتوں کے زیر سایہ تکفیری دانشور اپنا کام کررہے ہیں –دیوبندی اسلام کا تکفیری ایڈیشن مین سٹریم سنّی اسلام پہ زبردستی لادھا جارہا ہے –ریاست اگر حافظ سعید ، مسعود اظہر ، محمد احمد لدھیانوی کو گود لیتی ہے اور ان کے نیٹ ورک کو پھیلنے دیتی ہے تو اس کا نتیجہ تکفیری ثقافت کا غلبہ ہے –شیعہ ، بریلوی ، ہندؤ ، کرسچن اور دیگر مذہبی کمیونٹیز کو اور زیادہ الگ تھلگ کرنا ہے چاہے ریاست کے کرتا دھرتا یہ کیوں نہ کہیں کہ یہ ان کی تزویراتی پالیسی کا حصّہ نہیں ہے
Source:
محرم کی ثقافت بمقابلہ تکفیری ثقافت