دہشت گردی اور دیوبندی مدارس کا چولی دامن کا ساتھ
مندرجہ ذیل تحریر مدرسہ ابو ہریرہ کے ایک ہمدرد لکھاری کی ہے جنہوں نے اس دیوبندی مدرسے کی تعریف میں زمین و آسمان کے قلابے ملا دیے ہیں لیکن وہ آپ کو یہ بتانا بھول گے کہ جامعہ ابوھریرہ جو کہ اتحاد ٹاءون کراچی میں واقع ہے ۔اتفاق کی بات ہے کہ کچھ ماہ قبل اتحاد ٹاوٴن میں “نامعلوم” موٹر سائیکل سواروں کی فائرنگ سے جو چار رینجرز اہلکار قتل ہوۓ تھے وہ بالکل اسی مدرسے کے سامنے کا واقعہ ہے۔اس مدرسہ پہ چھاپہ بھی مارا گیا تھا اور اس کی تلاشی بھی کی گئی تھی – اس کے علاوہ اقلیتوں اور سیکولر خیال کے حامل لوگوں کے بارے میں جو الفاظ اور سوچ اس مدرسے کے مولوی نے دکھائی ہے اس سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ اس مدرسے میں کس قسم کی تعلیم دی جاتی ہوگی – اور یاد رہے حال ہی میں شکار پر سے زندہ پکڑے جانے والا خود کش عثمان بھی اسی مدرسے سے تعلق رکھتا تھا – تو پڑھیے اور سر دھنیے
تیس سال پہلے چترال کی جو حالت تھی آج بھی وہی ہے ۔مذہبی جماعتیں دینی ووٹ بینک کی تقسیم کا سبب بن کر سیکولر قوتوں کو فائدہ پہنچا رہی ہیں۔ان خیالات کا اظہار جمعیت علماء اسلام (ف)کے رہنما ، جامعہ ابوہریرہ اتحاد ٹاؤن کراچی کے بانی ومہتمم قاری عبدالکریم گلگتی نے چترال وژن سے خصوصی گفت گو کرتے ہوئے کیا۔اتحاد ٹاؤن کراچی کے ضلع غربی کا ایک دور افتادہ علاقہ ہے جہاں پشتون آبادی کی اکثریت ہے یوں تو یہ علاقہ نگاہوں کے لیے کشش کا کوئی سامان نہیں رکھتا
لیکن اسی علاقے میں ’’جامعہ ابوہریرہ‘‘کی صورت میں دین کا ایک لہلہاتاگلستان آباد ہے جو’’ جنگل میں منگل ‘‘کا بھرپور مصداق ہے اتحاد ٹاؤن کے تھکادینے اور جاذب نظر مناظر سے خالی طویل سفر کے بعد جب آپ اس ادارے کے گیٹ کے اندر داخل ہوجائیں گے توایسا محسوس ہوگا کہ آپ اتحاد ٹاؤن نہیں کسی اور جہاں میں قدم رنجا ہیںیہاں کے نورانی اوردل لبھانے والے ماحول سے آن کی آن میں آپ کی ساری تھکاوٹ کافور ہوجائے گی اورقلب ایک عجیب قسم کے کیف وسرور سے سرشار ہوگا۔
یہاں پرایک طرف تلاوت قرآن پاک اور درس وتدریس کی دل آویز اورکانوں میں رس گھولنے والی صداؤں کی گونج ہے تو دوسری طرف وسیع رقبے پر سلیقے سے بنی ہوئی درس گاہیں ودیگر تعمیرات ہیں جن کے دامن میں خوب صورت کیاریوں پرمشتمل دیدہ زیب سبزہ زارنگاہوں کودعوت نظارہ دیتا ہے سبزہ زارکے اردگردقرینے سے لگے ہوئے ناریل کے درخت یوں جھولتے محسوس ہوتے ہیں جیسے وہ بھی ماحول کے اس پرنوراور دل خوش کن منظر سے محظوظ ہورہے ہیں۔ادارے کے بانی ومہتمم گلگت کے ضلع غذر سے تعلق رکھنے اور روانی سے کہوار بولنے والے قاری عبدالکریم بخاری ملنسار شخصیت کے مالک انسان ہیں جوگلگت اور چترال کے علمی حلقوں میں بڑے احترام کی نگاہ سے دیکھے جاتے ہیں ۔
چترال وژن کے ساتھ ہونے والی اپنی گفت گو میں ان کامزید کہنا تھاکہ مدرسہ سمیت دین کا ہر کام ایک جہد مسلسل چاہتا ہے اس بنا پر استقامت اس راہ کی شرط اول ہے دین کے کام کرنے والوں کو کبھی کبھار اللہ تعالی دنیاوی راحت وآسائش سے بھی نوازتے ہیں لیکن کسی دنیاوی مفاد کے لیے دین کا کام نہیں کرنا چاہیئے اگر اللہ تعالی اپنے فضل سے دین کے کسی خادم کو نوازے تو شکرکرے ورنہ صبروقناعت کے ساتھ دین کا کام جاری رکھے۔ان کا کہنا تھا کہ چترال کے علماء میں سے مولانا محمد ظاہر شاہ ،قاری فیض اللہ ،قاری حبیب اللہ اور مولاناشفیع چترالی سے ان کا خاص تعلق ہے ۔
ان کامزید کہنا تھا کہ چترال میں ان کے کئی رشتے داربھی رہتے ہیں بونی میں خالہ زاد بھائی ہیں جب کہ ایون میں ان کی سگی بہن کا رشتہ ہوا ہے ان کے مطابق وہ 1982 ء کو پہلی دفعہ چترال آئے تھے دوسری دفعہ 2012ء کو چترال کا سفر کیا ان کا کہنا تھا کہ جس چترال کو میں نے تیس سال پہلے دیکھا تھا تیس سال بعد بھی اس کو اسی طرح پایا انفرااسٹرکچر سمیت کسی شعبے میں ترقی کا واضح فرق محسوس نہیں کیاسڑکیں ،پل ،بازار،سرکاری وغیرسرکاری عمارتیں نیز ہرچیز وہی تیس سال قبل کی حالت پر محسوس ہوئی اس کا ظاہری مطلب یہی ہے کہ یہاں کی قیادت نے علاقے کی تعمیر وترقی کے حوالے سے سنگین غفلت کا ارتکاب کیا ہے جس کا ازالہ کیا جانا چاہیئے اس کے مقابلے میں گلگت کو دیکھا جائے تو وہ آئے دن ترقی کرتا نظر آتا ہے جس کا کریڈیٹ یقیناًوہاں کی لیڈرشپ کو جاتاہے جب ان سے پوچھا گیا کہ گلگت کے بارے میں تاثر یہ ہے کہ اس کی تعمیر وترقی میں این جی اوز بالخصوص آغاخان فاؤنڈیشن جیسے اداروں کا کردار ہے تو ان کا کہنا تھا کہ یہ تاثر سراسر غلط ہے این جی اوز نے بعض علاقوں میں ضرور کام کیا ہوگا لیکن گلگت کی ترقی میں زیادہ کردار وہاں کی مقامی قیادت کا ہے جب قیادت مخلص اور اپنی قوم کے لیے کچھ کرنے کے جذبے سے سرشار ہو تو ترقی کا عمل خود آگے بڑھتا ہے۔
چترال میں جمعیت علماء اسلام کی مظبوط پوزیشن کے باوجود شکست کے متعلق سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ گو اس ناکامی کا ظاہری سبب آپس کے اختلافات اور مولوی طبقے کا باہم صف آرا ہونا ہے لیکن ہمیں اپنی کارکردگی کو بھی جانچنا چاہییے سیاسی کامیابی کے لیے ضرور ی ہے کہ آپ لوگوں کے ساتھ گھل مل کر رہیں ان کے ساتھ ہمیشہ میل جول قائم رکھیں تب جاکر لوگ آپ کو ووٹ دیں گے انہوں نے کہا کہ میں اپنے علاقے اتحاد ٹاؤن میں جے یوآئی کا ذمہ داربھی ہوں الحمدللہ ہم مستقل عوام سے رابطے میں رہتے ہیں ان کے مسائل کو حل کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔2013ء کے الیکشن میں بھی اس حلقے میں جے یو آئی نے بیس ہزار کے لگ بھگ ووٹ حاصل کیے اگر کچھ پولنگ اسٹیشنوں پر دھاندلی نہ کی جاتی تو جے یو آئی یہاں قومی اور صوبائی دونوں نشستیں جیت جاتی۔
انہوں نے چترال اور گلگت کی مذہبی جماعتوں کے قائدین سے دردمندانہ اپیل کی کہ وہ الیکشن میں اپنی اپنی ڈٰیڑھ انچ کی مسجدبچانے کے لیے سیکولر قوتوں کے لیے جیت کی راہ ہموار نہ کریں عام انتخابات میں اس اختلاف کا خمیازہ ہم بھگت چکے ہیںآئندہ عام انتخابات اور بلدیاتی الیکشن میں ہوش مندی کا مظاہرہ کرنا ہوگا ۔انہوں نے خصوصا جے یو آئی اور اہل سنت والجماعت کی قیادت سے اپیل کی کہ باہمی اختلافات کو بالائے طاق رکھ کر مل بیٹھنے کی کوشش کریں تاکہ مذہبی ووٹ بینک تقسیم ہونے سے بچ جائے اور دین کے نام پر دین کو نقصان پہنچانے کا سلسلہ رک جائے۔
چترال وژن کے بارے میں پوچھے گئے سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ یہ ایک اچھا اور خوب صورت اخبار ہے تاہم انہوں نے شکوہ کیا کہ اس میں پاکستان کی سب سے بڑی دینی جماعت جمعیت علماء اسلام کی کوریج نہ ہونے کے برابر ہے حالاں کہ چترال میں جے یو آئی ایک ابھرتی ہوئی سیاسی قوت ہے اور اس کے لاکھوں کارکن وہاں موجود ہوں گے اس پہلو سے بھی اس اخبار میں جے یوآئی کو اس کے سیاسی حجم کے حساب سے کوریج ملنی چاہیے انہوں نے امید کا اظہار کیا کہ اخبار کی انتظامیہ اس جانب توجہ دے گی اور ہماری شکایت کا ازالہ کرے گی۔
مدرسہ ابوہریرہ کے بارے میں تفصیلات سے آگاہ کرتے ہوئے ادارے کے نائب ناظم وامامسجد مولانا اسرارالدین چترالی نے کہا کہ مدرسہ کی بنیاد1992 ء میں رکھی گئی اس وقت ادارے میں ساڑھے گیارہ سو سے زائد طلباء وطالبات زیر تعلیم ہیں جن میں سے چھ سو طلباء اور ساڑھے پانچ سو طالبات ہیں رہائشی طلباء کی تعداد دوسو سے زائد ہے چترال اور گلگت کے طلباء کی ایک بڑی تعداد بھی یہاں زیر تعلیم ہے ان کے مطابق اس وقت تقریبا 58 رکنی اسٹاف ادارے میں خدمات انجام دے رہاہے۔ان کے مطابق ادارے میں حفظ وناظرہ ،درس نظامی ،فقہ میں تخصص ودیگر شعبوں کے علاوہ نرسری تامیٹرک اسکول کی تعلیم دینے کابھی انتظام ہے۔
یہ مدرسہ پاکستان میں موجود ان ہزاروں دیوبندی مدارس کی طرح صرف ایک کام ہی بھرپور محنت سے کر رہا ہے اور وہ کام ہے پاکستان میں خود کش بمباروں کی صنعت کو فروغ دینا – حیرت ہے کہ یہ لکھاری اتنا ضروری اور اہم کارنامہ گنوانا کیسے بھول گیے –