دھندے والی – عامر حسینی
وہ مری اس وقت سے دوست ہے جب میں ایک ایسے رسالے کے لئے کام کرتا تھا جس کے سرورق پہ بڑی حد تک برہنہ دو عورتوں کی تصویریں ضرور شایع کی جاتی تھیں اگرچہ رسالے میں بہت سے سنجیدہ مضمون، فیچر اور تجزیے بھی شایع کئے جاتے تھے-یہ صحافت میں مرے طفولیت کا زمانہ تھا-ایڈیٹر نے مرے زمے لگایا کہ میں لاہور بادشاہی مسجد کے پہلو میں ٹبّی گلیوں میں جاؤں اور وہاں کوئی ایسا کردار تلاش کروں جسے تھوڑے سے فکشن کے ساتھ رسالے میں چھاپا جائے اور رسالہ ہاتھوں ہاتھ بکے-میں اس سے پہلے کبھی شاہی محلّے کی ٹبّی گلیوں میں گیا نہیں تھا-
فوزیہ وہاب کی “ٹیبو ” پڑھ رکھی تھی-بی بی سی کی دستاویزی فلم ” ود ڈانسنگ گرلز ” دیکھ رکھی تھی-طوائفوں جنہیں رانڈ کہا جاتا تھا میں کبھی براہ راست نہیں ملا تھا اگرچہ منٹو ، رحمان مذنب سمیت اردو کے کئی افسانہ نگاروں کے ہاں میں نے کئی کردار دیکھے تھے-ایک گبھراہٹ سی طاری تھی کہ کیسے جاؤں وہاں-ایک مرا دوست جو کہ ان گلیوں کا پرانا بنجارہ تھا اس سے میں نے بات کی اور اس نے مجھے کہا ! پیارے اسقدر بہانے بنانے کی کیا ضرورت ہے-سیدھے سبھاؤ کیوں نہیں کہتے کہ تم پہ اب جوانی آرہی ہے
مجھے غصّہ تو بہت آیا لیکن مجبوری تھی ، ٹبّی گلیوں تک جانے کا مرے پاس سوائے اس کے کوئی اور زریعہ نہیں تھا-میں نے جبری ہنسی سے کہا ! یار جو بھی سمجھو مجھے وہاں جانا ہے اور تم نے ٹبّی گلیوں سے مجھے واقف کرانا ہے- اس نے کہا ٹھیک ہے-دو دن بعد تیار رہنا
میں بھاٹی گیٹ کے اندر محّلے میں ایک نائی کی دکان کے اوپر بنے ایک ڈربے نما کمرے میں رہ رہا تھا کیونکہ جتنے پیسوں میں کرائے کا کمرہ ڈھونڈ رہا تھا اتنے میں یہی ڈربہ نما کمرہ مل سکتا تھا-ایک بلب اور ایک پنکھا چلانے کی اجازت تھی اور پانی سرکاری نل سے آتا تھا مگر بجلی ، پانی دونوں کا بل مجھے اکبّر نائی کو دینا پڑتا تھا-اس کا ایک بیٹا سانول پنجاب یونیورسٹی تک جانے اور وہاں سے انگلش لٹریچر میں ماسٹرز کرنے میں کامیاب ہوگیا تھا-
اور وہ بھی مرے ساتھ رسالے میں کام کرتا تھا اور ہالی ووڈ و بالی ووڈ سے ریلیز ہونے والی فلموں کے ریویوز لکھتا تھا اور پھر انگریزی رسالوں سے ادکاراؤں اور ماڈلز کے انٹرویو ترجمہ و تلخیص کرتا تھا –اس کا ایک کام اور بھی تھا اور وہ تھا گوسپ گھڑ کر ادکاراؤں اور گلوکاراؤں و ماڈلز کے سیکس تجربات کی کہانیاں لکھنا اور گوسپ ایسے گھڑتا تھا کہ جب آدمی پڑھتا تو اسے حقیقت کا گمان ہوتا تھا-میں جب اس رسالے میں نوکر ہوا تو سانول کے ساتھ میں بیٹھا کرتا تھا-میں جو سیاسی تجزیہ نگاری اور سیاسی رپورٹنگ کرنے صحافت کی دنیا میں آیا تھا اور اس رسالے میں ایک سیاسی رپورٹر و تجزیہ نگار کی ضرورت کا اشتہار پڑھ کر گیا تھا جب ایڈیٹر سے ملا تو باتوں ہی باتوں میں اس نے مجھے کہا کہ سیاسی رپورٹنگ تو تم کرہی لینا ساتھ ساتھ تمہارا ذوق دیکھ کر مجھے لگ رہا ہے تمہیں سانول کے ساتھ کام کرنا چاہئیے –تو مجھے سیاسی رپورٹنگ کے ساتھ ساتھ کلچرل رپورٹنگ ڈیسک سے بھی نتھی کردیا گیا-میں اس رسالے کی نوکری کرنے سے پہلے میں ٹاؤن شپ میں ایک دوست کے پاس رہ رہا تھا جبکہ رسالے کا دفتر لکشمی مینشن ہال روڈ میں اس گھر میں تھا جو کبھی سعادت حسن منٹو کا گھر ہوا کرتا تھا –تو میں لکشمی مینشن کے آس پاس کمرہ تلاش کرنے میں لگ گیا مگر وہاں کرائے اتنے زیادہ تھے کہ میں کمرہ حاصل کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتا تھا-
ایسے ہی ایک دن جب ميں نے سانول سے زکر کیا تو اس نے کہا کہ مرے ابّا کی دکان کے اوپر ایک کمرہ ہے جو کرائے پہ نہیں چڑھتا تم اسے دیکھ لو بھاٹی گیٹ میں ہے –میں نے کمرہ دیکھا اور مجھے یہ بھی غنمیت لگا –چار ہزار روپے کرایہ تھا اور 500 روپے لم سم پانی ، بجلی ، گیس کے دینے تھے-میں اوکے کردیا-مرا سامان ایک دری ، ایک کمبل ، ایک چادر ، چند کتابیں ، تین جوڑے کپڑے تھے جنھیں میں نے اس کمرے میں شفٹ کردیا-اور یہاں رہنے لگا-دوسرے دن رات آٹھ بجے وحید مرا دوست نیچے دکان پہ پہنچا اور اس نے مجھے آواز لگائی –میں نیچے آیا تو وہ اپنی پرانی فوکسی گاڑی میں ڈرائیونگ سیٹ پہ بیٹھا-بوسکی کا کرتا اور لٹھے کی سفید براق شلوار اور تیل سے لتھڑے بالوں میں ٹیپکل تماش بین لگ رہا تھا-مجھے بڑا عجیب سا لگ رہا تھا-میں عام دنوں میں بنا ضرورت کے شاید اس کے ساتھ جانا بھی پسند نہیں کرتا-مگر مجبوری تھی سو گاڑی میں بیٹھ گیا
یار! خوش قسمت ہو ، ایک ایسا پیس آیا ہے شمائلہ بائی کے ہاں جس کی بوٹی بوٹی پھڑکتی ہے اور کمبخت بستر پہ تو کھا ہی جاتی ہے آدمی کو ۔۔۔ ترے جیسے چکنے لونڈے سنا ہے اسے بہت بھاتے ہیں ۔۔۔۔۔ وحید نے ایک آنکھ دبا کر مجھے اپنی طرف سے بہت بڑی خوشخبری سنائی –
کتنے پیسے ہیں ترے پاس —- اچانک وحید نے سوال کیا
سوال سنکر میں زرا گڑبڑا گیا ۔۔۔ یار چار سو ہیں بس ۔۔۔۔۔۔ میں نے جواب میں کہا
اوہ ایتھے رکھ ، سوہنیا گابھر نہیں ، ترا یار وحید جو ہیگا ، تینوں جنت دی سیر کرانی اے اور اوہ فری
وحید نے ایک دم حاتم طائی کی طرح چھاتی پھیلا کر کہا
وحید کی یہ فطرت میں نے کالج سے نوٹ کی تھی کہ کسی لڑکے نے پہلی بار شراب پینی ہو ، چرس کا سوٹا لگانا ہو یا کسی کے ساتھ ہمبستری کرنی ہو یہ اس کے لئے آسانیاں پیدا کرنے میں سب سے آگے ہوا کرتا تھا –یہان تک کہ جگہ تک کا انتظام کرنے میں بھی اس کا جواب کوئی نہیں تھا-مرا نام اس نے مولوی خشکا ڈال دیا تھا-اور اس کی منڈلی کے سبھی لڑکے لڑکیاں کالج میں مجھے اسی نام سے یاد کرتے تھے
اب بھی وہ بالکل نہیں بدلا تھا-اپنے تئیں جیسے وہ مجھے انٹرٹین کرکے کوئی بڑا کارنامہ کرنے جارہا تھا
یار! کالج میں تم ہمیشہ ایسے کاموں سے دور رہے-اور یاد ہے وہ شبنم جس کا نام میں نے شبّو بلبل رکھ ڈالا تھا- عبداللہ کے گھر نیوائر نائٹ پہ اس نے سٹریپ ڈاؤن کیا تو ایسے لگا جیسے تمہیں ننگا کردیا ہو حالانکہ فل بلاؤز اور ہاف نیکر نیچے وہ پہنے ہوئے تھی –لیکن اس دن سب دوست تمہاری ورجینٹی کے پیچھے تھے –شبو بلبل نے تمہاری مولویت کے قتل کا حلف اٹھایا ہوا تھا-مگر تم طرح دے گئے –ایسے بھاگے کہ پھر کبھی نہیں آئے ایسی محفلوں میں —–اب اتنے سالوں کے بعد کیا ہوگیا ؟ کیا شبّو بلبل ٹبّی گلیوں کی “کھلی ہوئی مشینوں ” سے بھی کئی گزری تھی؟
وحید اپنی رو میں بولے جارہا تھا –میرا ضبط جواب دینے لگا تھا لیکن میں بڑی مشکل سے خود کو قابو کرکے بیٹھا رہا
مرے ذہن میں نجانے کیوں اپنشد کے یہ منتر گونجنے لگے تھے
مزا
خود کو جانیو رتھ کے ربّ کی مافق
شریر کو جانیو تو رتھ کے جیسا
متعصب عقل پہ رکھیوو دماغ کا کوڑا
دانا کہہ گئے
حواس ہیں اسپ بے مہار کے جیسے
خود غرض آشائیں ہیں وہ راستے جن پہ حواس گھوڑے دوڑیں ہیں سرپٹ
روح جب زہن ، حواس و خواہشات سے لتھڑ جائے تو مزا اور دکھ بھوگنے کا سمے آہی جاتا ہے
اور وحید مجھے لگتا تھا کہ رتھ کا رب بننے کی بجائے رتھ کو ہی اپنا رب بناچکا تھا –خیر پانچ منٹ کے بعد ہم محلے میں داخل ہورہے تھے-اور اندھیرا مکمل پھیل چکا تھا مگر محلے میں خوب چہل پہل تھی- درنک کارنر کھلے ہوئے تھے-سفید موتیا اور گلاب کے ہاروں کی فروخت اپنے عروج پہ تھی-لوگوں کا آنا جانا لگا ہوا تھا-جھروکوں اور بالکونیوں سے کئی آوازیں کانوں میں پڑ رہی تھیں –اس محلے بارے میں منظر کشی رحمان مذنب کے افسانوں اور کہانیوں میں دیکھی تھی-
رحمان جس کا والد شاہی مسجد کا امام تھا اور اس نے آنکھ کھولتے ہی اپنے اردگرد کے ماحول میں طوائفوں ، رنڈیوں ، کسبیوں ، کنجریوں ، گشتیوں ، چھنالوں جیسے ناموں سے پکاری جانے والی عورتوں کی بھیڑ دیکھی تھی-اور اس کی کہانیوں کے کردار مجھے ایسے لگتا جیسے مرے اردگرد ہی چل پھر رہے ہوں –آج میں خود اس محلّے میں ” کہانی ” کی تلاش میں چلا آیا تھا- ایک گلی میں درمیان میں جاکر ایک پرانے مگر خوب آراستہ و پیراستہ مکان کے سامنے جاکر وحید نے فوکسی کھڑی کردی-مکان کے دروازے پہ ایک آدمی جس کی نو تیرہ کی مونچھ تھی اور آنکھوں ميں سرمہ ڈالنے میں کوئی کنجوسی نہیں برتی گئی تھی –کاندھے پہ رومال ڈالے ، پیروں میں کیمبل پوری جوتی ڈالے اور منہ کے ایک کلّے میں پانی کی گلوی دبائے کھڑا تھا – اس نے وحید کو دیکھا تو مسکرانے کی کوشش کرتے ہوئے عجیب سی آواز میں وحید کو خوش آمدید کہا
شمائلہ جی ہیں ؟ وحید نے پوچھا
جی جی ! آپ کی ہی منتظر ہیں ۔۔۔۔ گل بہار بھی بے تابی سے دروازے تکتی ہیں
دروازے پہ کھڑے آدمی نے رستہ دیتے ہوئے کہا
اندر سیڑھیاں اوّر جارہا تھیں جن پہ زرا تاریکی کا راج تھا-وحید نے کہا ! یار ! زرا سنبھل کے ، ڈگ نہ پئیں کدھرے۔۔۔۔۔
مرا دل نجانے کیوں دھڑکنے لگا تھا –حالانکہ کم از کم کتابوں میں تو بہت کچھ پڑھ چکا تھا اور کردار کبھی مجھے نہیں لگا تھا کہ کاغذوں میں بند منٹو یا راجندر بیدی سنگھ کے ذہنوں کی تخلیق ہی تھے-مگر آج پہلی بار کوٹھا چڑھنے لگا تو دل کی دھڑکن تیز اور ہاتھ کی انگلیوں کا ارتعاش بڑھ چکا تھا جبکہ اس ارتعاش کو روکنے کی کوئی کوشش بھی کامیاب نظر نہیں آرہی تھی
ہم سڑھیاں چڑھ کر جیسے اندر پہنچے تو سامنے ایک دروازہ تھا جسے عبور کر اندر گئے تو سامنے ہی ہال نما کمرہ تھا جس پہ چاندنی بچھی ہوئی تھی اور گاؤ تکئے لگے ہوئے تھے-سازندے ایک طرف بیٹھے تھے جبکہ ایک طرف چوکی پہ ایک ٹھسے دار عورت براجمان تھی جس کے بڑھاپے میں بھی دلکشی کے آثار غائب نہ ہوئے تھے-اس عورت نے وحید کو دیکھتے ہی کہا
زہے نصیب ! وحید میاں آج کیسے رستہ بھول گئے ؟اور یہ کون صاحبزادے ہیں ساتھ ؟
تمہیں کوئی بھول سکتا ہے شمائلہ جی ! اور یہ مرے دوست ہیں –ان کے لئے گل بہار کا کہا تھا آپ کو – وحید نے بھی اسی نستعلیق انداز میں جواب دیا
ہاں ہاں کیوں نہیں ؟
بچّی تو سر شام سے چوکھٹ سے لگی بیٹھی ہے-کیوں میاں گانا سنو گے ، رقص دیکھو گے یا تنہائی چاہئیے
میں نے زرا دیر کو سوچا اور کہا کہ ناچ گانا دیکھنے کو من ہے تو پھر مطلب کی بات نہیں ہوگی – فوری کہا کہ مجھے تنہائی درکار ہے-وحید اور شمائلہ بائی دونوں کے چہرے پہ مسکراہٹ آئیشمائلہ نے ہال کے بائیں جانے بنی ایک راہداری کی طرف اشارہ کیا کہ اس راہداری میں آگے جاکر سیڑھیاں آئیں گی –جہاں سیڑھیاں ختم ہوں گی اس کے دائیں طرف سب سے آخری کمرے میں چلے جائیں
وحید نے کہا کہ پوری رات یہ یہاں رہے گا-کھانا جب کہے منگوا دینا اور اس نے جیب میں ہاتھ ڈالا اور ایک لفافہ نکال کر شمائلہ بائی کے حوالے کردیا-لفافہ ہاتھ میں آتے ہی شمائلہ کورنش بجالائی –میں سیڑھیوں پہ چڑھ کر سامنے بنی ایک راہداری میں چل دیا-سات کمرے چھوڑ کر آٹھویں کمرے کے سامنے کھڑا ہوا اور دورازے پہ دستک دے ڈالی
دروازہ کھلا ہے –اندر تشریف لے آئیں
ایک نہایت ہی دلکش آواز کے ساتھ اندر سے جواب آیا
میں نے دروازے کو آہستہ سے دھکا دیا تو دروازہ کھل گیا
یہ سجا سجایا کمرہ تھا – دروازے کے دائیں جانب سامنے ایک بڑی سی مسہری پڑی تھی –اس مسہری کے ساتھ ہی دو صوفہ کرسیاں رکھی تھیں جبکہ ایک جانب بڑا سا آئینہ تھا اور دروازہ کے بائیں جانب باتھ روم بنا ہوا تھا-اس نے دیکھا ایک صوفہ کرسی پہ ایک عورت بیٹھی تھی جس کے چہرے پہ کم عمری کے آثار تھے اور وہ عورت کم لڑکی زیادہ نظر آتی تھی-لارج سائز نائٹی میں ملبوس عورت کی ٹانگیں سامنے مسہری پہ دھری تھیں اور اس کی پنڈلیاں ننگی تھیں –عورت دودھ اور شہدے کی سی رنگت سے شہابی شہابی لگتی تھی-دائیں ہاتھ کی لمبی لمبی انگلیوں میں اس نے ایک سگریٹ تھام رکھا تھا جس پہ فلٹر لگا ہوا تھا –اور پفنگ کرتے ہوئے دھویں کے لچھے بنائے جاتی تھی-بڑی بڑی آنکھوں سے وحشت جھانکتی تھی اور ماتھے پہ کھنچاؤ مگر سلوٹ کوئی نہ تھی-اپنی باڈی لینگویج ( بدن بولی ) میں وہ بہت ہی ٹھسے دار عورت نظر آرہی تھی-مری گھبراہٹ میں اور اضافہ ہوگیا-اور میں درواے میں عین درمیان میں کھڑا ہوگیا تھا-اور مجھ سے اگے بڑھا نہیں جارہا تھا-عورت کی دلکشی مجھے بھاگئی تھی مگر ہمت مفقود تھی
آپ وہاں کیوں کھڑے ہوگئے ؟ آئیے نا! ہچکچائیے مت
یہ کہہ کر وہ عورت اٹھ کھڑی ہوئی جسے وحید نے گل بہار کے نام سے یاد کیا تھا –وہ سیدھی مری طرف آئی اور مرا ہاتھ تھام کر مجھے مسہری کی جانب لے گئی اور مجھے مسہری پہ بیٹھنے کو کہا-میں نے صوفہ کرسی پہ خود کو گرادیا-ہاتھ اس نے ابتک نہیں چھوڑا تھا- مرے ماتھے پہ پسینے کی بونیں چمکنے لگیں تھیں –اور سانس تھوڑا تیز چلنے لگا تھا
–
“ارے ! آپ کے ہاتھ ٹھنڈے کیوں پڑ رہے ہیں ؟ اور ماتھے پہ پسینہ کیسا ؟ یہ دیکھیں ! ہمارے پیر مڑے ہوئے نہ ہیں ، پچھل پیری نہ ہیں ہم ” اس نے اچانک اپنے پیروں کو مرے سامنے کرتے ہوئے اسقدر مضحکہ خیز منہ بنایا کہ مری بے اختیار ہنسی چھوٹ گئی اور میں تھوڑا ریلیکس ہوگیا
“ارے ! آپ کے ہاتھ ٹھنڈے کیوں پڑ رہے ہیں ؟ اور ماتھے پہ پسینہ کیسا ؟ یہ دیکھیں ! ہمارے پیر مڑے ہوئے نہ ہیں ، پچھل پیری نہ ہیں ہم ” اس نے اچانک اپنے پیروں کو مرے سامنے کرتے ہوئے اسقدر مضحکہ خیز منہ بنایا کہ مری بے اختیار ہنسی چھوٹ گئی اور میں تھوڑا ریلیکس ہوگیا
مجھے کافی انوسینس لگی تھی وہ (جو مری بہت بڑی غلطی تھی )
میں نے خشک ہونٹوں پہ زبان پھیری اور گلہ کھنکھار کر صاف کیا اور کہا
میں یہاں “وہ ” کرنے نہیں آیا جو آپ سمجھ رہی ہیں
میں نے خشک ہونٹوں پہ زبان پھیری اور گلہ کھنکھار کر صاف کیا اور کہا
میں یہاں “وہ ” کرنے نہیں آیا جو آپ سمجھ رہی ہیں
یہ سنکر وہ ہنسی (مجھے لگا جیسے مندر میں گھنٹیاں بجنے لگی ہوں-میں تھوڑا کھویا اس ہنسی میں اور یک دم خود پہ افسوس ہوا کہ یہ میں کیا سوچنے لگا ہوں )
ہاں جانتی ہوں تم “وہ ” نہیں بلکہ ” یہ ” کرنے آئے ہو-
نہیں ! میں نہ “وہ” اور نہ ہی “یہ ” کرنے آیا ہوں
میں نے فوری اس کی بات کاٹتے ہوئے کہا
پھر کیا کرنے آئے ہو؟
اس نے ملائم ملاحت زدل لہجے میں پوچھا
نہیں ! میں نہ “وہ” اور نہ ہی “یہ ” کرنے آیا ہوں
میں نے فوری اس کی بات کاٹتے ہوئے کہا
پھر کیا کرنے آئے ہو؟
اس نے ملائم ملاحت زدل لہجے میں پوچھا
اس کا بات کرنے کا یہ انداز مجھے کھٹک رہا تھا-لہجے کا اعتبار اور لفظوں کا انتخاب اسے پڑھا لکھا ظاہر کررہا تھا-وہ ہیومن ڈسٹ سوشل بیک گراؤنڈ سے نہیں لگ رہی تھی
مجھے لگتا ہے کہ میں تمہیں صاف صاف بتادوں
میں ایک صحافی ہوں اور ایک میگزین میں کام کرتا ہوں –مرے ایڈیٹر نے مجھے یہاں ایک عورت کا انٹرویو کرنے کو کہا ہے- (میں نے لفظ طوائف استعمال کرنے سے گریز کیا اور آدھی بات چھپا بھی گیا) وہ یہ سن کر بے اختیار ہنس پڑی
ہممممم –عورت ۔سیدھے سیدھے کیوں نہیں کہتے کہ تمہارے ایڈیٹر ( بالکل ٹھیک انگریزی تلفظ کے ساتھ ) نے ایک “دھندہ کرنے ” والی کی زندگی بارے تمہیں مواد اکٹھا کرنے کو کہا ہے جس پہ تم اپنے فیچر کی بنیاد رکھو گے اور اس طرح اپنے رسالے کی ریٹنگ بڑھالوگے-زرا کچھ کاپیاں زیادہ فروخت ہوجائیں گی
دیکھو ! اب یہ مت کہنا کہ تم اس بازار میں پہلی مرتبہ آئے ہو-اور تم کوئی عادی ” رنڈی باز ” نہیں ہو –اور تمہیں مرے جسم میں زرا دلچسپی نہیں ہے-آؤ یہاں مسہری پہ اور پہلے اپنی آگ بجھاؤ اور پھر کوئی کہانی تمہارے حوالے کردوں گی-مگر اس کے چارجز الگ سے ہوں گے-ڈانس دیکھوگے تو اس کے پیسے بھی الگ سے ہوں گے- شراب یا چرس درکار ہے تو ابھی بتادو-اور ہاں میں ” سنگل ” ہوں –ڈبل ان ون یا تھری ان ون نہیں ہوں –سٹائل بھی بس مشنری ہوگا –اور چ—— کے دوران گالیاں مت نکالنا ورنہ جواب میں ڈبل سنوگے –پھر نہ کہنا کہ مردانگی کی توہین ہوگئی –کنڈوم لائے ہو ؟ اگر نہیں لائے تو دراز میں سے نکال لو-اس نے مسہری کی ایک طرف لگی دراز کی جانب اشارہ کیا
اس نے اتنی تیزی سے کینچلی بدلی کہ میں ہکا بکا رہ گیا-اس کی آواز کی نرمی کہیں غائب سی ہوگئی تھی-اور مجھے لگا کہ وہ اس بازار میں اس کمرے کے اندر اپنے ضابطہ اخلاق کا کتابچہ پڑھ کر مجھے سنارہی ہو-ضابطہ اخلاق ۔۔۔۔۔۔ یہ الفاظ مرے ذہن میں کیا آئے کہ مرے لئے ہنسی روکنا ناممکن ہوگیا اور میں زور زور سے ہنسنے لگا
ہنسے کیوں ؟
اس نے زرا حیرانی سے پوچھا ؟
میں اب سنبھل گیا تھا اور تھوڑا فارم میں خود کو محسوس کررہا تھا-
ضابطہ اخلاق ۔۔۔۔۔ مرے منہ سے نکلا
کوڈ آف کنڈکٹ
کیا کوڈ آف کنڈکٹ ؟
اس نے رسانیت سے پوچھا
وہی جو تم نے ابھی بیان کیا-
میں نے کہا تو تھوڑی دیر کو وہ ساکت ہوئی اور پھر ایک دم اس نے زور سے قہقہ لگایا – میں دم بخود رہ گیا-
کمال کے آدمی ہو-بالکل ٹھیک لفظ استعمال کئے مگر پورے الفاظ نہیں بولے –شرماتے ہو ابھی –
‘“چ ۔۔۔۔۔۔۔ کا ضابطہ اخلاق “
چھی چھی چھی —- کسقدر گندی ہو تم ۔۔۔۔۔۔ اسے ” دھندے کا ضابطہ اخلاق ” بھی تو کہہ سکتی تھیں –
میں نے اس کی بات کاٹی اور کہا’
اس نے زرا حیرانی سے پوچھا ؟
میں اب سنبھل گیا تھا اور تھوڑا فارم میں خود کو محسوس کررہا تھا-
ضابطہ اخلاق ۔۔۔۔۔ مرے منہ سے نکلا
کوڈ آف کنڈکٹ
کیا کوڈ آف کنڈکٹ ؟
اس نے رسانیت سے پوچھا
وہی جو تم نے ابھی بیان کیا-
میں نے کہا تو تھوڑی دیر کو وہ ساکت ہوئی اور پھر ایک دم اس نے زور سے قہقہ لگایا – میں دم بخود رہ گیا-
کمال کے آدمی ہو-بالکل ٹھیک لفظ استعمال کئے مگر پورے الفاظ نہیں بولے –شرماتے ہو ابھی –
‘“چ ۔۔۔۔۔۔۔ کا ضابطہ اخلاق “
چھی چھی چھی —- کسقدر گندی ہو تم ۔۔۔۔۔۔ اسے ” دھندے کا ضابطہ اخلاق ” بھی تو کہہ سکتی تھیں –
میں نے اس کی بات کاٹی اور کہا’
ہاں کہہ تو سکتی تھی مگر بازار میں آنے سے پہلے اور بازار سے جانے کے بعد “چ ” کا لفظ بہت استعمال ہوتا ہے –اور عورت طوائف سے کہیں زیادہ ولگر الفاظ سے یاد کی جاتی ہے-اور مجھ تک آنے والے مردوں کی اکثریت تو مرے پیچھے سے یہ الفاظ ضرور استعمال کرتی ہے کیونکہ ان کی بیمار ذہنیت کے دباؤ سے ابھرنے والی گالیوں کی پوچھاڑ میں ہونے نہیں دیتی –
اس نے تھوڑی تیز آواز میں مجھے باور کرایا
اس نے تھوڑی تیز آواز میں مجھے باور کرایا
تم پڑھی لکھی لگتی ہو ؟ انگریزی الفاظ کی ادائیگی بالکل پرفیکٹ ہے-
میں ایم اے انگریزی ہوں –
اس نے جیسے اچانک بم پھوڑا –
نہ کر ! مرے منہ سے بے اختیار نکلا-
چلو نہیں کرتی !
لیو اٹ ، کم ٹو دی پوائنٹ مائی بوائے !
اس نے مری توقع کے برخلاف کوئی بحث نہ کی
میں ایم اے انگریزی ہوں –
اس نے جیسے اچانک بم پھوڑا –
نہ کر ! مرے منہ سے بے اختیار نکلا-
چلو نہیں کرتی !
لیو اٹ ، کم ٹو دی پوائنٹ مائی بوائے !
اس نے مری توقع کے برخلاف کوئی بحث نہ کی
میں کچھ دیر چپ رہا –اور پھر اسے کہا-مرا مطلب یہ نہیں تھا کہ تم جھوٹ بول رہی ہو-بلکہ حیرت ہوئی کہ تم یہاں کیا کررہی ہو؟
می ماں بھی “دھندہ کرتی تھی اور اس کی ماں بھی اور شاید اس کی ماں بھی
می ماں بھی “دھندہ کرتی تھی اور اس کی ماں بھی اور شاید اس کی ماں بھی
اس نے کہا-(میں سوچ رہا تھا کہ وہ کہے گی کہ بس مجبوریاں یہ سب کرنے پہ مجبور کرتی ہیں ورنہ خوشی سے یہ سب کون کرتا ہے –لیکن اس نے مرے قیاس کو بالکل غلط ثابت کرڈالا )
تو انگریزی لٹریچر ہی کیوں ؟
ماں کہتی تھی انگریزی ادب آئے گا تو تھوڑا دھندا زیادہ اچھا چلے گا اور اس کا کہنا غلط نہیں تھا –کم پڑھے لکھے امیر تماش بین مری انگریزی کے سامنے بھیگی بلّی بن جاتے ہیں اور مہذب آنے کی کوشش کرنے لگتے ہیں اور بہت پڑھے لکھوں کو سکون ملتا ہے
میں اس کی پرکھ اور تجربے کا قائل ہوگیا-
نام کیا ہے ؟ اور اصلی نام بتائیے گا
نام کیا ہے ؟ اور اصلی نام بتائیے گا
تم جیسے انٹلیکچوئل کم مین میں یہ بہت بیماری ہے-سمجھتے ہیں کہ اپنی آرٹیفیشل ڈیسنٹ ایٹی ٹیوڈ سے تم کسی بھی چھنال کو رام کرلو گے اور وہ تم پہ اپنا آپ کھول دے گی –اور زرا مجھے بتاؤ کہ اگر میں تمہیں کوئی نام اپنا بتادوں تو کیسے اندازہ لگاؤگے کہ وہی مرا اصل نام ہے-ایک رانڈ کا اصل نام “رانڈ ” ہی ہوتا ہے اور اس کا دھندا ہی اسے نام دیتا ہے
Whore, Prostitute
لفظ استعمال کیوں نہیں کرتی ہو جبکہ بار بار انگریزی کے لفظ بولتی ہو
میں نے زرا چڑ کر کہا
مرا چڑچڑا پن دیکھ کر وہ ہنسنے لگی –بس مردپنے پہ اترآئے ہو نا –زچ کرنا چاہتے ہو – مجھ سے تمہارا مطالبہ مودب ہونے کا ہے نا
ایسا کچھ بھی نہیں ہے-میں نے تمہیں سچ کہا مجھے ایک پیشے والی عورت کا انٹرویو درکار ہے اور تم اس کرائی ٹیریا پہ پورا اترتی ہو-اور مرے پاس چار سو روّے ہیں جس مين سے 3 سو روپے تمہیں دے سکتا ہوں باقی کے سو روپے سے دو دن مجھے گزارا کرنا ہے کیونکہ پگار دو دن بعد ملے گی-میں نے ایک سانس میں اسے یا سب بتایا
یہ سنکر وہ تھوڑا سنجیدہ ہوگئی –اور کہا ! مجھے لگتا ہے کہ تم واقعی سچ کہہ رہے ہو لیکن کیا ” بستر پہ انٹرویو کے بعد آؤگے
اس کا یہ سوال سنکر مجھے غصّہ آنے کی بجائے ہنسی آگئی
نہیں بابا ! نہ انٹرویو سے پہلے نہ انٹرویو کے بعد اور نہ یہاں سے جانے کے بعد دوبارہ کبھی آنے پہ یہ سب مرا کرنے کا کوئی ارادہ نہیں ہے-
تو کیا امپوٹنٹ ہو ؟
اس نے ایک اور سوال داغ دیا
تو کیا امپوٹنٹ ہو ؟
اس نے ایک اور سوال داغ دیا
میں نے جلدی سے کہا ! ہرگز نہیں –لیکن جلد ہی خود ہی اپنی اس حماقت پہ ہنسنے لگا( کیا ضروری تھا کہ اس سوال کا جواب دیا جاتا )
اچھا چلو شروع کرو انٹرویو ۔۔۔۔ اس نے کہا اور مسہری پہ بیٹھ گئی چوکڑی مارکر-اس کی آنکھوں ميں اب شرارت تھی-
تم اپنے بارے میں بتاؤ؟میں نے کہا
اچھا چلو شروع کرو انٹرویو ۔۔۔۔ اس نے کہا اور مسہری پہ بیٹھ گئی چوکڑی مارکر-اس کی آنکھوں ميں اب شرارت تھی-
تم اپنے بارے میں بتاؤ؟میں نے کہا
وہ شروع ہوگئی
میں اقراء تھی کبھی جب پیدا ہوئی تو یہی نام رکھا گیا جب جوانی کی سیڑھی چڑھی تو نام نتاشا ہوگیا اور اب گل بہار ہوں
تو ایسے میں اقراء عرف نتاشا عرف گل بہار سے ملا تھا – اس انٹرویو کے لئے اس کی دو تصویریں بھی لی تھیں – اس جھجک کے ساتھ بتایا کہ یہ تصویریں خاص ہونی چاہیں —- اس نے کہا نیوڈ یا پورنو گراف درکار ہیں —— تمہیں پورنو گراف نہیں دوں گی –نیوڈ بارے سوچا جاسکتا ہے-میں حیران رہ گیا تھا کہ اسے پورنوگراف اور نیوڈ آرٹ بارے فرق پتہ تھا
اس انٹرویو نے ہمارے رسالے کو بہت شہرت دی تھی –تصویر میں اس کی آنکھوں سےلیکر ماتھے تک کو بلر کردیا گیا تھا –اور سرورق پہ اپنی نیوڈ تصویر کو دیکھ کر پہلے وہ خوش ہوئی اور جب اس نے آنکھوں سے ماتھے تک اسے بلر دیکھا تو مجھے کہا
کیوں صاف دکھاتے ہوئے پھٹ رہی تھی تمہاری اور ایڈیٹر کی ؟
ہاں پھٹ رہی تھی ! میں نے ترکی بہ ترکی جواب دیا اور پھر اپنے جواب پہ خود ہی حیران ہوگیا-اور فوری وہاں سے بھاگ لیا-
پھر میں اس شہر سے بھاگ لیا اور کئی شہروں میں دھکے کھاتا پھرا اور اسے بھول بھال گیا
پھر میں اس شہر سے بھاگ لیا اور کئی شہروں میں دھکے کھاتا پھرا اور اسے بھول بھال گیا
گزشتہ مہینے مرے موبائل کی گھنٹی بجنے لگی –ایک ان ناؤن نمبر تھا –پہلے نظر اںداز کیا جب بار بار بزر بجنے لگا تو میں نے فون اٹینڈ کیا
بھائی کیسے ہو؟ فون کیوں نہیں اٹھارہے تھے ؟
میں نے کہا سوری ! کون ؟ میں پہچان نہیں سکا
واہ ! بڑے آدمی ہوگئے ہو –پہچانتے بھی نہیں ( آگے سے روایتی فقرہ سننے کو ملا تو میں اور خشک ہوگیا)
ہاں بھئی نہیں پہچانا ! بتادیں نا کون ہیں ؟ میں نے کہا
یار سلیم اوڈھ ہوں جذران سعودیہ والا !
ارے سلیم تم ہو – کہاں ہو؟ تمہارے گھر کے سامنے گاڑی میں
میں نے کہا سوری ! کون ؟ میں پہچان نہیں سکا
واہ ! بڑے آدمی ہوگئے ہو –پہچانتے بھی نہیں ( آگے سے روایتی فقرہ سننے کو ملا تو میں اور خشک ہوگیا)
ہاں بھئی نہیں پہچانا ! بتادیں نا کون ہیں ؟ میں نے کہا
یار سلیم اوڈھ ہوں جذران سعودیہ والا !
ارے سلیم تم ہو – کہاں ہو؟ تمہارے گھر کے سامنے گاڑی میں
–
میں نے جلدی جلدی کپڑے بدلے اور نیچے پہنچا تو سلیٹی کلر کی نئی ہنڈا گاڑی میں سلیم اوڈھ بیٹھا ہوا تھا-وہ مجھے دیکھ کر گاڑی سے اتر آیا-بہت دبلا پتلا نظر آرہا تھا-میں نے گلے ملتے ہوئے کہا بہت سمارٹ ہوگئے ہو-کہنے لگا ہاں! جگر کا ٹرانسپلانٹ اچھے اچھوں کو سمارٹ کردیتا ہے-میں تھوڑا شاکڈ ہوا –کیسے ؟ یار ایک ماہ پہلے دہلی سے ٹرانسپلانٹ کرایا-60 لاکھ لگ گئے-نئی زندگی ملی ہے-تمہیں بار بار فون کیا –مگر تم نے نمبر ہی نہ اٹھایا-کہاں گم ہو بھائی ؟یہاں سڑک پہ سب باتیں نہیں ہوسکتیں – ایسا کرتے ہیں فورٹ ریسٹورنٹ چلتے ہیں –میں نے بھی کھانا نہیں کھایا اور تم نے بھی نہیں کھایا ہوگا-وہان چل کے بات کرتے ہیں –میں نے اس کے ساتھ گاڑی میں بیٹھتے ہوئے کہا
میں نے جلدی جلدی کپڑے بدلے اور نیچے پہنچا تو سلیٹی کلر کی نئی ہنڈا گاڑی میں سلیم اوڈھ بیٹھا ہوا تھا-وہ مجھے دیکھ کر گاڑی سے اتر آیا-بہت دبلا پتلا نظر آرہا تھا-میں نے گلے ملتے ہوئے کہا بہت سمارٹ ہوگئے ہو-کہنے لگا ہاں! جگر کا ٹرانسپلانٹ اچھے اچھوں کو سمارٹ کردیتا ہے-میں تھوڑا شاکڈ ہوا –کیسے ؟ یار ایک ماہ پہلے دہلی سے ٹرانسپلانٹ کرایا-60 لاکھ لگ گئے-نئی زندگی ملی ہے-تمہیں بار بار فون کیا –مگر تم نے نمبر ہی نہ اٹھایا-کہاں گم ہو بھائی ؟یہاں سڑک پہ سب باتیں نہیں ہوسکتیں – ایسا کرتے ہیں فورٹ ریسٹورنٹ چلتے ہیں –میں نے بھی کھانا نہیں کھایا اور تم نے بھی نہیں کھایا ہوگا-وہان چل کے بات کرتے ہیں –میں نے اس کے ساتھ گاڑی میں بیٹھتے ہوئے کہا
سلیم اوڈھ سے مری ملاقات جعفری کے ہاں ہوئی تھی-جعفری “جعلی بیوروکریٹ ” جو ایف سی سے اس زمانے میں پڑھا تھا جب اس چھوٹے سے شہر میں انٹرنس کالج میں جانا اعزاز سمجھا جاتا تھا اور اس کے کئی بیج میٹ اب سی ایس پی آفیسر اور باودری افسر تھے-وہ اگرچہ نکما ہی رہا –بی اے سے آگے نہ گیا اور واپس آکر زمیندارہ سنبھال لیا لیکن اس کا ایٹی ٹیوڈ اور نرت بھاؤ بیوروکریٹ والے ہی تھے-دوستوں نے اس کا نام “جعلی بیوروکریٹ ” رکھ ڈالا تھا-جعفری اپنے زیادہ تر دوست مڈل ایسٹ پلٹ یا وہاں گئے ہوئے مرفہ الحال لوگوں کو رکھتا تھا جن میں سے اکثر واجبی تعلیم والے ہوتے اور ان کو اکثر پی ۔سی ، آواری ، مریٹ ، ایمبیسڈر لیکر جاتا اور ان کو دیسی /کپّی کے چکر سے نکالتا اور بلیک لیبل ، ریڈ وائن ، شیوارز اینجل وغیرہ وغیرہ پہ لگاتا مگر خرچ سب ان کا ہوتا-اس دوران ہائی سوسائٹی کال گرلز کے درشن بھی کروائے جاتے-سلیم اوڈھ ایسے ہی اسے ٹکرا تھا-
جعفری جعلی بیوروکریٹ کی ملک کے ایک بڑے نامی گرامی سیاست دان سے بھی دعا سلام تھی جس کی پروجیکشن اور اس کے دشمنوں کے خلاف پیدل خبریں چھاپنے اور ٹیبل سٹوریز بنانے کے لئے وہ قلم توڑ صحافیوں کے پیچھے رہتا تھا-میں جب ایک انگریزی اخبار کے اندر اسلام آباد کی سیاسی بیٹ کو دیکھ رہا تھا تو جعفری جعلی بیوروکریٹ سے مجھے وزرات داخلہ ميں لگے سیکشن افسر مستعین علوی نے متعارف کرایا تھا-اور پھر جب میں ملتان چلا آیا تو جعلی بیوروکریٹ نے مجھے اس سیاست دان سے ملوایا-اور ان دنوں زرا مرے حالات پتلے تھے تو میں بہت سی ٹیبل نیوز اسٹوریز اور گٹھیا فیک سیاسی اینالسز اس کے لئے بنائے تھے-
جعفری جعلی بیوروکریٹ اس محنت کے عوض مجھے نودولتیوں کی اس لاٹ سے ملواتا اور ان کی جیب سے مجھے مہنگی شراب ، قیمتی سگار دلاتا تھا-کبھی کبھی مجھے “ٹبّی گلیوں ” میں لیجانے کی کوشش کرتا تو میں انکار کرڈالتا تھا-سلیم اوڈھ بہت پڑھا لکھا تو نہ تھا مگر بندہ شناس تھا-جلد ہی وہ جعلی بیوروکریٹ کو پہچان گیا اور اس سے الگ ہوگیا-وہ ہر سال سعودی عرب سے تین ماہ کے لئے سردیوں میں آتا تھا-مجھے اپنی سادگی اور صاف گوئی کی بنا پہ وہ پسند آیا-میں اس کا گلاس فیلو بن گیا تھا-پھر بیچ میں ایک گیپ آگیا-میں ہی گم ہوگیا-قریب قریب دو سال بعد سلیم اوڈھ سے مری ملاقات ہوئی تھی
فورٹ ریسٹورنٹ آگیا جناب ؟
سلیم کی آواز مجھے خیال کی وادی سے باہر لے آئی-
ہم کار سے اترے اور فورٹ ریسٹورنٹ کے اندر ہال میں جاکر ایک میز پہ بیٹھ گئے-
ابھی ہم بیٹھے ہی تھے کہ مینجر باجوہ اپنے آفس سے نکل آیا اور کہنے لگا !
زہے نصیب ! آج تو بڑی ہستیاں ہمارے ہاں پدھاری ہیں
ہم کار سے اترے اور فورٹ ریسٹورنٹ کے اندر ہال میں جاکر ایک میز پہ بیٹھ گئے-
ابھی ہم بیٹھے ہی تھے کہ مینجر باجوہ اپنے آفس سے نکل آیا اور کہنے لگا !
زہے نصیب ! آج تو بڑی ہستیاں ہمارے ہاں پدھاری ہیں
میں ہنسنے لگا اور کہا کہ ایک جٹ کے منہ سے اتنی گاڑھی ہندی-مکس اردو اچھی نہیں لگتی –تمہاری پنجابی بہت خوبصورت لگتی ہے-سنیکس اور گرما گرم کافی پلوادیں –اس نے سپروائزر کو اشارہ کیا اس نے آڈر نوٹ کیا اور چلا گیا
انجوائے یور کمپنی سر! باجوہ نے شرارت سے کہا اور اپنے آفس کی طرف مڑ گیا-سلیم مری طرف بہت غور سے دیکھ رہا تھا