مرد حق اور تاریخ کا بے رحم فیصلہ – عامر خاکوانی

عامر-خاکوانیا

یہ 18 اگست 88ء کا غیرمعمولی دن تھا۔ پاکستان ٹیلی ویژن پر لائیو ٹرانسمیشن جاری تھی۔ اپنے دور کے معروف نیوز کاسٹر اظہر لودھی کی بھرائی ہوئی آواز گونجی،’’محمود احمد غازی صاحب! آگے بڑھیے، یہ قوم صفیں باندھنا جانتی ہے۔ ہم اپنے شہیدوں کو نذرانہ عقیدت پیش کرنے کے لیے بےتاب ہیں۔‘‘ اچانک ہچکیوں کی آواز سنائی دی۔ میں نے اپنے دائیں بائیں دیکھا تو سننے والی ہر آنکھ آشکبار تھی۔ اظہر لودھی کی جذباتی کمنٹری نے سننے والوں کو کچھ اس طرح اپنے سحر میں لے لیا تھا کہ ان میں سے کوئی اپنے جذبات پر قابو نہ پا سکا۔ ہمارے چھوٹے سے شہر میں الیکٹرانکس کی اس بڑی دکان کے اندر اور باہر لوگوں کے ٹھٹ لگے ہوئے تھے۔ تنک مزاج شوروم مالک جو عام حالات میں گاہکوں سے بھی نرمی کا روادار نہ تھا، آج وہ مہربلب ٹی وی سکرین کو تکے جا رہا تھا، جہاں لاکھوں لوگ دیوانہ وار سانحہ بہاولپور میں جاں بحق ہونے والوں کی نمازجنازہ میں شرکت کے لیے جاتے نظر آرہے تھے۔ نعرے گونج رہے تھے،’’مرد مومن مرد حق، ضیاالحق ضیاالحق‘‘۔ ایک کمنٹیٹر نے جذباتی انداز میں کہا،’’آج ایک نئی تاریخ رقم ہوئی ہے۔تاریخ اس قربانی کو نہیں بھول سکے گی۔‘‘

جنرل ضیاء الحق ہماری قومی تاریخ کے متنازع ترین حکمرانوں میں سے ایک ہیں۔ اپنے گیارہ سالہ دور اقتدار میں انہوں نے مخالف بھی بہت پیدا کیے اور دوست بھی کئی بنائے۔ انہیں ابتدا میں ایک ’ایڈوانٹیج‘ یہ رہا کہ انہوں نے ذوالفقار علی بھٹو کا تختہ الٹا، جو آخری دنوں میں عوام کے ایک بڑے حصے کو اپنا شدید مخالف بنا چکے تھے۔ یوں دائیں بازو کا روایت پسند حلقہ پہلے دن سے جنرل ضیا کا اتحادی بن گیا۔ بھٹو صاحب کی پھانسی کے بعد ممکن تھا حالات تبدیل ہوجاتے، مگر روس کی افغانستان آمد نے پورا منظرنامہ ہی بدل دیا۔

جرمن مرد آہن بسمارک نے ایک بار کہا تھا،’’چالاک حکمران وہ ہے جو تقدیر کے گھوڑے کی چاپ سنتے ہی ہوشیار ہوجائے اور چابک دستی سے دم پکڑ کر لٹک جائے۔‘‘ جنرل ضیاء نے بروقت اندازہ لگا لیا کہ ان کے اقتدار کو طوالت بخشنے والا لمحہ آ پہنچا۔ انہوں نے موقع سے فائدہ اٹھایا۔ اس وقت امریکی اسٹیبلشمنٹ اور سی آئی اے میں موجود ایک طاقتور گروپ ’’شیطان روس‘‘کو شکست دینا چاہتا تھا۔جنرل ضیاء نے ان کے سپنوں میں رنگ بھرنے کی ہامی بھرلی ۔انہوں نے پاکستانی فوج اور حساس ادارے اس جنگ کے لیے وقف کر دیے۔ اگلے آٹھ سال تک افغانستان جدید تاریخ کی چند بڑی گوریلا جنگوں میں سے ایک کا مرکز بنا رہا۔ جماعت اسلامی سمیت دوسرے دینی گروپ افغان تحریک مزاحمت میں پوری قوت سے حصہ لیتے رہے۔ ان میں سے بعض پر مالی بدعنوانی اور کسی پر مارشل لاء کی بی ٹیم ہونے کے الزامات بھی لگے۔ ہماری دائیں بازوکی انٹیلی جنشیا جو ابھی تک بھٹو فوبیا سے باہر نہیں آسکی تھی، نے دیدہ دلیری سے فوجی آمر کا ساتھ دیا اور خارجہ پالیسی کی قیمت پر ان کی سیاست دانوں کو کچلنے کی پالیسی سے صرف نظر کیے رکھا۔ انہی لوگوں نے جنرل ضیاء کی موت کے بعد مرد مومن مردحق کا نعرہ بھی ایجاد کیا، جو جلد ہی تاریخ کی پگڈنڈیوں میں کہیں کھو گیا۔ دائیں بازو کے صحافی اور اخبارات جنرل ضیاء الحق کی امیج میکنگ میں پیش پیش رہے۔ تکبیر، زندگی اور اردو ڈائجسٹ جیسے قومی جریدوں نے جنرل کی شخصیت پر تقویٰ اور نیک نامی اور ملک دوستی کا ایسا سنہری ملمع چڑھایا جس نے چند برسوں کے لیے تو قارئین کی آنکھیں چندھیائے رکھیں، مگر وہ زیادہ دیر باقی نہ رہ سکا۔

جنرل ضیاء الحق کے جرائم تو بہت سے ہیں۔ انہوں نے آئین کا تمسخر اڑایا اور بڑے غور و خوض کے بعد پاکستانی سیاسی کلچر کے بنیادی اجزا درہم برہم کر دییے۔ برادری اور پیسے کی بنیاد پر مسلسل بلدیاتی انتخابات کرائے۔ غیر جماعتی پارلیمانی انتخابات کا مشورہ مولانا ظفر احمد انصاری جیسے مہربانوں سے ملا۔ قومی سیاسی جماعتوں نے بائیکاٹ کی غلطی کی اور اگلے تین برسوں کے لیے مین سٹریم سے باہر ہوگئے۔ کراچی کے پرجوش مزاحمتی کلچر کو بدلنے کے لیے قومی سیاسی جماعتوں کے مقابلے میں لسانی عنصر سامنے لایا گیا۔ اس سے جو مسائل پیدا ہوئے، وہ آج تک حل نہیں ہو سکے۔

ان کی سب سے تباہ کن غلطی افغان تنظیموں کو پاکستانی معاشرے میں نفوذ کی اجازت دینا تھا۔ ایران کو بھی کئی ملین مہاجرین کا سامنا کرنا پڑا، مگر انہوں نے کمال مہارت سے انہیں کیمپوں تک محدود رکھا اور ایرانی معاشرے کو نقصان نہ پہنچنے دیا۔ جنرل ضیاکی حماقت کا نتیجہ ملک میں ہیروئن اور کلاشنکوف کلچر کی صورت میں نکلا۔ آج پاکستان کی قبائلی ایجنسیوں میں جو عسکریت پسندی اور قتل وغارت جاری ہے، اس کی بنیادی ذمہ داری جنرل موصوف پر عائد ہوتی ہے۔ انہوں نے اپنی کوتاہ اندیشی سے افغان مہاجرین کو پاکستان کے چاروں کونوں تک پھیلنے کی اجازت دی۔ آج افغان عنصر کو مقامی آبادی سے الگ کرنا ممکن نظر نہیں آتا۔ وہ روس کو شکست دینے پر نازاں تھے، مگر آج امریکی ماہرین برملا انھیں کرائے کا ایک سپاہی قرار دیتے ہیں، جس نے معاوضہ لے کر بھرپور خدمات ادا کیں۔ ان دنوں دنیا بھر سے اربوں ڈالر کی امداد آئی، مگر وہ ہوا میں اڑا دی گئی۔ایک بھی بڑا قومی پراجیکٹ نہ بن سکا۔ وہ بآسانی ایک بڑا ڈیم بنا سکتے تھے، مگر وقتی مصلحتوں کے تحت اس سے گریز کرتے رہے۔

جنرل ضیاءالحق کی اس سے زیادہ بدقسمتی اور کیا ہوگی کہ وہ تمام عمر بھٹو کے سائے سے بھاگتے رہے، مگر ان کا اقتدار ختم ہوتے ہی اسی بھٹو کی بیٹی وزیراعظم بن گئی۔ کرنل (ر) رفیع الدین بھٹوصاحب کی قید کے دنوں میں جیل کے انچارج رہے۔ ان کے جنرل ضیاء الحق کے ساتھ اچھے مراسم تھے۔ جنرل کی مخصوص مسکراہٹ اور’’منکسر المزاجی‘‘ کا ان پر گہرا اثر تھا۔ بھٹو صاحب کی پھانسی کو کئی سال گزرگئے۔ کرنل رفیع الدین ریٹائرمنٹ سے پہلے ضیاء الحق سے ملنے گئے، واپسی سے قبل انہوں نے برسبیل تذکرہ بتایا،’’میں ذوالفقار علی بھٹو کے آخری دنوں پر ایک کتاب لکھنا چاہتا ہوں۔‘‘یہ سنتے ہی جنرل ضیاء الحق کا مسکراتا چہرہ متغیر ہوگیا، اور آگ بگولا ہوکر کہنے لگے، بھٹو کو تو اس کے گھر والے بھی بھول گئے ہیں، اب تم اسے کیوں زندہ کرنا چاہتے ہو؟ کرنل رفیع ان کا یہ روپ دیکھ کر ششدر رہ گئے۔

17 اگست 88ء کو بیس برس گزر گئے۔ اس دن کی پراسراریت آج تک نہیں کھل سکی۔ طیارے کے اس حادثے کے اصل ذمہ داروں کا تعین بھی نہیں ہوسکا۔ ان کے حامی بھی حکومت ملنے کے باوجود کوئی پیش رفت نہ کرسکے۔ اس حوالے سے دو رپورٹس بڑی اہم ہیں۔ ایک کراچی کے ہفت روزہ تکبیر کی، جس نے باقاعدہ طور پر پاک فوج کے ایک سابق سربراہ کو ملزم ٹھہرایا۔ اس رپورٹ میں مبینہ ملزموں کے نام بھی دیے گئے۔ دوسری رپورٹ پچھلے سال معروف عالمی جریدے ’’ورلڈ پالیسی جرنل‘‘ میں باربرا کراسیٹ نے تحریرکی۔جس میں اس وقت بھارت میں مقیم امریکی سفیر جان گنتھرڈین کے حوالے سے انکشاف کیا گیا کہ یہ کارروائی اسرائیلی تنظیم موساد کی تھی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ گنتھرڈین نے جب اپنے حلقے میں اس شک اظہار کیا تو اسے فاتر العقل قرار دے کر نہ صرف فوری واپس امریکہ بلوا لیا گیا بلکہ فوری ریٹائر کر دیا گیا۔

18 اگست 88ء کو اسلام آباد میں ماتم کناں اجتماع کے وہم وگمان میں بھی نہیں ہوگا کہ ان کا ممدوح اس قدر جلد تاریخ کے کوڑے دان کا حصہ بن جائے گا۔ وقت نے ان کے اپنے حامیوں کو اپنی رائے بدلنے پر مجبور کردیا، بلکہ ان میں سے بہت سوں کے لیے ماضی شرمناک حوالے کے سوا کچھ نہیں۔ تاریخ کے ترازو میں جنرل ضیاء الحق دیگر تمام آمروں کی طرح ہلکے ثابت ہوئے۔ غیر جانبدار مئورخ کسی تامل کے بغیر پوری سفاکی سے انہیں پاکستانی تاریخ کا بدترین ڈکٹیٹر قرار دیتے ہیں۔ یہی وہ بے رحم فیصلہ ہے، جس کا سامنا ہر آمر نے جلد یا بدیر کرنا ہوتا ہے۔

Source:

http://daleel.pk/2016/08/30/6226

Comments

comments